’’سمیرا!‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ میں دوبارہ یہاں نہیں آئوں گا‘‘۔
سمیرا ہنس پڑی، اور تاریک رات کا دامن اچانک مسرت کے اَن گنت ستاروں سے جگمگانے لگا۔ عاصم کو اپنے الفاظ کھوکھلے، بے معنی اور مضحکہ خیز محسوس ہونے لگے۔ وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے اور عاصم نے قدرے سنجیدہ ہوکر کہا ’’سمیرا تمہیں میری بات کا یقین نہیں آیا؟‘‘
’’کس بات کا؟‘‘
’’یہی کہ میں پھر یہاں نہیں آئوں گا‘‘۔
وہ بولی ’’نہیں، اگر آپ یہ بات ہزار بار دہرائیں تو بھی میں یقین نہیں کروں گی‘‘۔
’’کیوں…؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں! میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ آپ کسی کا دل نہیں دُکھا سکتے‘‘۔
’’لیکن اِس کا انجام کیا ہوگا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔
’’تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اوس و خزرج ایک دوسرے کے دشمن ہیں، اور ان کی دشمنی ہمارے درمیان آگ کے ایک پہاڑ کی طرح حائل رہے گی‘‘۔
’’اس وقت مجھے آگ کا پہاڑ دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ سمیرا نے دوبارہ ہنسنے کی کوشش کی لیکن ایک مغموم قہقہہ اُس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔
کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ بالآخر عاصم نے پوچھا ’’تم کیا سوچ رہی ہو سمیرا؟‘‘
اُس نے جواب دیا ’’میں یہ سوچ رہی ہوں کہ ہم نے دن کی روشنی میں ایک دوسرے کو نہیں دیکھا‘‘۔
’’تم جانتی ہو کہ دن کی روشنی میں ہم ایک دوسرے کو شاید کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ ہم نے پچھلی دفعہ چراغ کی روشنی میں ایک دوسرے کو دیکھ لیا تھا۔ ہماری رفاقت، تاریک رات کے مسافروں کی رفاقت ہے۔ اور تاریک رات میں بھٹکنے والے مسافر کبھی کبھی ایک دوسرے سے بچھڑ بھی جایا کرتے ہیں‘‘۔
سمیرا نے گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے کہا ’’کاش! ہم دو ستارے ہوتے اور ساری رات ایک دوسرے کو تکتے رہتے‘‘۔
’’تمہیں ستارے بہت پسند ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’میں ہمیشہ ستاروں کی طرف دیکھا کرتی ہوں۔ آپ کو معلوم ہے شام کے وقت مغرب سے ایک نہایت چمکدار ستارہ طلوع ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں! اُسے زہرہ کہتے ہیں‘‘۔
’’میں اُسے اپنا ستارہ سمجھتی ہوں‘‘۔
’’اور میں نے زہرہ کے بجائے اُس کا نام سمیرا رکھ دیا ہے۔‘‘
’’اور یہ ستارہ…‘‘ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’کچھ دنوں سے مجھے بھی بہت پسند ہے اور میں نے اس کا بھی ایک نام رکھ دیا ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے وہ؟‘‘
’’عاصم‘‘۔ سمیرا نے جواب دیا۔
وہ دیر تک باتیں کرتے رہے۔ بالآخر عاصم نے کہا ’’اب مجھے جانا چاہیے‘‘۔
وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ سمیرا نے کہا ’’عاصم یہ مہینہ بہت طویل تھا، اور اگلا مہینہ میرے لیے اس سے بھی زیادہ طویل ہوگا۔ تم آئو گے نا؟ لیکن تمہیں جواب دینے کی ضرورت نہیں، مجھے یقین ہے کہ تم آئو گے۔‘‘
’’میں ضرور آئوں گا‘‘۔
اور دوسرے مہینے عاصم نسبتاً زیادہ یقین اور خود اعتمادی کے ساتھ یہ ارادہ لے کر آیا تھا کہ سمیرا سے اُس کی یہ ملاقات آخری ہوگی، لیکن جب وہ ٹیلے کے دامن میں پہنچا تو سمیرا وہاں موجود نہ تھی۔ وہ دیر تک انتظار کرتا رہا۔ بالآخر مایوس ہوکر وہاں سے چل دیا۔ ایک صبر آزما انتظار کی کوفت کے باوجود وہ اپنے دل میں یہ اطمینان محسوس کررہا تھا کہ وہ ایک تلخ فریضہ ادا کرنے سے بچ گیا ہے۔ اگر سمیرا خود ہی یہ سمجھ گئی ہے کہ میں اُسے آلام و مصائب کے سوا کچھ نہیں دے سکتا تو اُس نے برا نہیں کیا۔ لیکن ٹیلے سے نیچے اُترتے وقت جب اُسے یہ خیال آیا کہ شاید وہ بیمار ہو یا کسی اور وجہ سے نہ آسکی ہو تو وہ اپنے دل میں ایک اضطراب سا محسوس کرنے لگا۔ کچھ دیر تذبذب اور پریشانی کی حالت میں کھڑے رہنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا چل دیا۔ لیکن تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اُسے کسی کی آواز سنائی دی ’’ٹھیریے!‘‘
وہ رُک گیا۔ سمیرا بھاگتی ہوئی آگے بڑھی اور ہانپتے ہوئے بولی ’’میرا خیال تھا کہ آپ جاچکے ہوں گے۔ آج نعمان کو بخار ہے اور ابا جان اُس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ابھی سوئے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا، لیکن میرے لیے گھر سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ اب بھی مجھے ڈر ہے کہ نعمان کہیں ابا جان کو جگا نہ دے۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد بے چین ہوکر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ اِس لیے میں جاتی ہوں لیکن اب میں ایک مہینے آپ کا انتظار نہیں کروں گی۔ نعمان کی علالت کی وجہ سے میں شاید دو تین دن گھر سے نہ نکل سکوں، اِس لیے آپ کو اگلے ہفتے آنا چاہیے۔ آپ آئیں گے نا؟‘‘
عاصم نے کہا ’’سمیرا میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ…‘‘
سمیرا نے جلدی سے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’جب آپ دوبارہ آئیں گے تو ہم جی بھر کر باتیں کرسکیں گے۔ اگلے ہفتے آج ہی کے دن آدھی رات کے وقت میں آپ کا انتظار کروں گی۔ اگر آپ اگلے ہفتے نہ آسکیں تو اس چاند کی چودھویں رات کو ضرور آئیں۔ بتائیے آپ کب آسکتے ہیں؟ آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘
عاصم نے کہا ’’بہت اچھا سمیرا، میں چودھویں رات کو یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن اگر میں نہ آسکوں تو تم برا تو نہ مانو گی؟‘‘
’’نہیں! میں یہ سمجھوں گی کہ آپ کسی مجبوری کے باعث نہیں آسکے لیکن میں اُس کے بعد ہر رات آپ کا انتظار کیا کروں گی۔ اگر مجھے نعمان کے متعلق اطمینان ہوتا تو میں آپ کو کل ہی یہاں آنے پر مجبور کرتی اب یہ چودہ دن مجھے چودہ مہینوں سے زیادہ طویل محسوس ہوں گے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’لیکن چاندنی رات میں ہمارے لیے یہ ٹیلا محفوظ نہیں ہوگا۔ اگر کوئی اس طرف آگیا تو ہمیں دور سے دیکھ لے گا‘‘۔
’’یہ جگہ بالکل اُجاڑ ہے۔ ہمارا گھر بستی کے آخری سرے پر ہے۔ رات کے وقت اِس طرف کوئی نہیں آتا۔ پھر بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ دیکھیے چاند کی روشنی میں ہمارا باغ زیادہ محفوظ ہوگا۔ میں اِدھر سے دائیں طرف باغ کے کونے میں آپ کا انتظار کروں گی۔ وہاں گھنے درختوں میں چاند کے سوا ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ اب میں جاتی ہوں‘‘۔
عاصم نے مضطرب سا ہو کر کہا ’’سمیرا ذرا ٹھہرو!‘‘
رہ رُک گئی تو عاصم نے ایک ثانیہ توقف کے بعد کہا ’’تم نے یہ کہا تھا کہ ہم ابھی تک ایک دوسرے کو دن کی روشنی میں نہیں دیکھ سکے۔ سنو! اگر کل طلوع آفتاب کے وقت تم اس ٹیلے کے دوسری طرف آسکو تو میں گھوڑے پر سوار ہر کر اِدھر سے گزرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’لیکن اگر آپ نہ آئے تو میں غروب آفتاب تک وہیں بیٹھی رہوں گی‘‘۔
’’میں ضرور آئوں گا‘‘۔
سمیرا وہاں سے چل پڑی۔ چند قدم اُٹھانے کے بعد رُکی اور ایک ثانیہ مڑ کر دیکھنے کے بعد بھاگتی ہوئی درختوں میں روپوش ہوگئی۔ عاصم کچھ دیر بے حس و حرکت کھڑا رہا اور پھر ایک لمبی سانس لینے کے بعد اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اُسے اِس بات کا احساس ضرور تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہ سکا۔ لیکن وہ کسی پریشانی یا اضطراب کی بجائے ایک طرف کا سکون اور اطمینان محسوس کررہا تھا۔ وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ مجھے اُس سے بات کرنا کا موقع نہیں ملا۔ اتنی مختصر سی ملاقات میں میں اُسے کس طرح تمام باتیں سمجھا سکتا تھا۔ اُس کے آنسو پونچھنے، تسلی دینے اور حال اور مستقبل کی ہولناکیوں کے متعلق اُسے اپنا ہم خیال بنانے کے لیے وقت کی ضرورت تھی۔ لیکن کیا یہ درست ہے کہ اگر آج مجھے اُس کے ساتھ اطمینان سے باتیں کرنے کا موقع مل جاتا تو ہماری یہ ملاقات آخری ہوتی؟‘‘
عاصم اپنے دل کی گہرائیوں میں اِس سوال کا جواب تلاش کررہا تھا اور اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک بے پناہ محبت کے سامنے اُص کے ذہنی حصار کی تمام بنیادیں مسمار ہورہی ہیں اور وہ ایک ایسی چیز سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے جو اُس کی روح کی گہرائیوں میں اُتر چکی ہے۔ اُس کا سکون و اطمینان پھر ایک بار اضطراب میں تبدیل ہورہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا ’’سمیرا، کاش! ہم ایک دوسرے کو نہ دیکھتے۔ کاش! تم عدی کی بیٹی یا میں سہیل کا بیٹا نہ ہوتا۔ میں تمہیں کیسے سمجھا سکوں گا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں ہیں۔ میں اپنے آپ کو بھی یہ کیسے سمجھا سکتا ہوں کہ میں نے جس راستے پر قدم اُٹھایا ہے وہ سمیرا کے گھر کی چاردیواری کے باہر ہی ختم ہوجاتا ہے اس سے آگے اس کی کوئی منزل نہیں۔ ہم کس قدر مجبور اور بے بس ہیں، ہم کتنے نادان اور بیوقوف ہیں۔ نہیں، نہیں، سمیرا مجھے ایک نہ ایک دن ہمت سے کام لینا پڑے گا۔ اگر اگلی ملاقات پر نہیں تو اُس سے اگلی ملاقات پر مجھے اپنے دل پر جبر کرکے تم سے یہ کہنا پڑے گا کہ ہم نے جو خواب دیکھے ہیں اُن کی کوئی تعبیر نہیں۔ ہم نے امیدوں کے جو محل تعمیر کیے ہیں اُن کی کوئی بنیاد نہیں۔ ہمارے مقدر میں محرومی اور بدنصیبی کے سوا کچھ نہیں، پھر ہم اُس دن کا انتظار کیوں کریں جب زمانے کے بے رحم ہاتھ ہمیں زبردستی ایک دوسرے سے جدا کردیں۔ ہم اپنے اپنے خاندانوں اور قبیلوں کو یہ موقع کیوں دیں کہ وہ تلواریں سونت کر ہمارے درمیان کھڑے ہوجائیں۔ ہم ایک تاریک اور خطرناک راستے پر اتنی دور کیوں چلے جائیں کہ ہمارے لیے مڑ کر دیکھنا بھی مشکل ہوجائے۔ سمیرا! میری سمیرا! مجھ سے وعدہ کرو کہ تم ہمت سے کام لو گی۔ تم آنسو نہیں بہائو گی۔ میں اپنے انجام سے نہیں ڈرتا۔ لیکن میں تہیں اُن راستوں پر نہیں لے جائوں گا جو کانٹوں سے بھرے ہیں۔ تم ایک عورت ہو اور تمہارے آلام و مصائب میرے لیے ناقابل برداشت ہوں گے۔
گھر میں اپنے بستر پر لیٹتے وقت عاصم کو صبح کی ملاقات کا وعدہ یاد آیا اور وہ دیر تک کروٹیں بدلتا رہا اور پھر اگلے دن طلوع آفتاب کے وقت عاصم نے ٹیلے کے قریب اپنا گھوڑا روکا اُسے اچانک یہ محسوس ہوا کہ اُس کی دنیا کی ساری دلفریبی رعنائی اور لکشی سمٹ کر سمیرا کے وجود میں آگئی ہے۔ وہ اُس کے سامنے چند لمحات سے زیادہ نہ رُک سکا لیکن یہ چند لمحات اُس کے شعور و احساس کی ساری وسعتوں کو اپنے آغوش میں لے چکے تھے۔
سمیرا کے چہرے پر اُمید کی روشنی، ہونٹوں پر زندگی کی مسکراہٹیں اور آنکھوں میں محبت کی التجائیں تھیں۔ اور اِس روشنی، ان مسکراہٹوں اور ان التجائوں کے سامنے اُسے اپنے ماضی کے آلام و مصائب، حال کی اُلجھنیں اور مستقبل کے خدشات بے حقیقت محسوس ہورہے تھے۔
انہوں نے دبی زبان سے ایک دوسرے کا نام لیا اور اُن کی خاموش دنیا نغموں سے لبریز ہوگئی۔
سمیرا نے کہا ’’عاصم! اب آپ چلے جائیں‘‘۔ اور اِس کے ساتھ ہی اُس کی خوبصورت آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھیں۔ عاصم نے ایسا محسوس کیا کہ کسی نے اُسے جھنجھوڑ کر خواب سے بیدار کردیا ہے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
باب۸
ایک دن سہ پہر کے وقت ہبیرہ اپنے مکان کے صحن میں، کھجور کے گھنے درختوں کے نیچے سورہا تھا اور سعاد اس سے چند قدم کے فاصلے پر بیٹھی اُون کات رہی تھی۔ عاصم صحن میں داخل ہوا اور سعاد نے اُسے دیکھتے ہی منہ پھیر کر یہ گیت گانا شروع کردیا۔
’’دشمن نے میرے عم زاد پر جادو کردیا ہے۔ اُس کے ہاتھ تلوار اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ اب ان روحوں کی پیاس کون بجھائے گا جو دشمن کے خون کے لیے تڑپ رہی ہیں‘‘۔
عاصم کچھ دیر غصے اور اضطراب کی حالت میں کھڑا رہا، بالآخر اُس نے کہا ’’سعاد! اگر تم نے میرے سامنے دوبارہ یہ گیت گانے کی کوشش کی تو میں تمہارا چرخا توڑ ڈالوں گا‘‘۔
سعاد نے بے پروائی سے جواب دیا ’’میرا چرخا توڑنے کے سوا آپ اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔ لیکن اس میں خون نہیں جو آپ کے باپ اور بھائیوں کی روحوں کی پیاس بجھا سکے‘‘۔
سعاد کا یہ طعنہ عاصم کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ اُسے بے حد عزیز تھی اور ہر معاملے میں اُس کی طرفداری کیا کرتی تھی۔ لیکن عمیر کی جان بچانے کے بعد وہ اپنے چچا اور دوسرے رشتے داروں کی طرح سعاد کی نظروں سے بھی گر چکا تھا۔ ابتدا میں وہ اُس سے یہ کہا کرتی تھی کہ میری سہیلیاں مجھے طعنہ دیتی ہیں کہ تہارا بھائی بزدل ہوگیا ہے لیکن جب اس قسم کی باتیں بے اثر ثابت ہوئیں تو اُس نے اپنے والدین کی تقلید میں اسے چڑانا شروع کردیا۔ سعاد کے اِس طرزِ عمل نے عاصم کے لیے گھر کی فضا کو بہت زیادہ مسموم بنادیا تھا۔ (جاری ہے)
اُس نے کہا ’’سعاد! تمہیں زیادہ دن اِس قسم کے گیت گانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میں یہاں سے جارہا ہوں‘‘۔
سعاد نے چونک کر اُص کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ کہاں جارہے ہیں‘‘۔
’’تمہیں اِس سے کیا؟‘‘
سعاد کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھی اُس کی طرف دیکھتی رہی اور اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔ بالآخر اُس نے کہا ’’بھائی جان! اگر آپ مجھ سے خفا ہوگئے ہیں تو میں کبھی ایسے گیت نہیں گائوں گی‘‘۔
عاصم نے قدرے نرم ہو کر کہا ’’میں تم سے خفا نہیں ہوں، لیکن کچھ عرصہ کے لیے میرا یہاں سے جانا ضروری ہے‘‘۔
سعاد نے کہا ’’نہیں، نہیں! ابا جان آپ کو اجازت نہیں دیں گے‘‘۔
ہبیرہ نے اچانک آنکھیں کھولیں اور اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ’’کیا بات ہے، عاصم! تم کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’میں شام جارہا ہوں‘‘۔
ہبیرہ نے مضطرب ہو کر کہا ’’تم گھر چھوڑ کر بھاگنا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں، میں تجارت کی نیت سے جارہا ہوں‘‘۔
’’لیکن تم جانتے ہو کہ ایرانی لشکر کی پیش قدمی کے باعث عرب کے تاجر اب شام کا رُخ نہیں کرتے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’مجھے پرسوں یہ اطلاع ملی تھی کہ قبیلہ غطفان کے تاجر جن کے ہمراہ میں نے یروشلم سے سفر کیا تھا، عنقریب دوبارہ شام جارہے ہیں۔ میں اُن کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ سردست ایرانیوں کی پیش قدمی سے دمشق اور یروشلم کو کوئی خطرہ نہیں۔ شمال کے شہروں میں سراسیمگی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں سے بعض خوشحال لوگ اپنا مال و متاع سمیٹ کر قسطنطنیہ اور اسکندریہ کا رُخ کررہے ہیں۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ وہاں بعض قیمتی اشیاء نہایت سستے داموں بک رہی ہیں۔ اگر آپ پچھلے نفع میں سے کچھ رقم دے سکیں تو میرا یہ سفر بھی بہت کامیاب ہوگا۔ اگر میں نے دمشق سے آگے جانے میں کوئی خطرہ محسوس کیا تو وہیں سے واپس آجائوں گا۔ اب تک دمشق اور شام کے شمالی علاقوں سے تاجروں کے کئی اور قافلے دمشق پہنچ چکے ہوں گے۔ اور وہاں کپڑا اور بھی سستا ہوگیا ہوگا۔ اگر مجھے اِس سفر سے کسی فائدے کی اُمید نہ ہو تو بھی کچھ عرصے میرا گھر سے دور رہنا ضروری ہے‘‘۔
ہبیرہ دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا۔ پھر اُس نے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں تمہارے حصے کی رقم کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔ وہ تم جب چاہو لے سکتے ہو لیکن مجھے تمہاری تجارت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اب مجھے لوگوں کا یہ طعنہ بھی سنا پڑے گا کہ میرا بھتیجا بنو خزرج کے کوف سے گھر چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ تم اگر چاہو تو اپنے حصے کا باغ بھی فروخت کرسکتے ہو‘‘۔
عاصم نے کہا ’’چچا جان! آپ کو معلوم ہے کہ میں لڑائی سے نہیں ڈرتا لیکن اوس اور خزرج کی لڑائی کا نتیجہ ہے، ہم دونوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس سے صرف یہودیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’یہ تمہارے خیالات نہیں ہوسکتے، یہ کسی کا جادو بول رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ جنگ میں تعداد اور اسلحہ کی برتری کے باعث خزرج کا پلہ بھاری رہا ہے۔ لیکن فتح کے باوجود دشمن کو کئی مہینے ہمارے سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس کے بعد دشمن نے اچانک تمہارے باپ کو قتل کردیا۔ اور ہمارے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ آئندہ لڑائی کے لیے پہل ہم کریں۔ جب تم شام سے تلواریں خریدنے گئے تھے تو خزرج نے ہمیں متعدد بار لڑائی کے لیے للکارا تھا۔ لیکن میں نے سمجھا بجھا کر اپنے قبیلے کے آدمیوں کا جوش ٹھنڈا کردیا تھا۔ میں انہیں یہ سمجھایا کرتا تھا کہ کچھ دن صبر و تحمل سے کام لو۔ تمہیں لڑائی کے لیے اچھی تلواروں کی ضرورت ہے اور عاصم تہارے لیے شام سے بہترین تلواریں لارہا ہے۔ تمہیں لڑائی میں ایک بہادر رہنما کی ضرورت ہے اور وہ میرے بھتیجے کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تمہیں اُس کا انتظار کرنا چاہیے۔ قبیلے کے جوان مجھ سے بار بار پوچھا کرتے تھے کہ عاصم کب آئے گا؟ ہمیں اپنے دشمنوں سے بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے کب تک سننے پڑیں گے؟ لیکن تم آئے تو تمہاری دنیا بدل چکی تھی۔ قبیلے کی عزت اور ناموس کا لحاظ تو درکنار، تمہاری نگاہ میں اپنے باپ کے خون کی بھی کوئی قیمت نہیں رہی۔ اب قبیلے کے لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ کاش! میں اس دن کے لیے زندہ نہ رہتا۔ لیکن مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں یہ سب عمیر یا عدی کے جادو کا اثر ہے۔ اور مجھے معلوم ہے کہ جب تک تم اپنی تلوار سے اُس کا خون نہیں بہاتے اس خطرناک جادو کا اثر زائل نہیں ہوگا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’لیکن چچا جان! میں پھر وہی سوال کرتا ہوں کہ اگر مجھ پر کسی کے جادو کا اثر ہے تو قبیلہ خزرج کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے بھی تو اڑھائی مہینے لڑائی کے لیے پہل کرنے کی جرأت نہیں کی‘‘۔
ہبیرہ نے جواب دیا ’’انہیں پہل کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ فاتح ہیں اور اپنے ہر مقتول کا قصاص لے چکے ہیں۔ پھر تمہارے طرزِ عمل سے انہیں یہ اطمینان بھی ہوچکا ہے کہ ہم نے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا ہے۔ لیکن وہ پہل کریں یا نہ کریں اب ہمارا قبیلہ دیر تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ میں اُن سے یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ دن اور ٹھہر جائو۔ ذرا میرے بھتیجے پر سے جادو کا اثر زائل ہوجائے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ ہمارے قبیلے کو پہل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یثرب کے یہودی ہم سے زیادہ دور اندیش ہیں وہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ ضرور کھڑا کردیں گے کہ اوس اور خزرج ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ ہمارے درمیان امن کے یہ اڑھائی مہینے اُن کے لیے کچھ کم تکلیف دہ نہیں تھے‘‘۔
ہبیرہ نے برہم ہو کر کہا ’’ہم ہر بات میں یہودیوں کا ذکر لے آتے ہیں۔ لیکن انہیں ملامت کرکے تم اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’چچا جان! کیا یہ درست نہیں کہ یہودی درپردہ اوس و خزرج کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ دونوں کو قرض دیتے ہیں تا کہ ہم لڑائی جاری رکھ سکیں؟ کیا انہوں نے مجھ پر عمیر کے قتل کا جھوٹا الزام نہیں لگایا تھا؟‘‘
ہبیرہ نے کہا ’’میں تمہیں یہودیوں کو ملامت کرنے سے منع نہیں کرتا لیکن تم نے ان باتوں سے یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ بنو خزرج ہمارے دوست بن گئے ہیں؟‘‘
’’بنو خزرج ہمارے دوست نہیں لیکن میں اُن سے زیادہ خطرناک دشمن کو دیکھ چکا ہوں۔ میں کسی ایسی لڑائی کے لیے تلوار نہیں اٹھا سکتا، جس سے صرف یہودیوں کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو‘‘۔
ہبیرہ نے سوال کیا ’’کیا جب ہمارے بچے بوڑھے اور جوان خزرج کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہوجائیں گے تو تم اُس وقت بھی تلوار اٹھانے میں پس و پیش کرو گے؟‘‘
’’معلوم نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ میں اُس وقت یہاں نہیں ہوں گا، اور مجھے یہودیوں کے چہروں پر خوشی مسکراہٹیں دیکھنے کی اذیت برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔
چچا! میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کیا اوس و خزرج دو بھائی نہ تھے؟ کیا ہمارا اور ان کا خون ایک نہیں‘‘
’’ہبیرہ نے غضب ناک ہو کر اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ’’تم بالکل پاگل ہوگئے ہو۔ کاش! میں تمہارے جادو کا علاج کرسکتا۔ تم جہاں چاہو، جاسکتے ہو۔ میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا۔ میں یہ سمجھوں گا کہ میرے بھائی کا بیٹا جس کی غیرت اور حمیت پر میں فخر کرسکتا تھا مرچکا ہے‘‘۔
ہبیرہ کی بیوی کمرے سے باہر نکلی اور آگے بڑھ کر بولی ’’کیا ہوا؟ آپ لڑ کیوں رہے ہیں؟ کیا جادو کا اثر ان باتوں سے زائل ہوجائے گا؟‘‘
ہبیرہ نے کوئی جواب نہ دیا اور اُس کی بیوی سعاد کے قریب بیٹھ گئی۔ قدرے توقف کے بعد اُس نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا ’’سالم نہیں آیا؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’وہ عباد کے ساتھ مویشی لے کر آرہا ہے۔ میں ذرا پہلے آگیا تھا‘‘۔
O
اچانک صحن سے باہر چند آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں اور یہ سب پریشان ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ ہبیرہ کی بیوی کا بھائی منذربن عقیل۔ اُس کے دو جوان بیٹے مسعود اور جابر اور اُن کے پیچھے قبیلے کے سات اور آدمی صحن میں داخل ہوئے۔
ہبیرہ پریشانی کی حالت میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور منذر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معلوم ہوتا ہے تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے‘‘۔
منذر نے جواب دیا ’’تمہیں عاصم نے کچھ نہیں بتایا؟ اس نے آج ایک اور معرکہ سر کیا ہے‘‘۔
ہبیرہ نے عاصم کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش کھڑا رہا۔ عاصم کی چچی نے منذر سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’بھائی جان! کیا ہوا؟‘‘
منذر نے جواب دیا ’’عدی کے لڑکوں نے ہماری چراہ گاہ پر حملہ کردیا تھا اور عاصم نے ہمارے خلاف اُن کی حمایت کی ہے‘‘۔
عاصم چلایا ’’یہ غلط ہے۔ اُن کی چند بکریاں اور اونٹ ہماری چراگاہ کے قریب آگئے تھے۔ مسعود اور جابر اُنہیں گھر کر چراگاہ کے اندر لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد عدی کے بیٹے اور نوکر پہنچ گئے اور میں نے اُن کے جانور ان کے حوالے کردئیے‘‘۔
منذر نے کہا ’’اور تمہیں میرے بیٹوں کے مقابلے میں اُن کی طرف داری کرتے ہوئے شرم نہ آئی؟‘‘
جابر بولا ’’عاصم بالکل جھوٹ کہتا ہے، ان کے جانور ہماری چراگاہ میں پہنچ چکے تھے اور ہم اُن پر قبضہ کرنے میں حق بجانب تھے۔ اُن کے نوکروں نے ہمیں دھمکیاں دیں اور شور مچا کر اپنے قبیلے کے آدمیوں کو جمع کرلیا۔ ہم اپنے ساتھیوں کو آوازیں دے رہے تھے کہ عاصم نے جانوروں کو ہانک کر اُن کی طرف بھیج دیا اور ہمیں ملامت کی‘‘۔
عاصم کا چہرہ غصے سے سُرخ ہورہا تھا۔ اُس نے کہا ’’جابر اگر تمہارے والد اور میرے چچا یہاں موجود نہ ہوتے تو تم مجھے جھوٹا کہنے کی جرأت نہ کرتے‘‘۔
منذر نے غضب ناک ہو کر کہا ’’تم میرے بیٹے کو مرعوب کرنے کی کوشش نہ کرو، اگر آج میں وہاں موجود ہوتا تو دیکھتا کہ عدی کے بیٹے کس طرح اپنے جانور کو چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ اور تمہیں ہمارے دشمنوں کی حمایت میں زبان کھولنے کی کیسے جرأت ہوتی ہے‘‘۔
عاصم نے حقارت آمیز لہجے میں جواب دیا ’’اگر آپ وہاں ہوتے تو ملاحظہ فرماتے کہ خزرج کے چند آدمیوں کو جمع ہوتے دیکھ کر آپ کے دونوں فرزند بھیڑوں کی طرح ممیا رہے تھے اور انہیں اس بات کا بھی احساس نہ تھا کہ ان کی آوازیں پہاڑ کے دوسری طرف باقی چرواہوں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ خزرج کے آدمیوں سے تکرار کرنے والے دوسرے تھے۔ ان جوانمبردوں کو تو اُن کے قریب جانے کا حوصلہ بھی نہ ہوا۔ یہ کم از کم سو قدم دور کھڑے تھے اور مسعود نے تو ایک اونٹ بھی پکڑ رکھا تھا تا کہ بھاگنے کی ضرورت پیش آئے تو اپنی ٹانگوں کے بجائے پرائی ٹانگوں سے کام لیا جاسکے‘‘۔
مسعود نے کہا ’’تم بکتے ہو۔ میں نے قبیلے کے دوسرے آدمیوں کو اطلاع دینے کے ارادے سے اونٹ پکڑا تھا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’لیکن تم نے ان کے جانور گھیرتے وقت یہ کیوں نہیں سوچا کہ جب ان کے آٹھ دس آدمی جمع ہوجائیں گے تو تمہیں ان کا سامنا کرنے کے بجائے دوسروں کی طرف بھاگنے کی ضرورت محسوس ہوگی، کیا یہ صحیح نہیں کہ اس وقت بھی وہاں ہمارے آدمیوں کی تعداد زیادہ تھی؟‘‘
’’لیکن تم ہمارے آدمیوں کو لڑائی سے منع کررہے تھے‘‘۔
’’ہاں! میں نہیں منع کررہا تھا، لیکن اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ لڑائی کے وقت دشمن کا پہلا وار تم روکو گے تو میں تمہیں مایوس نہ کرتا۔ کیا یہ درست نہیں کہ میری طرح عدی کے بیٹے بھی اپنے آدمیوں کو لڑائی سے باز رکھنے کی کوشش کررہے تھے؟
منذر نے دوسرے آدمیوں سے مخاطب ہو کر کہا ’’تم سن رہے ہو کہ عاصم نے دوسری مرتبہ دشمن کے سامنے اپنے قبیلے کو ذلیل کیا ہے‘‘۔
عاصم بولا ’’میں نے کسی دشمن کی حمایت نہیں کی، صرف اپنے قبیلے کو تمہارے بیٹوں کے شر سے بچانے کی کوشش کی ہے‘‘۔
منذر نے کہا ’’اگر تم ہبیرہ کے بھتیجے نہ ہوتے تو میں تمہیں دوبارہ زبان کھولنے کی مہلت نہ دیتا۔ اس وقت یہاں تمہاری لاش نظر آتی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’اگر آپ کی تلوار بھی آپ کی زبان کی طرح تیز ہوتی تو مجھے واقعی ڈرنا چاہیے تھا۔ لیکن گزشتہ لڑائی میں آپ کے سارے جوہر کھل چکے ہیں۔ آپ دشمن کو للکارنے والوں میں سب سے آگے لیکن لڑائی کے وقت سب سے پیچھے تھے۔ اور یہ سب لوگ گواہ ہیں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘۔
ہبیرہ کی بیوی چلائی۔ ’’عاصم! شرم کرو تم پاگل ہوگئے ہو۔ تم نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا‘‘۔
جابر غضب ناک ہو کر آگے بڑھا اور اُس نے عاصم کے منہ پر تھپڑ مارنے کی کوشش کی لیکن عاصم نے جلدی سے اُس کی کلائی پکڑ لی اور وہ اُس کے ہاتھ کی آہنی گرفت میں بے بس ہو کر رہ گیا۔ چشم زدن میں عاصم نے اُس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ سے لگادی اور پھر زور سے دھکا دے کر اس زمین پر گرادیا۔
منذر اور مسعود غضب ناک ہو کر آگے بڑھے لیکن ہبیرہ اُن کے بیچ میں آگیا اور چلایا۔
’’منذر! میری حالت پر رحم کرو۔ تمہیں معلوم ہے کہ عاصم کے حواس بجا نہیں اس پر جادو کا اثر ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب یہ میرے پاس نہیں رہے گا۔ میں شرمسار ہوں۔ مجھے معاف کردو‘‘۔
منذر نے حقارت سے عاصم کی طرف دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا صحن سے باہر نکل گیا۔ اُس کے بیٹے اُس کے پیچھے پیچھے ہولیے اور چند ثانیے بعد دوسرے لوگ بھی، کچھ کہے بغیر، وہاں سے چل دیئے۔ سعاد جواب تک سکتے کے عالم میں یہ ماجرا دیکھ رہی تھی، روتی ایک کمرے میں جا گھسی۔
ہبیرہ کی بیوی اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہو کر بولی ’’تمہارے بھتیجے نے میرے بھائی کی توہین کی ہے اب یا تو اسے گھر سے نکال دو یا میں یہاں نہیں رہوں گی‘‘۔
ہبیرہ کوئی جواب دیئے بغیر، نڈھال ہو کر، چٹائی پر بیٹھ گیا۔
عاصم نے کہا ’’چچی! میں آپ کو پریشان نہیں کروں گا۔ میں خود ہی یہاں سے جانے کا فیصلہ کرچکا ہوں‘‘۔
وہ کچھ کہے بغیر اپنے شوہر کے قریب بیٹھ گئی۔ عاصم کچھ دیر تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا، باہر کے دروازے کی طرف بڑھا۔
ہبیرہ نے پیچھے سے آواز دی ’’عاصم، ٹھہرو!‘‘
وہ رُکا اور مُڑ کر پیچھے دیکھنے لگا۔ ہبیرہ کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔ عاصم نے اپنے چچا کی آنکھوں میں ہمیشہ نفرت اور انتقام کے شعلے دیکھے تھے۔ اُس کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ ہبیرہ اُٹھ کر آگے بڑھا اور عاصم کا بازو پکرتے ہوئے بولا ’’سہیل کا بیٹا میرے گھر سے اس طرح نہیں جائے گا‘‘ اور یہ کہہ کر اُسے کھینچتا ہوا کمرے کے اندر لے گیا ’’میں تمہیں جانے سے نہیں روکتا۔ میں جانتا ہوں کہ تم مجبور اور بے بس ہو‘‘۔
عاصم نے کرب انگیز لہجے میں کہا ’’چچا! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو خوش نہ رکھ سکا‘‘۔
ہبیرہ نے آگے بڑھ کر کمرے کے ایک کونے میں پڑا ہوا صندوق کھولا اور اُس میں سے ایک تھیلی نکال کر عاصم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’یہ لو! یہ تمہارا مال ہے میں نے اس میں سے صرف شمعون کے قرضے کی رقم نکال کر علیحدہ رکھ لی تھی‘‘۔
عاصم نے کہا ’’نہیں، چچا! مجھے اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب میں نے تجارت کا ارادہ بدل دیا ہے‘‘۔
ہبیرہ نے تلخ ہو کر کہا ’’عاصم! یہ لے لو، مجھے اس سے زیادہ تکلیف دینے کی کوشش نہ کرو‘‘۔
عاصم نے بادل نخواستہ اُس کے ہاتھ سے تھیلی لے لی۔ لیکن پھر قدرے توقف کے بعد کہا ’’چچا جان! ابھی میں یہیں ہوں، یہ تھیلی آپ اپنے پاس رکھتے تو بہتر ہوتا، میں چند دن کسی دوست کے ہاں ٹھہروں گا اور جاتے وقت یہ لے جائوں گا‘‘۔
’’نہیں، نہیں! اب میں اسے ہاتھ نہیں لگائوں گا۔ اور تمہین کسی دوست کے ہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اب تمہیں میرے ساتھ چند دن قیام کرنا بھی گوارا نہیں تو میں کہیں چلا جائوں گا‘‘۔
ہبیرہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
سعاد ایک طرف دیوار سے ٹیک لگائے مغموم نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھ رہی تھی وہ جلدی سے آگے بڑھی اور بولی ’’لائیے! آپ کی امانت میں رکھ لیتی ہوں‘‘۔
عاصم نے کچھ کہے بغیر تھیلی اُس کے حوالے کردی۔ سعاد نے اُمڈتے آنسوئوں کے ساتھ کہا ’’آپ کو نہیں جانا چاہیے‘‘۔
عاصم نے دونوں ہاتھ اُس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’سعاد! اگر تم اس بات سے خوش ہوسکتی ہو تو میں چند دن اور تمہاری ماں کے طعنے برداشت کرلوں گا‘‘۔
لیکن آپ کو چند دن بعد بھی نہیں جانا چاہیے۔ آپ کو ہمیشہ یہاں رہنا چاہیے۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ امی آپ کو کچھ نہیں کہیں گی۔ اور میں کبھی وہ گیت نہیں گائوں گی… آپ کو یاد ہے جب میں چھوٹی تھی اور آپ کو کبھی غصہ آجاتا تھا تو آپ مجھے پیٹا کرتے تھے۔ اب بھی پیٹ لیجیے مجھے، میں اتنی بڑی تو نہیں ہوگئی‘‘۔
صفحہ124 تک
صفحہ124 سے133تک
عاصم نے سعاد کو چمٹا لیا اور پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ سعاد سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’جب آپ گھر میں ہوتے ہیں تو مجھے رات کے وقت بھی کسی چیز سے خوف نہیں آتا اور یہ اطمینان ہوتا ہے کہ جب ڈر لگے تو میں آپ کو آواز دے کر جگالوں گی، پھر ڈاکو، چور، جن اور بھوت سب بھاگ جائیں گے۔ لیکن جب آپ یہاں نہیں ہوں گے تو میں ہر چیز سے ڈرا کروں گی‘‘۔
’’لیکن تمہارے پاس سالم ہوگا۔ تمہارے ابا جان ہوں گے‘‘۔
’’نہیں، نہیں! مجھے آپ سب کی ضرورت ہے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’سعاد! میں تم سے صرف یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ تمہیں دیکھنے، کسی دن ضرور واپس آئوں گا۔ لیکن اب ہمارے خاندان کی بہتری اِسی میں ہے کہ میں یہاں سے چلا جائوں۔ تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ میں بہت جلد واپس آجائوں۔ کیا میں پچھلی مرتبہ تمہاری توقع سے پہلے واپس نہیں آگیا تھا؟‘‘
’’لیکن پچھلی دفعہ آپ خفا ہو کر تو نہیں گئے تھے‘‘۔
’’میں اب بھی خفا ہو کر نہیں جارہا۔ یہ ایک مجبوری ہے۔ کسی دن میں تمہیں یہ سمجھا سکوں گا کہ میرا گھر سے جانا کتنا ضروری تھا‘‘۔
سعاد نے صحن کی طرف جھانکتے ہوئے کہا ’’ابا جان باہر نکل گئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ وہ غصے میں کہیں چلے نہ جائیں‘‘۔
نہیں، سعاد! تم اطمینان رکھو میں انہیں ابھی منا کر واپس لے آتا ہوں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر باہر نکلا تو ہبیرہ مویشیوں کے چھپر کے قریب عباد سے باتیں کررہا تھا۔ عاصم کو آتا دیکھ کر اُس نے حقارت سے منہ پھیر لیا۔ اُس کے تیور دیکھ کر عاصم کچھ کہنے کی ہمت نہ کرسکا اور چپکے سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر تک اسے یہ بھی ہوش نہ تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ اُس کے کانوں میں اپنے چچا اور منذر کے تلخ الفاظ گونج رہے تھے۔ پھر اچانک اسے خیال آیا کہ آج چاند کی چودھویں تاریخ ہے اور اُس کی مغموم، اداس اور ویران دنیا سمیرا کی مسکراہٹوں سے لبریز ہوگئی۔
وہ آبادی سے باہر نکل گیا اور دیر تک اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ سورج نے اپنی ایک دن کی مسافت طے کی، شام کے دوڑتے ہوئے سائے زمین کی وسعتوں میں گم ہو کر رہ گئے، اور دھوئیں کی باریک لکیریں جو وادی میں پھیلے ہوئے مکانوں سے آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھیں شام کے دھندلکے میں جذب ہونے لگیں۔ پھر یثرب کے نخلستانوں اور پہاڑوں پر مشرق سے اُبھرتے ہوئے چاند کی دلکش روشنی پھیلنے لگی۔
عاصم کو آدھی رات کا انتظار تھا۔ وہ بے چینی کی حالت میں اُٹھتا اور کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد پھر کسی پتھر پر بیٹھ جاتا۔ بالآخر وہ عدی کے باغ کی طرف چل دیا۔
باب9
سمیرا وہاں نہ تھی اور عاصم اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد کھجوروں کے درمیان ایک خالی جگہ بیٹھ گیا۔ چودھویں رات کی چاندنی نخلستان میں ایک دلفریب سماں پیدا کررہی تھی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وہ اٹھا اور بے چینی کی حالت میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ گزشتہ دن بھر کے واقعات سے اُس کی روح مضمحل ہوچکی تھی اور وہ کئی گھنٹے ایک اذیت ناک کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد یہاں پہنچا تھا۔ وہ یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ سمیرا سے یہ اُس کی آخری ملاقات ہوگی۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس ملاقات کے بعد اُس کی زندگی کی تلخیوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن اِس کے باوجود سمیرا کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کے تصور سے اُسے ایک تسکین سی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ یہاں نہ تھی اور عاصم سوچ رہا تھا شاید وہ نہ آسکے۔ نہیں، وہ ضرور آئے گی، میں وقت سے پہلے آگیا ہوں۔ ابھی آدھی رات نہیں ہوئی۔ لیکن اس ستارے کو نمودار ہوئے خاصی دیر ہوچکی ہے۔ وہ یقینا کسی مجبوری کے باعث رُک گئی ہے۔ اب وہ کل آئے گی اور مجھے آٹھ پہر اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کل بھی نہ آئے۔ کسی مجبوری کے سبب وہ کئی دن اور گھر سے نہ نکل سکے، اور میں اُسے یہ بھی نہ بتا سکوں کہ میں جارہا ہوں۔
عاصم کو اپنے دل کا بوجھ ناقابلِ برداشت محسوس ہونے لگا۔ پھر اچانک قدرت نے اپنی تمام رنگینیاں اُس کی نگاہوں کے سامنے بکھیر دیں، اور اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ سمیرا آرہی تھی۔
عاصم درختوں کے سائے سے نکلا اور چاند کی روشنی میں بازو پھیلا کر کھڑا ہوگیا۔ سمیرا آگے بڑھی، رُکی، جھجکی، ہچکچائی اور پھر بھاگ کے بے اختیار اُس سے لپٹ گئی۔
عاصم نے کہا ’’میرا خیال تھا کہ تم نہیں آئو گی۔ اور ہم جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گے‘‘۔
’’ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے‘‘۔ سمیرا نے جواب دیا۔
’’تم نے بہت دیر لگائی‘‘۔
ابا جان جاگ رہے تھے۔ پہلے قبیلے کے چند آدمی اُن کے پاس بیٹھے رہے، وہ چلے گئے تو پھر وہ عمیر اور عتبہ سے باتوں میں مصروف ہوگئے۔ اور اُن کی زیادہ باتیں آپ کے متعلق تھیں‘‘۔
’’میرے متعلق؟‘‘
’’ہاں، ابا جان بہت خوش تھے کہ آج آپ نے ہمارے قبیلوں میں لڑائی نہیں ہونے دی۔ آج جو لوگ ہمارے گھر آئے تھے، ابا جان نے اُن سے یہ وعدہ لیا ہے کہ وہ آئندہ کسی معاملے میں پہل نہیں کریں گے‘‘۔
عاصم نے سمیرا کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ چاند کی طرف کردیا اور بغور اُسے دیکھتے ہوئے بولا:
’’سمیرا! میں یہ لمحات کبھی نہیں بھولوں گا۔ یہ چہرہ ہمیشہ میری نگاہوں کے سامنے رہے گا۔ یہاں سے کوسوں دور میں یہ محسوس کیا کروں گا کہ تم اپنے نخلستان میں کھڑی ہو اور چاند تم پر اپنے نور کی بارش کررہا ہے‘‘۔
’’یہاں سے کوسوں دور! آپ کہیں جارہے ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
سمیرا دم بخود ہو کر اُس کی طرف دیکھنے لگی۔
عاصم زمین پر بیٹھ گیا اور اُس نے سمیرا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ’’سمیرا! بیٹھ جائو، میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں‘‘۔ وہ بیٹھ گئی۔
عاصم نے کہا ’’سمیرا میری طرف اِس طرح نہ دیکھو۔ تم جانتی ہو کہ تم سے جدا ہونا میری زندگی کی سب سے بڑی آزمائش ہے‘‘۔
سمیرا نے گھٹی ہوئی آواز میں پوچھا ’’آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’شام کی طرف!‘‘
’’میری وجہ سے؟‘‘
’’سمیرا! اُس نے کرب انگیز لہجے میں جواب دیا ’’تمہیں میری باتوں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ میں اپنا وطن چھوڑنے پر خوش ہوں۔ اگر مستقبل کی بھیانک تاریکیاں صرف میرے لیے ہوتیں یا میری غلطیوں کے نتائج صرف میری ذات تک محدود رہ سکتے تو میں بدترین حالات میں بھی یہیں ٹھیرنا پسند کرتا۔ لیکن میں تمہیں اپنی سیاہ بختی کا حصہ دار نہیں بنائوں گا‘‘۔
’’میں آپ کے ساتھ جائوں گی!‘‘ سمیرا نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’نہیں سمیرا! تمہارے پائوں پھولوں کی سیج پر چلنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور میرے راستے میں انگاروں کے سوا کچھ نہیں۔ تم چاندنی راتوں میں مسکرانے کے لیے پیدا ہوئی ہو اور میرے ساتھ تمہیں ہولناک تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔ یثرب کی زمین مجھ پر تنگ ہوچکی ہے۔ اور یہاں سے جانے کے بعد میرا کوئی گھر اور کوئی وطن نہ ہوگا۔ تمہارے لیے یہاں سب کچھ ہے۔ میں تم سے اتنی بڑی قربانی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ جب تم ٹھنڈے دل سے یہ سوچو گی کہ تمہارے باپ اور بھائیوں پر کیا گزرے گی اور تمہارے خاندان اور قبیلے کے لوگ کیا کہیں گے تو تمہارے احساسات مختلف ہوں گے‘‘۔
وہ بولی ’’عاصم! اگر تمہیں صرف میرے مصائب کا خیال ہے تو میں اِسی وقت تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ تم کہاں جارہے ہو؟ میں تم سے راستے کی مصیبتوں اور دشواریوں کی شکایت نہیں کروں گی۔ مجھے آگ کے انگاروں کی آنچ محسوس نہیں ہوگی۔ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ تمہارے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکوں گی‘‘۔
سمیرا پُرامید ہو کر مسکرا رہی تھی اور ساتھ ہی اُس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
عاصم کا دل پھٹا جارہا تھا، اُس نے اپنی رہی سہی قوت بروئے کار لاتے ہوئے کہا ’’سمیرا! ممکن ہے تم یہ سب کچھ برداشت کرلو لیکن ایک بات تم برداشت نہیں کرسکو گی۔ تم یہ برداشت نہیں کرسکو گی کہ میرے قبیلے کا ہر بچہ اور بوڑھا تمہارے باپ اور بھائیوں کا مذاق اڑائے اور خود تمہارا قبیلہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک کرے کہ اُن کے لیے سر اٹھا کر چلنا مشکل ہوجائے۔ سمیرا اوس اور خزرج کی جنگ ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوچلے ہیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ تمہارے بھائی کی جان بچا کر میں نے اہلِ یثرب کے لیے کوئی اچھا کام نہیں کیا ہے۔ اب میں انہیں یہ احساس دلانا نہیں چاہتا کہ میں نے نیکی کے پردے میں تمہارے باپ اور بھائیوں سے بدترین انتقام لیا ہے، اگر ہم نے ہمت سے کام نہ لیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اوس اور خزرج پھر تلواریں نکال لیں گے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، سمیرا! تمہارے بغیر زندگی کا تصور مجھے ایک مذاق معلوم ہوتا ہے، لیکن کیا تم یہ پسند کرو گی کہ میری محبت اوس اور خزرج کے لیے ایک نئی تباہی کا باعث بن جائے؟ تم یہ برداشت کرلو گی کہ ہمارے خاندان ہماری وجہ سے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگیں؟‘‘
سمیرا جواب دینے کے بجائے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر سسکیاں لینے لگی۔ عاصم اٹھا اور کچھ دیر تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا۔ پھر اُس نے جھک کر پیار سے سمیرا کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’سمیرا! ہم شاید مدت تک ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں۔ حوصلے سے کام لو اور میرے لیے یہ لمحات اور زیادہ اذیت ناک بنانے کی کوشش نہ کرو۔ اگر میں اپنا دل چیر کر دکھا سکتا تو تمہیں یہ شکایت نہ ہوتی کہ میں خوشی سے جارہا ہوں‘‘۔
سمیرا اُٹھی اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی ’’مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں، لیکن آپ کو یہ بتانے کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہ تھی کہ آپ جارہے ہیں‘‘۔
عاصم نے کہا ’’مجھے معلوم تھا کہ یہ مرحلہ ہم دونوں کے لیے یکساں تکلیف دہ ہوگا۔ لیکن مجھے ڈر تھا کہ اگر میں تمہیں دیکھے بغیر چلا گیا تو تم شاید مجھے بے وفا سمجھ کر مجھ سے نفرت کرنے لگو۔ اور پردیس میں یہ بات میرے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی کہ میری سمیرا، جسے میں ہر سانس کے ساتھ یاد کرتا ہوں، مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ میں اِس اُمید پر باہر جارہا ہوں کہ جب واپس آئوں گا تو یثرب کے حالات بدل چکے ہوں گے۔ اوس اور خزرج کے پرانے زخم مندمل ہوچکے ہوں گے۔ اور پھر جب میں تمہارے باپ کے پائوں پر گر کے یہ کہوں گا کہ میں سمیرا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو وہ اسے ایک گالی نہیں سمجھیں گے‘‘۔
سمیرا نے پُرامید ہو کر کہا ’’آپ یہاں رہ کر حالات کی تبدیلی کا انتظار نہیں کرسکتے؟‘‘
’’نہیں، سمیرا! میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ یہ ہم دونوں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہوگی۔ یہ ناممکن ہے کہ میں یہاں رہوں اور تمہیں دیکھنے کی کوشش نہ کروں، اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ہماری محبت دیر تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہ سکے۔ پھر اپنے قبیلے سے میرے تعلقات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ میں اب یہاں نہیں رہ سکتا‘‘۔
سمیرا کے آنسو تھم چکے تھے اور وہ اپنے دل میں کرب و اضطرب کے بجائے ایک ہلکا سا سکون محسوس کررہی تھی۔ ایک ایسا سکون جو کسی زخم خوردہ سپاہی کو اپنے ہتھیار پھینکنے پر مجبور کردیتا ہے۔
عاصم نے اپنے دل میں ایک اطمینان محسوس کرتے ہوئے کہا ’’چلو! میں تمہیں گھر کے دروازے تک چھوڑ آتا ہوں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ اُس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں جواب دیا ’’آپ جائیے، میری فکر نہ کیجیے، میں اپنے گھر کا راستہ نہیں بھول سکتی۔ جائیے!‘‘
سمیرا کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو چھلکنے لگے۔ عاصم چند ثانیے بے حس و حرکت کھڑا رہا اور پھر اچانک وہاں سے چل دیا۔ چند قدم اُٹھانے کے بعد وہ رُکا اور مڑکر سمیرا کی طرف دیکھنے لگا۔ سمیرا نے جلدی سے منہ پھیر لیا۔ وہ رو رہی تھی۔ عاصم کو اُس کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں اور اُس کا دل پسا جارہا تھا۔
’’آپ جاتے کیوں نہیں؟‘‘ سمیرا نے جھنجھلا کر کہا۔ لیکن اُس کی آواز میں تلخی اور غصے سے زیادہ ایک بے بس کی التجائیں اور فریادیں تھیں، اور عاصم یہ محسوس کررہا تھا کہ اگر وہ چند لمحے اور یہاں ٹھیرا تو اُس کے عزائم کے تمام قلعے منہدم ہوجائیں گے۔ وہ دوبارہ مڑا لیکن پہلا قدم اٹھاتے ہی اُسے ایک بارعب آواز سنائی دی ’’ٹھیرو‘‘!
عاصم چونک کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دائیں طرف درختوں کی اوٹ سے کوئی نمودار ہوا اور عاصم نے جلدی سے اپنی تلوار نکال لی۔
’’عاصم، بھاگ جائو‘‘! سمیرا یہ کہہ کر آگے بڑھی اور عاصم کا بازو پکڑ کر اسے ایک طرف دھکیلنے لگی۔
’’عاصم کو بھاگنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ عدی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
سمیرا عاصم کو چھوڑ کر عدی کی طرف بڑھی اور اُس کا بازو پکڑ کر چلاّنے لگی ’’ابا جان! یہ بے قصور ہے۔ یہ یثرب چھوڑ کر کہیں جارہا ہے۔ یہ اس لیے جارہا ہے کہ اسے آپ کی عزت کا پاس تھا۔ اسے یہ گوارا نہ تھا کہ لوگ آپ کو طعنے دیں‘‘۔
عدی نے کہا ’’سمیرا! یہاں شور نہ مچائو، جائو! میں اس سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ عاصم حیران تھا کہ اُس کی آواز میں معمولی تلخی بھی نہ تھی۔
’’ابا جان! آپ انہیں کچھ نہ کہیں۔ یہ آپ کے دشمن نہیں ہیں‘‘۔
’’بیوقوف، تم خاموش رہو۔ میں خالی ہاتھ ہوں‘‘۔ عدی نے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور آگے بڑھ کر عاصم کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر عدی نے کہا ’’تم اپنی تلوار نیام میں ڈال سکتے ہو۔ تمہیں عقب سے کسی حملے کا خطرہ نہیں، میرے آدمی سو رہے ہیں‘‘۔
عاصم نے قدرے نادم ہو کر تلوار نیام میں کرلی۔
’’میں تمہاری باتیں سن چکا ہوں اور اب مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ میرے ساتھ آئو‘‘۔ عدی یہ کہہ کر مڑا۔ لیکن عاصم اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ عدی نے چند قدم اُٹھانے کے بعد مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور کہا ’’تم ایک بوڑھے آدمی سے ڈرتے ہو؟‘‘
عاصم کوئی جواب دیئے بغیر آگے بڑھا اور اُس کے ساتھ ہو لیا۔ سمیرا جو چند قدم کے فاصلے پر پریشانی کی حالت میں کھڑی تھی بھاگ کر درختوں میں غائب ہوگئی۔ عدی نخلستان عبور کرکے اپنے گھر کی دیوار کے سامنے سوکھی گھاس کے ایک ڈھیر کے قریب رُکا اور اُس نے تھوڑی سی گھاس اُٹھا کر زمین پر بچھاتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں، اس وقت اندر جا کر سونے والوں کو جگانا مناسب نہیں۔ تمہیں سردی تو محسوس نہیں ہوتی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے۔ عدی کا طرزِ عمل ہر آن عاصم کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ کررہا تھا۔
’’تم سمیرا کو کب سے جانتے ہو؟‘‘ عدی نے اُس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے پوچھا۔
عاصم نے جواب دیا ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میری کوئی بات آپ کو مطمئن نہیں کرسکے گی، لیکن اگر آپ کے دل میں سمیرا کے متعلق شبہات پیدا ہوگئے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اُس نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو آپ کے لیے شرمندگی کا باعث ہو‘‘۔
عدی بولا ’’تمہیں سمیرا کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اور تمہیں یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں نے کبھی اُس کی رکھوالی کی ضرورت محسوس کی ہے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ جب وہ دبے پائوں باہر نکلی تھی تو میں جاگ رہا تھا اور اُس کے کمرے کے دروازے کی چرچراہٹ نے مجھے اُٹھ کر صحن میں تکنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجھے صرف اِس بات سے تشویش تھی کہ صحن میں چند قدم رُک رُک کر چلنے کے بعد اُس نے بھاگنا شروع کردیا تھا۔ اگر میں دل پر جبر کرکے تمہاری باتیں نہ سنتا تو شاید ہماری یہ ملاقات اِس قدر خوشگوار نہ ہوتی۔ لیکن تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا تھا کہ تم کب سے ایک دوسرے کو جانتے ہو؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’میں نے اُسے پہلی مرتبہ اُس رات دیکھا تھا جب میں عمیر کو آپ کے گھر پہنچانے آیا تھا‘‘۔
’’اور اب تم یثرب چھوڑ کر جارہے ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’تم اِس لیے جارہے ہو کہ سمیرا میری بیٹی ہے اور تمہیں یہاں رہنے سے میرے خاندان کی رسوائی کا خطرہ ہے؟‘‘
’’ہاں! لیکن میرے جانے کی اور وجوہ بھی ہیں‘‘۔
’’وہ میں سب سن چکا ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس تمہاری مشکلات کا کوئی حل نہیں۔ لیکن فرض کرو اگر سمیرا میری بیٹی نہ ہوتی تو تم کیا کرتے؟‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ اگر سمیرا خزرج کے بجائے کسی اور قبیلے کی لڑکی ہوتی تو تمہارا طرزِ عمل کیا ہوتا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں، میں کسی کو بھی اپنے مصائب میں حصہ دار بنانا پسند نہ کرتا‘‘۔
’’اگر سمیرا کے باپ کو اپنے قبیلے کی ملامت کا خوف نہ ہوتا اور وہ خوشی سے اُسے تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتا تو؟‘‘
’’اگر یہ ممکن ہوتا تو میں سمیرا کے باپ کو سمجھاتا کہ اِس وقت میرا تنہا جانا ضروری ہے۔ لیکن میں جلد واپس آئوں گا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میں اپنا ارادہ تبدیل کردیتا۔ لیکن یہ ممکن نہیں مجھے سمیرا کے باپ کی مجبوریوں کا علم ہے‘‘۔
عدی کچھ دیر سر جھکائے ایک گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔ بالآخر اُس نے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں تمہیں اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ سنانا چاہتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ تمہارے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ آج سے کوئی سولہ سال پہلے میں تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ دمشق جارہا تھا۔ قبیلہ کنانہ کا ایک شخص، جس کا نام حارث تھا اس سفر میں میرے ساتھ تھا۔ ہم بہت جلد ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ جب ہم واپس پہنچے تو عکاظ کا میلہ شروع ہونے والا تھا اور یثرب سے کئی آدمی وہاں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ حارث نے چند دن میرے ہاں قیام کیا اور اس کے بعد ہم اپنے مال سے زیادہ نفع کمانے کے شوق میں قافلے کے ساتھ عکاظ کی طرف روانہ ہوگئے۔ تجارت کے علاوہ، عکاظ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے شام جانے سے قبل میری بیوی اُمید سے تھی اور میں اسے اُس کے والدین کے ہاں چھوڑ آیا تھا۔ میری بیوی کا خاندان یہاں سے پانچ منزل دور عکاظ کے راستے میں آباد تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتی دفعہ ایک دو دن کے لیے وہاں ٹھیروں گا اور پھر واپسی پر اپنے بال بچوں کو ساتھ لیتا آئوں گا۔