آج کل ٹی وی پر صرف ایک ہی موضوع کے ڈرامے اور ان کا ایک جیسا اختتام دکھایا جارہا ہے۔ ڈراموں میں ماں جیسی عظیم ہستی کا کردار بالکل مسخ کرکے دکھایا گیا، اور دوسری بات وہی کہ ماں جب ساس بن گئی تو ساس کی عزت اور مرتبے پر تیشا چلایا گیا کہ وہی ساس بہو کو گھر سے نکالنے کی سازشیں کرتی نظر آرہی ہے۔ اور بہو، جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر نئی زندگی شروع کرنے والی ہے اُس کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ یہ بہت کٹھن زندگی ہوتی ہے اور تمہارے ساتھ برا سلوک کرنے کو نند اور ساس تیار بیٹھی ہیں۔ مجھے ٹی وی کے ذمے داران جواب دیں کہ کیا ہمارے معاشرے کی یہی اصل شکل ہے؟ آپ معاشرے کے ناسوروں کی نشان دہی کرکے معاشرے کو سدھانے کے علَم بردار ہیں مگر خود ڈراموں میں بہت غلط تصویر پیش کررہے ہیں۔ ماں اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی ہے، بیٹے کی خوشی کی خاطر اُس کی پسند کی لڑکی سے شادی کردیتی ہے۔ اگر آپ ڈرامے میں ماں اور ساس کو سازشیں کرتے دکھا رہے ہیں تو آپ ان ڈراموں کو سبق آموز بھی تو بنا سکتے ہیں اور عوام تک صحیح پیغام بھی تو پہنچا سکتے ہیں۔
ایک ڈرامے میں جب بیٹا ماسی کی لڑکی سے محبت کی شادی کرتا ہے تو ماں تمام جاننے والوں کو فخر سے بتاتی ہے کہ میرے بیٹے نے بہت اچھی روایت قائم کی ہے، اور جو بھی قدسیہ کے خلاف بات کرتا تو اپنی بہو کی طرف داری کرتے ہوئے کہتی کہ ’’خبردار یہ میری عزت ہے، یہ میرے گھر کی عزت ہے، اور میں اپنی عزت کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنوں گی۔‘‘ یہ میسج غریب لڑکیوں کو دلاسا دیتا کہ ہماری بھی عزت ہے اور ہمارے لیے بھی اچھے گھرانوں سے رشتے آ سکتے ہیں۔ مگر آپ نے اس ڈرامے میں ماں کی بے بسی کی موت دکھائی، ساس کا بگڑا ہوا کردار دکھایا۔
ایک اور ڈراما ابھی چل رہا ہے، اس کا انجام پتا نہیں، مگر اس کا پیغام بھی یہی ہے کہ بہو کو نکالنا ہے۔ اس کے لیے چالیں اور سازشیں کیسے کرنی ہیں؟ آپ نے وہ بتا دیا۔ اس میں ایک ساس اپنی پسند کی بہو لاتی ہے، مگر بعد میں دوسرے لوگوں سے بہو اور اس کے گھر والوں کے خلاف باتوں پر یقین کرکے بہو کو طلاق دلوا رہی ہے۔ اس میں آپ یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ خدارا! دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے گھر کو خراب نہ کریں، بلکہ دونوں گھرانے آپس میں بات چیت کرکے سلامتی کا راستہ نکالیں۔