ہم سایہ ہر پل کا

294

سماجی کردار اد ا کرنے کی آرزورکھنے والے کبھی کبھی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہم سایہ ’’دھویں پانی کا شریک ہوتاہے‘‘جو ہر سماجی عمارت کی پہلی اینٹ ہوتی ہے۔ قدرت نے جب آپ کی دیوار سے کسی کی دیوار جوڑ دی تو یوں سمجھو کہ اتفاقاً دو افراد بے خیالی میںبھیڑ میں گلے لگ گئے۔ اب گھروں کے بدن جڑ چکے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم دل کا دریچہ کھول کر ایک دوسرے کے اندر دیکھیں اور ایک دوسرے کواپنے دل کی دھڑکنیں سنائیں۔ یہی ذہنی قربت ہے جو دھیرے دھیرے پوری دنیا کو سمیٹ سکتی ہے۔ فرد سے فرد، سرحد سے سرحد مل کر ہی ایک انسانی سماج بنتا ہے۔ جب بے جان مٹی، پتھر جڑ جاتے ہیں تو اہرامِ مصر اور تاج محل جیسے شاہکار بن جاتے ہیں۔ جب محبت پتھروں کا بدن تراشتی ہے تو اجنتا و ایلورہ کی چٹانیں موم بن جاتی ہیں۔ تو پھر ہم انسان تعلق کے امکانی شاہکار کو ڈھانے کی کیوں ضد کرتے ہیں؟
آپ کی الگ سی نگاہ جب دوسرے کے الگ سے زاویہ کو سہارے دے کر کمان کا خم بنتی ہے تو بہت اچھا محراب سا بن جاتا ہے۔ ایسا محراب کہ بندہ اس کے حصار میں اپنا سر سجدے میں جھکادے۔ لیکن جب زاویے دور ہوتے ہیں تب سب رابطے چُور چُور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہم سایوں کی آپسی بھول چوک تو گھرہستی کے کوڑے کی طرح ہوتی ہے۔ اُسے گاہے گاہے کباڑ سمجھ کر صاف کرتے رہو۔ جب گھر ہوگا تو کوڑا تو نکلے گا ہی۔ کراہیت سے ہی سہی اس کو سمیٹو اور اپنے گھروں سے کہیں دور جا کر سب سے چھپا کر کوڑے دان میں انڈیل دو۔ کوڑا ایک دوسرے کے آنگن میں نہ ڈالو کیوں کہ ’’اخلاق‘‘ نام ہے دنیا کے دکھوں کو کم کرنے کے منصوبے کا۔
خدا کی طرف سے ہمیں اس کا سب سے بڑا اعزاز’’انسانی سماج اور انسانوں کے حقوق‘‘ ہیں۔ اس کو پہچاننا ہی صحیح بندگی ہے۔ یہی بات تمام عبادتوں کی روح ہے۔ ہر مذہب نے اپنے ہم سایہ کی تکریم کے تاکید کی ہے نبی ء￿ رحمت حضرت محمدؐ نے پڑوسی کے پاس و لحاظ کی شرط کو زندگی کے ہر پہلو سے جوڑ کر بتایا۔ جس کا مفہوم ہے کہ اپنے سالن کی مہک سے بھی اُسے احساسِ محرومی نہ ہونے دو۔ کبھی کہا کہ ممکن ہو تو اپنے سالن میں تھوڑا سا پانی شامل کر کے پڑوسی کی بھوک کی آگ مٹا کر اس کو بھی اپنی مسرت اور برکت میں شریک کرلو۔ بلکہ رابطہ کو وقار دینے والی ایک منفرد بات کہی جواصل میں انسانی رشتوں کی تکریم و اہمیت کی معراج ہے۔ کہا کہ مجھے یوں لگتا کہ کسی دن خدا تمہارے مال و دولت کی وراثت میں پڑوسی کوشامل نہ کر دے۔ اور یہ بھی کہا کہ اب ہر شخص اپنے چالیس گھر تک کے پڑوسیوں کی خیرخواہی کا ذمہ دار ہے۔
غلام ذہنوں کو یہ گھر بیٹھے سرداری، یہ قیادت کا اعزار سمجھ میں نہیں آتا جس کا دائرہ دیکھیں تو کیسے کسی پرکارکے نکتہ کی طرح گھوم کر اطراف کی 40 گھروں کو سمیٹ لیتا ہے۔ دائیں، بائیں، آگے،پیچھے اور بلند عمارتوں کے چالیس منزلہ کو اگرشمار کیا جائے تو آپ کی سربراہی میں 200 گھرانے آجاتے ہیں۔یعنی ہزاروں کی قیادت ایک دانش کا ہالۂ نور ہے۔
ہماری ترقی کا سفر پتھرکے اندھیروں سے کمپیوٹرکے نور تک پہنچا۔ تالاب کی تیراکی سے کہکشاؤں کی سڑک تک پہنچ گیا۔ تو کیا انسانی سماج میں یہی رفتار سے رابطے نہیں بڑھ سکتے۔ جب پتھر سے لوہا، لوہے سے روشنی جڑ کے چل سکتے ہیں تو ہم دل والوں کی دنیا میں اندھیرے کیوں، دراڑیں کیوں…؟ جب ہمیں دھنک کے سات الگ الگ رنگوں سے اختلاف نہیں‘ بلکہ وہی حسن کا معیار لگتا ہے ‘تو اس خاک سے بننے والے انسانوں کے رنگ سے کیا مسئلہ ہے۔ جب سات سروں کے سنگم کو ہم نغمہ کہتے ہیں تو پھر زبانوں اور بولیوں پر تیوری کیوں چڑھے۔ ہمارا سماج دراصل اکائیوں میں جیتا ہے۔ ادبی سماج، معاشی سماج، روحانی وسیاسی وغیرہ ایسے لوگوں سے ملنا تو اپنی ذہنی توانائی بڑھانے والی کسرت کے برابر ہوتا ہے۔ لوگ نہ مکمل سماجی تتلیاں ہیں نہ سراسر مردم بے زار۔ سچی سوچ کا ساجھی ہوتو سماج آپ کے ساتھ ہے ورنہ ہر پل کہرام۔ ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ ہم بھیڑ میں رہتے اور بھیڑ میں گھِر کر سوچتے ہیں، کبھی تنہا اپنے بل بوتے پر نہیں سوچتے پھر کیسے ہم انفرادی و اجتماعی ضمیر کی بیداری کی کوشش کرپائیں گے۔
ہمیں رابطے و تعلق کو استوار کرنے‘ تمنا میں اپنے ہم سائے سے جڑکر چلنا ہوگا۔ Antagonism بے مقصد نفرت جو ہم پڑوسی، کاروبارکے شریک وساتھی، رشتے داروں اور جگ بھر میں دیکھتے ہیں تو مجھے ایک دل چسپ روحانی روایت یا د آتی ہے۔ بھلے وہ روایت کچھ کم کھری ہو لیکن ہے بڑی جان دار۔ کہتے ہیں خدا نے ہم سب کو اس دنیا میں آنے سے پہلے روحوں کے نور پیکر وں میں ڈھال کر عالمِ بالا میں رکھا تھا۔ وہاں کچھ روحیں پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے قریب آگئیں اور بعض روحیں کھنچی کھنچی رہیں اور بعض تو دور دور ہی رہیں۔ یہ روحوں کے تعارف کا پہلا اتفاق تھا۔ پھردوسری ملاقات یا تعارف اس دنیا میں کسی دفتر میں ، پڑوس یا راستے یا قطار کے ساتھی کے روپ میں ہوا۔ قربت کی کشش والی روحیں پھر ایک دوسرے کے قریب رہیں اور روحانی دینا کے فاصلے والی روحیں اس زمین میں پھر ایک بار فاصلوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب ہم سب روحوں کے روپ رنگ میں تھے تو جانے ہمارے کیا محدود اختیارات تھے لیکن آب تو ہمیں شعور کی دولت، کشادہ دلی کی تربیت، دردمندی سے جڑے ترقیوں کے اصول مل چکے ہیں تو پھر فاصلے کیسے؟ چلو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔ اس زمین کو جنت نشان بناتے ہیں۔

حصہ