عاصم نے قدرے نادم ہو کر تلوار نیام میں کرلی۔
’’میں تمہاری باتیں سن چکا ہوں اور اب مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ میرے ساتھ آئو‘‘۔ عدی یہ کہہ کر مڑا۔ لیکن عاصم اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ عدی نے چند قدم اُٹھانے کے بعد مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور کہا ’’تم ایک بوڑھے آدمی سے ڈرتے ہو؟‘‘
عاصم کوئی جواب دیئے بغیر آگے بڑھا اور اُس کے ساتھ ہو لیا۔ سمیرا جو چند قدم کے فاصلے پر پریشانی کی حالت میں کھڑی تھی بھاگ کر درختوں میں غائب ہوگئی۔ عدی نخلستان عبور کرکے اپنے گھر کی دیوار کے سامنے سوکھی گھاس کے ایک ڈھیر کے قریب رُکا اور اُس نے تھوڑی سی گھاس اُٹھا کر زمین پر بچھاتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں، اس وقت اندر جا کر سونے والوں کو جگانا مناسب نہیں۔ تمہیں سردی تو محسوس نہیں ہوتی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے۔ عدی کا طرزِ عمل ہر آن عاصم کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ کررہا تھا۔
’’تم سمیرا کو کب سے جانتے ہو؟‘‘ عدی نے اُس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے پوچھا۔
عاصم نے جواب دیا ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میری کوئی بات آپ کو مطمئن نہیں کرسکے گی، لیکن اگر آپ کے دل میں سمیرا کے متعلق شبہات پیدا ہوگئے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اُس نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو آپ کے لیے شرمندگی کا باعث ہو‘‘۔
عدی بولا ’’تمہیں سمیرا کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اور تمہیں یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں نے کبھی اُس کی رکھوالی کی ضرورت محسوس کی ہے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ جب وہ دبے پائوں باہر نکلی تھی تو میں جاگ رہا تھا اور اُس کے کمرے کے دروازے کی چرچراہٹ نے مجھے اُٹھ کر صحن میں تکنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجھے صرف اِس بات سے تشویش تھی کہ صحن میں چند قدم رُک رُک کر چلنے کے بعد اُس نے بھاگنا شروع کردیا تھا۔ اگر میں دل پر جبر کرکے تمہاری باتیں نہ سنتا تو شاید ہماری یہ ملاقات اِس قدر خوشگوار نہ ہوتی۔ لیکن تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا تھا کہ تم کب سے ایک دوسرے کو جانتے ہو؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’میں نے اُسے پہلی مرتبہ اُس رات دیکھا تھا جب میں عمیر کو آپ کے گھر پہنچانے آیا تھا‘‘۔
’’اور اب تم یثرب چھوڑ کر جارہے ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’تم اِس لیے جارہے ہو کہ سمیرا میری بیٹی ہے اور تمہیں یہاں رہنے سے میرے خاندان کی رسوائی کا خطرہ ہے؟‘‘
’’ہاں! لیکن میرے جانے کی اور وجوہ بھی ہیں‘‘۔
’’وہ میں سب سن چکا ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس تمہاری مشکلات کا کوئی حل نہیں۔ لیکن فرض کرو اگر سمیرا میری بیٹی نہ ہوتی تو تم کیا کرتے؟‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ اگر سمیرا خزرج کے بجائے کسی اور قبیلے کی لڑکی ہوتی تو تمہارا طرزِ عمل کیا ہوتا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں، میں کسی کو بھی اپنے مصائب میں حصہ دار بنانا پسند نہ کرتا‘‘۔
’’اگر سمیرا کے باپ کو اپنے قبیلے کی ملامت کا خوف نہ ہوتا اور وہ خوشی سے اُسے تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتا تو؟‘‘
’’اگر یہ ممکن ہوتا تو میں سمیرا کے باپ کو سمجھاتا کہ اِس وقت میرا تنہا جانا ضروری ہے۔ لیکن میں جلد واپس آئوں گا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میں اپنا ارادہ تبدیل کردیتا۔ لیکن یہ ممکن نہیں مجھے سمیرا کے باپ کی مجبوریوں کا علم ہے‘‘۔
عدی کچھ دیر سر جھکائے ایک گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔ بالآخر اُس نے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں تمہیں اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ سنانا چاہتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ تمہارے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ آج سے کوئی سولہ سال پہلے میں تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ دمشق جارہا تھا۔ قبیلہ کنانہ کا ایک شخص، جس کا نام حارث تھا اس سفر میں میرے ساتھ تھا۔ ہم بہت جلد ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ جب ہم واپس پہنچے تو عکاظ کا میلہ شروع ہونے والا تھا اور یثرب سے کئی آدمی وہاں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ حارث نے چند دن میرے ہاں قیام کیا اور اس کے بعد ہم اپنے مال سے زیادہ نفع کمانے کے شوق میں قافلے کے ساتھ عکاظ کی طرف روانہ ہوگئے۔ تجارت کے علاوہ، عکاظ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے شام جانے سے قبل میری بیوی اُمید سے تھی اور میں اسے اُس کے والدین کے ہاں چھوڑ آیا تھا۔ میری بیوی کا خاندان یہاں سے پانچ منزل دور عکاظ کے راستے میں آباد تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتی دفعہ ایک دو دن کے لیے وہاں ٹھیروں گا اور پھر واپسی پر اپنے بال بچوں کو ساتھ لیتا آئوں گا۔
سسرال پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے پیچھے جو لڑکی پیدا ہوئی تھی وہ تین ماہ کی ہو کر فوت ہوگئی ہے۔ میری بیوی کو اس کا بہت صدمہ تھا کہ میں اسے نہ دیکھ سکا۔ وہ بار بار کہتی تھی کہ میری بیٹی بہت خوبصورت تھی اور قبیلے کی عورتیں اُسے دور دور سے دیکھنے آیا کرتی تھیں۔ میری ساس اور میری بیوی کی بہنیں بھی اُس کی بہت تعریف کرتی تھیں۔ لیکن حارث اور میرے دوسرے ساتھی مجھے مبارکباد دیتے تھے کہ اللہ نے مجھے ایک لڑکی کا باپ بننے کی رسوائی سے بچالیا ہے۔ حارث کہتا تھا تم بہت خوش قسمت ہو۔ میں یکے بعد دیگرے اپنی دو لڑکیوں کو زندہ دفن کرچکا ہوں۔ اس مرتبہ بھی جب میں گھر سے نکلا تھا تو میری بیوی امید سے تھی اور میں نے عزّیٰ کی قسم کھا کر کہا تھا کہ اگر تم نے پھر لڑکی جنی تو میں اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک کروں گا۔
عکاظ کے میلے سے فارغ ہو کر میں واپس آنا چاہتا تھا لیکن حارث کی بستی وہاں سے دو منزل کے فاصلے پر تھی اور وہ مجھے چند دن اپنے پاس ٹھہرانے پر مُصر تھا۔ مجبوراً مجھے اُس کے ساتھ جانا پڑا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حارث کے ہاں چند ماہ قبل لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ یہ خبر سننے کے بعد حارث کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے خیمے میں قدم رکھنے تک کا روادار نہ تھا۔ میں نے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی لیکن اُس پر میری باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ میں اپنے گھر میں سانپ پال سکتا ہوں لیکن ایک لڑکی کا باپ کہلانے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنی بیوی کے سامنے عزیٰ کی قسم کھائی تھی کہ میں لڑکی کو زندہ دفن کردوں گاوہ چاہتی تو پیدا ہوتے ہی اس کا گلا گھونٹ کر مجھے اس امتحان سے بچاسکتی تھی۔ اب وہ چار مہینے کی ہوچکی لیکن میں اپنی قسم پوری کرکے رہوں گا۔
گرمیوں کے دن تھے اور ہم رات کے وقت باہر کھلی ہوا میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حارث نے شراب کا ایک مٹکا منگوا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے اُس کے اصرار سے تیز شراب کے چند گھونٹ پی لیے لیکن حارث بے تحاشا پی رہا تھا۔ نشے میں چور ہو کر وہ دیر تک مجھ سے بہکی بہکی باتیں کرتا رہا۔ مجھ پر نیند کا غلبہ ہورہا تھا۔ میں اپنے بستر میں لیٹ گیا۔ آدھی رات کے قریب گہری نیند میں مجھے کچھ شور سنائی دیا میں نے بدحواس ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا تو حارث وہاں نہ تھا۔ خیمے سے کسی عورت کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ میں اُٹھ کر بھاگتا ہوا خیمے کی طرف گیا اور قریب پہنچ کر حارث کو آوازیں دینے لگا۔
حارث کی بیوی روتی اور اپنے سر کے بال نوچتی ہوئی باہر نکلی اور اُس نے کہا ’’وہ چلا گیا ہے، وہ میری بیٹی کو لے کر چلا گیا ہے۔ میں تمہیں لات اور عزّیٰ کا واسطہ دیتی ہوں۔ میری بیٹی کو بچائو۔ یہ میری تیسری بچی ہے۔ آج خاندان کے کسی آدمی نے میری مدد نہیں کی۔ وہ سب جانتے تھے کہ حارث اُسے زندہ زمین میں گاڑنے کو لے جارہا ہے لیکن کوئی میری چیخیں سن کر اپنے گھر سے باہر نہیں آیا‘‘۔
میں نے اس سے پوچھا۔ حارث کس طرف گیا ہے؟‘‘ اور اُس نے ایک سمت اشارہ کردیا۔ میں کچھ کہے بغیر اُس طرف بھاگا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے بستی سے کچھ دور ایک بچے کے بلکنے کی آواز سنائی دی۔ میں دوڑتا ہوا اس طرف گیا۔ حارث اپنی بیٹی کو زمین پر لٹا کر گڑھا کھود رہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور برہم ہو کر بولا ’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’حارث! میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
اُس نے کہا ’’قبر کھودنے کے لیے مجھے تمہارے مدد کی ضرورت نہیں۔ اگر تم میری مدد کرنا چاہتے ہو تو اس لڑکی کا گلا گھونٹ دو! اس کی چیخیں مجھے پریشان کررہی ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’اس وقت تم شراب کے نشے میں ہو جب یہ نشہ اُتر جائے گا تو ان چیخوں کا تصور تمہیں اور زیادہ پریشان کرے گا‘‘۔
اُس نے جواب دیا ’’تم مجھے ورغلانے کی کوشش نہ کرو۔ میں اپنا عہد پورا کروں گا‘‘۔
حارث دوبارہ گڑھا کھودنے میں مصروف ہوگیا اور میں نے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھ پکڑ لیے۔
اُس نے غضب ناک ہو کر مجھے پیچھے دھکیل دیا اور چلایا۔ ’’تم مجھے بے غیرت بنانا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’حارث! عزیٰ کو تمہاری بیٹی کی جان لینا منظور نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ اگر تم اس کا باپ کہلانا پسند نہیں کرتے تو اسے میرے حوالے کردو، میری بیوی اسے اپنی بیٹی کی طرح پالے گی۔ میں کسی پر یہ ظاہر نہیں کروں گا کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ اور کوئی تمہیں طعنہ نہ دے گا‘‘۔
حارث غضب ناک ہو کر چلایا۔ نہیں، نہیں، یہ نہیں ہوسکتا!‘‘ اور پھر اُس نے اچانک آگے بڑھ کر لڑکی پر جھپٹنے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے اُس کا راستہ روک لیا اور ہم دونوں گتھم گتھا ہوگئے۔ وہ نشے میں تھا اِس لیے میں نے جلد ہی اُس پر قابو پالیا۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ ہماری کشتی کے دوران میں لڑکی روتے روتے اچانک خاموش ہوگئی۔ میں نے دیر تک حارث کو دبوچے رکھا اور اطمینان سے اُس کی بدکلامی سنتا رہا۔ یہاں تک کہ اُس کا جوش ٹھنڈا پڑنے لگا۔ بالآخر اُس نے کہا ’’عدی! میرے قبیلے کے کسی آدمی کو میرے سامنے آنے کی جرأت نہ تھی۔ لیکن تم میرے مہمان ہو‘‘۔
میں نے کہا ’’میں تمہارا دوست ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر تم نشے میں نہ ہوتے تو ہمارے درمیان ہاتھا پائی کی نوبت نہ آتی۔ تم نہیں جانتے کہ تم اِس وقت کیا کررہے ہو‘‘۔
وہ بولا ’’مجھے چھوڑ دو‘‘۔
میں نے جواب دیا ’’لیکن پہلے یہ وعدہ کرو کہ تم اس معصوم بچی پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔
اُس نے کہا ’’اگر میں یہ وعدہ نہ کروں تو؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’تو میں عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اِسی طرح تمہارے سینے پر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ صبح تمہارے قبیلے کے آدمی یہاں جمع ہوجائیں گے لیکن مجھے اس بات کی پروا نہ ہوگی کہ وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں‘‘۔
اُس نے کہا ’’تم اس لڑکی کو بچانے کی کوشش میں میرے قبیلے کے لوگوں کے ہاتھوں قتل ہونا پسند کرو گے‘‘۔
میں نے جواب دیا ’’ہاں میں اِس لڑکی کو بچانے کی قسم کھا چکا ہوں‘‘۔
حارث کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ’’کیا یہ ہوسکتا ہے کہ عزیٰ نے اس لڑکی کو بچانے کے لیے تمہیں یہاں بھیج دیا ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’مجھے یقین ہے کہ عزیٰ کو اس کی جان لینا منظور نہیں‘‘۔
وہ بولا ’’لوگ مجھے بزدلی اور بے غیرتی کا طعنہ دیں گے‘‘۔
میں نے جواب دیا ’’کسی کو معلوم نہ ہوگا کہ یہ لڑکی زندہ ہے۔ میں ابھی یہاں سے روانہ ہوجائوں گا‘‘۔
آہنی عزم کا مالک ہونے کے باوجود حارث ایک انسان تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس کے طرزِ عمل میں ایک غیر معمولی تبدیلی آچکی تھی۔ اُس نے کہا ’’اگر میں اس لڑکی کو تمہارے ساتھ بھیج دوں تو تمہارے گھر میں اس کی حیثیت کیا ہوگی؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’میں اسے ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھوں گا اور اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو میں حلف اٹھانے کو تیار ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ میری بچی مرچکی ہے، میں جب اپنی بیوی کو اُس کے میکے سے اپنے گھر لے جائوں گا تو ہم اپنے قریبی عزیزوں کو بھی یہ شبہ نہ ہونے دیں گے کہ ہم کسی اور کی لڑکی اٹھا لائے ہیں‘‘۔
کچھ دیر جھگڑنے کے بعد اُس نے ہار مان لی اور میں نے اُسے چھوڑتے ہوئے کہا ’’تم گھر جا کر میرا گھوڑا لے آئو، میں یہیں ٹھہرتا ہوں‘‘۔
جب وہ اُٹھ کر جانے لگا۔ تو میں ے کہا ’’اگر تم اپنی بیوی کو یہ بتا سکو کہ اُس کی بیٹی زندہ ہے تو اچھی بات ہوگی‘‘۔
وہ جواب دیئے بغیر چلا گیا۔ جب وہ میرا گھوڑا لے کر آیا تو اُس کی بیوی اُس کے ساتھ تھی۔ اُس نے کہا ’’اسے میری باتوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ اس لیے میں اسے ساتھ لے آیا ہوں‘‘۔
حارث کی بیوی اپنی بیٹی سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کے باوجود اِس بات پر مطمئن تھی کہ اُس کی جان بچ گئی ہے اُس نے آگے بڑھ کر میری طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھا اور لڑکی کو میرے ہاتھوں سے لیتے ہوئے کہا ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے دودھ پلادوں یہ بھوکی ہوگی‘‘۔ (جاری ہے)
وہ لڑکی کو ایک طرف لے کر بیٹھ گئی۔ دودھ پلانے کے بعد وہ اُٹھی اور لڑکی کو بار بار سینے سے لگانے اور چومنے کے بعد میری طرف دیکھنے لگی۔ جب میں گھوڑے پر سوار ہوگیا تو اُس نے روتے ہوئے لڑکی کو میرے حوالے کردیا۔ حارث نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم نہیں کہ تمہارا یہ رویہ کہاں تک درست ہے۔ لیکن میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ کاش تم اُس وقت آتے جب میں اپنی پہلی لڑکی کو دفن کررہا تھا‘‘۔ لڑکی اپنے ہاتھ سے اُس کی ڈاڑھی پکڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ حارث نے بے اختیاری کی حالت میں اُس کا ننھا سا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ پھر اُس نے اچانک اُسے میری گود سے اُٹھا کر اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اُس کا سر اور منہ چومنے کے بعد دوبارہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’عدی! میں نے اسے اس لیے پیار کیا ہے کہ اب یہ تمہاری بیٹی ہے۔ جائو!‘‘
میں وہاں سے تھوڑی دور گیا تھا کہ پیچھے سے اُس کی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ’’ٹھہریئے! ٹھہریئے!‘‘ میں نے گھوڑا روک لیا وہ بھاگ کر میرے قریب آغئی ہے اور کہنے لگی۔ ’’میں نے آپ کو اس کا نام نہیں بتایا۔ اس کا نام سمیرا ہے‘‘۔
عدی یہاں پہنچ کر خاموش ہوگیا اور بغور عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔
عاصم نے کہا ’’سمیرا نے اِس کے بعد اپنے والدین کو نہیں دیکھا؟‘‘
عدی نے جواب دیا ’’نہیں! تین سال کے بعد عکاظ کے میلے میں اُس کے خاندان کے چند آدمی ملے تھے اُن کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ حارث اُس سال ایک لڑائی میں قتل ہوگیا اور چند ماہ بعد اُس کی بیوی بھی وفات پاگئی‘‘۔
سمیرا کو معلوم ہے کہ وہ آپ کی بیٹی نہیں؟‘‘
’’نہیں! اور مجھے یقین ہے کہ اگر میں اُسے بتادوں تو بھی وہ یقین نہیں کرے گی۔ میرے دل میں اُس کی محبت ایک باپ کی محبت سے کسی طرح کم نہیں۔ سمیرا پانچ سال کی تھی کہ میری بیوی فوت ہوگئی۔ اُس نے مرتے وقت مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں سمیرا کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ آج سمیرا کے آنسو میرے لیے ناقابل برداشت تھے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے تمہیں یہ قصہ سنانا ضروری سمجھا۔ اب تمہیں اپنے اور اُس کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ تمہارے دشمن کی بیٹی ہے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ایک یتیم اور بے بس لڑکی ہے اور تم اُس کا دل توڑ کر میرے خاندان کی عزت اور وقار میں کوئی اضافہ نہیں کرسکو گے آج جب میں اُس کی سسکیاں سُن رہا تھا تو مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا جب حارث اُسے زندہ دفن کرنے کے لیے گڑھا کھود رہا تھا، وہ قریب پڑی بلک رہی تھی اور میری انسانیت نے مجھے مجبور کردیا تھا کہ میں اُسے حارث سے چھین لوں۔ آج میری انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے تمہارے حوالے کردوں اور یہ نہ سوچوں کہ میرے دوست اور دشمن کیا کہیں گے۔ حارث کے نزدیک ایک بیٹی کا باپ کہلانا بے غیرتی اور بے عزتی کے مترادف تھا اس لیے وہ سمیرا کو زندہ دفن کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب میں نے اُس کے دل میں پدرانہ شفقت کے ایک دبے ہوئے شعور کو بیدار کیا تو اُس نے اپنے سابقہ عقیدے سے انحراف کرکے سمیرا کو میرے حوالے کردیا۔ اور اب تمہارے طرزِ عمل نے میرے سابقہ عقیدے بدل دیئے ہیں۔ جب تک تم نے عمیر کی جان نہیں بچائی تھی، میں یہی سمجھتا تھا کہ تمہارے قبیلے کے ساتھ لڑنا میری زندگی کی سب سے بڑی راحت ہے۔ تم نے میرے دل میں ایک ایسے احساس کو بیدار کیا ہے جو برسوں سے مرچکا تھا۔ تم نے مجھ سے انتقام لینے اور دشمن کا خون بہانے کی لذت چھین لی ہے لیکن مجھے اس کا افسوس نہیں۔ عاصم تمہیں میری وجہ سے سمیرا سے منہ پھیر کر بھاگنے کی ضرورت نہیں، میں آج اور اسی وقت سمیرا کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
عاصم کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ تشکر اور احسان مندی کے آنسو، اُس نے کہا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں، لیکن جب آپ سمیرا کو اپنے ساتھ لائے تھے تو آپ کو یہ اطمینان تھا کہ آپ اُسے خوش رکھ سکیں گے۔ آپ کو اس بات کی تسلی تھی کہ آپ کے گھر میں اُسے کوئی نفرت یا حقارت سے نہیں دیکھے گا۔ لیکن میرا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ میں اُسے آلام و مصائب کے سوا کچھ نہیں دے سکتا‘‘۔
عدی نے کہا ’’ایک اچھائی دوسری اچھائیوں کے لیے راستہ کھول سکتی ہے۔ تم نے ایک اچھی ابتدا کی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یثرب کی فضا پرامن ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اور تھوڑے دنوں میں یہاں کے حالات بالکل بدل جائیں۔ اس لیے تمہیں یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں عرب کے مستقبل کے متعلق بہت پرامید ہوں۔ تم نے سنا ہوگا کہ مکہ میں ایک نئے دین کا چرچا ہورہا ہے۔ اس دین کا بانی لوگوں کو اخوت و مساوات کا درس دے رہا ہے، اور جو لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں، وہ نسلوں اور قبیلوں کی حدود پھاند کر آپس میں دوست اور بھائی بن جاتے ہیں۔ میں نے سنا ہے اُن میں غلام اور آقا کا امتیاز بھی مٹ جاتا ہے۔ قبیلہ قریش کے چند انتہائی معزز لوگ مکہ کے نبیؐ کی صداقت پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس نئے دین کی بدولت پورے عرب کی ذہنی کایا پلٹ ہوجائے اور ہمارے پرانے طور طریقے بدل جائیں۔ اگر حجاز میں اِس دین کے قدم جم گئے تو یثرب بہت جلد اس سے متاثر ہوگا۔ ہمیں اندھیری رات میں بھٹکنے کے بجائے اپنے گھر بیٹھ کر صبح کا انتظار کرنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’میں بھی کچھ عرصے سے اس دین کے متعلق سن رہا ہوں، لیکن مجھے امید نہیں کہ اہل عرب کی جبلت بدل جائے۔ لوٹ مار اور قتل و غارت اُن کی سرشت میں ہے۔ جس دن انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ اُن کی قبائلی عصبتیں مٹ رہی ہیں، وہ اِس دین کے حامیوں کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آجائیں گے۔ یہاں خاندانوں اور قبیلوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاسکتا ہے، متحد نہیں کیا جاسکتا۔ عمیر سے ہمدردی کرنا میرا ایک اضطراری فعل تھا لیکن میرے قبیلے کے لوگ یہاں تک کہ میرے قریبی رشتہ دار بھی اسے برداشت نہ کرسکے۔ پھر آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ قبائل عرب کے درمیان جو آگ صدیوں سے سلگ رہی ہے وہ اس دین کی بدولت بجھ جائے گی۔ میں نے تو یہ سنا ہے کہ قریش نے اِس دین کے حامیوں کا مکہ کی فضا میں سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے۔ بہرحال اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ میں یہاں سے نہ جائوں تو میں آپ کا حکم ماننے کو تیار ہوں‘‘۔
عدی نے کہا ’’تم مجھے کچھ دن سوچنے کا موقع دو، ممکن ہے میں تمہاری مشکل کا کوئی حل نکال سکوں۔ اگر میں نے دیکھا کہ تمہارا گھر میں رہنا ناممکن ہے تو عرب ایک وسیع ملک ہے۔ ممکن ہے میں تم دونوں کے لیے گوشۂ عافیت تلاش کرسکوں۔ اب تم جا کر آرام کرو اور آئندہ جب چاہو سیدھے راستے میرے گھر آسکتے ہو۔ تا ہم ابھی لوگوں کی نگاہوں سے بچنا ضروری ہے۔ اگر مجھے ضرورت پڑی تو میں کسی نہ کسی طرح پیغام بھیج دوں گا‘‘۔
وہ اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ عدی نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور عاصم گرمجوشی سے مصافحہ کرکے وہاں سے چل دیا۔ عدی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا، اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ سمیرا صحن کے دروازے سے لگی کھڑی تھی لیکن عدی کو دیکھ کر اُس نے بھاگنے کے بجائے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ عدی نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’سمیرا! چلو اب تمہیں رونے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’ابا جان! اُس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے اُسے یہ کیوں بتایا کہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں؟‘‘
عدی نے جواب دیا ’’سمیرا! میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ تم پر یہ راز ظاہر کردوں لیکن حوصلہ نہ ہوا۔ آج عاصم پر یہ باتیں ظاہر کرنا ضروری تھا‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے۔ آپ نے اُس پر یہ باتیں اِس لیے ظاہر کی ہیں کہ اگر میں آپ کی بیٹی ہوتی تو آج آپ کو شرمسار ہونا پڑتا۔ آپ میرا گلا گھونٹ ڈالتے‘‘۔
’’تم پگلی ہو۔ جائو آرام کرو‘‘۔
’’لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں۔ یہ ناممکن ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں عمیر اور ؟؟؟؟؟ کی بہن نہ ہوں‘‘۔
’’تم نعمان کی ماں کا دودھ پی چکی ہو، سمیرا! اور تمہیں یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ تم میری بیٹی کے سوا، کوئی اور ہو… چلو!‘‘
سمیرا اپنے آنسو پونچھتی ہوئی عدی کے ساتھ چل پڑی۔
O
عاصم، عدی سے رخصت ہو کر باغ سے نکل رہا تھا کہ اچانک اُسے سامنے کوئی سو قدم کے فاصلے پر ایک آدمی بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ عاصم جلدی سے پلٹ کر ایک درخت کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔ باغ کے نزدیک پہنچ کر بھاگنے والے کی رفتار کم ہوچکی تھی اور وہ مڑمڑ کر پیچھے دیکھ رہا تھا۔ پھر عاصم کو ایک اور آدمی نظر آیا جو پوری رفتار سے پہلے آدمی کا پیچھا کررہا تھا۔ پہلا آدمی باغ کے اندر داخل ہو کر، عاصم کے بالکل قریب، ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ پیچھے آنے والا باغ سے تھوڑی دور کے فاصلے پر رکا اور چند ثانیے توقف کے بعد اُسی طرح بھاگتا ہوا واپس چلا گیا۔ جو آدمی عاصم کے قریب کھڑا تھا بُری طرح ہانپ رہا تھا۔