اللہ پاک کچھ لوگوں کو ایسی خاص صلاحیت اور انھیں ایسا مقام عطا فرماتا ہے کہ ہرکوئی اس پر عش عش کر اٹھتا ہے ۔ڈاکٹرپرویز محمود میں بھی اللہ پاک نے ایسی خاصیت عطا فرمائی تھی کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔چھوٹے اور بڑوں کا ادب لحاظ کرتے، غلط بات کسی کی بھی ہوبرداشت نہیں کرتے تھے اور منہ پر اس کا اظہار بھی کرتے ۔ان کی زندگی کااہم موڑ اس وقت آیا جب سندھ میڈیکل کالج کے ناظم شہاب بھائی کو پنجابی اسٹوڈنٹ کے چوہدری اشتیاق نے سرے عام فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا۔ڈاکٹر پرویز محمود پر شہاب بھائی کی شہادت کا بڑا اثر پڑا۔وہ اکثر کہتے تھے کہ شہاب بھائی ان سے والہانہ محبت کرتے اور بالکل چھوٹے بھائیوں کی طرح خیال رکھتے تھے ۔شہاب بھائی کی شہادت پر ڈاکٹر پرویز محمود پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنا معصوم اور شریف النفس آدمی کوبھی اس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔چشم فلک نے دیکھا کہ مظلوم شہاب بھائی جن کا میڈیکل میں آخری سال تھا اور انھیں لسانی جماعت نے بے ہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا تھاان کا خون رنگ لایا اور اشتیاق چوہدری مکافات عمل کا شکار ہوا اور وہ بھی فائرنگ کا نشانہ بنانا۔ڈاکٹر پرویز محمود،ڈاکٹر تبسم جعفری،ڈاکٹر عابد حسین کوناکردہ گناہ کے پاداش گرفتار کیا گیا اور ملیر جیل میں کئی برس قید رہنے کے بعد رہا کئے گئے۔
ڈاکٹر پرویز محمود جماعت اسلامی کے ساتھ انتہائی سنجیدہ تھے ان کے اس وقت کے امیر جماعت قاضی حسین احمد ،سید منور حسن اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے ساتھ خصوصی مراسم تعلقات تھے ۔کراچی کے موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمان کو تو وہ اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے اور ان کے ساتھ بڑی والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے ۔ تراویح وہ گلشن میں حافظ نعیم کے ہی پیچھے پڑھتے اور انھیں حافظ صاحب کی قرات میں بڑالطف آتا تھا ۔پولیس نے ایک مرتبہ پرویز محمود کی گرفتاری کیلئے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو پرویز بھائی کو نہ ملے تو پولیس نے ان کی تلاش میں حافظ نعیم الرحمان کے گھر پر چھاپہ مارا۔پرویز محمود ایک انتہائی دلیر بہادر اور جرات مند شخصیت کے مالک تھے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کی کسی بھی کالج میں اے پی ایم ایس او یا کسی بھی طلبہ تنظیم کے ساتھ ٹکرائو ہوجاتا تو پرویز بھائی خود وہاں پہنچتے تھے۔انھوں نے تن تنہا متحدہ کو ہر مقام اور ہر گلی کوچے میں للکارااور اس کا مقابلہ کیا ۔متحدہ کے افراد ڈاکٹرصاحب سے بڑے خوف زدہ رہتے تھے۔جماعت اسلامی کے اہم ذمہ داران نے کئی مرتبہ پرویز بھائی کو بڑی محبت کے ساتھ سمجھایا کہ آپ اتنا کھلم کھلا متحدہ کے ساتھ اکیلے نہ الجھیں آپ کی جان ہم سب کو بہت پیاری ہے لیکن پرویز محمود نے کبھی کسی کی ایک نہ سنی الٹاوہ جماعت اسلامی کے اکابرین کو مشورہ دیتے کہ متحدہ کے خلاف اور زیادہ سخت پالیسی اپنائی جائے ۔لیکن جماعت اسلامی جو ایک شورائی جماعت ہے اور بغیر مشاورت اور اجازت کے یہاں کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔
شہر کی اہم شخصیات جن میں آفاق احمد،ایازلطیف پلیجو،عبدالقادر پٹیل ،حبیب جان ،سردار عذیرجان،فیصل رضا عابدی ،محمد فیصل حسین کے علاوہ پولیس کے بڑے افسران جن میں چوہدری محمد اسلم ،عرفان بہادرودیگر سے پرویز محمود کے ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے ان پولیس افسران نے متعدد مرتبہ انھیںسیکورٹی پیش کرنے کی کوشش کی لیکن شاباش اور سلام ہے اس بہادر دلیل آدمی پر کہ اس نے کبھی بھی اپنی موت کی پرواہ نہیں کی اور وہ اپنے موقوف پر سختی کے ساتھ ڈٹارہا۔ ۔کراچی میں جب ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا پرویز محمود انھیں سرے عام للکار رہاتھا ۔اپنے پرائے سب انھیں سمجھا تے تھے اور حکمت کے ساتھکام کرنے کی تلقین کر تے تھے لیکن متحدہ کے گڑھ پاپوش نگر عباسی شہید ہسپتال کے بالکل سامنے والی گلی میں ٹیپوسلطان کی تاریخ دہرانے والا اللہ کا وہ شیر رہتا تھا جو برملا کہتا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔
کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے میں ظلم کو ظلم اور قاتل کو قاتل کہتا رہونگا ۔ایک دفعہ ان سے کہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ بھی حالات کو دیکھتے ہوئے مکے سے مدینے چلے گئے تھے آپ بھی کچھ عرصہ کے لئے بیرون شہر منتقل ہوجائیں ۔پرویز محمود یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئے کہنے لگے مجھ گناہ گار کو ان عظیم شخصیات سے نہ ملائو،مجھے کیانہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے لیکن میںالطاف حسین کی فسطانیت کو بے نقاب کرتا رہوںگا۔چاہے میری جان بھی چلی جائے ۔ایک مرتبہ انھوں نے ایک ہینڈبل تیار کیا اس پر لکھا تھا کہاالطاف میں تجھے اپنا خدا نہیں مانتا،،شہر کے حالات اور متحدہ کی غنڈہ گردی ،بدمعاشی کی وجہ سے کوئی پرنٹریہ ہینڈبل چھاپنے کو تیار نہیں تھا ۔ساتھیوں نے کہا کہ کوئی بھی الطاف کو اپنا خدا نہیں مانتا تو کیا ضرورت ہے کہ یہ ہینڈبل تقسیم کیا جائے لیکن پرویز بھائی نے کہا کہ الطاف ایک بت اور خدابنا ہوا ہے اور اس کے بغیر کراچی میں ایک پتا نہیں ہل سکتا ۔ہم نے خاموشی اختیار کی تو پھراس کی فرعونیت اور زیادہ بڑھ جائے گی ۔پرویز محمود کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ بہت حساس آدمی تھے اسلام اور پاکستان سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،ان کا ادبی ذوق بہت زبردست تھا ایک رات میں ہی پوری کتاب کا مطالعہ مکمل کر لیا کرتے تھے ۔
جماعت اسلامی نے جب انھیں نوجوانوں کی تنظیم شباب ملی کا صدر بنایا تو پورے شہر میں انھوں نے نوجوانوں کو متحد اور منظم کیا اور شباب ملی ان کے دور میں ایک طاقت ور تنظیم بن کر ابھری تھی اور ٹرانسپورٹ ودیگر مسائل پر انھوں نے بھرپورمہم چلائی تھی۔2001میں جماعت اسلامی نے انھیں لیاقت آباد کا ٹائون ناظم بنایا تو کراچی کے اس حساس ترین علاقے میں دیدہ دلیری کے ساتھ عوامی خدمت کے کام کئے اور لیاقت آباد میں تعمیر وترقی کے نئے باب کا آغاز ہوا۔سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ بھی ان سے انتہائی محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے اور وہ انھیں اپنے بیٹوں جیسا ہی سمجھتے تھے۔پرویز بھائی پر نعمت صاحب کا بڑا رعب تھا اور دونوں دل سے ایک دوسرے کی عزت واحترام کیاکرتے تھے۔بلا شبہ پرویز محمود اپنے پورے وقت پر اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ وہ اللہ کی جنت میں شہداء کے درمیان ہی ہونگے۔ان کی عظیم قربانی اور ان کے پاکیزہ لہو نے آج اہل کراچی کو امن سکون اور چین دیا ہے ۔ڈاکٹر پرویز محمود کوئی عام آدمی نہیں تھے ۔وہ ڈاکٹر تھے،صرف میڈیکل فیلڈ میں ہی ان کے ہزاروں چاہنے والے ٓج بھی موجود ہیں ۔پرویز محمود کراچی کا وہ عظیم بیٹا تھا جوکراچی کے امن کیلئے قربان ہوگیا ۔اس کے خون کا ایک ایک قطرہ اہل کراچی پر قرض ہے ۔کراچی میں آج جو امن ہے، خوف دہشت وحشت اور بوری بند لاشوں اور کلاشنکوف کلچر کا جوکریا کرم ہوا ہے اس کے پیچھے ڈاکٹر پرویز محمود،شہید محمد اسلم مجاہد،شہید مرزا لقمان بیگ ،شہید جمال طاہر،شہید ریاض انجم،شہید عابد حسین ،شہید احسان انصاری،شہید عامر سعید،شہید نزیر ساجد،شہید رشید بھیاسمیت اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنان کی ایثار وقربانی ہے ان عظیم لوگوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کردیا ۔