دلوں کو تسخیر کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اخلاق کی اعلیٰ منزلیں طے کرکے ہی معراج کو پہنچا جاسکتا ہے۔ ایسی بہت سی کامیاب شخصیات گزری ہیں جنہوں نے دنیا کو تو مسخر کیا لیکن وہ بذاتِ خود گم نام ہوگئیں۔
سیدالانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف و کمال ہے کہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اغیار شانِ مصطفی بیان کرتے ہیں۔ بلاشبہ سیرتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اغیار کی آرا کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، مگر یہ پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت ہے کہ ہم مذہب ہو یا غیر مذہب، ہم قوم ہو یا غیر قوم، دانش ور ہو یا مفکر، ماہرِ تعلیم ہو یا سیاست دان، مشرق ہو یا مغرب… اُن کی مداح سرائی کررہے ہیں۔ مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred (بعدازاں ’’سو بڑے آدمی‘‘ کے عنوان سے اردو ترجمہ بھی کیا گیا) میں دنیا کی قابلِ ذکر اور حیرت انگیز شخصیات کا احاطہ کیا۔ عیسائی ہو کر بھی مصنف، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی ٔ کردار کا منکر نہ رہ سکا اور کتاب کی فہرست میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل درجے پر فائز کرتے ہوئے آپؐ کی شان میں دلائل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لیے سیدالبشر کہنے کے لائق ہیں ، ان کا کوئی ہمسر نہیں۔‘‘
فرانسیسی مصنف ڈی لمٹائن بھی اپنی تحقیق میں انسانی عظمت کے معیارات کو بیان کرتا ہے، اس کے مطابق کوئی بھی ذی شعور بزرگی تک رسائی نہیں پا سکتا اِلاّ یہ کہ وہ ذہنوں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، قانون ساز، فلسفی، پیغمبر، پاک معاشرے کی تشکیل کرنے والا، روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا نہ ہو۔ آخر میں وہ رائے قلم بند کرتا ہے کہ میں نے ان معیارات پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو پورا اترتے نہیں پایا، ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی ممکن ہے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے دانش ور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محبت کے پھول نچھاور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ روسی ادیب اسی تناظر میں کہتا ہے کہ ’’ایسے انسان کی تعظیم کرنا ہر شخص پر فرض ہے جس نے خون بہائے بغیر امن قائم کیا اور روحانی بالیدگی کا در وا کیا ہو۔‘‘
شہنشاہِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ کا شاخسانہ ہے کہ دنیا کے حکمران ہدیۂ محبت و عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جس تعلیم کے دائرۂ کار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملِ مبارک سے وسیع کیا، آج سب اُسی کو رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ متحیر ہے کہ محض پندرہ سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے اپنے آبا و اجداد کے مذہب سے کیسے منہ موڑ لیا؟ وہ اس بات کا قائل ہوا کہ یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی ہے جس کے باعث یہ ممکن ہوا۔ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ اعظم‘‘ کا لقب بھی دیا۔
1974 ء میں امریکی میگزین ’’ٹائم‘‘ کے تحت تحقیقی مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے کئی معروف و فاضل تاریخ دانوں اور دانش وروں نے حصہ لیا۔ ’’دنیا کی تاریخ میں اعلیٰ قائد بننے کی شرائط… اور ان شرائط پر کون پورا اترتا ہے؟‘‘ موضوعِ مقابلہ تھا۔ محققین کی جانب سے دن رات کی عرق ریزی اور تاریخ کی ورق گردانی کی گئی۔ آخرکار تمام دانش ور اس بات پر متفق نظر آئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاوشیں، رہنمائی اور کردار دنیا کے لیے اہم ترین حصہ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنما اصول کسی طور فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ اس تحقیقی مقابلے کے چند اقتباسات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور برتری کو بیان کرتے ہیں، اور ثبوت ہے کہ دنیا کا وجود دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر لاحاصل و بے مقصد ہوجاتا، وہی ذاتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس نے زندگی کے رہنما نمونے پیش کیے جو ہر دور کے لیے قابلِ عمل ہیں۔
ٹائم میگزین کے اس تحقیقی مقابلے میں حصہ لینے والے یہودی پروفیسر اور سائیکالوجسٹ مارس مین مضمون میں رقم طراز ہے کہ قائد کے لیے جو شرائط مقرر کی گئیں اُن پر صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پورا اترتے ہیں۔ امریکی دانش ور جیمز گاؤن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی سب سے متاثر کن شخصیت قرار دیا۔
مہاتما گاندھی برصغیر کے جرأت مند اور صاحبِ فہم و فراست رہنما کے طور پر مقبول رہے، انہوں نے مذہبی نظریات کو جانچنے کی غرض سے اسلام کا مطالعہ کیا۔ اس دوران ان کو یہ بات مستقل بے چین رکھتی رہی کہ آخر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنا پر لاکھوں کروڑوں دلوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے؟ وہ اس نتیجے پر پہنچے، لکھتے ہیں کہ ’’میں اسلام کا جتنا بھی مطالعہ کرتا ہوں، اتنا ہی اس مذہب کے پُرامن ہونے کا یقین راسخ ہوجاتا ہے، اور پختہ ہوں کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ بانی ٔ اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم کے ذریعے بلند مقصد حاصل کیا۔‘‘ آخرکار گاندھی اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ مذہب، اخلاق کی سربلندی کا دوسرا رخ ہے۔
برازیلی ادیب پاؤلو کوایلو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کو لڑی میں پروتا محسوس ہوتا ہے، حرف بہ حرف عشقِ محمدؐ میں بہتا ہے۔ نہایت خوب صورتی سے محبت کا پرچار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے قوانین کے مطابق جینا چاہتا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے قوانین نے مکہ دیکھنے کی جستجو بیدار کی، ہزار بار سوچا کسی طرح صحرا عبور کیا جائے اور اُس جگہ پہنچا جائے جہاں سنگِ اسود ہے، جس کے گرد اکثر خود کو طواف کرتا ہوا خیال کیا۔ یہ خواب کتنا حسین لگتا ہے کہ طواف کے دوران لوگوں کا ہجوم ہوگا جو ایک دوسرے کو دھکیلتا ہوگا اور پھر اس کی آواز مشترکہ دعا کے خوب صورت آہنگ کا حصہ بن جائے گی۔
بیسویں صدی کے مفکرین و اکابرین فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمی طور پر خوش بخت اور قابل ذکر اقدار کو تسلیم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج غیر مسلم معاشروں میں اسلام کے اصولوں کا غلبہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر اغیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و انسیت میں ڈوبے پائے جاتے ہیں۔ وہ اس نقطے کے قائل ہیں کہ خدائی قوانین کا مجموعہ قرآن ہے اور رول ماڈل نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں۔ مغرب کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی و بے چینی پر دانش ور حلقہ خود کو اخلاقی خلا میں بے بس پاتا ہے اور اس ضمن میں نجات کا واحد راستہ اسلام کو سمجھتا ہے۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مرتبے اور عظمتِ کردار کے باعث ممکن ہوا کہ آج غیر مسلم بھی دنیا کی سلامتی اور امن کا سرچشمہ محمد صلی اللہ علیہ کو مانتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ محمدؐ رحمت المسلمین ہی نہیں بلکہ رحمت للعالمین ہیں۔
ہندو شاعر پنڈت ہری چند اخترخوب صورت نذرانہ پیش کرتے ہیں:
کس نے ذروں کو اُٹھایا اور صحرا کر دیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا