قمر جمیل کا انٹرویو 

585

میں نے قمر جمیل کو دیکھا‘ ان جیسا پھر کسی کو نہ دیکھا۔ ادب ان کا پہلا اور آخری پیار‘ زندگی ساری اسی کی نذر کر دی۔ دنیا کی جتنی نعمتیں ہو سکتی ہیں‘ عزت‘ شہرت‘ دولت‘ شہوت‘ رغبت اور دل چسپی کسی میں نہ تھی۔ اگر بے ساختہ جھکائو‘ فطری کشش تھی تو ادب و شعر اور علم میں۔ سارے مراسم و تعلقات‘ سب رشتہ دارعیاں‘ محبت اور بے زاری کے کُل معاملات اسی حوالے سے تھے۔ کسی مقصد سے کوئی جڑتا ہے تو نظر نتیجے پر ہوتی ہے کہ انجام کار یہ صلہ‘ یہ انعام ملے گا‘ ادب میں نام رہ جائے گا‘ معاشرے میں اسی ناتے کوئی مقام پا لوں گا۔ نہیں‘ ایسی کوئی ترغیب‘ کوئی لالچ بھی ان کے اندر نہ پائی۔ یہ کیسی روح تھی جو قمر جمیل کے پیکر خاکی میں سمائی ہوئی تھی۔ اکثر انہیں یاد کرتے ہوئے سوچتا ہوں اور جتنا سوچتا جاتا ہوں قمر بھائی کی شخصیت کی گتھی الجھتی ہی جاتی ہے۔ ہم سب کے لیے وہ قمر بھائی مگر ادبی دنیا انہیں قمر جمیل کے نام سے پہچانتی تھی۔ مگر یہ جس ’’ادبی دنیا‘‘ کا میں نے ذکر کیا ہے‘ یہ ’’ادبی دنیا‘‘ بہت ہی چھوٹی سی مختصر سی تھی‘ یہ ادبی دنیا عزیز آباد سے جہاں ان کا گھر تھا‘ شروع ہو کر بند روڈ پر واقع ریڈیو اسٹیشن کی عمارت پر جا کر تمام ہو جاتی تھی۔ جہاں وہ پروڈیوسر کے طور پر ملازم تھے۔ نثری نظم جس کی تحریک کا آغاز اردو ادب میں انہوں نے کیا تھا اور آج پاکستان و ہندوستان میں نثری نظم لکھنے والے اکثر شہروں میں پائے جاتے ہیں مگر یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ نثری نظم کو بہ طور شعری صنف تسلیم کر لیا گیا لیکن قمر جمیل کو اس شہرت کا عشر عشیر حصہ بھی نہ ملا جو آزاد نظم کو متعارف کرانے پر میرا جی اور ن م راشد کے تذکرے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ؟ قمر جمیل کی بے نیازی‘ شہرت سے‘ چاہے جانے اور خود کو منوانے سے۔
ایک سیلابی کیفیت جس کا مشاہدہ ان آنکھوں نے ان کی ذات میں مسلسل کیا اور جس میں بہت ہوئے نوجوان شعرا اور شاعرات کو دیکھا‘ شبہ کچھ ایسا ہے کہ اسی سیلابی کیفیت سے تاعمر انہوں نے اپنے لیے لذت کشید کی‘ اپنا اطمینان اسی میں ڈھونڈا‘ نوجوان شعرا اور شاعرات کی فنی اور تخلیقی صلاحیتوںؓ کوایک نئے ڈھنگ پر‘ ایک نئی راہ پر ڈالنے میں عمر ساری بتا دی۔ افسوس کہ اس میں اکثر کھوٹے سکے نکلے۔ وہ سب یا شاید ان میںسے اکثر قمر جمیل کے گرد اکٹژے ہوتے گئے کہ انہیں اپنی خام شعری صلاحیت کی ایسی مبالغہ آمیز تعریفیں سننے کو ملتی تھیں جس کا عالم شباب میں ہر ایک حریص ہوتا ہے۔ قمر جمیل ان کا دل بڑھانے‘ ان کو شاعری کا حریص بنانے کے لیے ایسا کچھ کرتے تھے‘ اپنی ذاتی کو‘ اپنی شاعری کو‘ پس پشت ڈال کر‘ انہیں بتاتے تھے کہ تم اپنا آپ شاعری کو دے دو تو بادلیر ملارمے اور فیض و راشد سب تمہارے آگے پیچھے ہیں۔ سادہ دل اور کسی قدر معصوم قمر جمیل فرائیڈ‘ یونگ اور اڈلر کو پڑھنے کے باوجود نہیں سمجھ سکے کہ ان تعریفوں کے نتیجے میں کیسے دعوے پیدا ہو جائیںگے‘ ان نوجوان شعرا اور شاعرات میں جو ناواقف ہیں اس حقیقت سے کہ شاعری بچوں کا اور بچپنے کا کھیل نہیں… میرؔ جیسا شاعر بھی کس کس طرح سے عمر کو کاٹ کر آخر آخر آن کے ریختہ کہتا ہے۔ تعریف کے دو بول سننے کے لیے شہد کی مکھیوں کی طرح قمر جمیل کے پھول جیسے نازک اور معصوم دل سے چمٹ جانے والے یہ سارے Poetic talent ایک ایک کرکے مرجھاتے چلے گئے اور پھر ان کی بھیڑ آہستہ آہستہ قمر جمیل کے گرد سے چھٹتی چلی گئی۔
ایک دن قمر جمیل اکیلے بیئٹھے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ اپنی دبیز شیشوں والی عینک کے عقب سے اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ذہین عقابی نگاہوں سے بند دروازے کو خالی خالی دیکھتے تھے۔ کمرہ سگریٹ کے دھوئیں سے بھی محروم تھا۔ ہاں اس کمرے کو میں نے نوجوان شاعروں اور لکھنے والوں سے کبھی بھا ہوا پایا تھا۔ جب قمر جمیل کی بلند آہنگ آواز‘ خطابیہ لب و لہجہ‘ ادب کے بڑے بڑے مغربی اور مشرقی ناموں سے گونجتا تھا‘ شعری نظریات اور جدید تنقیدی اصولوں کے حوالے سے نثری نظم کو شاعری کی مستقل صنف ثابت کرنے کے لیے دلائل اور نظائر کے انبار لگاتے جاتے۔ قمر بھائی یا قمر جمیل… وہ سارے بار بار کے دیکھے ہوئے منظر نظروں میں تازہ تھے اور اب وہ تنہا رہ گئے تھے۔ انٹرویو میں عادات کے مطابق ہر ایک کے بارے میں ان کی رائے پوچھتا گیا۔ فیض‘ راشد یہاں تک کہ افتخار عارف۔ وہ اپنے مخصوص طنزیہ مگر جرأت مندی کے ساتھ اپنی رائے دیتے گئے۔ (جنہیں مصلحتاً اس ایڈیشن میں خارج کر دیا گیا ہے۔) آخر میں پوچھا ’’قمر جمیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘
خیال تھا کہ اپنی بابت کوئی دعویٰ آئے گا‘ کچھ اس قسم کا ’’اردو شاعری کو نثری نظم کی صنف عطا کرنے والا‘‘ ’’ایک زندہ و سچا نقاد‘‘ یا ’’نوجوان نسل کی شعری صلاحیت کو تخلیق کی نئی راہ دکھانے والا۔‘‘ لیکن اُدھر سے جو جواب آیا وہ ایسا ہی تھا جو جواب قمر جمیل کے علاوہ دینے کی جرأت کسی اور میں ہو نہیں سکتی۔ جواب یہ تھا’’ناکامی کا ایک مجسمہ جو ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چہرہ ان کا پرسکون اور مطمئن تھا۔ دوسروں کی کامیابیاں بیان کرنا اتنا گٹھن نہیں ہوتا جتنا اپنی ناکامی کا اعلان۔
انٹرویو چھپنے کے بہت بعد‘ کئی سال بعد ایک روز اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اب کے اپنی زنبیل میں استفسارات نثری نظم کی اس تحریک کی بات تھے جس کے وہ روح رواں رہے تھے۔ پچھلے انٹرویو میں انہیں نثری نظم سے بہت پُر امید پایا تھا‘ خود سے مایوس مگر اپنی تحریک سے خوش گمانی… یہ ملاقات پچھلی ملاقات سے بھی زیادہ دل گرفتہ کر دینے والی تھی‘ جب انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا ’’نثری نظم کی تحریک ناکام ہوچکی ہے۔‘‘
جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو شادی انہیں یاد نہ رہا تھا کہ نثری نظم کی صنف میں ثروت حسین‘ محمود کنور‘ افضال احمد سید‘ ذی شان ساحل‘ احمد جاوید‘ شوکت عابد‘ عذرا عباس‘ نسرین انجم بھٹی‘ زاہد ڈآر اور ان جیسے اچھے بھلے شعرا مسلسل نثری نظمیں لکھ کر اور چھپ کر خود کو منوا چکے تھے۔ نثری نظموں کے کتنے ہی میجموعے چھپ چکے تھے۔ اور وہ ادبی رسائل بھی نثری نظمیں چھاپنے لگے تھے جن میں اس صنف کی پہلے کبھی اشاعت شجر ممنوعہ تھی۔ تب ان کا جاری کیا ہوا رسالہ’’دریافت‘‘ بھی بند ہو چکا تھا یہاں تک کہ وہ جو سگریٹ سے سگریٹ جلاتے تھے‘ مجھے سگریٹ سلگاتے دیکھ کر وہ اٹھے اور کمرے سے باہر نکل کر لائونج میں ٹہلنے لگے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد قمر جمیل دنیا سے چلے گئے۔
وہ کیوں آئے تھے اس دنیا میں… انہیں اس دنیا سے کچھ لینا دینا تو تھا نہیں… وہ بے غرضی کی دولت لیے آئے تھے‘ جب تک جیے دوسروں کے لیے‘ ادب اور علم کے لیے جیے اور جب یہ بھی ان کے لیے بے معنی ہو گئے تو اور جی کر کیا کرتے؟
لیکن وہ جس نے بھیجا تھا انہیں اس دنیا میں‘ اس کے نزدیک بے غرضی سے اپنی زندگی کسی مقصد کے سپرد کر دینے کی جو قدروقیمت ہے‘ اس کا کوئی اندازہ کیا کرے کہ قدرت کی خاموش حکمت اور ایک پوشیدہ قانون جس سے یہ دنیا حرکت کرتی ہے‘ اس پر کب کسی کی نگاہ ہے۔
قمر جمیل نثری نظم کے حوالے سے پہچانے جائیں گے‘ آج نہیں تو مستقبل میں جب یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے گی کہ کتنے شاعرانہ تجربات و احساسات جو کسی وزن‘ بحر اور آہنگ میں پیش کرنے کی پابندی اور جبر کی وجہ سے اظہار نہیں پاتے‘ نثری نظم ہی میں ان کا شاعرانہ اظہار و ابلاغ ممکن ہے اور اس کو ماننے اور مان لینے میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا۔ جو جینئس یا نابغہ کہلاتے ہیں‘ اپنے زمانے سے آگے ہوتذے ہیں۔ عندلیب گلشن تا آفریدہ کا زمانہ بھی آیا ہی چاہتا ہے تب کوئی کہے نہ کہے میں ضرور کہوں گا کہ قمر جمیل کامیابی کا ایک ایسا مجسمہ ہے جو آخر آخر مکمل ہو گیا۔
قمر جمیل کے مذکورہ دونوں انٹرویو ترتیب وار ملاحظہ کیجیے۔ پہلا انٹرویو روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور دوسرا ’’نوائے وقت‘‘ کراچی کے ادبی صحفات کی زینت بنا۔
جمیل احمد کے ذہین اور غیر معمولی شعری صلاحیت رکھنے والے صاحبزادے قمرجمیل کا اصل نام قمر احمد فاروقی تھا‘ وہ 10 مئی 1927ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے‘آبائی وطن سکندر پور ضلع بلیا (اترپردیش) تھا۔ گریجویشن تک تعلیم پائی۔ آزادی کے بعد ہجرت کرکے کراچی آئے‘ ریڈیو پاکستان میں بہ حیثیت پروڈویسر طویل عرصے ملازمت 1958ء 1988ء) کے بعد ریٹائر ہوئے۔ اپنے پیچھے انہوں نے دو شعری مجموعے ’’خواب نما‘‘ اور ’’چہار خواب‘‘ جب کہ نثر میں انہوں نے ’’ہیگل کی جمالیات‘‘ اور ’’جدید ادب کی سرحدیں‘‘ (دو جلدیں) اور شیکسپیئر کا ڈراما ’’میکتھ‘‘ کو اردو کا جامہ پہنایا۔ 2 اگست 2000ء کو انہوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ اس دنیا سے جس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا مگر پھر بھی انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی صنف دی۔ نثری نظم۔
…٭…
(1)
طاہر مسعود: ایک محقق صاحب کا نثری نظم پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نثری نظم نے مردہ حالت میں جنم لیا تھا۔ نثری نظم کی تحریک کے بانی کی حیثیت سے کیا آپ اس موت کی تصدیق کرتے ہیں؟
قمر جمیل: مجھے یہ صاحب محقق سے زیادہ مزاحیہ مصنف معلوم ہوتے ہیں اور میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ محقق کو مردوں ہی کا حال زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ خدا زندوں کو محققوں سے محفوظ رکھے۔ ملاحظہ کیجیے کہ نثری نظم اردو زبان میں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور محقق صحب اسے مردہ بچہ سمجھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ زندہ شاعروں کو سمجھنا اور محسوس کرنا محققوں کا کام نہیں اور نہ ہی یہ ان کے بس کی بات ہے۔ نثری نظم ایک زندہ صنف سخن کی حیثیت سے پاسکتان میں سب کے سامنے آئی ہے۔ اسی قسم کی ایک اورمحققہیں ڈاکٹر وزیر آغا‘ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں مگر انسے متفق نہیں ہو سکتا۔ وہ تو نثری نظم کو مردہ بچہ بھی نہیں سمجھتے بلکہ اسے انشائے لطیف تصور کرتے ہیںیعنی مردہ بچہ نہیں بلکہ زندہ بے وقوف۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ انشائے لطیف اور انشایئے میں فرق کیسے ٹھہرائیں گے؟
طاہر مسعود: آپ نے فرمایا کہ نثری نظم ایک زندہ صنف سخن کی حیثیت سے سامنے آئی ہے‘ کیا ایسا کہنے کے لیے آپ کے پاس شواہد موجود ہیں؟
قمر جمیل: جب ہم کسی شاعری کو مردہ یا زندہ کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ شاعری ہمارے احساسات‘ خیالات اور جذبات کی عکاسی کرنے کی اہل ہے بلکہ عکاسی کر رہی ہے اور مصنف کے سچے اور زندہ احساسات سے اس نے جنم لیا ہے۔ شاعری اور اس کا قاری دو مختلف سروں پر ہوتے ہیں لیکن اگر ہم غور سے سیکھیں تو یہ پتا چلاتا ہے کہ ہمز ندہ شاعری اسے کہتے ہیں جسے ہم یعنی قاری اپنے احساسات کے مطابق پاتا ہے۔
طاہر مسعود: نثری نظم کی تحریک کو شروع ہوئے کم و بیش دس برس بیت چکے ہیں لیکن اب تک ادبی و تخلیقی سطح پر نثری نظم لکھنے والا ایک شخص بھی خود کو بہ حیثیت شاعر تسلیم نہیں کرا سکا۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجوہات ہیں؟
قمر جمیل: اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نثری نظم زیادہ تر نوجوانوں نے لکھی ہے۔ اور قومی و بین الاقوامی شناخت کے مرتبے تک پہنچنے میں نوجوانوں کی شاعری کو خاصا وقت لگ جائے گا۔ اب دورکیوں جائیے‘ نظیر اکبر ابادی تو بہت بڑا شاعر تھا‘ اسے باعزت مقام ملنے میں سو ڈیڑھ سو برس سے زیادہ عرصہ لگ گیا کیوں کہ اس کی شاعری عام شاعرانہ روش سے مکتلف تھی۔ نثری نظم تو عام روش سے بہت ہی مختلف ہے۔ پھر نثری نظموں میں داخلیت بہت زیادہ ہے‘ لاشعوری مضامین کا اظہار بھی کافی ہے‘ اجتماعی احساسات کم بہت ہی کم ہیں۔ سیاسی رجحانات کی عکاسی بھی نہیں ملتی۔ نثری نظمیں عام طرزِاسلوب سے ہٹ کر لکھی ہوئی ہیں اور اس میں بہت زیادہ انفرادی احساسات کا اظہار اور جمالیاتی قدروں کی تبدیلی اور نامانوس علامتیں بھی ہیں اس لیے نثری نظمیں اتنی جلدی پاپولر نہیں ہوسکتیں۔ دراصل نثری نظمیں پاپولر شاعری سے منحرف ہیں۔ یہ ذات کا گہرا اظہار کرنا چاہتی ہیں۔ صنعتی معاشرے میں جو ایک بے چین تنہا فرد ابھر رہا ہے اور ہمارے ہاں ہی نہیں سارے دنیا کے صنعتی ملکوں میں یہ سچ اپنا چہرہ دکھا رہا ہے۔ اس چہرے کو اتنی جلد مقبولیت تھوڑی حاصل ہوسکتی ہے۔ جلد مقبولیت جارج آر ویل کے ناول ’’اینمل فارم‘‘ کو حاصل ہوئی تھی لیکن نثری نظم بیسٹ سیلر ادب نہیں ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں نثری نظموں کو مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مزید کتنا عرصہ درکار ہے؟
قمر جمیل: اس کا انحصار آنے والے شاعروں کی صلاحیتوں پر ہے‘ مثلاً سینٹ جان پرس کی نظم ’’ہوائیں‘‘ والٹ وہٹ مین کی ’’گھاس کی پتیاں‘‘ یا پھر راں بو کی ’’جہنم کا موسم‘‘ نے قومی اور بین الاقوامی شہرت کو چھو لیا لیکن اس میں خاصا وقت لگا۔ پھر یہ سارے شاعر بڑے مرتبے کے شاعر تھے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اقبال کے بعد شاعروں کے چھوٹے ہونے کا سلسلہ رکتا ہی نہیں ہے۔ غزل میں بھی فراق کے بعد کچھ تھوڑا سا بھی بڑا شاعر نمودار نہیں ہوا‘ بڑا اور بہت بڑا شاعر تو دور کی بات ہے۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ نثری نظم اس عہد کی روح کی عکاسی کرسکتی ہے اور اس میں جلد ایسے شاعر سامنے آجائیں گے جو اسے بین الاقوامی معیار تک لے جائیں گے۔ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔
طاہر مسعود: کیا آپ کو نثری نظم لکھنے والے شاعروں میں کسی کے اندر سینٹ جان پرس یا راں بو جیسی شاعرانہ صلاحیت دکھائی دے رہی ہے؟
قمر جمیل: جی نہیں‘ فی الحال نہیں۔ البتہ اس وقت سب سے خوب صورت نثری نظمیں سارہ شگفتہ لکھ رہی ہیں۔
طاہر مسعود: کیا اردو کا کوئی جدید شاعر اردو کی کلاسیکی اور مغربی شاعری کے گہرے مطالعے اور فہم کے بغیر قومی یا بین الاقوامی معیار کی شاعری کر سکتا ہے؟
قمر جمیل: نثری نظم لکھنے کے لیے کلاسیکی یا مغربی شاعری کا مطالعہ کرنا قطعی ضروری نہیں ہے۔ صرف اپنی زبان سے اس کے امکانات سے واقف ہونا اور اظہار کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔ اس میں خود سارہ شگفتہ کی مثال ایسی ہے جس نے کلاسیکی اور مغربی شاعری کا کوئی مطالعہ نہیں کیا لیکن وہ اپنی ذات کے جہنم میں جل رہی ہے۔ اس کی زندگی میں کرب اور دکھ اتنے ہیں کہ اس کی برداشت سے باہر ہیں۔ کئی بار ذہنی ہسپتالوں سے الیکٹرک شاک لگا کر واپس آچکی ہے۔ اس کے ہوش و حواس کے قائم رہنے میں دوائوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اس نیم پاگل‘ نیم مجنوں لڑکی میں ایک جہنم روشن ہے۔ وہ اس جہنم کی آگ سے جنم لیتی ہے اور اس جہنم کی آگ میں اس کی شاعری زندہ رہتی ہے۔ وہ زندگی کی گہری گہری باتوں تک اپنے احساسات کی اشتعال انگیزی سے پہنچ جاتی ہے۔ معاشرے اور سماج سے بغاوت اس میں کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی ہے۔ اس کے زیادہ دن ہوش میں رہنے کے امکان بھی بہت کم ہیں۔ وہ ایک کلچرڈ‘ مہذب شاعری جو غزلوں کے روپ دھارتی ہے‘ نہیں کرسکتی۔
طاہر مسعود: سینئر شاعروں کو آپ سے شکوہ ہے کہ آپ نوجوان شعرا کی مبالغہ آمیز حد تک تعریفیں کرتے ہیں اور اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ چند نثری نظمیں لکھنے والے شاعر کو شیکسپیئر کا درجہ دے دیتے ہیں۔ کیا بات درست ہے؟
قمر جمیل: دراصل میں یورپ کے شاعروں کی شہرت سے کبھی اتنا متاثر نہیں ہوا‘ ہاں ان کی شعری صلاحیت سے مجھے یہ معلوم ہے کہ جب تہذیبیں عروج حاصل کرتی ہیں تو ان کے شعرا کے نام بھی دور دراز ملکوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم زوالِ مشرق کے بعد دوبارہ جنم لے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں‘ میں اپنے شاعروں کو خواہ وہ کلاسیکی شاعر ہوں یا نوجوان شاعر‘ یورپ کے مشہور شاعروں کے مقابلے میں صرف شہرت کی بنیاد پر پست تر نہیں سمجھتا۔ ہمارے شاعروں کی شہرت بھی ہمارے تہذیبی عروج سے وابستہ ہے۔ میں تو ان کے جوہر دیکھتا ہوں۔ ان نوجوان شاعروں کی ہمت افزائی کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سے لوگ تو صرف یورپ کے نام سے سٹپٹا جاتے ہیں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے شاعر یا فن کار کبھی یورپ کے برابر ہو سکتے ہیں۔
طاہر مسعود: ہمارے بعض ادیب مثلاً قرۃ العین حیدر یا فیض احمد فیض کو بین الاقوامی سطح پر ایک مسلمہ ادیب و شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ان کی برسہا برس کی محنت‘ غوروفکر‘ مطالعہ‘ تخلیقی صلاحیت پوشیدہ ہے۔ انہیں یہ مقام اچانک فوری طور پر یا کسی خاص صنف سخن کو اختیار کرنے سے حاصل نہیں ہوا ور پھر کیا کسی کی تعریف و تحسین ایک غیر شاعر کو شاعر بنا سکتی ہے؟
قمر جمیل: جب قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘ چھپا تو مجھے دو بزرگوں کے قول یاد ہیں۔ ایک تو ن۔م۔راشد صاحب جو خود کسی زمانے میں ایک باغی شاعر تھے ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں ریڈیو پاکستان سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’یہ کالج گرل کی تحریر ہے۔‘‘ اور پروفیسر احمد علی کا خیال تھا کہ اردو میں ایسی کتابیں نہیں چھپتیں جن پر وہ کسی قسم کا تبصرہ کرسکیں۔ ایک صاحب نے ان سے قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘ کا ذکر کیا تو پروفیسر موصوف نے فرمایا کہ میں اسی قسم کی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں میں تبصرے کا اہل نہیں سمجھتا۔ (اس کتاب میں شامل پروفیسر احمد علی رائے ’’آگ کا دریا‘‘ کے متعلق یہ نہیں ہے جو قمر جمیل نے ان سے منسوب کی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ پروفیسر صاحب نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہو۔) میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کے ادب پر اتنا سخت رویہ جائز نہیں۔ اس کے برخلاف میرا یہ خیال ہے کہ خالدہ حسین کی کہانیوں میں جتنی داخلیت ہے اردو کہانیوں میں بہت کم ملتی ہے اور اس کی کہانیاں کم سے کم انور سجاد کے ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور انیس ناگی کے ناول ’’دیوار کے پیچھے‘‘ سے بہت بہتر ہیں۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمایئے کہ نثری نظم کی تحریک ناکام کیوں ہو گئی؟
قمر جمیل: نثری نظم کی تحریک اپنا کام کر چکی ہے۔ نثری نظمیں یوں تو احمد ہمیش سے لے کر انور سجاد تک چار پانچ یا آٹھ نو شاعر تک لکھ چکے ہیں۔ ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا لیکن جب میں نے نثری نظمیں لکھیں اور نوجوان نسل نے اسے تحریک کی شکل دے دی۔ اس نوجوان نسل میں ذرا بڑی کے رئیس فروغ صاحب بھی شامل تھے۔ محمود کنور‘ ثروت حسین‘ احمد جاوید‘ آذر حفیظ‘ عبدالرشید‘ مبارک احمد‘ افضال احمد سید‘ انور سن رائے‘ ایوب خاور‘ اقبال فریدی‘ سارہ شگفتہ ا ور پھر افتخار جالب کے توسط سے نسرین انجم بھٹی‘ فہیم جوزی‘ اور شائستہ حبیب سب کے سب اس تحریک کو لے کر چلنے والوں میں تھے۔ پہلے مرحلے پر تو ہم نے اس کا نام نثری نظم متعین کر دیا۔ دوسری بات یہ کہ سارے ملک میں مباحثہ ہوا۔ یہ مباحثہ ہر جلسے میں‘ حلقہ اربابِ ذظق کی ہر نشست میں‘ کافی ہائوسوں میں‘ یونیورسٹی کے لان میں‘ کلاس روم میں ہوا اور اس کو ایک صنف سخن کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ نثری نظم کو فارم کی حیثیت سے قبول کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ ہمارے قومی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ جون ایلیا نے بھی عربی شاعری سے اس کی دلیلیں پیش کیں۔ؤ ضمیر علی بدایونی نے مغربی شاعروں کے حوالے سے ثبوت مبہم پہنچائے‘ پھر ملک کے ممتاز شاعر منیر نیازی نے اسے صنف سخن کی حیثیت سے قبول کیا۔ ن م راشد نے خود نثری نظمیں لکھ کر اس کا ثبوت دیا کہ وہ نثری نظم کو ایک زندہ صنف سخن سمجھتے ہیں۔ شروع میں ممتاز حسین نے اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں وہ بھی نثری نظم کی تائید میں آگئے۔ جمیل الدین عالی نے نثری نظم کو صنف سخن کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ سلیم احمد نے ’’الفوزالکبیر‘‘ کا حوالہ دیا اور اس کے پس منظر میں بتایا کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں لیکن خود نثری نظموں کو ’’نثریے‘‘ کہنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی نثری نظمیں جن میں شاعری نہ ہو‘ انہیں نثریے ہی کہنا چاہیے۔ سلیم احمد نے صحیح تجویز کیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا خیال تھا کہ چوں کہ نثری نظم میں قافیے‘ ردیف اور بحر نہیں ہوتی اس لیے نثری نظموں کا سیلاب آجائے گا۔ ان کا یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے۔ نثری نظموں سے زیادہ غزلوں کا سیلاب ہر رسالے کے دفتر سے ٹکراتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ردیف‘ قافیے اور بحر کی وجہ سے شاعرانہ دھوکا آسانی سے تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ نثری نظم میں ایس انہیں ہے۔ انیس ناگی صاحب نے بڑی دل چسپ بات کہی تھی کہ انہیں خواتین کی نثری نظمیں پسند نہیں ہیں۔ کل ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ امریکا میں نیگرو عورتوں کو چاندی کا سمجھا جاتا ہے‘ چاہے وہ سونے ہی کے کیوں نہ ہوں۔ یعنی وہاں لوگ عورتوں اور نیگروز پر بھروسا نہیں کرتے۔ میں نیگروز پر بھی بھروسا کرتا ہوں اور خواتین پر بھی۔ یعنی میرے خیال میں خواتین کی شاعری انیس ناگی کی نثری نظموں سے زیادہ بری نہیں ہے۔
طاہر مسعود: اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے نثری نظم کی تحریک کے فروغ و اشاعت میں زیادہ انحصار زبانی گفتگوئوں پر کیا اور اس کے لیے سنجیدہ علمی و تنقیدی مضامین لکھنے سے گریز کرتے رہے؟
قمر جمیل: اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میرے تعلقات ملک کے ممتاز رسائل کے مدیروں سے کبھی اچھے نہیں رہے۔ دوسری بات یہ کہ رسائل میں مضامین کوڑا کرکٹ کے انبار کی طرح چھپتے ہیں۔ اگر ہم ان رسالوں پر بھروسا کرتے تو ہماری شاعری اور ہماری ادبی تحریک بہت کم رفتار ہو جاتی۔ ہماری یہ تحریک زیادہ تر ہماری گفتگو اور شاعری کے نمونوں سے چلی۔ میری نثری نظموں کی کاپی تقریباً تمام شاعروںکے گھر پر رہی اور میری نظموں سے تقریباً سارے ہی نوجوان انسپائر ہوئے۔
میں ایک سچ بات کہنا چاہتا ہوں‘ مجھے اجازت دیجیے میں خدا کا ماننے والا ہوں اور میں پیغمبر آخرالزماںؐ پر یقین رکھتا ہوں۔ اوران کا ہر نقش قدم میرے لیے رہنمائی کا باعث ہے۔ جب میں نثری نظمیں لکھ رہا تھا اور ایک اظہار کے لیے بے چین تھا تو میری روح کو رہنمائی اپنے پیغمبرؐ کی داد ہی سے ملی ہے اور مجھ پر یہ اچانک منکشف ہوا کہ سرکار دو عالمؐ کے سامنے ان کے قریب بلکہ دور دور تک اشاعتی ذریعہ نہیں تھا۔ لیکن ان کا پیغام دلوں میں اترا اور کسی ابلاغ کے ذریعے کے بغیر ساری دنیا میں پہنچ گیا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے ابلاغ کے ذرائع پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے پیغمبرؐ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور ہر ادیب‘ نوجوان دانش ور کو اپنی سچے احساسات کا اظہار کرنا چاہیے۔ میری نثری نظمیں اور مضامین اس زمانے مین شاید کسی رسالے میں شائع ہوئے ہوں لیکن سچائی کی یہ تاثیر تھی کہ نوجوانوں نے یہ پیغام آگے بڑھا دیا۔
طاہر مسعود: علمی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ آپ لوگ نثری نظم می حمایت یا دفاع میں علمی نوعیت کے مضامین سے اس لیے گریز کرتے رہے کہ آپ کے گروپ کے بیش تر ادیب شاعر علمی پس منظر نہ ہونے کی وجہ سے اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے؟
قمر جمیل: جی ہاں! یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ میرے ساتھ جتنے لوگ تھے ان میں ضمیر علی بدایونی کے سوا کسی میں نثر میں مضمون لکھنے کی صلاحیت نہیںتھی۔ ایوب خاور اور انورسن رائے تھوڑا بہت مضمون لکھ سکتے تھے اس موضوع پر لکھنے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے وہ ان دونوں کے پاس نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ ضمیر علی بہت کم لکھتے ہیں۔ انہوں نے نثری نظم کے دفاع میں ایک مضمون لکھا جو حلقہ اربابِ ذوق کی نشست میں سنایا گیا لیکن یہ مضمون شاہئع نہیں ہوا۔ رئیس فروغ میری نگرانی میں مضمون لکھنا سیکھ رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ نثری نظم کی تحریک کا کم زور پہلو یہ تھا کہ اس میں ایسے نثر نگار نہیں تھے جو نثری نظم کی نظریاتی تکمیل کرسکتے۔ میں بھی اس کا بہت کم اہل ہوں لیکن تھوڑا بہت جو پڑھا لکھا تھا اور جو انسپریشن مجھے اپنی داخلیت سے ملتا تھا اسے بیان کرنے پر قادر ضرور تھا اور مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی جب میں نے اپنے بڑے نقادوں کی کتابوں کو کھنگالا اور دیکھاکہ حالی‘ شبلی اور مشرقی تہذیب کے سارے بڑے نقاد یہ سمجھتے تھے کہ شاعری کے لیے بحر ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مجھے ’’بوطیقا‘میں ارسطو کا یہ بیان ملا کہ شاعری بحر سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ ایک زمانے میں ایک صاحب نے انگریزی کے مشہور اخبار ’’ڈان‘‘میں اس وقت کے وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ نثری نظم لکھنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے کیوں کہ یہ ملک میں انارکی‘ فحاشی و عریانی پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں تھی۔ نثری نظم انسان کی گہری داخلی کیفیتوں کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس غیر عقلی تنظیم کا اظہار جو کبھی کبھی خوابوں میں رونما ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: آیئے ہم نثری نظم کے معاملے میں یہاں پر قارئین کے سپرد کرکے اردو تنقید کے مختلف مکاتب فکر کی طرف چلیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی دھرتی پوجا‘ افتخار جالب کی لسانی تشکیل‘ سمس الرحمن فاروقی کی جدیدیت‘ سلیم احمد کی کلاسیکیت اور آپ کی ادبی تصورات ان تمام ادبی مسلکوں میں بعد المشرقین ہے۔ یہ بتایئے کہ آپ سب اپنے تصورات میں ایک دوسرے سے کس طرح مختلف ہیں اور کیا ان تصورات میں کسی نکتۂ اتصال کا امکان موجود ہے؟
قمر جمیل: نکتۂ اتصال تو ناممکن ہے۔ یہ ساری جہتیں جدید ادب کے مختلف نقاط نظر سے پیدا ہوئی ہیں۔ میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کی تحریروں سے بہت زیادہ واقف نہیں ہوں اس لیے ان پر بہت زیادہ رائے نہیں دے سکتا۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں جدید رجحانات کو آگے بڑھایا ہے اور وہاں جدیدیت کے سب سے بڑے علم برداروں میں سمجھے جاتے ہیں۔ سلیم احمد صاحب ادب کو سماجی اور تہذیبی پس منظر میں دیکھتے ہیں اور ان کے ادبی خیالات پر عسکری صاحب کا بہت گہرا اثر ہے۔ ان کا مضمون ’’ادھوری جدیت‘‘ جدیدیت سے ان کی بے اطمینانی ظاہر کرتا ہے۔ وزیر آغا صاحب شاعری میں تہذیبی فضا کے ساتھ ساتھ نظموں کی ساخت پر زور دیتے ہیں اور زمینی عناصر کو بہت زیادہ اہم ٹھہراتے ہیں۔ افتخار جالب کی لسانی تسکیلات کے پس پردہ وٹگنسٹائن کے نظریۂ لسانیت کا ہاتھ ہے اور اس کے علاوہ گسٹارٹ نفسیات کا تعلق برطانیہ کے ان فلاسفروں سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری کی زبان اور بول چال کی زبان میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے۔ شاعری کی زبان اپنی ایک مخصوص ساخت رکھتی ہے۔ شاعری دراصل اسی ساخت کی پیداوار ہے اور گسٹارٹ نفسیات کی رُو سے ہم اشیا کا ادراک کُل کے ذریعے کرتے ہیں‘ جزو کے ذریعے نہیں۔ ان دو بنیادی نظریات سے افتخار جالب نے اپنی لسانی تشکیلات کا نظریہ مرتب کیا تھا اور اس نظریے کے مطابق انہوں نے اپنے شعری مجموعے ’’ماخذ‘‘ میں شاعری بھی پیش کی۔ پاکستان اور ہندوستان میں افتخار جالب کی لسانی تشکیلات کو رد کر دیا گیا اور افسوس کی بات یہ بھی ہے وٹگنسٹائن نے اپنی آخری تصانیف میں اپنے ابتدائی نظریے کی تردید کر دی تھی۔ اس پر افتخار جالب نے توجہ نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ وٹگنسٹائن کے بعد جو دوسرے عالمی شہرت رکھنے والے ماہرین لسانیات آئے‘ انہوں نے بھی شاعری اور زبان کے نظریے کی تردید کر دی۔ اس طرح افتخار جالب کا نظریہ نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ جہاںسے یہ آیا تھا‘ وہاں بھی رد کر دیا گیا۔ پھر افتخار جالب نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی اور یہ اعلان کیا کہ جدیدیت امریکی سامراجی سازش کا نتیجہ ہے اور پھر اس مضمون میں انہوں نے حبیب جالب کی شاعری کو ایک اعلیٰ شاعری کے نمونے کے طور پر قبول کیا۔ اس طرح عملاً اپنے نظریات کی تردید کے مرتکب ہوئے۔ بہرحال افتخار جالب کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک مغربی نظریے کو سنجیدگی سے اوڑھا‘ بچھایا اور آخر میں لپیٹ دیا۔ اس طرح ان کا نام ان لوگوں کی صفوں میں ضرور رہے گا جنہوں نے ادب میں سنجیدگی سے تجربے کیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے‘ میں اب بھی اپنے امریکا کی دریافت نہیں کر سکا ہوں لیکن مجھ میں مشرقی روایات سے اور تہذیب سے محبت کے باوجود مغربی عوام کا احترام باقی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ مغربی نظریات کو اپنے کلچر کی روشنی میں جذب کیا جائے۔ انجذاب کا یہ عمل اتناسطحی نہیں ہوتا جتنا ڈاکٹر وزیر آغا اور افتخار جالب سمجھتے ہیں۔
طاہر مسعود: مناسب ہوگا اگر یہاں پر حسن عسکر کا ذکر چھیڑا جائے۔ عسکری صاحب کی انتقال کے بعد ان کی شخصیت پہلے سے کہیں زیادہ متنازع بنتی جارہی ہے اور ان کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی شروع ہو چکی ہے۔ آپ اس محاذ آرائی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
قمر جمیل: عسکری صاحب کے ماننے اور نہ ماننے والے انتہا پسند نقاط نظر کا شکار ہیں‘ میں عسکری صاحب کو بہت مانتا ہوں اور دنیا کا یہ تنہا ادیب ہے جسے مین نے دو بار خواب میں دیکھا لیکن میں فراق صاحب کو عسکری سے بہت عظیم سجھتا ہوں۔ تنیقد میں بھی اور تخلیق میں بھی۔ فراق صاحب کی تنقید بہت گہری اور نازک ہوتی ہے۔ عسکری‘ فراق صاحب کے مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکے۔ عسکری صاحب کا شعری مذاق بھی بہت اچھا نہیں تھا۔ فکشن پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن فکشن میں بھی انہوںنے اپنے انفرادیTaste کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ لیکن جدید ادب اور جدید تنقید میں عسکری کا ممتاز مقام ہے۔ یہ مقام اتنا کمزور نہیں کہ فلسفے کا کوئی چھوٹا موٹا پروفیسر اسے دھکا دے سکے یا اسے ساقی فاروقی اپنی پھونکوں سے بجھا سکے۔ عسکری کااسلوب اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا اور ’’موبی ڈگ‘‘ کا ترجمہ بھی۔
طاہر مسعود: کہیں عسکری صاحب سوچی سمجھی ادبی سیاست بازی اور گروہ بندی کا شکار تو نہیں ہو رہے ہیں؟
قمر جمیل: جی ہاں اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ متضاد سیاسی رائے رکھنے والے لوگ عسکری کو اپنے درمیان لڑائی جھگڑے کی ہڈی نہ سمجھ لیں۔ بہرحال یہ صورت حال خوش گوار نہیں ہے۔
طاہر مسعود: شہر میں آئے دن کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد ہوتی رہتی ہے لیکن میںنے آج تک کسی ایسی تقریب مجیں آپ کو نہ شرکت کرتے نہ مضمون پڑھتے دیکھا‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
قمر جمیل: ایک بار مجھے ایک تقریب رونمائی میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس میں شریک ہونے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس قسم کی تقریبات شادی بیاہ کی تقریبات کی طرح بے معنی ہیں۔ جس طرح ان تقریبات میں سہرے پڑھے جاتے ہیں‘ کتابوں کی تقریب رونمائی میں تقریریں کی جاتی ہیں۔ ان تقریبات میں مجھے ادب کی بے حرمتی کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا۔ ایک صاحب صدر کو تو میں نے اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد یہ کہتے سنا کہ بھئی ’’بس یا اور کچھ کہوں؟‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ادب کی اس سے زیادہ بے حرمتی اور لفظوں کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کہیں کی جاتی۔
طاہر مسعود: ایک شاعر کے لیے تنہا رہنا کس حد تک ضروری ہے؟
قمر جمیل: میرے خیال میں جو شاعر تنہا نہیں رہ سکتا‘ وہ شاعر نہیں ہو سکتا۔ ایک فرانسیسی شاعر کا قول ہے کہ ’’شاعری کی دیوی ڈائننگ ٹیبل پر نہیں آتی۔‘‘
طاہر مسعود: شاعر تو بے شمار ہیں‘ شاعری کی دیوی کس شاعر کا انتخاب کرتی ہے اور کس کے پاس آتی ہے؟
قمر جمیل: بہت کم شاعروں کے پاس۔ کچھ لوگوں کے پاس اگر آئی بھی ہے تو اپنی چپلیں چھوڑ گئی ہے۔ دو چار ایسے شاسعر لاہور میں بھی ہیں اور کراچی میں بھی۔
(2)
طاہر مسعود: گفتتو کی ابتدا میں تہذیبی مسائل سے کرنا چاہوں گا۔ آج دنیا میں تہذیبی انتشار کا مسئلہ سب سے اہمیت رکھتا ہے۔ تہذیبی شکست و ریخت سے انسانی زندگی منتشر ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسی صورت حال ادب کے لیے بہت موزوں ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر ادیبوں کا کردار بڑی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ ایسا ادب تخلیق کریں جس میں اس تہذیبی انتشار کی عکاسی ہوتی ہو تاکہ لوگ اپنے اردگرد کے ماحول اور اس کے مسائل کا فہم حاصل کرسکیں۔
قمر جمیل: تہذیب اور خاص طور پر مغربی اور مشرقی تہذیب آپس میں متصادم اور پیکار سے دو چار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو سمجھنے کے اصول دونوں تہذیبوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مغربی تہذیب گزشتہ تین چار سو سال سے بہ قول سوروکن مادّی تہذیب ہے یہ ایک Sansate Culture ہے۔ اس ثقافت میں انسان کی حسّیت کو تقویت دی جاتی ہے یعنی وہ چیزیں جو اس کے لیے قابل قبول ہوں‘ اس تہذیب میں ان چیزوں کی بہت اہمیت ہے اور جو چیزیں خیالات کی حد تک عظمت کا درجہ رکھتی ہیں مثلاً وحدانیت کا تصور‘ وہ ان کا مسئلہ نہیں ہیں‘ چنانچہ آج مغرب مادّی اشیا کے اطراف چکر کاٹ رہا ہے۔ اس مادّی چکر کو سوروکن نے تین عناصر سے عبارت کیا اوّل Sensnte یعنی حسنی‘ دوم Idcntional یعنی خیالات اور Classical یعنی کلاسیکی۔
طاہر مسعود: گویا یہ حسّی کلچر کا زمانہ ہے اور اب تو مشرق میں بھی اس مادّی کلچر کو رواج دے دیا گیا ہے۔ مشرق بھی اب مغرب کے زیر اثر ہے۔
قمر جمیل: ہمارے پاس ابھی یہ کلچر پوری طرح نہیں آیاہے لیکن آرہا ہے۔
طاہر مسعود: شہروںمیں تو یہ تہذیب آچکی ہے۔ مادّہ پرستی کے رجحانات بڑھ گئے ہیں۔
قمر جمیل: مادّہ پرستی حسّی کلچر کی بنیاد ہے۔ مسلمانوں کے یہاں حسّی چیزوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ہمارے یہاں مرزا غالب کے بعد سے مادّہ پرستی شروع ہوئی اسی طرح سعادت حسن منٹو Sensate Culture کا آدمی ہے۔ اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس نے اس کلچر کی نمائمدگی کی جو ہمارے ہاں دبے پائوں داخل ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب میں جو تصادم ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کلچر Idcational ہے اور انگریزی تہذیب مکمل طور پر حسّی کلچر بن چکی ہے۔ مادّہ پرستی اور کلاسیکیت آپس میں حالت پیکار میں ہیں۔ تہذیب جیسے ہی حسّی بنتی ہے اس کی تمام چیزوں میں حسّیت پھیل جاتی ہے جس کے نتیجے میں روایتی اقدار کا مذاق اڑایا جانے لگتاہے۔ اس وقت پوری دنیا میں Ideational اور Sensate Culture میں جنگ ہو رہی ہے۔
طاہر مسعود: آپ کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مغربی تہذیب کو انسانی اقدار کے معیار سے فروتر پاتے ہیں لیکن عملاً دیکھا جائے تو مغرب کی اخلاقی اقدار اب بھی کئی اعتبار سے مشرقی ملکوں سے بہت بہتر ہیں مثلاً وہاں احترامِ آدمیت پایا جاتا ہے۔ جھوٹ‘ دھوکا دہی سے نفرتکی جاتی ہے۔ ایمان داری اور دیانت و امانت کا لحاظ پاس ہے۔
قمر جمیل: مغرب کا یہ تصور محض خوش گمانی پر مبنی ہے۔ وہاں اصل چیز مادّہ پرستی ہے۔ اصل اہمیت دولت کی ہے‘ اگر دولت نہیں ہے تو ایمان داری بھی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے جو تہذیبی مسائل ہیں کیا اس کی نمائندگی ہمارے ادب میں ہو رہی ہے؟
قمر جمیل: روحانی ادب ناکام ہو گیا ہے۔
طاہر مسعود: روحانی ادب سے آپ کی کیا مراد ہے؟
قمر جمیل: ایسی غزلیں جن میں تصوف کے مضامین بیان کیے جاتے تھے۔ اس کے برعکس منٹو اور عصمت چغتائی حسّی کلچر کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کے ہاں تصادم ہے مثلاً عصمت افسانے میں اور ن م راش شاعری میں۔ ن م راشد کے ہاں توخدا کے خلاف نظمیں ملتی ہیں۔
طاہر مسعود: نثری نظم کی تحریک بھی اسی رجحان کی مظہر تھی؟
قمر جمیل: جی ہاں یہ تحریک بھی روحانیت سے گریز اور مادّہ پرستی کی مظہر تھی۔
طاہر مسعود: اس تحریک کا بانی تو آپ کو سمجھا جاتا ہے کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کو اس تحریک کا خیال کیسے آیا؟
قمر جمیل: وہ اس طرح مجھے خیال آیا کہ یہ نظمیں اور غزلیں جو ہم لکھ رہے ہیں‘ اس کا علمی ادبی پس منظر ہمارے عہد کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ تو میں نے سوچا کہ ہمیں ایسی شاعری کرنی چاہیے کہ جو ہماری بداخلاقی کی عکاسی کرے۔ چنانچہ میں نے نظم ’’زہرہ فوتا‘‘ لکھی۔ غالب اور میرا جی نے ہمارے ادب میں جنس کو رواج دیا تھا‘ انہوں نے روحانیت کو خیرباد کہنے اور مادّہ پرستی کو رواج دینے کی کوشش کی تھی۔ فیض مادّہ پرستی کو کمیونزم کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ ان تینوں میں کوئی روحانیت کا علم بردار نہیں تھا اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے عہد کے سب سے نمایاں شاعر یہی لوگ ہیں۔ ماہر القادری کا مذاق اڑائیا جاتا تھا حالانکہ وہ نہایت سنجیدہ آدمی تھے مگر دنیا پلٹ گئی تھیاور اب راشد‘ فیض اور مرا جی مادّہ پرستی کے نمائندہ ہیں۔ جوش ملیح آبادی میں بغاوت تھی وہ تو خدا کے بھی باغی تھی۔ اب ان کے بعد جو نسل شاعری میں آئی وہ بھی کوئی سنجیدہ نسل نہیں ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں نثری نظم کا تجربہ ناکام رہا؟
قمر جمیل: ہاں میرے خیال میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ سب بچکانہ باتیں ہیں۔ اب میرا ذہن کسی اور سمت میں ہے۔ میں نثری نظم کو مفید نہیں سمجھتا اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ بھی نہیں نکلا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے طالب علم امتحان میں بیٹھیں اور امتحان دینے کے بجائے پرچے پھاڑ کر چلے آئیں۔
طاہر مسعود: آپ کی رائے میں کوئی بھی شاعری نثری نظم میں کامیاب نہیں ہوسکا؟
قمر جمیل:اب میں کیوں کہوں کہ کوئی نثری نظم کا شاعر مجھے اچھا نہیں لگتا کیوں کہ بنیاد تو میں نے ہی رکھی تھی لیکن سچی بات یہی ہے کہ کوئی شاعر نثری نظم میں اچھا نہیں آیا۔ سب انتشار کا شکار ہیں۔
طاہر مسعود: پھر پوچھنا چاہوں گا کیا کوئی ایک شاعر بھی نثری نظم میں کامیاب نہیں ہوا؟
قمر جمیل: جی ہاں اب تک کوئی کامیاب نہیں ہے۔ اگر کوئی کامیاب ہوئی ہے تو وہ عذرا عباس ہے جس کی نظم ’’نیند کی مسافتیں‘‘ ہے۔
طاہر مسعود: بہت سے شعرا نے جو روایتی غزلیں بہت اچھی لکھ رہے تھے انہوں نے آپ کے زیر اثر نثری نظمیں لکھیں مثلاً رسا چغتائی اور رئیس فروغ۔ یہ شعرا نثری نظم تو کیا لکھتے غزل سے بھی گئے۔
قمر جمیل: یہ روایت کا پروردہ ذہن تھا اس لیے وہ واپس چلے گئے۔ وہ غزل کے آدمی تھے غزل کے آدمی کونظم کی طرف دھکیل دیا اس لیے کامیابی نہیں ہوئی۔ اب تو نثری نظم کا گراف نیچے گر گیا ہے۔
طاہر مسعود: ادب کی موجودہ صورت ہال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
قمر جمیل: تہذیبی صورت حال کا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ مغرب اور مشرق کے درمیان کشمکش کی صورت حال ہے۔ افسانے لکھے جارہے ہیں لیکن ایک افسانہ بھی ایسا نہیں ہے جسے جدید کہا جاسکے۔
طاہر مسعود: تخلیق کے سوتے خشک کیوں ہو گئے ہیں؟
قمر جمیل: اپنے تہذیبی مرکز سے رابطہ ٹوٹ جائے تو سوتے خشک ہو جائیں گے۔ حسن عسکری صاحب کا ذہن بہت بڑا تھا۔ ان کی افسانہ نگاری اور ناول پر بڑی گہری نظر تھی۔ جو چیزیں انہوں نے لکھی ہیں‘ ان میں جو مقام اور یفیت ان کے ہاں ہے کسی اور کے ہاں نہیں ملے گی سوائے منٹو کے۔
طاہر مسعود: نئی نسل میں کون ہے؟ کس سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
قمر جمیل: نوجوان نسل میں تو مجھے کوئی نظر نہیں آتا۔
طاہر مسعود: ہمارے ملک میں جو ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں‘انہیں آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
قمر جمیل: ادبی سرگرمیاں ہیں کہاں؟ بس کتابوں کی تقریب رونمائی ہوتی ہے‘ وہاں لوگ جاتے ہیں۔ آج بھی مجھے ایک تقریب میں جانا تھا‘ نہیں جا سکا۔ عسکری نے لکھا تھا ادب جلسوں کے لیے نہیں ہوتاہے‘ ادب کاغذ پر ہوتا ہے اور یہ پڑھنے کے لیے ہوتا ہے مگر ادبی جلسوں میں دیکھیے کیا کیا فضول باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا کوئی حاصل نہیں ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے ایک ادبی رسالہ ’’دریافت‘‘ نکالا‘ بہت عمدہ رسالہ تھا بند کیوں ہو گیا؟
قمر جمیل: اپنی صحت کی خرابی کی وہ سے سارے رسالے ڈاک خانے سے بھیجنے پڑتے تھے۔ خطوط کا جواب دینا پڑتا تھا۔ میرے بچوں کو بھی اس سے دل چسپی نہیں تھی۔
طاہر مسعود: رسالے سے کوئی آمدنی ہوتی تھی؟
قمر جمیل: کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی۔
طاہر مسعود: کوئی خسارہ؟
قمر جمیل: نہ خسارہ نہ فائدہ۔
طاہر مسعود: مگر ادیبوں سے رسالے کے ذریعے رابطہ قائم تھا؟
قمر جمیل: ہاں رابطہ تو تھا۔
طاہر مسعود: اعزازی رسالے کتنی تعداد میں آپ بھیجتے تھے؟
قمر جمیل: ابتدا میں ایک ہزار رسالہ بعد میں پانچ سو اور ہر رسالے پر دس‘ پندرہ روپے کے ٹکٹ لگتے تھے۔
طاہر مسعود: اس سے خوشی ہوتی تھی؟
قمر جمیل: بہت زیادہ۔ بچوں کی طرح خوش ہوتا تھا۔
طاہر مسعود: کسی ادیب نے کبھی آپ کو لکھا کہ ہم آپ کا رسالہ خریدنا چاہتے ہیں؟
قمر جمیل: میں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ ادیب خلوص میں کہتے تھے کہ چندہ بھیجیں گے۔ بعض بھیجتے بھی تھے لیکن مجھے برا لگتا تھا۔
طاہر مسعود: آپ رسالے کو خود بھی بیچنا نہیں چاہتے تھے‘ مفت دینا چاہتے تھے؟
قمر جمیل: ہاں میں مفت دینا چاہتا تھا۔ میری سب سے بڑی شرط تھی کہ کم علم آدمی کے ہاتھ میں میرے رسالے کو نظر نہیں آنا چاہیے۔
طاہر مسعود: اگر کوئی کتب فروش آتا کہ قمر بھائی آپ اپنے رسالے کی سو کاپیاں دے دیجیے تو آپ کیا کرتے؟
قمر جمیل: کچھ رسالے لاہورکے بک سیلروں کو دیے مگر وہ بیچ کر پیسے کھا گئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں ایسے ادیب ہیں جنہیں رسالہ بھیجنا چاہیے لیکن جن کو ایسا سمجھتا تھا‘ انہیں بھیجتا تھا۔ کئی ادیبوں کو رسالہ نہیں بھیجتا تھا۔ گوپی چند نارنگ اور وارث علوی کو رسالہ بھیجتا تھا‘ جو انتہائی پڑھے لکھے ادیب ہیں۔
طاہر مسعود: اب میں آپ سے ایک سوال صاف صاف پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنی زندگی کے تیس سال ادب کو دیے آپ اگر اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پچھتاوا تو نہیں ہوتا کہ آپ نے اپنی زندگی کیاتنے برس خواہ مخواہ ضائع کر دیے؟
قمر جمیل: بھائی مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ ادب سے جو کچھ حاصل ہوا وہ کسی اور ذریعیسے ہو ہی نہیں سکتا تھا‘ جو کچھ ادب کے مطالعے کے بعد اب میں ہوں‘ میں نے فزکس یا ریاضی بھی پڑھی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن پھر بھی ہے۔ آج کل تو ادبکا مطالعہ بھی لوگ ڈھنگ سے نہیں کرتے اور جب گفتگو کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ فائر کر رہے ہیں۔ مغرب اور مشرق کی تہذیب کا مطالعہ ہونا چاہیے اور ہو سکے تو اسلام کا بھی۔ بہرحال مطالعہ کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔
طاہر مسعود: ایک ادیب کو کتنا پڑھنا چاہیے؟
قمر جمیل: ادیب بننے کے لیے۔ ادیب بننے کا عمل اور مطالعے کا عمل ساتھ ساتھ جارہی رہنا چاہیے۔ مطالعہ اگر وسیع نہیں ہوگا تو آپ کو معلوم ہی نہیں ہو سکی گا کہ ادب کا سفر کتنا آگے بڑھا ہے۔

حصہ