وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پشاور سے کراچی تک شدید بارش کی پیش گوئی ہوئی تو دل ڈر گیا۔ کراچی میں تو ہر چیزکا یونہی نظام ناقص اور کرپشن کی نذر ہوچکا ہے۔ فلائی اوورز ہوں یا انڈر پاس، نالوں کی صفائی کا انتظام ہو یا لوڈشیڈنگ… ہر جگہ کرپٹ مافیا اپنے پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔ بچوں کو بڑی حسرت تھی کہ ہر جگہ بارشیں ہورہی ہیں، کراچی کیوں سوکھا ہے! صرف پھوار پڑ کر کیوں رہ جاتی ہے! میں جب ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتی تو وہ جھنجھلا جاتے ’’آپ تو چاہتی ہی نہیں کہ ہمارا شہر بھی ہرا بھرا ہوجائے۔‘‘
مجھے کسی محب وطن کا قول یاد آجاتا تھا جو شاید میں نے کسی افسانے میں پڑھا تھا کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ پچیس سال امریکا میں ایک ماہر سرجن کی حیثیت سے خدمت کرکے اچانک سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستانی کیوں آگئے؟ تو انہوں نے بڑے دکھ سے کہا تھا ’’میری ساری خدمتوں کے صلے میں مجھے میرے باس نے جتا دیا کہ: تم پاکستانی شہری ہو، پاکستان تھرڈ ورلڈ کا پسماندہ ملک ہے، ایک مانگنے والے ملک کی ہماری نظروں میں کیا حیثیت ہوسکتی ہے! ہر وقت بھوک، ننگ، آفات کا رونا روتے ہوئے لوگ کشکول ہاتھ میں لیے نظر آتے ہیں، ایک کاسہ بھر جاتا ہے تو دوسرا پکڑ لیتے ہیں۔ یہ وہ بھکاری قوم ہے جسے مانگنے کی لت پڑ گئی ہے۔ یہ لوگ آفات کی دعائیں مانگتے ہیں، بارشوں اور سیلاب کی تمنا کرتے ہیں تاکہ بیرونِ ملک سے امداد ملے اور تمہارے حکمران اس امداد سے اپنے محلات کی تزئین و آرائش کرسکیں۔ اس ملک میں چند ڈالروں کے عوض وفاداری تبدیل ہوجاتی ہے‘ یہاں کے لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
میرے باس کا لہجہ اتنا تضحیک آمیز اور تحقیر سے بھرا ہوا تھا کہ مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں چند گھنٹوں کے بعد ہی اس اسپتال سے استعفیٰ دے کر آگیا۔ میں ایک فرد ہوکر اپنی عزتِ نفس کو مجروح ہوتے نہ دیکھ سکا اور حواس باختہ ہوکر وہاں سے اپنے ملک، اپنی سوہنی مٹی کی طرف لوٹ آیا، ان سب عزتوں اور روپے پیسے کے باوجود مجھے یہ احساس اذیت دے رہا تھا کہ اقوام عالم میں ہماری قوم کی کیا عزت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں۔‘‘
بس یہ جملے مجھے خوف ناک بارشوں اور سیلاب کے اندیشوں سے اس تمنا کو دبانے پر مجبور کرتے ہیں۔ پانی اتنا بھرا کہ جس کی نکاسی مشکل ہوگئی۔ بارش کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا۔ قدرت کے اپنے فیصلے ہیں، بارشوں نے کئی افراد کی جان لے لی، پھر دو دن تک بجلی نے اپنی شکل نہیں دکھائی۔ فریج میں رکھا ہوا مہمانوں کے لیے سامان جس میں گوشت، رول،سموسے، دہی بڑے شامل تھے، خراب ہوگیا۔ مگر بارش کی تمنا بچوںکو آسودہ کر گئی۔ انہیں کیا معلوم کہ غریبوں کا کیا نقصان ہوا؟ وہ تو اپنی آسودہ خواہشات کو پروان چڑھاتے ہیں اور اپنی خوشی میں خوش رہتے ہیں۔
آج کی نسل بے حس اور لاپروا ہے۔ گھروں میں لائٹ نہیں تو کوئی بات نہیں، جنریٹر اور یو پی ایس سے کام چلا لیا۔ غریبوں کا احساس ختم ہوگیا ہے۔ میرے آس پاس بھی غریبوں کی ایسی ہی بستیاں ہیں جن کے کئی کمانے والے کرنٹ لگنے سے ختم ہوگئے، بارش کے پانی کے ریلے میں بہہ گئے، گھر والے انتظار ہی کرتے رہے۔ روزانہ کی دیہاڑی والے کئی مزدور گھر واپس نہ لوٹے۔ شہرِ قائد میں بارش کے ساتھ سیکڑوں فیڈر ٹرپ کر گئے، شہر کا اسّی فیصد حصہ اندھیرے میں ڈوب گیا، کچی بستی کے سیکڑوں مکان منہدم ہوگئے۔ کے الیکٹرک کا نظام بیٹھ گیا۔ بلدیہ اور واٹر بورڈ کی مجرمانہ غفلت نے شہر کو ڈبو دیا۔ بارش کی شدت نے پروازوں کا شیڈول بھی متاثر کیا۔
میں سوچتی ہوں کہ تقریباً دس سال سے ہم کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا ہیں، کیا یہ ہمارے اعمال ہیں یا حکمرانوں کی غفلت کا نتیجہ؟ وجہ جو بھی ہو، اس کی بنیاد یہی بات ہے کہ احساس ختم ہوگیا ہے خاص طور سے حکمران طبقے میں… تو جان لیں کہ:
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے