کھلا خط

254

میڈیا کے ذریعے اعلیٰ اقدار کی ترویج
(تنویر فاطمہ)
موجودہ دور میں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ آج کل کی نسل بڑوں کی عزت و تکریم نہیں کرتی، اعلیٰ اخلاق و کردار سے بے گانہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ مغربی تعلیم و تہذیب اور میڈیا ہے۔ آج کل کے ڈراموں نے رشتوں کا تقدس ہی ختم کردیا ہے، کسی ڈرامے میں بہن اپنے بہنوئی پر دولت کی وجہ سے فدا، تو کسی میں بہنوئی سالی پر فدا۔ کسی میں باس اپنے ملازم کی بیوی پر فدا، تو کسی ڈرامے میں لڑکی کا ایک ساتھ کئی لڑکوں سے عشق۔ عدت میں عورت کا دوسری عورت کے شوہر کے ساتھ گھومنا پھرنا… لڑکی یا لڑکا کسی کے بھی گھر بغیر کسی رشتے کے رہ سکتے ہیں۔
پاکستان میں رہنے والے سفید پوش اور عزت دار اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے ساتھ یہ ڈرامے نہیں دیکھ سکتے۔ ہر ٹک ٹاک پروگرام انتہائی شرم ناک، آوارہ لوفر لڑکوں اور لڑکیوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے چینلز اور پروگرامز کے خلاف عدلیہ فوری ایکشن لے۔ ہمارا مطالبہ اپنی قوم سے بھی ہے کہ ایسے ڈرامے بنانے والوں کے خلاف آواز اٹھائیں، ان کا بائیکاٹ کریں، کہیں آنے والا کل ہر گھر کی یہی کہانی نہ پیش کررہا ہو (اللہ نہ کرے)۔ ہمارے ملک کے نوجوان قابلیت، صلاحیت اور اعلیٰ کردار و گفتار کے بھی مالک ہیں، اس لیے ان کے مثبت پہلوئوں کو بھی دیکھا جائے۔ اسی طرح نکاح، عدت، طلاق اور رشتوں کے تقدس کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے، تاکہ دنیا دیکھے اور اسلام کی گرویدہ ہوجائے۔
پاکستان میں میڈیا کا منفی کردار
(سعیدہ عمر)
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ صدی میں تیز ترین ذرائع آمد و رفت اور ذرائع مواصلات نے فاصلوں کو مٹا کر رکھ دیا ہے، اسی طرح گزرتے وقت کے ساتھ میڈیا نے بھی ہماری زندگی میں اپنی جڑیں اتنی گہری کرلی ہیں کہ زندگی اس کے بغیر ادھوری سی لگتی ہے۔ میڈیا کے مفید پہلو سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ یہ دورِ حاصر میں ایک بڑی قوت بن چکا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں میڈیا کا منفی کردار زیادہ نمایاں ہے۔ سوائے چند ایک کے، سب ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہنود اور نصاریٰ کے نظریات کو فروغ دیا جارہا ہے۔یہ سب کیا ہے؟ دکھائے جانے والے ڈراموں میں اخلاق سے گری ہوئی گفتگو، مار پیٹ، عورتوں پر ہاتھ اٹھانا، چیخ چیخ کر ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھیرانا… ہماری تو یہ تہذیب نہیں۔ آئے دن ایوارڈ کے نام پر ایسے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے۔ خدارا آنکھیں کھولیں، ورنہ روزِ محشر اپنا انجام سوچ لیں۔ آج ضرورت اس امرکی ہے کہ عوام ایسے پروگراموں کا سختی سے بائیکاٹ کریں، ملک کے پڑھے لکھے، باشعور، اسلامی ذہن رکھنے والے سمجھ دار لوگ اس فیلڈ میں آئیں تاکہ اچھے اور معلوماتی پروگرام پیش کیے جاسکیں جو نظریۂ پاکستان اور اسلام سے مطابقت رکھتے ہوں، حیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں، پاکستان کی ترقی و خوش حالی میں معاون ہوں۔ بلاشبہ میڈیا کو باطل سے آزاد کرانا بھی جہاد ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس جہاد میں حصہ لینے والا اور اپنی آنے والے نسلوں کو صاف ستھرا ماحول دینے والا بنائے، آمین۔

حصہ