شعرو شاعری

653

عبدالحلیم شرر
تمنا ہے یہ آنکھوں کی ترا دیدار آ دیکھیں
کبھی روضہ ترا یا احمد مختار آ دیکھیں
شفا ہو جائے دم میں کشتۂ ہجر محمد کو
اگر وہ خواب میں بھی حالت بیمار آ دیکھیں
یہ دل تھا ان کا مسکن مت اجاڑ اس کو غم ہجراں
غضب آ جائے گا گر شاہ دیں مسمار آ دیکھیں
نہ کچھ مرنے کا غم ہو اور نہ کچھ شکوہ ہو فرقت کا
اگر حالت مری وہ سید ابرار آ دیکھیں
جو مداح نبی پر طعنہ زن ممتاز ہوتے ہیں
دکھائیں شعر اپنے اور مرے اشعار آ دیکھیں
…٭…
جون ایلیا
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
…٭…
عاطف جاوید عاطف
دِلِ بےتاب کو دھڑکن عنایت کیوں نہیں کرتے
محبت ہے تو پھر کھُل کے وضاحت کیوں نہیں کرتے
بڑا ہے شوق جھیلوں پر تمہیں جگنو پکڑنے کا
وہ آنکھیں خوبصورت ہیں سیاحت کیوں نہیں کرتے
کہاں ہے اب وہ گلیوں میں کھلونے بانٹنے والا
ہمارے دور کے بچے شرارت کیوں نہیں کرتے
دلوں میں نفرتیں بھر کے کدھر سے یار لاتے ہیں
مجھے لوگوں پہ حیرت ہے محبت کیوں نہیں کرتے
سکونِ قلب کی کیونکر دعا کرتے نہیں آکر
مریضِ مرضٍ وحشت کی عیادت کیوں نہیں کرتے
تمہاری سُرخ آنکھیں یہ بتاتی ہیں اناڑی ہو
الم میں مسکرانے کی ریاضت کیوں نہیں کرتے
…٭…
واصف علی واصف
جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے
تو خون کا طالب تھا تری پیاس بجھی ہے؟
میں پاتا رہا نشوونما آب و ہوا سے
مجھ کو تو مرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دنیا سے گلہ کوئی نہ شکوہ ہے خدا سے
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے
دم بھر میں وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے واصف
تعمیر نکل جاتی ہے جو اپنی بِنا سے
…٭…
احمد ہمدانی
گرد کیسی ہے یہ دھواں سا کیا
جا رہا ہے وہ کارواں سا کیا
ہو گیا کوئی مہرباں سا کیا
رنج کا بندھ گیا سماں سا کیا
تک رہے ہیں خلا میں ہم کس کو
بن رہا ہے وہ اک نشاں سا کیا
سلسلہ کچھ اداسیوں کا بھی
جگمگاتا ہے کہکشاں سا کیا
ہم بھی اچھے ہیں درد بھی کم ہے
دل سے اٹھا مگر دھواں سا کیا
کیسے ٹوٹے سکوت شام فراق
ہر طرف شور بے اماں سا کیا
یہ محبت ہے یا ہے کوئی طلسم
پیچھا کرتا ہے اک گماں سا کیا
…٭…
احمدؔ رحمانی
ہیں بہرہ یاب بیعت پیر مغاں سے ہم
آزاد ہیں نشیب و فراز جہاں سے ہم
سارا جہاں خلاف ہے ہم سے جہاں سے ہم
دنیا نئی بسائیں گے جا کر یہاں سے ہم
خم خانہ الست سے پی کر فنا کا جام
آزاد ہو چکے ہیں غم جاوداں سے ہم
احمد ہے کس خطا پہ ہمیں حکم خامشی
کہنے بھی تو نہ پائے کچھ اپنی زباں سے ہم
…٭…
حفیظ جالندھری کے مقبول اشعار
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
…٭…
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
…٭…
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
…٭…
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
…٭…
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
…٭…
نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل
ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا
…٭…

پاپولر میرٹھی
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم
رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے منہ پہ دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا تو
…٭…

حفیظ جالندھری کے مقبول اشعار

ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
…٭…

اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…

ابھی منزل نہیں آئ،ابھی یہ جنگ جاری ہےوہ دنیابھی ہماری تھی،یہ دنیا بھی ہماری ہے !شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخرعزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرتعدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے !زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا !سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے !*ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر

حصہ