اسلام کا اصلی معیار

560

برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ پاک میں فرماتا ہے:
’’(اے محمدؐ) کہو کہ میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔‘‘ (الانعام: 163-162:2)
اس آیت کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
’’جس نے کسی سے دوستی و محبت کی تو خدا کے لیے‘ اور دشمنی کی تو خدا کے لیے ‘ اور کسی کو دیا تو خدا کے لیے‘ اور کسی سے روکا تو خدا کے لیے‘ اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا‘ یعنی وہ پورا مومن ہو گیا۔‘‘ (بخاری)
پہلے جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اور اپنے جینے اور مرنے کو صرف اللہ کے لیے خالص کر لے اور اللہ کی سا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ اس کی بندگی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو‘ اور اللہ کے سوا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ اس کی بندگی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے اور نہ اس کا جینا اور مرنا۔اس کی تو تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں نے آپ کو سنائی ہی اس سے معلوم ہوتاہے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی‘ اور اپنے دنیوی زندگی کے معامالت میں اس کا لین دین‘ خالصتاً خدا کے لیے ہونا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہی کی تکمیل نہیں ہوتی کجا کہ مراتب عالیہ کا دروازہ کھل سکے۔ جتنی کمی اس معاملی میں ہوگی اتنی ہی نقص آدمی کے ایمان میں ہوگا اور جب اس حیثیت سے آدمی مکمل طور پر خدا کا ہو جائی تب کہیں اس کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی چیزیں صرف مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھولتی ہیں‘ ورنہ ایمان و اسلام کے لیے انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہونا شرط نہیں ہے۔ یعنی بالفظِ دیگر اس کیفیت کے بغیر بھی انسان مومن و مسلم ہو سکتا ہی‘ مگر یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ فقہی اور قانونی اسلام اور اس حقیقی اسلام میں جو خدا کے ہاں معتبر ہے‘ فرق نہیں کرتے۔
قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق:
فقہی اور قانونی اسلام میں آدمی کے قلب کا حال نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی دیکھا جاسکتا‘ بلکہ صرف اس کے اقرارِ زبانی کو اور اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ان لازمی علامات کو نمایاں کرتا ہے یا نہیں جو اقرارِ زبانی کی توثیق کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی شخص نے زبان سے اللہ اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت اور دوسرے ایمانیات کو ماننے کا اقرار کر لیا اور اس کے بعد وہ ضروری شرائط بھی پوری کر دیں جن سے اس کے ماننے کا ثبوت ملتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام میں لے لیا جائے گا اور سارے معاملات اس کے ساتھ مسلمان سمجھ کر کیے جائیں گے۔ لیکن یہ چیز صرف دنیا کے لیے ہے اور دنیوی حیثیت سے وہ قانونی اور تمدنی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر مسلم سوسائٹی کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسے اقرار کے ساتھ جتنے لوگ مسلم سوسائٹی میں داخل ہوں‘ وہ سب مسلمان مانے جائیں‘ ان میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے‘ ان کو ایک دوسرے پر شرعی اور قانونی اور اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوں‘ ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوں‘ میراث تقسیم ہو اور دوسرے تمدنی روابط وجود میں آئیں۔
حقیقی اسلام:
لیکن آخرت میں انسانکی نجات اور اس کا مسلم و مومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار‘ اس کی دل کا جھکائو اور اس کا برضا و رغبت اپنے آپ ک بالکلیہ خدا کے حوالے کر دینا ہے۔ دنیا میں جو زبانی اقرار کیا جاتا ہے وہ تو صرف قاضیِ شرع کے لیے اور عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے‘ کیوں کہ وہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ سکتے ہیں‘ مگر اللہ آدمی کیدل کو اور اس کے باطن کو دیکھتا ہے اور اس کے ایمان کو ناپتا ہے۔ اس کے ہاں آدمی کو جس حیثیت سے جانچا جائے گا وہ یہ ہے کہ آیا اس کا جینا اور مرنا اور اس کی وفاداریاں اور اس کی اطاعت و بندگی اور اس کا پورا کارنامۂ زندگی اللہ کے لیے تھا یا کسی اور کے لیے؟ اگر اللہ کے لیے تھا تو وہ مسلم اور مومن قرار پائے گا اور اگر کسی اور کے لیے تھا تو نہ وہ مسلم ہوگا نہ مومن۔ اس حیثیت سے جو جتنا خام نکلے گا اتنا ہی اس کا ایمان اور الام خام ہوگا۔ خواہ دنیا میں اس کا شمار کیے ہی بڑے مسلمانوں میں ہوتا رہا ہو اور اس کو کتنے ہی بڑے مراتب دیے گے ہوں۔ اللہ کے ہاں قدر صرف اس چیز کی ہے کہ جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے وہ سبکچھ آپ نے اس کی راہ میں لگا دیا یا نہیں۔ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کو وہی حق دیا جائے گا جو وفاداروں کو اور حقِ بندگی ادا کرنے والوںکو دیا جاتا ہے اور اگر آپ نے کسی چیز کو خدا کی بندگی سے مستثنیٰ کرکے رکھا تو آپ کا یہ اقرار کہ آپ مسلم ہوئے یعنی یہ کہ آپ ن اپنے آپ کو بالکل خدا کے حوالے کر دیا‘ محض ایک جھوٹا اقرار ہوگا جس سے دنیا کے لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں‘ جس سے فریب کھا کا مسلم سوسائٹی آپ کو اپنے اندر جگہ دے سکتی ہے‘ جس سے دنیا میں آپ کو مسلمانوں کے سے تمام حقوق مل سکتے ہیں‘لیکن اس سے فریب کھا کر خدا اپنے ہاں آپ کو وفاداروں میں جگہ نہیں دے سکتا۔
یہ قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے‘ اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے نتائج صرف آخرت ہی میں مختلف نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی ایک بڑی حد تک مختلف ہیں۔ دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں‘ ان سب کو دو قسموں پر منقسم کیا جاسکتا ہے۔ -1 جزوی مسلمان‘ -2 پورے مسلمان۔
-1 جزوی مسلمان:
ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں‘ مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کل زندگی کا محض ایک جزو اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں۔ اس مخصوص جز اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو‘ عبادت گزاریاں ہوں‘ تسبیح و مصلیٰ ہو‘ خدا کا ذکر ہو‘ کھانے پینے اور بعض معاشرتی معاملات میں پرہیزگاریاں ہوں اور وہ سب کچھ ہو جسے مذہبی طرز عمل کہا جاتا ہے‘ مگر اس شعبے کے سوا ان کی زندگی کے دسرے تمام پہلو‘ اُن کے مسلم ہونے کی حیثیت سے مستثنیٰ ہوں۔ وہ محبت کریں تو اپنے نفس‘ یا اپنے مفاد‘ یا اپنے ملک و قوم‘ یا کسی اور کی خاطر کریں‘ وہ دشمنی کریں اور کسی سے جنگ کریں تو وہ بھی ایسے ہی کسی دنیوی اور یا نفسیاتی تعلق کی بنا پر کریں۔ ان کے کاروبار‘ ان کے لین دین‘ ان کے معاملات اور تعلقات‘ ان کے اپنے بال بچوں‘ اپنے خاندان‘ اپنی سوسائٹی اور اپنے اہل معاملہ کے ساتھ برتائو سب کا سب ایک بڑی حد تک دین سے آزاد اور دنیوی حیثیتوں پر مبنی ہو ایک زمین دار کی حیثیت سے‘ ایک تاجر کی حیثیت سے‘ ایک حکمران کی حیثیت سے‘ ایک سپاہی کی حیثیت سے‘ ایک پیشہ ور کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت جس کا ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی تعلق نہ ہو‘ پھر اس قسم کے لوگ مل کر اجتماعی طور پر جو تمدنی‘ تعلیمی اور سیاسی ادارے قائم کریں وہ بھی ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے خواہ جزوئی طور پر متاثر یا منسو ب ہوں‘ لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔
-2 پورے مسلمان:
دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں‘ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں۔ وہ باپ ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے‘ بیٹے ہوں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے‘ شوہر یا بیوی ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ تاجر‘ زمیند ار اور مزدور‘ ملازم یا پیشہ ور ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ اُن کے جذبات‘ اُن کی خواہشات‘ اُن کے نظریات‘ اُن کے خیالات اور اُن کی رائیں‘ اُان کی نفرت اور رغبت‘ اُن کی پسند اور ناپسند سب کچھ اسلام کے تابع ہوں۔ اُن کے دل و دماغ پر‘ اُن کی آنکھوں اور کانوں پر‘ اُن کے پیٹ اور شرم گاہوں پر اور اُن کے ہاتھ پائوں اور اُن کے جسم و جان پر اسلام کا مکمل قبضہ ہو۔ نہ اُن کی محبت اسلام سے آزاد ہو‘ نہ دشمنی۔ جس سے ملیں تو اسلام کے لیے ملیں اور جس سے لڑیں تو اسلام کے لیے لڑیں۔ کسی کو دیں تو اس لیے دیں کہ اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ اسے دیا جائے اور کسی سے روکیں تو اس لیے توکیں کہاسلام یہی کہتا ہے کہ اس سے روکا جائے اور ان کا یہ طرزِ عمل صرف انفرادی حد تک ہی نہ ہو‘ بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سراسر اسلام کی بنیاد ہی پر قائم ہو۔ بحیثیت ایک جماعت کے ان کی ہستی صرف اسلام کے لیے قائم ہو‘ اور ان کا سارا اجتماعی برتائو اسلام کے اصولوں ہی پر مبنی ہو۔
خدا کا مطلوب مسلمان:
یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ چاہے قانونی حیثیت سے دونوں ایک ہی امت میں شامل ہوں اور دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہوتا۔ پہلی قسم کے مسلمانوں کا کوئی کارنامہ تاریخِ اسلام میں قابلِ ذکر یا قابلِ فخر نہیں ہے۔ انہوں نے فی الحقیقت کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس نے تاریخِ عالم پر کوئی اسلامی نقش چھوڑا ہو۔ زمین نے ایسے مسلمانوں کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا ہے۔ اسلام کو اگر تنزل نصیب ہوا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی بدولت ہوا ہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کی کثرت مسلم سوسائٹی میں ہو جانے کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوا کہ دنیا کے نظامِ زندگی کے باگیں کفر کے قبضے میں چلی گئیں اور مسلمان اس کے ماتحت رہ کر صرف ایک محدود مذہبی زندیکی آزادی پر قانع ہو گئے۔ خدا کو ایسے مسلمان ہرگز مطلوب نہ تھے۔ اس نے اپنے اپنے انبیاؑ کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا‘ نہ اپنی کتابیں اس کے لیے نازل کی تھیں کہ صرف اس طرز کے مسلمان دنیامیں بنا ڈالے جائیں۔ دنیا میں ایسے مسلمانوں کے نہ ہونے سے کسی حقیقی قدر و قیمت رکھنے والی چیز کی کمی نہ تھی جسے پورا کرنے کی لیے سلسلۂ وحی و نبت کو جاری کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ درحقیقت جو مسلمان خدا کو مطلوب ہیں‘ جنہیں تیار کرنے کے لیے انبیاؑ کی بعثت اور کتابوںکی تنزیل ہوئی ہے اور جنہوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے کبھی کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے یا آج کر سکتے ہیں‘ وہ صرف دوسری ہی قسم کے مسلمان ہیں۔
حقیقی پیروی غلبے کا سبب ہے:
یہ چیز اسلامہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ دنیامیں کسی مسلک کا جھنڈا بھی ایسے پیروئوں کے ہاتھوںکبھی بلند نہیں ہوا ہے جنہوں نے اپنے مسلک کے اقرار اور اس کے اصولوں کی پابندی کو اپنی کُل زندگی کے ساتھ صرف ضمیمہ بنا کر رکھا ہو اور جن کا جینا اور مرنا اپنے مسلک کے سوا کسی اور چیز کے لیے ہو۔ آج بھی آپ دیکھ سکتذے ہیں کہ ایک مسلک کے حقیقی اور سچے پیرو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو دل و جان سے اس کے وفادار ہیں‘ جنہوں نے اپنی پوری شخصیت کو اس میں گم کر دیا ہے اور جو اپنی کسی چیز کو حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد تک کو اس کے مقابلے میں عزیز تر نہیں رکھتے۔دنیا کا ہر مسلک ایسے ہی پیرو مانگتا ہے اور اگر کسی مسلم مسلک کو دنیا میں غلبہ نصیب ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایسے ہی پیروئوں کی بدولت ہوسکتا ہے۔
مسلمان خالص اللہ کا وفادار:
البتہ اسلام میں اور دوسرے مسلکوں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلک اگر انسانوں سے اس طرزکی فنائیت اور فدائیت اور وفاداری مانگتے ہیں تو یہ فی الواقع انسان پر ان کاحق نہیں بلکہ یہ ان کا انسان سے ایک بے جا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام اگر انسان سے اس کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ اس کا عین حق ہے۔ وہ جن چیزوں کی خاطر انسان سے کہتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو اور اپنی پوری شخصیت کو ان پر تج دے‘ ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا فی الواقع انسان پر یہ حق ہوا کہ اس کی خاطر انسان اپنی کسی شبے کو قربان کرے۔ لیکن اسلام جس خدا کے لیے انسان سے یہ قربانی مانگتا ہے وہ حقیقت میں اس کا حق رکھتا ہے کہ اس پر سب کچھ قربان کر دیاجائے۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ انسان خود اللہ کا ہے‘ جو کچھ انسان کے پاس ہے اور جو کچھ انسان کے اندر ہے سب اللہ کا ہے‘ اور جن چیزوں سے انسان دنیا میں کام لیتا ہے وہ سب بھی اللہ کی ہیں۔ اس لیے عین تقاضائے عدل اور عین متقضائے عقل ہے کہ جو کچھ اللہ کا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو۔ دوسروں کے لیے یا خود اپنے مفاد اور اپنے نفس کے مرغوبات کے لیے انسان جو قربانی بھی کرتا ہے وہ دراصل ایک خیانت ہے‘ الا یہ کہ وہ خدا کی اجازت سے ہو اور خدا کے لیے جو قربانی کرتا ہے فی الحقیقت وہ ادائے حق ہے۔
لیکن اس پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ان لوگوںکے طرز عمل میں ایک بڑا سبق ہے جو اپنے باطل مسلکوں کی خاطر اور اپنے نفس کے جھوٹے معبودوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور اس استقامت کا ثبوت دے رہے ہیں جس کی نظیر مشکل ہی سے تاریخِ انسانی میں ملتی ہے۔ کس قدر عجیب بات ہوگی اگر باطل کے لیے انسانوں سے ایسی کچھ فدائیت اور فنائیت ظہور میں آئے اور حق کے لیے اس کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو سکے۔
محاسبۂ نفس:
ایمان و اسلام کا یہ معیار جو اس آیت اور اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنے نفس کو اس پر پرکھ کر دیکھیں اور اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا اور ایمان لے آئے تو دیھکیے کہ آیا فی الواقع آپ کا جینا اور مرنا خدا کے لیے ہے؟ کیا آپ اسی لیے جی رہے ہیں اور آپ کے دل اور دماغ کی ساری قابلیتیں‘ آپ کے جسم اور جان کی ساری قوتیں‘ آپ کے اوقات اور آپ کی محنتیں کیا اسی کوشش میں صَرف ہو رہی ہیں کہ خدا کی مرضی آپ کے ہاتھوں پوری ہو‘ اور آپ کے ذریعے سے وہ کام انجام پائے جو خدا اپنی مسلم امت سے لینا چاہتا ہے؟ پھر کیا آپ نے اپنی اطاعت اور بندی کو خدا ہی کے لیے مخصوص کر دیا ہے؟ کیا نفس کی بندگی‘ خاندان کی‘ برادری کی‘ دوستوں کی‘ سوسائٹی کی اور حکومت کی بندگی آپ کی زندگی سے بالکل خارج جو چکی ہے؟ کیا آپ نے اپنی پسند اور ناپسند کو سراسر رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے؟ پھر دیکھیے کہ واقعی آپ جس سے محبت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ جس سے نفرت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ اور اس نفرت اور محبت میں آپ کی نفسانیت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے؟ پھر کیا آپ کا دینا اور روکنا بھی خدا کی خاطر ہو چکا ہے؟ اپنے پیٹ اور اپنے نفس سمیت دنیا میں آپ جس کو جو کچھ دے رہے ہیں اسی لیے دے رہے ہیں کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس کو دینے سے صرف خدا کی رضا آپ کو مطلوب ہے؟ اور اسی طرح جس سے آپ جو کچھ روک رہے ہیں وہ بھی اسی لیے روک رہے ہیں کہ خدا نے اسے روکنے کا حکم دیا ہے اور اس کے روکنے میں آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی تمنا ہے؟ اگر آپ یہ کیفیت اپنے اندر پاتے ہیں تو اللہ کا شکر کیجیے کہ اس نے آپ پر نعمتِ ایمان کا اتمام کر دیا‘ اور اگر اس حیثیت سے آپ اپنے اندر کمی محسوس کرتے ہیں تو ساری فکریں چھوڑ کر بس اسی کمی کو پوراکرنے کی فکرکیجیے اور اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کو اسی پر مرکوز کر دیجیے کیوں کہ اسی کسر کے پورے ہونے پر دنیا میں آپ کی فلاح اور آخرت میں آپ کی نجات کا مدار ہے۔ آپ دنیا میں خواہ کچھ بھی حاصل کر لیں اس کے حصول سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی جو اس کسر کی بدولت آپ کو پہنچے گا لیکن اگر یہ کسر آپ نے پوری کر لی تو خواہ آپ کو دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو پھر بھی آپ خسارے میں نہ رہیں گے۔
یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں‘ بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ آپ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اسے دور کرنے کی فکر فرمائیں۔ آپ کو فکر اس بات کی نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں مفتی اور قاضی آپ کو کیا قرار دیتے ہیں‘ بلکہ اس کی ہونی چاہیے کہ احکم الحاکمین اور عالما لغیب و الشہادۃ آپ کو کیا قرار دے گا۔ آپ اس پر مطمئن نہ ہوں کہ یہاں آپ کا نام مسلمانوں کے رجسٹر میں لکھاہے‘ فکر اس بات کی کیجیے کہ خدا کے دفتر میں آپ کیا لکھے جاتے ہیں۔ ساری دنیا بھی آپ کو سندِ اسلام و ایمان دے دے تو کچھ حاصل نہیں۔ فیصلہ جس خدا کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاں منافق کے بجائے مومن‘ نافرمان کے بجائے فرماں بردار اور بے وفا کی جگہ وفادار قرار پانا اصل کامیابی ہے۔ (جاری ہے)

حصہ