اکبر الہٰ آبادی کے قطعات و رباعیات

6961

اکبر الٰہ آبادی کی سو سالہ برسی تقریبات منائی جارہی ہیں۔ اکبر کا شمار قومی اور ملّی شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ نے انگریزی تہذیب‘ انگریزی رسم و رواج‘ ہندوانہ رسومات کے خلاف آواز اٹھائی۔ آپ نے اردو‘ ہندی جھگڑا‘ سرسید اور علی گڑھ تحریک‘ گاندھی کے خلاف جب محسوس کیا‘ شاعری کی اور اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دو دھائیوں میں اکبر ایک مزاحمتی شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کا لہجہ طنزیہ ‘ مزاحیہ تھا۔ مزاح کے انداز میں وہ معاشرتی عیوب کو سامنے لاتے اور مسلمانوں میں جدید تعلیم و تہذیب کے جو بد اثرات پیدا ہو چلے تھے‘ اُس کی نشان دہی کرتے تھے۔ وہ معاشرے کی‘ مسلم معاشرہ کی‘ مشرقی اقدار کی اصلاح بھی چاہتے تھے اور حفاظت بھی۔ بزم اکبر نے تین جلدوں پر کلیات اکبر شائع کی ہے۔ دو جلدوں پر اکبر الٰہ آبادی کے قطعات و رباعیات بھی شائع ہوئے ہیں۔
ہم اکبر الٰہ آبادی کے ’’قطعات و رباعیات‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔
’’قطعات و رباعیات‘‘ اکبر الٰہ آبادی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ بزم اکبر کراچی کے زیر اہتمام اس کا پہلا حصہ 26 رجب 1371ہجری مطابق 22 اپریل 1952ء کو ناظم شعبہ تصنیف و تالیف ملا محمد واحدی کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ بزم اکبر کے صدر چوہدری نذیر احمد خان صاحب تھے اور جنرل سیکرٹری مشتاق احمد وجدی۔ پہلے تین حصوں پر کلیات اکبر الٰہ آبادی شائع کی بعد میں ’’قطعات و رباعیات‘‘ دو حصوں میں۔
’’قطعات و رباعیات‘‘ حضرت اختر انصاری اکبر آبادی نے منتخب کیے اور ترتیب و تدوین میاں احسان الحق نے کی۔ اس حوالے سے آپ ’’عذر تقبر خدمت‘‘ میں صفحہ 32,31 میں تحریر کرتے ہیں ’’جہاں تک قطعات و رباعیات اکبر کی تدوین و ترتیب کا تعلق ہے‘ اس میں اگرچہ منطقی تقسیم اور جامعیت و معنویت کا لحاظ نہیں رکھا جا سکا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ ناقص و نامکمل تدوین و ترتیب بھی ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی جوکسی خاص موقع پر یا مضمون پر حضرت اکبر کے خیالات اور ان کی جولانی ہائے فکر کو یکجا دیکھنا چاہتے ہیں یا جن کی خواہش ہے کہ کلام اکبر کی تدوین و اشاعت میں ایسی ترتیب ملحوظ رکھی جائے کہ کسی مطلوبہ قطعہ یا رباعی کو تلاش میں ان کو ورق گردانی کی زیادہ زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ میں نے قطعات و رباعیات اکبر کی تدوین و ترتیب اس طرح کی کہ اہم مطالب و مضامین کے اشتراک کے لحاظ سے ان کو ابواب پر تقسیم کردیا ہے۔‘‘ اس کتاب میں حاشیہ نگاری کے فرائض بھی میاں احسان الحق نے ملا واحدی کے حکم پر انجام دیے تاکہ نئی نسل کو معنی اور مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔
’’قعطات و رباعیات‘‘ جلدِ اوّل میں 26 ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ ان موضوعات کو دیکھ کر جہاں اکبر کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے وہاں ان کی بصیرت‘ سوچ و فکر‘ اسلامی حمیت اور قومی جذبات کا بھی احساس ہوتا ہے۔ شروع کے 9 ابواب کا تفصیلی مطالعہ کریں تو اکبر الٰہ آبادی کی اسلامی شعائر سے محبت‘ مسلمانوں کے دین سے بیگانگی‘ شیعہ سنی فرقہ واریت‘ اختلاف‘ دین سے دوری وغیرہ سب آپ کو ملے گی۔ اکبر مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات‘ عشقِ رسولؐ، عشق الٰہی چاہتے تھے۔
ان کے موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا باب حمد و دعا‘ نعت و منقبت پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب کا نام اسلامیات و عرفانیات ہے‘ تیسرا باب موجودہ دور میں جو اسلام سے بیگانگی ہوگئی ہے اس موضوع پر ہے‘ چوتھے باب میں دین و دانش کے حوالے سے قطعات و رباعیات جمع کر دی گئی ہیں‘ پانچویں باب میں نئی نسل میں جو لامذہبی ہو رہی ہے اس پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ چھٹے باب میں شیعہ سنی فرقہ واریت کی مذمت میں قطعات کہے گئے ہیں‘ ساتویں باب میں نئی نسل کو ہندو موعظمت کہے گئے‘ آٹھویں باب میں اخلاق و معاشرت اور نویں میں بصائر وکم اسلامی احکام بتلائے گئے۔ ان ابواب‘ ان قعطات و رباعیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرہ کے زوال کا بنیادی سبب اسلامی احکام سے دوری تھا‘ ہندوانہ رسومات کا داخلی اور جدید مغربی تہذیب نے مسلم معاشرہ و ثقافت کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ اکبر اسی مسلم معاشرے کی احیائے نو چاہتے تھے۔ دسویں باب سے ایسے موضوعات جمع کیے گئے جو اکبر کی شاعری کی پہچان ہے۔ مثلاً دسویں باب میں قومیات اور سیاست پر‘ گیارہویں میں طنزیات‘ بارہویں میں گاندھی جی اور ان کی تحریکوں پر اظہار خیال کیا گیا۔ تیرہویں باب میں تعلیم نسواں اور پردۂ نسواں پر اکبر کا نظریہ پیش کیا گیا۔ چودھویں باب میں نئی اور پرانی تہذیب کے فرق کو پیش کیا گیا۔ پندرہویں باب میں نئی اور پرانی تعلیم کے مابین فرق کو بیان کیا گیا۔
یہ سب موضوعات ایسے ہیں کہ ہر موضوع پر مقالہ نگاروں نے‘ نقادانِ فن نے تفصیلی مضامین و قطعات تحریر کیے۔ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر شاعری کو سولہویں باب میں جمع کیا گیا اور تقلید فرنگ میں مبتلا لوگوں کے حوالے سے شاعری سترہویں باب میں جمع کی گئی ہے۔ اٹھارہویں باب میں انگریز اور انگریزی حکومت کے خلاف شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ انیسویں باب میں ہندوانہ رسومات جو مسلم معاشرے میں داخل ہو رہی ہیں‘ ان کا ذکر ہے اور بیسویں باب میں اردو ہندی جھگڑوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا۔ ان قطعات و رباعیات سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی سیاسی بصیرت‘ مذہبی حمیت رکھنے والے بیدار مغز شاعر تھے جو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے‘ مسلمانوں کی اصلاح چاہتے تھے‘ ہندوانہ رسومات اور جدید مغربی تہذیب سے بچانا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی آزادی بھی چاہتے تھے‘ انگریز کی غلامی سے بھی بچانا چاہتے تھے اور ہندوانہ غلامی سے بھی۔ ان کی شاعری قطعات و رباعیات کئی سو ہیں اور دو جلدوں‘ 700 صفحات پر مشتمل چند مشہور قطعات و رباعیات کا انتخاب پیش کرتے ہیں۔
اس بزم سے سب کے سب اٹھے جاتے ہیں
تسکین کے جو تھے سبب اٹھے جاتے ہیں
اک قوتِ مذہبی عقیدوں سے تھی
وہ بھی تو دلوں اب اٹھے جاتے ہیں
٭
بنگلوں سے نماز اور وظیفہ رخصت
کالج سے امام ابو حنیفہ رخصت
صاحب سے سنی ہے اب قیامت کی خبر
قسطنطنیہ سے ہیں خلیفہ رخصت
٭
میں دیکھتا ہوں صلح و محبت اٹھ گئی
ہر دل میں ہر گروہ سے ہر خاندان سے
اس کا سبب نہیں ہے سوا اس کے اور کچھ
یعنی کہ اُٹھ گیا ہے خدا درمیان سے
٭
دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد
افکار سے رہتی ہے طبیعت ناشاد
دو ہی چیزیں ہیں بس محافظ دل کی
عقبیٰ کا تصور اور اللہ کی یاد
٭
بدلتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اُس نے برق کو اور بھاپ کو
برق گر جائے گی اک دن اور اُڑ جائے گی بھاپ
دیکھنا اکبرؔ بچائے رکھنا اپنے آپ کو
٭
لا مذہبی سے ہو نہیں سکتی فلاح قوم
ہرگز گزر سکیں گے نہ منزلوں سے آپ
کعبے سے بت نکال دیے تھے رسولؐ نے
اللہ کو نکال رہے ہیں دلوں سے آپ
٭
خاطر مضبوط دل توانا رکھو
امید اچھی خیال اچھا رکھو
ہو جائیں گی مشکلیں تمہاری آسان
اکبر اللہ پر بھروسا رکھو
٭
حاصل کرو علم‘ طبع کو تیز کرو
باتیں جو بری ہیں‘ اُن سے پرہیز کرو
قومی عزت نے نیکیوں سے اکبرؔ
اس میں کیا ہے نقل انگریز کرو
٭
تہذیب وہ ہے کہ رنگ مذہب بھی ہو
آزاد وہ ہے کہ جو مؤدب بھی ہو
تزئین وہ ہے کہ خاکساری بھی ہو ساتھ
اسپیچ وہ ہے کہ جس میں یارب بھی ہو
٭
قوم سے مے کی سفارش کیا کروں
نیک کو شیطان کر دیتی ہے یہ
ایک جوہر ہے فقط اس میں مفید
خودکشی آسان کر دیتی ہے یہ
٭
گرجا میں لاٹ صاحب مسجد میں شیخ صاحب
بدھو فلاں صوفی کے کمرے میں لڑ رہے ہیں
خاک اُڑ رہی ہے گھر میں ڈیوڑھی میں غل مچا ہے
مذہب کے ہیں مخالف بھائی سے لڑ رہے ہیں
٭
کیسی ترقی کیسا میل
ہم سے سن لو اس کا کھیل
جس کی لاٹھی اُس کی بھینس
فل‘ فعل‘ فعل فعل
٭
آسائش عمر کے لیے کافی ہے
بی بی راضی ہوں اور کلکٹر صاحب
٭
بس ہم ہیں خدا کے نیک بندے اکبرؔ
اُن کی گاتے ہیں اپنے گھر کھاتے ہیں
٭
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
٭
مزے کا جشن تھا کل اک شراب خانے میں
کسی نے خوب یہ گایا کسی ترانے میں
خدا کے فضل سے ہم نام کے مسلماں ہیں
وگرنہ چین سے رہتے نہ اس زمانے میں
٭
زر قوم سے لے کر ایسے سامان کرو
جس سے کہ تمہاری بزم بن جائے بہشت
حلوے مانڈے سے کام رکھ بھائی
مردہ دوزخ میں جائے یا پائے بہشت
٭
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
٭
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں و سبّا کی پری نہ ہوں
ذی علم و متقی ہوں جو ہوں اُن کے منتظم
استاد اچھے ہوں مگر استاد جی نہ ہوں
٭
ایسا شوق نہ کرنا اکبرؔ
گورے کو نہ بنانا سالا
بھائی رنگ یہی ہے اچھا
ہم بھی کالے یار بھی کالا
٭

حصہ