’’وہ دیکھو بوبو آرہی ہے۔‘‘صنوبر نے ہانیہ کو سیاہ عبایا میں ملبوس آتے دیکھ کرقہقہہ لگایا۔
ثنا اور سحرش نے سامنے دیکھا اور محض مسکرا دیں۔
ہانیہ پُر اعتماد انداز میں ان کے قریب آئی اور سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام، کیا حال ہے؟آج دیر ہوگئی تمہیں؟‘‘ سحرش نے پوچھا۔
’’ہاں، بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے دیر سے ڈراپ کیا۔ تم لوگ فری ہو؟میرا مطلب ہے کہ انگلش کی کلاس نہیں ہورہی؟‘‘ ہانیہ نے پوچھا۔
’’ہاں، آج میڈم قمر چھٹی پر ہیں اس لیے ہم آزاد ہیں۔‘‘ تینوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
’’اوہ…! اچھا اگلا پیریڈ میم رخسانہ کا ہے، اسلامیات کا ہے نا! تو چلو پندرہ منٹ تو رہ گئے ہیں۔‘‘ ہانیہ نے کہا۔
’’ہمارا اگلا پیریڈ بھی فری ہے۔‘‘ صنوبر نے معنی خیز انداز میں کہا۔
’’ہمارا نہیں صرف تمہارا، ہم تو میم رخسانہ کا پیریڈ ضرور لیں گے، اتنی نائس ہیں اور کتنا اچھا سمجھاتی ہیں۔‘‘ ثنا نے کہا تو سحرش اور ہانیہ نے بھی تائید کی۔ اور تینوں کلاس کی طرف چل دیں۔ چارو ناچار صنوبر کو بھی جانا پڑا۔
میم رخسانہ سلیقے سے دوپٹہ سر پہ جمائے باوقار انداز میں کلاس میں داخل ہوئیں اور سلام کیا۔ یہ ان کی خاص عادت تھی۔
’’آج ہمارا موضوع ہے: ایمان۔‘‘ میم طالبات سے مخاطب ہوئیں۔ ’’آج میں چاہوں گی کہ ہم ایمان کی ایک اہم شاخ ’’حیا‘‘ پر بات کریں، کیوں کہ حیا اور ایمان یا ایمان اور حیا لازم و ملزوم ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں، اگر ایک اُٹھ جائے تو دوسرا خود بہ خود اٹھا لیا جاتا ہے۔ مسلمان عورت و مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ حیادار ہو… اب آپ بتائیں کہ حیادار عورت کی پہچان کا اسلام میں کیا طریقہ ہے؟‘‘
’’میم! وہ باپردہ ہو؟‘‘ ایک طالبہ نے سوالیہ انداز میں کہا۔
’’لیکن میم ضروری تو نہیں کہ جو پردہ نہیں کرتیں وہ حیا دار نہیں ہوتیں۔ یہ تو نیت پہ ڈپینڈ کرتا ہے نا…‘‘ صنوبر کو اعتراض ہوا۔
بالکل آپ کی بات درست ہے کہ نیت پہ ڈپینڈ کرتا ہے، مگر اعمال کا دارومدار بھی تو نیت پر ہوتا ہے نا۔ اگر نیت صاف ہے تو عمل میں نظر بھی آنا چاہیے… کیا صحابیاتؓ سے بڑھ کر ہماری نیت صاف ہوسکتی ہے؟ جب اُن کو بھی پردے کا حکم تھا تو بتایئے ہم کہاں کھڑے ہیں؟‘‘میم رخسانہ نے بڑے رسان سے سمجھایا۔
’’چلیں آگے بڑھتے ہیں، اب یہ دیکھتے ہیں کہ حیادار عورت حجاب لیتی ہے…کیا واقعی وہ حجاب کو صحیح معنوں میں اپناتی ہے؟‘‘ میم کا سوال بڑا انوکھا سا لگا۔ سب حیران ہوکر دیکھنے لگیں۔
’’نہیں معلوم؟ چلیں میں بتاتی ہوں۔ اگر نقاب لے لیں مگر آنکھیں میک اَپ زدہ ہوں تو؟ چلیں عبایا پہن لیا مگر وہ ساتر نہیں، عورت کی ساخت کو نمایاں کرتا ہو؟‘‘ میم نے وضاحت کی۔
’’مگر میم! اسلام میں اتنی بھی سختی نہیں۔ نئے دور کے ساتھ چلنے کے لیے جدت پسندی ضروری ہے۔ اسلام میں منع تو نہیں۔‘‘ صنوبر کو پھر اعتراض ہوا، کیوں کہ وہ ہر نئے ڈیزائن کا عبایا لیتی تھی، اور اس پہ اکثر اس کی والدہ سر پیٹتیں کہ یہ ایک اور خرچا ان کے سر تھا۔
’’جی بیٹا! لیکن اتنا ضرور خیال رکھیں کہ حجاب اور پردے کا اصل مقصد ہے عورت کو نامحرم کی نگاہوں سے محفوظ رکھنا… اگر عبایا کو دیدہ زیب بنادیا جائے، یا اتنا چست کہ خود بہ خود مرد اٹریکٹ ہوں، یا عورت کی زیبائش پھر بھی نظر آتی ہو تو اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔‘‘ میم رخسانہ کے شفیق انداز نے صنوبر پر بہت اچھا اثر ڈالا اور وہ دل ہی دل میں اپنی ساتھی ہانیہ کا مذاق اڑانے پر بہت شرمندہ ہوئی، کیوں کہ حجاب کا اصل حق تو وہی ادا کررہی تھی۔