’’انوارِ محمدؐ کیا کہنا
اے رحمتِ عالم کیاکہنا‘‘
نعت خواں جذب و احترام سے نعت کے اگلے کئی اشعار سنا چکی تھی مگر میرے دل کی دھڑکن انہی اشعار کی گردان کررہی تھی:
’’انوارِ محمدؐ کیا کہنا…‘‘
نبیِ مہربانؐ کے حالاتِ زندگی سے جب بھی میں نے مشکل لمحات کے لیے سکون کشید کیا، انوارِمحمدؐ کی تاثیر کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا، اور اب اسی تاثر کا گھیراؤ تھا کہ آنکھوں کی نمی اور جذب کا عالم میرے جذبات کو سرِ محفل عیاں کیے دیتے تھے۔
یارب! تیرے محبوبؐ کی محبت ہی تو ہے۔ پر، یوں بھری بزم میں اظہار محال ہے۔ مجھے اٹھ جانا چاہیے۔ اور میں چہرے پر دوپٹہ سنبھالتی ہوئی درمیان سے اٹھ کر پیچھے جا بیٹھی۔ دیوار سے پشت لگا کر آنکھیں موند لیں کہ اب میری سوچیں محبت و جذبات کے سپرد ہونا چاہتی تھیں۔ چند ہی لمحوں میں بے چینی محسوس کرکے آنکھیں کھولیں تو جانا کہ حاضرینِ محفل، کہ جو نعت خواں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ اور سن رہی تھیں، میں ان کی محویت میں مخل ہوچکی ہوں اور اب خواتین کن آنکھیوں سے میرے تاثرات کا جائزہ لے رہی ہیں۔
میں نے مسکرا کر پہلو بدلا اور محفل کا حصہ بنے رہنے کا تاثر قائم رکھنا چاہا۔ میرے جذبات اب مدھم ہوچکے تھے۔ میری سوچوں میں اب استغاثہ قائم ہوچلی تھی جو مجھے قائل کررہی تھی کہ انمول قیمتی جذبات کی نمود کے لیے محفل نہیں، تنہائی چاہیے۔ ایسی تنہائی جو جینے کا نیا احساس دلا دے۔
وہ جو احمد ندیم قاسمی کہہ گئے کہ:
اک سفینہ ہے تری یاد اگر
اک سمندر ہے مری تنہائی
رات دھیرے دھیرے بھیگ رہی تھی، پانچویں منزل پر اپنے فلیٹ کے چھوٹے سی ٹیرس کے فرش پر بیٹھی میں سیاہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بالکل ایسے ہی غم کی سیاہی میں ربِ کریم امید کے چراغ جلا رکھتا ہے۔ ہاں وہ چراغ جلا رکھتا ہے مگر مایوسی کی دھند ان چراغوں کی روشنی سے ہمیں محروم کردیتی ہے۔ شاید اسی لیے مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔ میں بھی تو بیتے دنوں میں مایوسی کے بھنور میں گھر گئی تھی جب ڈاکٹر نے مجھے میرے اندر پلنے والی خطرناک بیماری کی اطلاع بہت دکھ کے ساتھ دی تھی۔ ڈاکٹر کبھی بھی مریض کو مایوس نہیں کرتا مگر کسی خوش فہمی میں بھی نہیں رکھ سکتا، سو ڈاکٹر کہہ رہا تھا: ہم قدرت کے آگے بے بس ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ درد کے لمحوں نے مجھے تنہا کردیا۔ ماں باپ، بہن بھائی، شوہر سب کی تسلیاں کھوکھلی محسوس ہوتیں، ان کی آوازیں دور ہوتی لگتیں۔
میں دن و رات بس دکھ و اذیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی جارہی تھی۔ ایسے ہی ایک دن مجھے کتابوں کا ایک سیٹ دیتے ہوئے میری بہن بولی ’’ہر وقت سوچوں میں گم رہتی ہو، اب یہ پڑھو اور دیکھو زندگی کیا ہے۔‘‘ یہ سیرتِ محمدؐ کا سیٹ تھا۔ لکھنے والے نے بھی بہت انمول احساس کو جگاتے ہوئے نبیِ مہربانؐ کی زندگی کے ہر اُس پہلو کو قرطاس پر سمیٹا تھا، جو میرے سامنے زندگی کی حقیقت کو واضح کرتا گیا۔
’’زندگی تو آزمائش ہے، اور اس آزمائش کو سہل کرنے کا طریقہ رب کی رضا میں راضی رہنا ہے۔‘‘
’’نبیِ مہربان ؐ کی سیرت میں کیا جادو ہے باجی، میں جب تک پڑھتی رہی اس کے اثر کو محسوس کررہی تھی، اور جب پڑھ لیا تو ایک حقیقت کو پالیا۔‘‘ میں نے اپنی بہن کے کاندھے پر سر رکھ کر دل کی بات کہہ دی۔
’’جادو نہیں بہنا! یہ نورِ محمدؐ ہے۔‘‘ باجی نے بھیگے لہجے میں کہتے ہوئے شفقت سے میرے ہاتھ تھام کر کہا ’’پیارے رسولؐ کی زندگی سے اپنی زندگی کی راہ کے پہلو نکالنا ہی امت کی آسودگی کا ذریعہ ہے۔ میں بہت ٹوٹی ہوئی تھی اور ایسے میں کسی حقیقی سہارے کی تلاش ہوتی ہے، سو میرے دل نے اس اصل سہارے کو محسوس کرلیا۔ پیارے نبیؐ کے طرزِ عمل اور مسنون دعاؤں نے مجھے قرار دے دیا، مجھے رب کی ناشکری سے بچالیا۔ میں نے رحمۃ العالمین سے فیض پالیا تھا۔
محفل از شمعِ نوا افروختم
قوم را رمزِ حیات آموختم
(علامہ اقبال)