طاہر مسعود: غالباً ایذرا پائونڈ نے لکھا ہے کہ کسی بھی نقاد کو اس وقت تک تنقید کا حق نہیں دیا جاسکتا جب تک اس نے کوئی اچھا شعر نہ کہا ہو۔
شہزاد احمد: ٹی ایس ایلیٹ نے بھی لکھا ہے کہ شاعری ہی نقاد ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جب تک نقاد تخلیقی عمل کو خود محسوس نہ کرے وہ اس کے متعلق کسی قسم کی بات کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔
طاہر مسعود: اس گفتگو کی روشنی میں ہمارے ان نقادوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جنہوں نے شعر نہیں کہے یا جو تخلیقی عمل کے تجربے سے نہ گزرے ہوں اور نہ ہی اسے محسوس کیا ہو؟
شہزاد احمد: اس لیے ہماری بیش تر تنقید کلاس روم کی تنقید ہے۔
طاہر مسعود: اردو کے ایک نقاد کے بارے میں تو یہ تک مشہور ہے کہ وہ شعر وزن میں نہیں پڑھ سکتے لیکن شاعری پر تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔
شہزاد احمد: ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ چراغ حسن حسرت نے ایک بہت بڑے استاد کو جو کراچی میں ہیں، کہا تھا کہ جناب آپ ایک مصرع وزن میں پڑھ دیں میں آپ کو شاعر مان لوں گا اور انہوں نے پورے دبستان کی شاعری پر تھیس لکھا۔
طاہر مسعود: آج کل شاعری میں منیر نیازی اور مجید امجد کے نام بہت زیادہ لیے جاتے ہیں۔ آپ کا ان کی شاعری کے متعلق کیا خیال ہے؟
شہزاد احمد: منیر نیازی بنیادی طور پر تخلیقی شاعر ہے۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کا کینوس بڑا نہیں ہے۔ بہرحال ایک چھوٹے کینوس میں بھی تخلیقی شاعری ہوسکتی ہے۔ آدمی لاشعور کے ساتھ رشتہ بنا کر چند چیزیں دریافت کرلیتا ہے اور اسی دریافت کو بار بار دہراتا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اتنا بھی بہت کم لوگ کرپاتے ہیں۔ اس کے برعکس مجید امجد بڑا سیریس موضوع ہے۔ مجید امجد کو ہم اردو کے چند اہم شاعروں میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس کا سفر بہت پیچیدہ سفر ہے۔ اس نے بار بار اپنے آپ کو جانچا ہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جب کوئی چیز بنالینا ہے تو پھر کوئی نئی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کینوس کافی بڑا ہے۔
(۲)
طاہر مسعود: آپ ملائیشیا، سنگاپور اور دوسرے کئی ملکوں کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ کیا آپ ان دوروں کے بارے میں اپنے مجموعی تاثرات بیان کرنا پسند فرمائیں گے؟
شہزاد احمد: بات یہ ہے کہ ملائیشیا میں ادیبوں کی کانفرنس تھی۔ وہاں کامن ویلتھ (دولت مشترکہ) گیمز ہورہی تھیں۔ انہوں نے سوچا اس موقع پر ادیبوں کی ایک کنونشن بھی کرلی جائے۔ وہاں جا کر مجھے دلچسپ مشاہدات ہوئے، مثلاً وہاں کی زبان ملادی ہے۔ اب انہوں نے اس کا اسکرپٹ رومن کرلیا ہے لیکن ابھی بھی ان کی زبان پر عربی اور فارسی رسم الخط کے اثرات مل جاتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی پرانی کتابوں میں وہاں کسی زمانے میں اردو بہت مقبول تھی لیکن اب یہ مقبولیت برائے نام رہ گئی ہے۔ سنگارپور میں بھی یہی صورت حال ہے۔ جو لوگ اردو کو دنیا کی فاتح زبان سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ حالاں کہ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی یہاں بستی ہے سبھی کلام پاک پڑھتے ہیں۔ ادیبوں کے نام بھی بڑی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب کا نام عبداللہ حسین تھا۔ یہ صاحب نقاد بھی تھے۔ ان سے مل کر مجھے اپنے ’’اداس نسلیں‘‘ والے عبداللہ حسین بہت یاد آئے۔ رومن رسم الخط کا فرق یہ پڑا ہے کہ وہاں کے بہت سے ادیب جو ملادی زبان میں شعر کہتے تھے، اب وہ انگریزی میں کہنے لگے ہیں۔ فارسی اور اردو کا اثر روز بہ روز کم ہورہا ہے اور مزید کم ہوتا چلا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ جس زبان میں علم بڑھ رہا ہو وہاں زبان ترقی کرتی ہے۔ اب ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی کا کام ہم اردو زبان کے ذریعے نہیں کریں گے یہ زبان ترقی نہیں کرسکے گی۔
طاہر مسعود: آپ یہ فرمائیے کہ کیا زبان کا تہذیب سے بھی کوئی تعلق ہوتا ہے یا نہیں؟
شہزاد احمد: آپ ساری تہذیب کو ماضی میں سمجھتے ہیں، حالاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس دور میں ہم زندہ ہیں اس میں ہماری تہذیب مستقبل میں زندہ ہے ماضی میں نہیں۔
طاہر مسعود: ازارہ کرام اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیے۔
شہزاد احمد: ماضی میں کچھ چیزیں ملتی ہیں جن کو لے کر ہم آگے چلتے ہیں۔ ابھی تک چوں کہ ہماری تہذیب میں بنیادی معیاری تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی، اس لیے ہم موجودہ روایت کو استعمال کرنے پر اکتفا کرتے رہے ہیں لیکن اب کمپیوٹر آگیا ہے۔ جینیات کا مسئلہ آگیا ہے۔ اب آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم مستقبل میں کیسے زندہ رہیں گے۔ کمپیوٹر کی آمد کے بعد وہ کلچر نہیں رہ سکتا جو پہلے سے موجود تھا۔
طاہر مسعود: ہاں مگر تہذیبی ورثہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیا تہذیب اپنے ماضی سے نہیں بنتی؟ رہا مسئلہ کمپیوٹر کا تو آپ کمپیوٹر کو اپنالیجیے۔ آخر اب کمپیوٹر اردو میں بھی تو استعمال ہو ہی رہا ہے۔ اس نہج پر اپنی زبان کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔
شہزاد احمد: یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے شلوار قمیص کے ساتھ ٹائی لگانی شروع کردی تھی۔ ان بزرگوں کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہمارے کلچر میں بس یہی ہوسکتا ہے۔ کمپیوٹر کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ اس کے مضمرات بہت زیادہ ہیں۔ اب آپ خط نہیں لکھتے ای میل کرتے ہیں۔ بچے پہاڑے یاد نہیں کرتے، حساب کے لیے کیلکولیٹر استعمال کرتے ہیں اور ہماری تہذیب میں کوئی ایسی چیز اس قابل نہیں ہے کہ اسے باقی رکھا جائے۔ اب صرف وحدانیت کا تصور ہے جسے ہمیں اپنے خمیر میں قائم رکھنا ہے۔ پھر اخلاقیات کا خاص تصور ہے، باقی جتنی چیزیں ہیں ان سب کے بارے میں ہمیں سوچنا ہوگا۔ حساب کتاب لگانا آسان نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ہم مشرقی اقوام محکوم ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی دونوں حوالوں سے، اس محکومی کو دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ مغرب سے آنے والی ہر چیز، ہر نظریے اور تصور کو ہم بغیر سوچے سمجھے اپنالیں۔ کیا اس طرح ہم تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں طے کرلیں گے؟
شہزاد احمد: میں نے اپنی کتاب ’’تیسری دنیا کے مسائل اور سائنسی انقلاب‘‘ میں کچھ معروضات پیش کی تھیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہم نے ہر لمحہ ضائع کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے یہ سوال اس وقت کیا گیا تھا جب وہ ترکی گئے تھے۔ انہوں نے کہا ’’دیکھو کچھ انڈسٹریز ایسی ہیں کہ ان کو شروع کرلو تو تم جلدی ترقی کرلو گے‘‘۔ انہوں نے Chips کا حوالہ دیا تھا۔ جب ہماری تہذیب نے ایسے ماہرین فن پیدا کیے جو چاول کے ایک دانے پر پورا کلمہ لکھ سکتے تھے تو پھر یہ قوم بھی بہت سے کام کرسکتی ہے۔
طاہر مسعود: اچھا اب آئیے کچھ ادب کے حوالے سے گفتگو ہوجائے۔ ہمارے ہاں ادیبوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ چڑیوں، پرندوں اور پھولوں کے بارے میں نظمیں لکھیں گے لیکن زندگی کے سنجیدہ مسائل پر گفتگو نہیں کریں گے، آخر ایسا کیوں ہے؟
شہزاد احمد: میں اپنی بات کرسکتا ہوں۔ میرے لیے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ابوظہبی کے مشاعرے میں علی سردار جعفری نے تقریر کی کہ سرحدیں نہیں ہونی چاہئیں۔ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ میں برصغیر کے لوگوں کو ایک کردوں۔ ان میں محبت اور بھائی چارگی پیدا کردوں۔ میری جب صدارتی تقریر کی باری آئی تو میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔ آپ نے ہمیں چلنا سکھایا ہے، آپ محبت کرنا چاہتے ہیں، بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ خواہش کی بنیاد پر نہ ہو، عدل کی بنیاد پر ہو۔ مجھے سردار جعفری صاحب کی بات سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں تحریک چلی ہوئی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بہرحال ایک شناخت ہے۔ ملائیشیا میں مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے بہت سی چیزیں پاکستان سے سیکھی ہیں۔ سنگارپور میں ایک ایئرپورٹ ہے اور ان کی ایئرلائن نمبر ون ایئر لائن ہے۔ یہ ایئرپورٹ انہوں نے پاکستان کے تعاون سے بنایا۔ ہم سے سیکھنے والوں میں کوریا بھی شامل ہے۔
طاہر مسعود: ہم جس تہذیبی انتشار سے گزر رہے ہیں، کیا اس کی نمائندگی ادب میں ہورہی ہے یا نہیں؟
شہزاد احمد: آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے شعرا ہائیکو لکھ رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی جاپانی نے کوئی غزل کہی ہو۔ کیا ہماری غزل کی روایت ہائیکو کی روایت سے کوئی چھوٹی روایت ہے؟
طاہر مسعود: شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستان میں جاپانی سفارت خانہ اپنی ادبی روایت کو یہاں رواج دینے میں زیادہ متحرک ہو اور ہمارا پاکستانی سفارت خانہ وہ کام جاپان میں نہ کررہا ہو؟
شہزاد احمد: یہ کوئی بات نہیں ہے۔ جب سفارت خانے نہیں ہوتے تھے تب بھی یہ ہوتا تھا۔ جاپانی سفارت خانے نے مشاعرے کرانے کے علاوہ اور کیا کیا ہے۔ ان کے پاس تو جاپان کے ادب کے بارے میں کوئی اچھی کتاب بھی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جو قوم ترقی یافتہ ہوگی۔ اس کی تقلید کی جائے گی اور ترقی وہ قوم ہوتی ہے جو سائنس اور ٹیکناوجی میں ترقی یافتہ ہوتی ہے اور صرف پیسے کا ہونا کوئی بات نہیں۔ پیسہ تو کویت کے پاس بھی بہت تھا۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ سائنسی ترقی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ ہمارا مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ہم سیاسی طور پر بھی غیر مستحکم ہیں۔
شہزاد احمد: ہم سیاسی طور پر غیر مستحکم کیوں ہیں؟ آپ کو سیاسی استحکام جو تھوڑا بہت ملا ہے۔ وہ ایٹمی دھماکے سے ملا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ نے ایک دفعہ فخر سے گردن اٹھائی ہے اور وہ اس وقت جب آپ نے ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ آپ نے کبھی ٹیکنالوجی بنائی ہے نہ انڈسٹری بنائی ہے تو بیرون ممالک کے لوگ اردو لٹریچر کیوں پڑھیں گے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں اردو زبان پر ایک صفحہ نہیں ہے۔ میرا اور غالب کا تذکرہ بھی غائب ہے۔ جو قوم ترقی کرے گی اس کا لٹریچر پڑھا جائے گا۔ امریکا ایک بڑا ملک کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے نقطہ نظر میں وزن ہے لیکن ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ سارا نقطہ نظر مادی ہے، دنیا دارانہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف ان ہی چیزوں اور حقائق کی اہمیت ہے جن کا حواس خمسہ سے ادراک کیا جاسکتا ہے اور ماورائے حواس حقائق اور اس سے جنم لینے والے نظام ہائے حیات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
شہزاد احمد: سائنس میں کوانٹم فزکس نے ارسطو کی منطق کو ختم کردیا ہے۔ چیزوں کے درمیان سبب اور نتیجے (Causual Relation) کا تعلق اب باقی نہیں رہا۔ اصول لامتعین ہیں۔ اس کے تحت اب یہ طے پایا ہے کہ اگر واقعات ایک طرح وقوع پذیر ہوئے ہیں تو ضروری نہیں کہ آئندہ بھی وہ اسی طرح وقوع پذیر ہوں گے۔ یعنی سورج اگر مشرق سے نکلتا ہے تو ضروری نہیں کہ اگلی صبح بھی مشرق ہی سے نکلے گا۔ جب سائنس نے یہ بنیاد فراہم کردی ہے تو پھر آپ اسے مادہ پرستانہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جب سائنس یہ کہے کہ یہ ممکن نہی ہے کہ ذرّے کے اندر ایک پروٹون ہے، ایک الیکٹران ہے۔ آپ صرف ان کی رفتار اور وقت معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یہ معلوم کرلیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے تو آپ یہ نہیں جان سکتے کہ اس کی رفتار کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو پوری طرح جانا نہیں جاسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: پوری مغربی تہذیب اسی سائنس پر کھڑی ہے۔ اس لحاظ سے ان کے ہاں مادی تہذیب چھائی ہوئی ہے تو پھر لوگ روحانیت کے متلاشی کیوں ہیں؟
شہزاد احمد: اسلامی کلچر میں بھی بعض اقدار ہیں۔ سائنس کا ایک تصوراتی پہلو ہے جس کو ہم نظری سائنس کہتے ہیں۔ دوسری چیز وہ Effect ہے جو Material Level پر ہوتا ہے جیسے نیوٹن کی سائنس میں مادی سطح پر زندہ رہنے میں یہی کمرشل چیزیں چلتی ہیں۔ کمپیوٹر کے اندر بھی ایسے اصول استعمال ہوتے ہیں جو Principal of Uncertainity کہلاتے ہیں۔ آئن اسٹائن کی سائنس کے لیے بس اتنی ریاضی جاننا کافی ہے جتنی میٹرک میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ سمجھ میں اسی لیے نہیں آتی کیوں کہ وہ کائنات کو جس طرح Define کرتا ہے وہ ہمارے تجربے میں نہیں آتی ہے، مثلاً اس نے بہت سی چیزوں کی رفتار کے ساتھ واضح کیا ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 80 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ یہ ہمارے تجربے میں نہیں آتی ہے۔ یہ تو اسی وقت آئے گی جب فرض کریں ہم مریخ سے رابطہ کریں۔ جب رابطہ کریں گے تو ’’ہیلو‘‘ کی یہ آواز پندرہ منٹ میں وہاں پہنچے گی اور جب وہاں سے ’’ہیلو‘‘ کا جواب دیا جائے گا تو آدھے گھنٹے میں وہاں سے جواب یہاں موصول ہوگا۔ اسی وقت معلوم ہوگا کہ روشنی کی رفتار کیا ہے؟
طاہر مسعود: مغرب میں جو سائنس آئی تو اس کی کلیسا سے لڑائی ہوئی جس کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔ آپ کے خیال میں مستقبل میں کوئی تہذیب اس طرح بڑھتی نظر آرہی ہے۔ کہ جو مذہب اور سائنس میں تصادم پیدا کیے بغیر دونوں میں اس طرح ہم آہنگی پیدا کرے کہ آسمان اور زمین کے رشتے باہم استوار ہوجائیں؟
شہزاد احمد: میرے خیال میں مذہب اور سائنس میں کوئی ایسا تصادم نہیں ہے۔ میں اتنا عالم فاضل تو نہیں ہوں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا تھا، ’’سائنس نے کوئی ایسا اصول اب تک دریافت نہیں کیا ہے جو قرآن حکیم کے مخالف ہو‘‘۔ بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ مذہب اور سائنس کس طرح ہم آہنگ ہوں گے لیکن بہت بلند سطح پر سائنس، فلسفہ اور مذہب ایک ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے ایٹم کے اندر پانچ قوتیں دریافت کی گئی تھیں۔ مقناطیس، برقیات، اسٹرونگ، نیوکلیئر فورس اور گریویٹی… اس صدی کے شروع میں ثابت ہوگیا ہے کہ مقناطیس اور برقیات وغیرہ سب ایک ہی چیزیں ہیں۔ آئن اسٹائن نے کہا کہ جتنی بھی Manifastations ہیں، یہ سب اصل میں ایک ہی چیز کی Manifastations ہیں۔ یہ پانچ چیزیں نہیں ہیں۔ یہ ہمیں دھوکا ہورہا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام کو جس چیز پر نوبل انعام ملا اس نے کہا کہ Electo Manganatic جو ہے یہ نیوکلیئر فورس بھی اس کی Manifastations ہے۔ چناں چہ اس کا نام Electro Well رکھا گیا۔ بہت سی تھیوریز ایسی بنی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ جو اسٹرانگ نیوکلیئر فورس جو ہے وہ بھی گریویٹی (Gravity) ہے مگر ابھی یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ لیکن اُمید ہے کہ جلد ہی یہ ثابت ہوجائے گا کہ اصل وقت ایک ہی ہے اور اس کی Manifastations پر جھگڑا ہورہا ہے۔ گویا یہ بات ہے کہ کثرت اور اس کی وحدت کی ۔ جس طرح مذہب میں یہ معاملہ ہے اسی طرح سائنس میں ہے۔ یہ سوال آئن اسٹائن نے اٹھایا تھا۔ وحدانیت کا تصور جو ہے وہ سائنس اور مذہب کا ایک ہی ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے سائنس کے حوالے سے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ کام کسی خاص منصوبے کے ساتھ شروع کیا کہ اردو پڑھنے والوں میں سائنسی شعور پیدا کیا جائے یا خود بہ خود ذہن ان موضوعات کی طرف منتقل ہوگیا؟
شہزاد احمد: 1984ء میں جب میں کراچی میں تھا تو مجھ پر دل کا دورہ پڑا، اس کے بعد مجھ میں یہ تبدیلی آئی اور میں ان موضوعات کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری زندگی اسی لیے دی ہے کہ تا کہ میں اس کام کو مکمل کروں۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمائیے کہ اردو میں سائنسی موضوعات پر لکھتے ہوئے آپ کو اصطلاحات کے ترجمے میں دشواری تو نہیں ہوئی۔ کیا آپ اپنے تجربے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اردو سائنس کے مضامین کو بھی باآسانی ادا کرسکتی ہے؟
شہزاد احمد: اردو کے پیچھے عربی اور فارسی کی ایک طویل روایت ہے اور عربی اور فارسی والوں نے سائنس پر کام کیا ہوا ہے۔ مسلمانوں نے قرون وسطیٰ میں سائنس پر خاصا کام کیا تھا۔ آج سائنس پر مغرب کی اجارہ داری ہے لیکن یہ دور بھی ختم ہوجائے گا۔ علم کسی کی میراث نہیں ہے۔ یہ ساری انسانیت کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے لکھا تھا کہ ایک نوبل انعام یافتہ سائنس داں ان کے پاس آیا اور اس نے کہا، ’’عبدالسلام! تم تیسری دنیا والوں کی بہت باتیں کرتے ہو، لیکن جب لوگوں نے سائنس کی ترقی میں ایک تنکے کا اضافہ نہیں کیا ہے، ان لوگوں کی مدد کرنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ لیکن یہ غلط بات ہے۔ کلچر ایک منتقل ہونے والی حقیقت ہے جیسا کہ اشپنگلر اور ٹوائن بی نے لکھا ہے کہ ہر تہذیب کا ایک بچپن، ایک جوانی اور اس کا بڑھاپا ہوتا ہے پھر وہ تہذیب مرجاتی ہے اور اس کی جگہ نئی تہذیب لے لیتی ہے۔ ایک عہد مغرب والوں نے گزار لیا ہے اب اس نئے عہد میں ہمیں چاہیے کہ جدوجہد کریں۔
طاہر مسعود: ڈاکٹر عبدالسلام کو آپ نے کیسا پایا؟
شہزاد احمد: میں نے انہیں اپنے ایک خط میں واضح طور پر لکھ دیا تھا کہ میرا آپ کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے خط کی کاپی انہوں نے جمیل الدین عالی کو دے دی تھی لیکن سچ پوچھیے تو میں نے اتنا دردمند پاکستانی نہیں دیکھا۔ اب آپ اسے جو بھی کہیں لیکن ایوب خان سے لے کر بے نظیر بھٹو ہر ایک سے اس نے مل کر یہی کہا کہ سائنس کے میدان میں آگے بڑھو، ترقی کرو بلکہ اس نے فیض صاحب کے جلسے میں تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر آپ لوگ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے تو مجھے غسل خانے میں اینٹ ہی لگانے دو۔
طاہر مسعود: اب آپ کی شاعری کے حوالے سے ایک سوال! آپ جب اپنی شاعری کے طویل سفر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
شہزاد احمد: مجھے احساس زیادہ تو نہیں ہوتا، لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ مجھے بہتر کام کرنا چاہیے تھا۔ ان دنوں اپنی شاعری میں جتنا انحراف میں نے کیا ہے بقول احمد جاوید صاحب کے اتنا انحراف کسی اور شاعر نے نہیں کیا۔ ایک خاص قسم کی رومانی فضا سے فلسفیانہ اور نفسیاتی اور پھر سائنس کے موضوعات میں نے اپنی شاعری میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً میری نثری نظمیں انسانی نفسیات کے اس حصے کے بارے میں ہیں جن کے بارے میں جاننے کی آدمی کوشش ہی نہیں کرتا۔