سلطان محمد فاتح یا سلطان محمد الثانی سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے جو 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ انہوں نے محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) فتح کر کے عیسائیوں کی بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ اس عظیم الشان فتح کے بعد انہوں نے اپنے خطابات میں قیصر کا اضافہ کیا۔اُنہیں سلطان محمد الفاتح یا سلطان الفاتح کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
سلطان محمد ثانی نے مسیحیوں کے اس عظیم مرکز اور بازنطینی سلطنت کے اس مستحکم قلعے کو فتح کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کر دکھایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فتح قسطنطنیہ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے فاتحین کو جنت کی بشارت دی تھی۔ قسطنطنیہ فتح کر کے سلطان محمد ثانی نے اسلام کی نامور ہستیوں میں ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت اختیار کر لی۔ قسطنطنیہ فتح ہوا اور زمانے نے دیکھا کہ بازنطینی سلطنت کے ہزار سالہ غرور اور تکبر کے بت اوندھے پڑے ہوئے ہیں اور قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مقبرے پر ہلالی پرچم کا سایہ ہے۔ قسطنطنیہ کی تسخیر عالمِ اسلام کے لیے مسلمانوں کی جرأت و شجاعت کی یادگار ہے۔
محمد فاتح نے اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرہ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 1458ء میں انہوں نے موریا کا بیشتر حصہ اور ایک سال بعد سربیا فتح کر لیا۔ 1461ء میں اماسرا اور اسفندیار عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے انہوں نے یونانی سلطنت طربزون کا خاتمہ کیا اور 1462ء میں رومانیہ، یائچی اور مدیلی بھی سلطنت میں شامل کرلیے۔
محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں پیدا ہوئے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ ہما خاتون تھیں۔ 11 سال کی عمر میں محمد ثانی کو اماسیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ اگست 1444ء میں مراد ثانی اناطولیہ میں امارت کرمان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد 12 سالہ محمد ثانی کے حق میں سلطنت سے دستبردار ہو گئے۔
اپنے پہلے دور بادشاہت کے دوران جنگ ورنا کے خدشات کے پیش نظر سلطان محمد نے اپنے والد مراد ثانی سے تخت سنبھالنے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے زاہدانہ زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے اس سے انکار کر دیا۔ جس پر محمد ثانی نے انہیں ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ ’’اگر آپ سلطان ہیں تو آئیے اور فوج کی کمان سنبھالیے لیکن اگر میں سلطان ہوں تو میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ میری فوج کی قیادت سنبھالیں۔‘‘ اس خط کے بعد سلطان مراد نے 1444ء میں جنگ ورنا میں عثمانی افواج کی قیادت کی۔
1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات پر سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور دو سال بعد ہی محاصرہ قسطنطنیہ میں کامیابی حاصل کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ 26 ربیع الاوّل 857ہجری بمطابق 6 اپریل 1453ء کو زبردست محاصرے کا آغاز کر دیا۔ مسلسل انتھک محنت اور جاں فشانی کے بعد 29 مئی 1453ء 20 جمادی الاوّل کو بلآخر قسطنطنیہ فتح یاب ہوا۔ اس فتح کے بعد سلطنت موریا کو فتح کیا اور بازنطینی حکومت کی یہ آخری نشانی بھی 1461ء میں ختم کردی۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کو دنیا بھر میں شان دار عظمت اورعزت عطا کی اور عثمانی پہلی بار ایک بھرپور قوت کے طور پر ابھرے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد محمد ثانی نے اپنے لیے ’’قیصر روم‘‘ کا خطاب چنا۔
فتح قسطنطنیہ کی خوش خبری ایک حدیث میں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی۔‘‘
قسطنطنیہ کی فتح نے محمد ثانی کو اپنی توجہ اناطولیہ پر مرکوز کرنے کی مہلت دی۔ محمد ثانی اناطولیہ میں قائم ترک ریاستوں اور شمال مشرقی اناطولیہ کی مسیحی سلطنت طربزون کا خاتمہ کرکے ایشیائے کوچک کو ایک سیاسی وحدت میں تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ اناطولیہ کو مکمل فتح کرنے کی صورت میں ہی وہ یورپ میں مزید فتوحات حاصل کر سکتا تھا۔
اناطولیہ اور قسطنطنیہ کی فتوحات اور اسے اپنا دارالحکومت قرار دینے کے بعد محمد ثانی نے یورپ میں پیش قدمی کی۔ وہ سابق رومی سلطنت کو سلطنتِ عثمانیہ کے پرچم تلے لانا چاہتا تھے جس کے لیے انہوں نے 1480ء میں اٹلی پر حملہ کیا جس کا مقصد روم پرحملہ کر کے 751ء کے بعد پہلی مرتبہ رومی سلطنت کو دوبارہ یکجا کرنا تھا اور پہلے مرحلے میں اس نے 1480ء میں اوٹرانٹو فتح کر لیا۔ لیکن 1443ء اور 1468ء کے بعد 1480ء میں تیسری مرتبہ البانیا میں سکندر بیگ کی بغاوت نے افواج کے رابطے کو منقطع کر دیا جس کی بہ دولت پوپ سکسٹس چہارم نے ایک زبردست فوج لے کر 1481ء میں اوٹرانٹو کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ دوسری جانب محمد ثانی نے بلقان کی تمام چھوٹی ریاستوں کو فتح کر لیا اور مشرقی یورپ میں بلغراد تک پہنچ گیا جہاں 1456ء میں بلغراد کا محاصرہ کیا لیکن جون ہونیاڈے کے خلاف کامیاب نہ ہو سکا۔ 1462ء میں اس کا افلاق کے شہزاد ولیڈ سوم ڈریکولا سے بھی تصادم ہوا۔ 1475ء میں عثمانیوں کو جنگ ویسلوئی میں مالدووا کے اسٹیفن اعظم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند شکستوں کے باوجود محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔
محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بھی سرپرست تھا۔ اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانش وروں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا اور مسلم سائنس دان اور ہنرمند بھی اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس نے قسطنطنیہ میں ایک جامعہ قائم کی اور فاتح مسجد سمیت کئی مساجد، نہریں اور طوپقپو سرا تعمیر کرایا۔
محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں اس نے مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جو قرون وسطیٰ کے یورپیوں کے لیے حیران کن تھا۔ محمد ثانی کے دور میں حکومت میں سلطنت کے مسیحیوں اور یہودیوں کے ساتھ مثالی سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں ہر قسم کی خود مختاری حاصل تھی۔
سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والے دوسرے پل کو انہی کے نام پر ’’سلطان محمد فاتح پل‘‘ کا نام دیا گیا۔
محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہے بلکہ انتظام سلطنت اور اپنی حیرت انگیز قابلیت کے باعث بھی شہرہ رکھتا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ کے لیے باقاعدہ قوانین مرتب کیے۔ محمد فاتح کے بعد اس کا بیٹا بایزید ثانی تخت نشین ہوا جس نے تیس سال حکومت کی۔