استادوں کے استاد عبدالغفار عزیز

390

نوٹس لینا اورترجمانی کرناایک فن ہے، یہ بیک وقت انسان کی سمعی و بصری صلاحیتوں کا امتحان ہوتاہے. کبھی نوٹ کرتے ہوئے تقریر کا سحر ہمیں جکڑ لیتا ہے اور جب یہ سحر ٹوٹتا ہے تو تحریر کا خلا پر کرنامشکل ہو جاتا ہے.پھر اگر زبان بھی مادری نہ ہو تو مزید مشکل. ایسی ہی مشقیں کرتے کرتے ہاسٹل میں ہمارے شب و روز گزرتے تھے۔
دورہ تفسیر کے دوران جب کئی عربی محاضرات سننے کا موقع ملا تو ہمیں لیکچرز نوٹ کرنے کی تاکید کی جاتی جس پر ہمیں نمبرز ملتے… ایک روز منصورہ جامعہ میں سوڈان سے آئے ایک اسکالر کی گفتگو پیش ہوئی۔ اس وقت ہماری عربی زبان سے واقفیت اور محبت کام آئی اور مافی الضمیر سمجھ آتا رہا.. اس وقت عربی کے اساتذہ کی بہت قدر محسوس ہوئی جن کی محنتوں سے ہم لغت کی فصاحتوں میں ڈبکیاں لگانے کے قابل ہوئے تھے۔
یخ بستہ موسم میں یہ منصورہ لاھور جامعتہ المحصنات کے لان کا خوب صورت منظر تھا جہاں طالبات کیلئے پہلے ہی کرسیاں لگا دی گئی تھیں اور معزز مہمانان بھی مدعو تھے. ہم نے نوٹس لینا شروع کیے لیکن کہیں دقت محسوس ہوئی ایسے میں ایک عزم و یقیں سے سرشار ترجمان کی آواز ہماری سماعتوں سے ٹکرائی۔ جس نے ہماری لسانیاتی حس اور فن ترجمانی کی صلاحیت کو مزید بڑھا دیا. یہ عبدالغفار عزیز تھے جن کی تقاریر ہم کئ دن سے سن رہے تھے. ہم نوٹس لیتے لیتے رک گئے… تقریر کا سحر . اور ترجمان کی حاضر جوابی … رکتا تو سفر جاتا چلتا تو بچھڑ جاتا۔
والی صورت پیدا ہوگئی۔
اس وقت نہ سوشل میڈیا تھا نہ ہی تصاویر کا غیر ضروری تکلف.شاگرد اپنے استاد کی گفتگو سے ہی شاگردی کے تقاضے سمجھ لیتے.. گزشتہ سالوں میں عرب بہار اور صدر مرسی کی شہادت پرشعر کہنے پر ٹوئٹر پر عبدالغفار عزیز اور voice of Egypt کے سراہنے پر عجب مسرت کا احساس ہوا.
عبدالغفار عزیز استادوں کے استاد اور قائدین کے قائد تھے.
جن کی ابتدائی تعلیم درس نظامی پر مشتمل سندھ کی ایک جامعہ سے ہوئ. جسے بعد میں انہوں نے تعلم و مذاکرے کے ذریعے تحریک کی قوت بنایا. ترجمان القرآن میں اخبار عالم کے تجزیے ہوں یا ترجمان امت کے فرائض انہوں نے قرآن کی زبان سے محبت کی اور اس محبت کو درد امت کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا..
الجزائر، مصر، مراکش، کشمیر ،برما شام و فلسطین کے سفر کی داستانوں اور چین وفارس کے دوروں میں ملت اسلامیہ کو حمیت و حریت اور جسد واحد کا احساس دلایا. اور جس شدو مد سے الکفر ملتہ واحدہ کی کھل کر وضاحت کی اس کی نظیر مشکل ہے.
عالم کفر کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے والا یہ مجاہد امت کے خلاف ہونے والی سازشوں، مکروفریب اور پابند و سلاسل انسانیت کا مقدمہ جرات و حکمت اور بیدار مغز ی سے لڑتا رہا اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کے دلوں پر دستک دیتا رہا.
آج جدید دور میں میڈیا اس پاے کا دانشور، ترجمان، محقق، مصنف اور اور قائد پیش کرنے سے قاصر ہے . جو انما بعثت معلما کا سبق سکھاتے سکھاتے عالمی یوم اساتذہ پر ایک قرض امت مسلمہ کے شانے پر رکھ کر اپنے شاگردوں کے کاندھوں پر یہ پیغام دیتے ہوئے رخصت ہوا کہ.
تقاضہ ہے حمیت کا کہ اٹھو ساتھیو اٹھو
فریضہ ہے یہ غیرت کا کہ اٹھو ساتھیو اٹھو

حصہ