فیض احمد فیض
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
…٭…
محبت……سلیم احمد
ایسی قوت جو صرف نہیں ہوتی ہے
اذیت بن جاتی ہے
میرے دل میں کتنی محبت تھی
جس کو زمانے کی بے مہری اور سرد طبیعت نے
اظہار میں آنے نہ دیا
آخر میں نے سارا درد سمیٹا
اور تیری آنکھوں پر وار دیا
دنیا میرے لیے تیری صورت میں
پیمانہ حسن و خیر بنی
یوں تو محبت فرد سے فرد کو ہوتی ہے
لیکن تجھ سے میری محبت
وہ نقطہ ہے جس کے چاروں طرف
آفاق کی گردش ہوتی ہے
…٭…
عبد الحمید عدم
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں
جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں
جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دل پذیر ہوتے ہیں
اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
…٭…
اجمل سراج
دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا
دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا
کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے
دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
دنیا کی بے رخی کا گلہ کر رہے تھے لوگ
ہم کو ترا تپاک مگر یاد آ گیا
پھر تیرگئی راہ گزر یاد آ گئی
پھر وہ چراغ راہ گزر یاد آ گیا
اجملؔ سراج ہم اسے بھول ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا
…٭…
پروین شاکر
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے
اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے
ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں
پتا منزل کا میرِ کارواں سے
توجہ برق کی حاصل رہی ہے
سو ہے آزاد فکرِ آشیاں سے
ہوا کو رازداں ہم نے بنایا
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے
ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے
فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کارِ جہاں سے
وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے
کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خوش گماں سے
میں اک اک تیر پر خود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے
جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے
جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے
…٭…
عبید اللہ علیم
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغ سر رہ گزار دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
…٭…
شمیم حنفی
لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے
ہمیں تو یہ تماشے سب کے سب اچھے نہیں لگتے
اجالے میں ہمیں سورج بہت اچھا نہیں لگتا
ستارے بھی سر دامان شب اچھے نہیں لگتے
تو یہ ہوتا ہے ہم گھر سے نکلنا چھوڑ دیتے ہیں
کبھی اپنی گلی کے لوگ جب اچھے نہیں لگتے
یہ کہہ دینا کہ ان سے کچھ گلہ شکوہ نہیں ہم کو
مگر کچھ لوگ یوں ہی بے سبب اچھے نہیں لگتے
نہ راس آئے گی جینے کی ادا شاید کبھی ہم کو
کبھی جینا کبھی جینے کے ڈھب اچھے نہیں لگتے
…٭…
پیرزادہ قاسم
زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو
دوستو اپنا لطف خاص یاد دلا دیا کرو
ایک علاج دائمی ہے تو برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
مقتل غم کی رونقیں ختم نہ ہونے پائیں گی
کوئی تو آ ہی جائے گا روز صدا دیا کرو
جذبۂ خاک پروری اور سکون پائے گا
خاک کرو ہمیں تو پھر خاک اڑا دیا کرو
…٭…
پاپولر میرٹھی
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم
رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے منہ پہ دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا تو
…٭…
حفیظ جالندھری کے مقبول اشعار
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
…٭…
اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…
ابھی منزل نہیں آئ،ابھی یہ جنگ جاری ہےوہ دنیابھی ہماری تھی،یہ دنیا بھی ہماری ہے !شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخرعزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرتعدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے !زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا !سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے !*ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر