وہ لڑکی کو ایک طرف لے کر بیٹھ گئی۔ دودھ پلانے کے بعد وہ اُٹھی اور لڑکی کو بار بار سینے سے لگانے اور چومنے کے بعد میری طرف دیکھنے لگی۔ جب میں گھوڑے پر سوار ہوگیا تو اُس نے روتے ہوئے لڑکی کو میرے حوالے کردیا۔ حارث نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم نہیں کہ تمہارا یہ رویہ کہاں تک درست ہے۔ لیکن میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ کاش تم اُس وقت آتے جب میں اپنی پہلی لڑکی کو دفن کررہا تھا‘‘۔ لڑکی اپنے ہاتھ سے اُس کی ڈاڑھی پکڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ حارث نے بے اختیاری کی حالت میں اُس کا ننھا سا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ پھر اُس نے اچانک اُسے میری گود سے اُٹھا کر اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اُس کا سر اور منہ چومنے کے بعد دوبارہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’عدی! میں نے اسے اس لیے پیار کیا ہے کہ اب یہ تمہاری بیٹی ہے۔ جائو!‘‘
میں وہاں سے تھوڑی دور گیا تھا کہ پیچھے سے اُس کی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ’’ٹھہریئے! ٹھہریئے!‘‘ میں نے گھوڑا روک لیا وہ بھاگ کر میرے قریب آگئی ہے اور کہنے لگی۔ ’’میں نے آپ کو اس کا نام نہیں بتایا۔ اس کا نام سمیرا ہے‘‘۔
عدی یہاں پہنچ کر خاموش ہوگیا اور بغور عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔
عاصم نے کہا ’’سمیرا نے اِس کے بعد اپنے والدین کو نہیں دیکھا؟‘‘
عدی نے جواب دیا ’’نہیں! تین سال کے بعد عکاظ کے میلے میں اُس کے خاندان کے چند آدمی ملے تھے اُن کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ حارث اُس سال ایک لڑائی میں قتل ہوگیا اور چند ماہ بعد اُس کی بیوی بھی وفات پاگئی‘‘۔
سمیرا کو معلوم ہے کہ وہ آپ کی بیٹی نہیں؟‘‘
’’نہیں! اور مجھے یقین ہے کہ اگر میں اُسے بتادوں تو بھی وہ یقین نہیں کرے گی۔ میرے دل میں اُس کی محبت ایک باپ کی محبت سے کسی طرح کم نہیں۔ سمیرا پانچ سال کی تھی کہ میری بیوی فوت ہوگئی۔ اُس نے مرتے وقت مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں سمیرا کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ آج سمیرا کے آنسو میرے لیے ناقابل برداشت تھے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے تمہیں یہ قصہ سنانا ضروری سمجھا۔ اب تمہیں اپنے اور اُس کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ تمہارے دشمن کی بیٹی ہے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ایک یتیم اور بے بس لڑکی ہے اور تم اُس کا دل توڑ کر میرے خاندان کی عزت اور وقار میں کوئی اضافہ نہیں کرسکو گے آج جب میں اُس کی سسکیاں سُن رہا تھا تو مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا جب حارث اُسے زندہ دفن کرنے کے لیے گڑھا کھود رہا تھا، وہ قریب پڑی بلک رہی تھی اور میری انسانیت نے مجھے مجبور کردیا تھا کہ میں اُسے حارث سے چھین لوں۔ آج میری انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے تمہارے حوالے کردوں اور یہ نہ سوچوں کہ میرے دوست اور دشمن کیا کہیں گے۔ حارث کے نزدیک ایک بیٹی کا باپ کہلانا بے غیرتی اور بے عزتی کے مترادف تھا اس لیے وہ سمیرا کو زندہ دفن کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب میں نے اُس کے دل میں پدرانہ شفقت کے ایک دبے ہوئے شعور کو بیدار کیا تو اُس نے اپنے سابقہ عقیدے سے انحراف کرکے سمیرا کو میرے حوالے کردیا۔ اور اب تمہارے طرزِ عمل نے میرے سابقہ عقیدے بدل دیئے ہیں۔ جب تک تم نے عمیر کی جان نہیں بچائی تھی، میں یہی سمجھتا تھا کہ تمہارے قبیلے کے ساتھ لڑنا میری زندگی کی سب سے بڑی راحت ہے۔ تم نے میرے دل میں ایک ایسے احساس کو بیدار کیا ہے جو برسوں سے مرچکا تھا۔ تم نے مجھ سے انتقام لینے اور دشمن کا خون بہانے کی لذت چھین لی ہے لیکن مجھے اس کا افسوس نہیں۔ عاصم تمہیں میری وجہ سے سمیرا سے منہ پھیر کر بھاگنے کی ضرورت نہیں، میں آج اور اسی وقت سمیرا کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
عاصم کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ تشکر اور احسان مندی کے آنسو، اُس نے کہا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں، لیکن جب آپ سمیرا کو اپنے ساتھ لائے تھے تو آپ کو یہ اطمینان تھا کہ آپ اُسے خوش رکھ سکیں گے۔ آپ کو اس بات کی تسلی تھی کہ آپ کے گھر میں اُسے کوئی نفرت یا حقارت سے نہیں دیکھے گا۔ لیکن میرا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ میں اُسے آلام و مصائب کے سوا کچھ نہیں دے سکتا‘‘۔
عدی نے کہا ’’ایک اچھائی دوسری اچھائیوں کے لیے راستہ کھول سکتی ہے۔ تم نے ایک اچھی ابتدا کی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یثرب کی فضا پرامن ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اور تھوڑے دنوں میں یہاں کے حالات بالکل بدل جائیں۔ اس لیے تمہیں یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں عرب کے مستقبل کے متعلق بہت پرامید ہوں۔ تم نے سنا ہوگا کہ مکہ میں ایک نئے دین کا چرچا ہورہا ہے۔ اس دین کا بانی لوگوں کو اخوت و مساوات کا درس دے رہا ہے، اور جو لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں، وہ نسلوں اور قبیلوں کی حدود پھاند کر آپس میں دوست اور بھائی بن جاتے ہیں۔ میں نے سنا ہے اُن میں غلام اور آقا کا امتیاز بھی مٹ جاتا ہے۔ قبیلہ قریش کے چند انتہائی معزز لوگ مکہ کے نبیؐ کی صداقت پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس نئے دین کی بدولت پورے عرب کی ذہنی کایا پلٹ ہوجائے اور ہمارے پرانے طور طریقے بدل جائیں۔ اگر حجاز میں اِس دین کے قدم جم گئے تو یثرب بہت جلد اس سے متاثر ہوگا۔ ہمیں اندھیری رات میں بھٹکنے کے بجائے اپنے گھر بیٹھ کر صبح کا انتظار کرنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’میں بھی کچھ عرصے سے اس دین کے متعلق سن رہا ہوں، لیکن مجھے امید نہیں کہ اہل عرب کی جبلت بدل جائے۔ لوٹ مار اور قتل و غارت اُن کی سرشت میں ہے۔ جس دن انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ اُن کی قبائلی عصبتیں مٹ رہی ہیں، وہ اِس دین کے حامیوں کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آجائیں گے۔ یہاں خاندانوں اور قبیلوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاسکتا ہے، متحد نہیں کیا جاسکتا۔ عمیر سے ہمدردی کرنا میرا ایک اضطراری فعل تھا لیکن میرے قبیلے کے لوگ یہاں تک کہ میرے قریبی رشتہ دار بھی اسے برداشت نہ کرسکے۔ پھر آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ قبائل عرب کے درمیان جو آگ صدیوں سے سلگ رہی ہے وہ اس دین کی بدولت بجھ جائے گی۔ میں نے تو یہ سنا ہے کہ قریش نے اِس دین کے حامیوں کا مکہ کی فضا میں سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے۔ بہرحال اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ میں یہاں سے نہ جائوں تو میں آپ کا حکم ماننے کو تیار ہوں‘‘۔
عدی نے کہا ’’تم مجھے کچھ دن سوچنے کا موقع دو، ممکن ہے میں تمہاری مشکل کا کوئی حل نکال سکوں۔ اگر میں نے دیکھا کہ تمہارا گھر میں رہنا ناممکن ہے تو عرب ایک وسیع ملک ہے۔ ممکن ہے میں تم دونوں کے لیے گوشۂ عافیت تلاش کرسکوں۔ اب تم جا کر آرام کرو اور آئندہ جب چاہو سیدھے راستے میرے گھر آسکتے ہو۔ تا ہم ابھی لوگوں کی نگاہوں سے بچنا ضروری ہے۔ اگر مجھے ضرورت پڑی تو میں کسی نہ کسی طرح پیغام بھیج دوں گا‘‘۔
وہ اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ عدی نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور عاصم گرمجوشی سے مصافحہ کرکے وہاں سے چل دیا۔ عدی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا، اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ سمیرا صحن کے دروازے سے لگی کھڑی تھی لیکن عدی کو دیکھ کر اُس نے بھاگنے کے بجائے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ عدی نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’سمیرا! چلو اب تمہیں رونے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’ابا جان! اُس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے اُسے یہ کیوں بتایا کہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں؟‘‘
عدی نے جواب دیا ’’سمیرا! میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ تم پر یہ راز ظاہر کردوں لیکن حوصلہ نہ ہوا۔ آج عاصم پر یہ باتیں ظاہر کرنا ضروری تھا‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے۔ آپ نے اُس پر یہ باتیں اِس لیے ظاہر کی ہیں کہ اگر میں آپ کی بیٹی ہوتی تو آج آپ کو شرمسار ہونا پڑتا۔ آپ میرا گلا گھونٹ ڈالتے‘‘۔
’’تم پگلی ہو۔ جائو آرام کرو‘‘۔
’’لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں۔ یہ ناممکن ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں عمیر اور نعمان کی بہن نہ ہوں‘‘۔
’’تم نعمان کی ماں کا دودھ پی چکی ہو، سمیرا! اور تمہیں یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ تم میری بیٹی کے سوا، کوئی اور ہو… چلو!‘‘
سمیرا اپنے آنسو پونچھتی ہوئی عدی کے ساتھ چل پڑی۔
O
عاصم، عدی سے رخصت ہو کر باغ سے نکل رہا تھا کہ اچانک اُسے سامنے کوئی سو قدم کے فاصلے پر ایک آدمی بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ عاصم جلدی سے پلٹ کر ایک درخت کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔ باغ کے نزدیک پہنچ کر بھاگنے والے کی رفتار کم ہوچکی تھی اور وہ مڑمڑ کر پیچھے دیکھ رہا تھا۔ پھر عاصم کو ایک اور آدمی نظر آیا جو پوری رفتار سے پہلے آدمی کا پیچھا کررہا تھا۔ پہلا آدمی باغ کے اندر داخل ہو کر، عاصم کے بالکل قریب، ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ پیچھے آنے والا باغ سے تھوڑی دور کے فاصلے پر رکا اور چند ثانیے توقف کے بعد اُسی طرح بھاگتا ہوا واپس چلا گیا۔ جو آدمی عاصم کے قریب کھڑا تھا بُری طرح ہانپ رہا تھا۔
عاصم اُس کی نظروں سے بچنے کے لیے سمٹا ہوا درخت سے لگا کھڑا تھا اور اُس کے دماغ میں اِس قسم کے سوالات آرہے تھے۔ ’’یہ کون ہے؟ اس کا پیچھا کرنے والا کون ہے؟ یہ اس طرف کیوں آیا ہے؟ اگر یہ عدی کا نوکر ہے تو یہاں کیوں کھڑا ہے؟ اگر پیچھا کرنے والا اس کا دشمن تھا تو اس نے یہاں پہنچ کر کسی کو آواز کیوں نہیں دی؟‘‘
درختوں کے سائے میں عاصم اُسے اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ لیکن جب وہ اپنا سانس درست کرنے کے بعد باغ سے نکلنے لگا تو اُس نے دیکھا کہ بھاگنے والے کا نصف چہرہ ڈھاٹے میں چھپا ہوا ہے۔ عاصم کو شبہ ہوا اور اُس نے اچانک جست لگا کر اجنبی کی گردن دبوچ لی۔
اجنبی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ ایک ثانیہ کے بعد اُس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن عاصم کی آہنی گرفت میں بے بس ہو کر رہ گیا۔ عاصم اُسے دھکیلتا ہوا باغ سے باہر لے آیا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
اجنبی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’بولتے کیوں نہیں؟‘‘
اجنبی کچھ دیر سکتے کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اچانک چلایا۔ ’’میں بے قصور ہوں، مجھے چھوڑدو‘‘۔
عاصم نے اُس کے چہرے کا نقاب نوچ کر پھینک دیا۔ اور کچھ دیر بدحواسی کی حالت میں اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے پوچھا ’’تم شمعون کے غلام ہو۔ بتائو تم اس وقت یہاں کیوں آئے ہو؟ اور تمہارے پیچھے یہ کون تھا؟‘‘ وہ دوبارہ چلایا ’’میں بے قصور ہوں۔ وہ کوئی ڈاکو تھا۔ اور میرا یپچھا کررہا تھا‘‘۔
’’ڈاکو رات کے وقت غلاموں کے پیچھے نہیں دوڑا کرتے بتائو! یہ کیا معاملہ ہے؟ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تم چوری کرکے بھاگ رہے تھے۔ لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اس طرف کیوں آئے ہو؟‘‘
شمعون کے غلام نے کہا ’’خوف کی وجہ سے مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ میں کس طرف جارہا ہوں‘‘۔
’’کیا تم نے شمعون کے ہاں چوری کی ہے اور اُس کے نوکر تمہارا پیچھا کررہے تھے؟‘‘
غلام نے قدرے پرامید ہو کر کہا ’’جناب! آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں؟ میں نے آپ کا تو کوئی قصور نہیں کیا۔ اگر میں نے شمعون کے ہاں چوری کی ہے تو وہ آپ کا دشمن ہے‘‘۔
عاصم نے اُسے اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا ’’اچھا! یہ بتائو تم نے کیا چرایا ہے؟‘‘
’’جناب… میں نے اُس کی بیوی کے زیور چرائے ہیں۔ لیکن اس وقت میرے پاس کچھ نہیں‘‘۔
عاصم، عمیر سے اِس غلام اور شمعون کی بیوی کے تعلقات کے متعلق سن چکا تھا اس لیے اُس نے مزید سوالات کی ضرورت محسوس نہ کی اور غلام کو دھکا دیتے ہوئے کہا ’’بھاگ جائو!‘‘
غلام گرتے گرتے سنبھل کر ایک طرف چل دیا۔ اور عاصم نے اپنے گھر کا رُخ کیا۔
کچھ دیر بعد وہ ایک یہودی کے نخلستان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اُسے چند بھاگتے ہوئے آدمیوں کی آہٹ سنائی دی۔ اُسے خیال آیا کہ شمعون کے آدمی چوری کرنے والے غلام کو تلاش کررہے ہیں۔
عاصم نے رات کے تیسرے پہر کسی اور کے سامنے آنا مناسب نہ سمجھا اور وہ راستہ چھوڑ کر باغ کے اندر چھپ گیا۔ جب بھاگنے والے آگے نکل گئے تو وہ باغ سے نکلا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
اپنے گھر سے کچھ دور عاصم کو مردوں اور عورتوں کی چیخ پکار سنائی دی۔ اور اُس نے دیکھا کہ مکان کے ایک کونے سے آگے کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ وہ چند ثانیے سکتے کے عالم میں کھڑا رہا اور پھر بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا مکان کے صحن میں داخل ہوا۔ وہاں مردوں اور عورتوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ باہر کی دیوار سے ملحق ایک چھپر قریباً جل چکا تھا۔ ملبے کے ڈھیر سے کہیں کہیں شعلے اُٹھ رہے تھے اور چند آدمی وہاں پانی ڈال رہے تھے۔
(جاری ہے)
’’کیا ہوا؟ یہ آگ کیسے لگی؟‘‘ عاصم نے ایک آدمی کو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
اُس نے جواب دیا ’’مجھے معلوم نہیں! میں ابھی آیا ہوں‘‘۔
عاصم نے اُسے چھوڑ کر دوسرے آدمی کو اپنی طرف متوجہ کیا، لیکن وہ بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔
ایک آدمی نے آگے بڑھ کر حقارت آمیز لہجے میں کہا ’’تم اپنے چچا سے کیوں نہیں پوچھتے وہ زخمی ہونے کے بعد چیخ چیخ کر تمہیں بلا رہا تھا‘‘۔
یہ منذر تھا۔ عاصم اُس کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ ہبیرہ اپنے کمرے کے دروازے کے سامنے چٹائی پر لیٹا ہوا تھا۔
سعاد، اُس کی ماں، سالم اور چند قریبی رشتہ دار اُس کے پاس بیٹھے تھے۔ ہبیرہ کے سینے اور سعاد کے بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔
’’چچا کیا ہوا؟‘‘ عاصم نے مضطرب ہو کر سوال کیا۔
ہبیرہ نے جواب دینے کے بجائے عاصم کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ سعاد اور اُس کی ماں جو سسکیاں لے رہی تھیں، عاصم کو دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
’’تم کہاں تھے؟‘‘ قبیلے کی ایک معمر عورت نے عاصم سے سوال کیا۔
لیکن عاصم اُسے جواب دینے کے بجائے سعاد کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’سعاد تم بھی زخمی ہو۔ بتائو کیا ہوا؟‘‘
سعاد نے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا ’’کچھ نہیں! بھائی جان! میرا زخم معمولی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں زندہ ہوں کاش! دشمن کا تیر میرے دل پر لگتا‘‘۔
منذر نے آگے بڑھ کر کہا ’’بیٹی! ایسی باتیں نہ کرو۔ تمہارے غم زاد کا دل بہت نرم ہے‘‘۔
عاصم نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اچانک اُس کی نگاہ اپنے ایک نوکر پر پڑی اور اُس نے چلا کر پوچھا ’’تم کیوں خاموش ہو مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ ہمارے گھر پر کس نے حملہ کیا ہے‘‘۔
اُس نے جواب دیا ’’جناب! ہم جانوروں کا شور سن کر بیدار ہوئے تو اصطبل میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ہم نے پانچ بکریوں کے سوا باقی تمام جانور نکال لیے لیکن آگ پر قابو پانا مشکل تھا۔ آپ کے چچا باہر نکلے تو دیوار کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑ آئی اور یہ زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد سعاد اور سالم آگے بڑھے۔ سالم بچ گیا لیکن سعاد زخمی ہوگئی۔ پھر حملہ آور جنہوں نے دیوار پر چڑھ کر تیر چلائے تھے دوسری طرف کود کر بھاگ گئے۔ ہم نے ان کا پیچھا کیا تو وہ ہمارے باغ سے نکل کر گھوڑوں پر سوار ہوچکے تھے۔ صرف ایک آدمی پیدل تھا۔ ہم نے دور تک اُس کا تعاقب کیا لیکن اُس کی رفتار ہم سے تیز تھی۔ عباد نے ہمیں حکم دیا کہ تم گھر جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال کرو، میں اس کا پیچھا کرتا ہوں، چنانچہ ہم واپس آگئے‘‘۔
’’تم اُن میں سے کسی کو پہچان نہیں سکے؟‘‘
’’نہیں! انہوں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے‘‘۔
’’اور وہ آدمی جو پیدل تھا اُس کے چہرے پر بھی نقاب تھا‘‘۔
’’ہاں…!‘‘
عاصم نے کہا ’’چچا جان! میں آپ کا انتقام لوں گا۔ آپ کا زخم زیادہ گہرا تو نہیں‘‘۔
ہبیرہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور زخم کی تکلیف کے باوجود اُس کی آنکھیں مسرت سے چمکنے لگیں۔ اُس نے کہا ’’نہیں!
میں نے اپنے ہاتھ سے تیر نکال کر پھینک دیا تھا۔ ہمارے دشمنوں کو کمان پکڑنی بھی تو نہیں آتی‘‘۔
سعاد نے کہا ’’اخی! دشمن اب میرے خون کے چند قطرے بھی گرا چکا ہے۔ اور میرے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ میرا انتقام آپ کے سوا کوئی اور لے‘‘۔
تم اطمینان رکھو سعاد انہیں تمہارا خون بہت مہنگا پڑے گا۔ عاصم یہ کہہ کر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اپنے غلام کو آوازیں دینے لگا۔ ’’عباد! عباد!‘‘
ہبیرہ نے جواب دیا۔ ’’عباد یہاں نہیں ہے۔ وہ واپس آتے ہی قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ چلا گیا تھا۔ سالم اور منذر کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ گئے ہیں‘‘۔
’’کہاں گئے ہیں؟‘‘ عاصم نے بے چین ہو کر سوال کیا۔
منذر نے جواب دیا ’’وہ حملہ کرنے والوں کا سراغ لینے گئے ہیں۔ عباد اُن کا گھر دیکھ کر واپس آیا تھا۔ اور اگر انتقام کے متعلق تمہارا ارادہ تبدیل نہیں ہوگیا تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں عباد بھاگنے والے دشمن کا پیچھا کرتا ہوا جس گھر تک پہنچا تھا وہ عدی کا گھر تھا‘‘۔
ایک ثانیے کے لیے عاصم کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہو کر رہ گیا۔ پھر اچانک اُس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ وہ بھاگ کر کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں سے گھوڑے کی لگام اٹھائی۔ باہر نکلا اور آن کی آن میں ہجوم کو چیرتا ہوا صحن کے اُس کونے میں پہنچ گیا جہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ اُس کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔ پھر جب گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی تو ہبیرہ نے غرور سے اپنا سر بلند کرتے ہوئے منذر کی طرف دیکھا اور کہا ’’ڈیکھ لیا تم نے میرے بھائی کے بیٹے کو؟‘‘
O
جس وقت عاصم اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر عدی کے مکان کا رُخ کررہا تھا۔ شمعون انتہائی، بے چینی کی حالت میں اپنے کمرے کے اندر ٹہل رہا تھا اور اُس کا غلام سہمی ہوئی نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شمعون اچانک رُک کر اُس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ وہ عاصم تھا؟‘‘
’’جی ہاں! میں نے اُسے چاند کی روشنی میں اچھی طرح دیکھا تھا۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ عدی کے باغ میں کیا کررہا تھا‘‘۔
شمعون نے جھنجھلا کر کہا ’’وہ عدی کے باغ میں کھجوریں چرانے نہیں گیا تھا، بیوقوف! وہ اپنے چچا کے اصرار پر اُسے قتل کرنے گیا ہوگا۔ کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ یہ آگ خود بخود بھڑک اُٹھے گی اور مجھے پھونکیں مارنے کی ضرورت نہیں۔ اب تم نے میرے لیے ایک ایسی مصیبت کھڑی کردی ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔
’’جناب! میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے آپ نے کہا تھا کہ اگر کوئی تعاقب کرے تو میں اُسے عدی کے باغ تک ضرور لے جائوں‘‘۔
’’لیکن بدمعاش! تم یہ کہتے تھے کہ یثرب میں تم سے زیادہ تیز بھاگنے والا کوئی نہیں۔ پھر اُس نے تمہیں کیسے پکڑ لیا؟‘‘
’’جناب! میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میرا پیچھا کرنے والا آدمی میری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے کئی بار اِس خیال سے اپنی رفتار کم کی تھی کہ وہ کہیں مایوس ہو کر میرا پیچھا کرنا نہ چھوڑ دے لیکن عدی کے باغ میں پہنچ کر مجھے یہ کیسے معلوم ہوسکتا تھا کہ عاصم میرے قریب چھپا ہوا ہے اور وہ اچانک میری گردن دبوچ لے گا‘‘۔
شمعون نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا ’’عاصم نے تمہیں پہچان لیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں اُس نے میرے چہرے سے نقاب نوچتے ہی یہ کہا تھا کہ تم شمعون کے غلام ہو‘‘۔
’’پھر اُس نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘۔
’’جی ہاں…‘‘
’’تم بکتے ہو۔ اُس نے یقینا تم سے یہ پوچھا ہوگا کہ تم اِس وقت عدی کے باغ میں کیوں آئے ہو۔ سچ کہو ورنہ میں تمہاری کھال اُدھیڑ دوں گا‘‘۔
’’جی ہاں! اُس نے پوچھا تھا‘‘۔
’’پھر تم نے کیا جواب دیا‘‘۔
’’جناب! میں نے یہ بہانہ کیا تھا کہ میں ڈاکوئوں کے خوف سے بھاگ رہا ہوں۔ لیکن اُس نے کہا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے اپنے آقا کے ہاں چوری کی ہے اور اُس کے نوکر تمہارا پیچھا کررہے تھے اور میں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے اُس کا یہ الزام تسلیم کرلیا‘‘۔
شمعون قدرے مطمئن ہو کر بولا۔ ’’تم نے اپنی ساری زندگی میں یہی ایک عقل کی بات کی ہے۔ اور کل تمہیں لوگوں کے سامنے چوری کرنے کے الزام میں کوڑے کھانے پڑیں گے۔ تا کہ جو لوگ عاصم سے یہ واقعہ سنیں وہ مطمئن ہوجائیں۔ لیکن میرے لیے عاصم سے جان چھڑانا مشکل ہوگا۔ وہ ایک خطرناک آدمی ہے‘‘۔
’’جناب! میں اُسے چند دن کے اندر اندر قتل کردینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ لیکن کوڑے کھانے کے بعد میرا انعام کیا ہوگا؟‘‘
شمعون نے کہا ’’تمہارا انعام یہ ہوگا کہ کوڑے لگانے والے کو ہدایت کردی جائے گی کہ وہ بہت زیادہ فرض شناسی سے کام نہ لے ورنہ تم کسی نرمی کے مستحق نہیں ہو۔ اگر تم ایک کارآمد جانور نہ ہوتے تو میں تمہارے دونوں ہاتھ کٹوا ڈالتا‘‘۔
غلام نے کہا۔ ’’جناب! آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ہبیرہ کے خاندان کے آدمی اب تک عدی کے مکان پر حملہ کرچکے ہوں گے اور صبح تک اوس و خزرج ایک فیصلہ کن معرکے کے لیے میدان میں نکل آئیں گے۔ پھر شاید آپ کو مجھے کوڑے لگانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔ ابھی تک اوس و خزرج میں سے کسی نے ایک دوسرے کے گھر پر حملہ نہیں کیا تھا۔ کل اُن کے جوش و خروش کا یہ عالم ہوگا کہ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ ہم نے جو آگ لگائی ہے اُسے بجھانا عاصم یا عدی جیسے لوگوں کے بس کی بات نہ ہوگی‘‘۔
باب ۱۰
عدی صحن میں بھاگتے ہوئے گھوڑے کی آہٹ سن کر گہری نیند سے بیدار ہوا اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے ساتھ ہی دوسرے بستر پر عتبہ سورہا تھا۔ عدی نے اُس کا بازو جھنجھوڑ کر جگایا اور کہا۔ ’’بیٹا! معلوم ہوتا ہے کوئی گھوڑا کھل گیا ہے‘‘۔
عتبہ نے اُٹھ کر کہا۔ ’’میں دیکھتا ہوں، ابا جان!‘‘
’’لیکن بیٹا! خالی ہاتھ مت جائو ہوسکتا ہے کہ باہر کوئی چور ہو‘‘۔
عتبہ نے اپنے سرہانے کی کھونٹی میں لٹکی ہوئی تلوار اُتاری اور دروازے کی طرف بڑھا۔
پاس ہی نعمان کی آواز سنائی دی۔ ’’کیا ہے ابا جان؟‘‘
’’کچھ نہیں شاید کوئی گھوڑا کھل گیا ہے‘‘۔
عتبہ نے آہستہ سے کنڈی کھولی اور کواڑ کا ایک پٹ کھول کر باہر جھانکنے لگا۔ ایک گھوڑا بدحواسی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ اور عتبہ کے لیے یہ ایک عجیب سی بات تھی۔ اچانک اُسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بھاری چیز صحن میں گری ہے۔ عتبہ باہر نکلا اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد گھوڑے کو پچکارتا ہوا آگے بڑھا۔ گھوڑا رُک گیا ؟؟؟؟؟ میں اُس کے رسے کا کچھ حصہ لٹک رہا تھا۔ عتبہ نے اُسے پکڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رسّا ٹوٹا نہیں بلکہ کسی تیز چیز سے کاٹا گیا ہے۔ پھر اچانک اُس نے دیکھا کہ گھوڑے کی پچھلی ران میں ایک تیر پیوست ہے اور اُس کی حیرانی مضطرب میں تبدیل ہونے لگی۔ اُس نے جلدی سے تیر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور گھبراہٹ کے عالم میں ؟؟؟؟؟؟؟ کو آوازیں دینے لگا۔ اصطبل کی طرف سے دوسرے گھوڑے کی ہنہناہٹ کے سوا کوئی جواب نہ آیا تو وہ
(صفحہ147پر سوالیہ نشانات)
گھوڑے کو لے کر آگے بڑھا لیکن چند قدم چلنے کے بعد دوبارہ رُک کر نوکروں کو آوازیں دینے لگا۔ اچانک ایک تیر اُس کے بائیں بازو پر آکر لگا اور وہ چیخ مار کر صحن کے کونے میں کھجور کے درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو تیر آئے ایک اُس کے کندھے میں پیوست ہوگیا اور دوسرا اُس کی گردن کو چھوتا ہوا نکل گیا۔ وہ ڈاکو ڈاکو کہتا ہوا ایک طرف ہٹا تو اصطبل کی طرف سے پانچ چھ مسلح آدمی نمودار ہوئے۔ عتبہ نے مڑ کر مکان کے دروازے کا رُخ کیا، لیکن پانچ اور آدمی درختوں والے کونے سے آگے بڑھ کر اُس کا راستہ روک رہے تھے۔ اب خوف کی جگہ اُس کا مدافعانہ شعور بیدار ہوچکا تھا۔ وہ تیزی سے اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ کر مکان کے آخری کمرے کی دیوار کے قریب پہنچ گیا۔ یہ سمیرا کا کمرہ تھا اور اس کی ایک چھوٹی کھڑکی صحن میں کھلتی تھی۔ حملہ آوروں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے اور اُن کی دونوں ٹولیاں عتبہ کے دائیں بائیں چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھیں۔
اچانک عدی، عمیر اور نعمان مکان سے باہر نکلے اور عتبہ کے بائیں جانب کے حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے عمیر کے پہلے وار سے ایک آدمی زخمی ہو کر گر پڑا اور باقی الٹے پائوں پیچھے ہٹنے لگے۔ عدی اور نعمان عتبہ کے قریب پہنچ گئے لیکن عمیر دشمن کو پیچھے ہٹاتا ہوا صحن کی دیوار کے قریب جاچکا تھا۔
عتبہ چلایا۔ ’’عمیر! عمیر! پیچھے آجائو، اُس طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے ہیں‘‘۔ عمیر مڑ کر پیچھے بھاگا لیکن یکے بعد دیگرے اُس کے چار تیر لگے اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔
عتبہ چلایا۔ ’’ابا جان! آپ اندر چلے جائیے۔ یہ بہت زیادہ ہیں‘‘۔ اور ساتھ ہی اُس نے پوری شدت کے ساتھ دائیں ہاتھ کی ٹولی پر حملہ کردیا۔ عدی اور نعمان پیچھے ہٹنے کے بجائے بھاگ کر اُس سے جا ملے۔ عدی پوری قوت کے ساتھ چلا رہا تھا۔ ’’نعمان! تم اندر چلے جائو، دروازہ بند کرلو!‘‘ نعمان اُس کا کہنا ماننے کے بجائے سمیرا کو آوازیں دے کر دروازہ بند کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ عتبہ کی تلوار ایک آدمی کی گردن پر لگی اور وہ گرکر تڑپنے لگا۔ دوسرے وار میں اُس نے ایک اور آدمی کو زخمی کردیا۔ لیکن اِس کے بعد اُسے حملہ کرنے کا موقع نہ ملا۔ ایک آدمی کی تلوار اُس کے سر پر لگی اور وہ تیورا کر گرپڑا۔ ایک اور آدمی نے عتبہ پر دوسرا وار کیا لیکن عدی نے اُس کی تلوار اپنی تلوار پر روک لی۔ اور عتبہ اُٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹنے لگا۔ اِس عرصہ میں باقی حملہ آور جنہیں عمیر نے بائیں ہاتھ دھکیل دیا تھا اپنے ساتھیوں سے آملے اور اُن کے شدید حملے سے عدی اور نعمان کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ عتبہ کا چہرا اور لباس خون سے تر ہوچکا تھا۔ وہ اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتے ہٹتے پھر اُسی دیوار سے آلگا۔ عدی اور نعمان نے کچھ دیر حملہ آوروں کو اُس سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن اُن کی پیش نہ گئی۔ ایک آدمی کی تلوار عدی کے سینے پر لگی اور وہ چلایا ’’نعمان! بھاگ جائو اور اندر سے دروازہ بند کرلو اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ نعمان میرا کہنا مانو۔ ابھی ہمارے قبیلے کے لوگ آگئے تو تمہاری جان بچ جائے گی۔ اب تک ہمارے نوکر انہیں خبردار کرچکے ہوں گے‘‘۔
اپنی مہم کی کامیابی یقینی سمجھنے کے بعد، حملہ آوروں کا جوش و خروش قدرے کم ہوچکا تھا اور وہ مزید نقصان اٹھائے بغیر انہیں تنگ گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے تھے۔