ہم کیوں مسلمان ہوئے

569

ذیل کا انٹرویو پروفیسر الیف الدین ترابی نے مرتب کیا تھا اور ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے جنوری 1978ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ضیا الرحمن اعظمی پہلے رابطۂ عالمِ اسلامی میں اہم ذمہ دارعیاں نبھا رہے تھے لیکن آج کل وہ مدینہ یونیورسٹی کے کلیہ الشریعہ میں پروفیسر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
…٭…
میں نے ان کا تذکرہ پہلی بار مارچ 1977ء کے ’’فاران‘‘ میں پڑھا۔ ماہر القادری نے اپنے سفرِ حجاز کے رپورتاژ میں ان سے مکہ مکرمہ میں ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ وہ ہندو مذہب چھوڑ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تھے۔ میرے دل میں اس خوش نصیب نوجوان سے ملاقات کی تڑپ پیدا ہوگئی جسے اللہ تعالیٰ نے کفر کی تاریکیوں سے سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف بڑھنے کی توفیق عطا بخشی اور جب خوش بختی مجھے سرزمین حجاز لے آئی تو اس تڑپ نے کشاں کشاں اس نوجوان تک پہنچا دیا۔ میرے سامنے ایک باوقار نوجوان کھڑا تھا۔ گندمی رنگت‘ نکلتا ہوا قد‘ چہرے پر سلیقے سے ترشی ہوئی خوب صورت ڈاڑھی‘ عینک کے شیشوں کے پیچھے ذہانت کی لو سے چمکتی ہوئی آنکھیں‘ سعادت کے نور سے روشن کشادہ پیشانی‘ گفتگو میں متانت اور ٹھہرائو‘ اور دل و دماغ دونوں کو یکساں اپیل کرنے والی علمیت کا حسین امتزاج۔ یہ تھے ڈاکٹر ضیا الرحمن۔ ڈاکٹر صاحب نے قبولِ اسلام کے بعد ابتدائی اسلامی تعلیم جنوبی ہند کی ایک درس گاہ میں حاصل کی۔ پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیا۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر جامعۃ الملک عبدالعزیز مکہ مکرمہ سے ماجسقر (ایم اے) کیا۔ پھر جامعۃ الازہر قاہرہ سے پی ایچ ڈی کیا۔ آج کل آپ رابطہ عالمِ اسلامی میں ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہیں۔
پہلے سے طے شدہ وقت کے مطابق میں ان کا انٹرویو لینے ان کے دولت کدے پر پہنچا تو انہوں نے خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا۔ مجھے اپنے مطالعے کے کمرے میں لے کر گئے جہاں ایک طرف الماریوں میں منتخب کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی تھیں۔ زیادہ تر عربی زبان کی بلند پایہ کتب تھیں۔ کچھ اردو کی بھی تھیں۔
چائے کے ساتھ ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے سب سے پہلا سوال ان کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے بارے میں کیا۔
’’میں 1943ء میں اعظم گڑھ (بھارت) کے قریب ایک قصبے میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرے والد برادری کے چودھری تھے۔ ہمارا کلکتے میں خاصا وسیع کاروبار تھا۔ میں نے مڈل تک تعلیم اپنے قصبے کے مڈل اسکول میں حاصل کی پھر شبلی کالج اعظم گڑھ میں‘ جس کے ساتھ ہائی کلاسز بھی تھیں‘ داخلہ لیا۔ یہیں تحریکِ اسلامی سے متعارف اور متاثر اور زندگی کی گاڑی کا رخ ہی بدل گیا۔‘‘
’’تحریک اسلامی سے کس طرح متعارف اور متاثر ہوئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
1959ء میں میٹرک کا امتذحان دینے کے بعد گھر آیا تو ایک صاحب نے مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’دینِ حق‘‘ کا ہندی ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔ کتابوں کے مطالعے سے مجھے فطری رغبت تھی چنانچہ بڑے شوق سے کتاب پڑھی اور اس مطالعے نے میرے دل کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اب تک مہیب تاریکیوں میں کھویا ہوا تھا‘ اب وہ تہہ در تہہ تاریکیاں چھٹ رہی ہیں اور پہلی بار روشنی کی کرنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس احساس نے میرے دل میں اس روشنی سے ہمکنار ہونے کی تڑپ پیدا کر دی۔ میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا اور ہر بار گرمیٔ شوق دو آشتہ ہوتی گئی۔ میںنے فیصلہ کیا کہ اس مصنف کی ہندی میں ترجمہ شدہ تمام کتابیں حاصل کرکے پڑھوں گا۔‘‘
’’کیا آپ نے اس سے پہلے ہندو مذہب کا باقاعدہ مطالعہ بھی کیا تھا؟‘‘ میرا اگلا سوال تھا۔
’’میں نے ہندو مذہب کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی البتہ ایک ہندو گھرانے میں پیدائش اور اپنے گردوپیش کے شدید مذہبی ماحول کی وجہ سے میں ہندو مذہب کے لیے شدید عصبیت رکھتا تھا اور اس کے سوا کسی دوسرے مذہب کو برسرِ حق نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن اسلام کا مطالعہ شڑوع کیا اور میرے سامنے اسلام کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ’’صرف اسلام ہی دینِ حق ہے‘‘ تو میں نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اپنے کالج کے سنسکرت کے لیکچرار کی طرف رجوع کی۔ وہ گیتا اور ویدوں کے بہت بڑے عالم تھے لیکن مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ ہندو مذہب کے دیو مالائی نظامِ عقائد اور ناقابلِ فہم رسوم میں اطمینانِ قلب کے لیے سرے سے کوئی سامان ہی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوئوں کے نوجوان طبقے میں اپنے مذہب کے دیومالائی تصورات اور عجیب و غریب رسوم کے متعلق سخت بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ اگر ان لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور ان کی ذہنی سطح اور مخصوص پس منظر کو کو پیش نظر رکھتے ہوئے لٹریچر تیار کرکے ان میں پھیلایا جائے تو ان میں دعوتِ اسلامی کے پھیلنے کے بڑے مواقع ہیں۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب میں کالج گیا تو میرا یہ معمول تھا کہ تفریح کے پیریڈ میں مولانا مودودیؒ کی ہندی میں ترجمہ شدہ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست ہندو طلبہ کو ایک علیحدہ جگہ بٹھا کر سید مودودیؒ کی مشہور کتاب ’’دینیات‘‘ پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ وہ نہ صرف یہ کہ بڑی توجہ اور دل جمعی سے سنا کرتے بلکہ اس سلسلے میں ان کی دلچسپی اس قدر زیادہ تھی کہ اگر بوجوہ میرے مسلمان ہونے کا فوری انکشاف نہ ہوتا تو شاید وہ سب لوگ بھی میرے ساتھ ہی قبولِ اسلام کا اعلان کرتے۔‘‘
’’مطالعۂ کتب سے باقاعدہ قبولِ اسلام تک کا مرحلہ کتنے عرصے میں اور کس طرح طے ہوا؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’چھٹیوں کے بعد کالج کھلا تو میرے اندر مزید اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا شوق فراواں ہو چکا تھا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے سید مودودیؒ کی ہندی میں ترجمہ شدہ کتابیں آسانی سے مل جاتیں۔ اس مطالعے کے دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ سید مودودیؒ نے 1953ء میں صرف اسلامی نظام کے قیام کے لیے سزائے موت کو خندہ پیشانی سے لبیک کہا تھا اور رحم کی اپیل کی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ میرے لیے اللہ کی راہ میں شہید ہونا ظالموں سے رحم کی اپیل کرنے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ اس واقعہ نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ محض رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے موت کو خندہ پیشانی سے لبیک کہنے والے لوگ صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اب پتا چلا کہ اسلام میں آج بھی ایسے عظیم لوگ موجود ہیں جو راہِ حق میں ہنسی خوشی جان دے دینے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس انکشاف نے مجھے اسلام کے اور زیادہ قریب کر دیا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب چند لمحے خاموش رہے پھر کہنے لگے ’’اسی دوران میں مجھے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمۂ قرآن مجید پڑھنے کا موقع ملا۔ اللہ نے مزید مہربانی یہ کہ شبلی کالج ہی کے ایک استاد نے‘ جو سید مودودیؒ کی فکر سے گہرے متاثر تھے اور جنہوں نے ایک ہفتہ وار حلقۂ درس بھی قائم کر رکھا تھا‘ اسلام کے لیے میرا ذوق و شوق دیکھ کر مجھے اپنے حلقۂ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔
سید مودودیؒ کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور حلقۂ درسِ قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے میرے قبولِ اسلام کے جذبے کو دو آشتہ کر دیا۔ مگر بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر میرے اس روحانی سفر کی راہ میں حائل ہوجاتے اور میں ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ سب سے زیادہ پریشانی یہ بھی تھی کہ میں دوسرے اہلِ خاندان کے ساتھ کس طرح نباہ کر سکوں گا۔ خصوصاً چھوٹی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بہت پریشان تھا۔ مگر اسی دوران میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے نتائج کی پروا کیے بغیر فوراذً اسلام قبول کر لینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک دن انہی استاد صاحب نے جن کے حلقۂ درس میں‘ میں بلا ناغہ شامل ہوتا تھا‘ سورہ عنکبوت کا درس دیا‘ پہلے انہوں نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) ’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے‘ ان کی مثال مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے کاش وہ لوگ اس حقیقت سے باخبر ہوتے۔‘‘
پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے تمام سہارے مکڑی کے جالے کی طرح کمزور اور بے بنیاد ہیں۔ ان کی اس تشریح اور دل میں کھب جانے والے اندازِ بیان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے بغیر کسی تاخیر کے اسلام قبول کرنے اور تمام سہاروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی مجلس میں‘ میں نے اپنے استاد سے کہا میں فوری طور پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی ان سے نماز سے متعلق کوئی مناسب کتاب بھی مانگی۔ انہوں نے مجھے ادارہ ’’الحسنات‘‘ رام پور کی آسان ہندی زبان میں شائع کردہ کتاب ’’نماز کیسے پڑھیں‘‘ دی جس سے میں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر نماز سیکھ لی۔ مغرب کے قریب دوبارہ استاد کے پاس پہنچا۔ ان کے ہاتھ پر باقاعدہ اسلام قبول کر لیا اور انہی کی اقتدا میں مغرب کی نماز ادا کی۔ یہ میری سب سے پہلی نماز تھی اور اس کی کیفیت میں کبھی بھول نہ سکوں گا۔‘‘
’’کیا آپ نے اسلام قبول کرتے ہی اس کا اعلان بھی کر دیا تھا یا اسلام قبول کرنے اور اس کے انکشاف اور اعلان کے درمیان کچھ عبوری دور بھی گزرا؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
قبولِ اسلام‘ انکشاف اور اعلان کے درمیان کئی ماہ کا وقفہ رہا۔ حلقۂ بگوش اسلام ہونے کے فوراً بعد مجھے ایک زبردست ذہنی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ دراصل اس عملی کشمکش کا نقطۂ آغاز تھا جو چند ماہ بعد میرے قبولِ اسلام کے انکشاف اور اعلان کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا سلسلۂ تعلیم منقطع ہو کر رہ گیا۔ میرا سارا وقت یا تو سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے میں گزرتا یا ان کتابوں کے منتخب ہونے اپنے ساتھی طلبہ کو سنانے میں۔ نماز کے وقت میں چپ چاپ گھر سے نک جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ جا کر نماز ادا کرتا۔ یہ سلسلہ کوئی چار ماہ تک جاری رہا۔ لیکن میری یہ سرگرمیاں زیادہ مدت تک پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ میں اعظم گڑھ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں رہتا تھا۔ اس کا لڑکا میرا دوست اور ہم راز تھا۔ اس نے جو مجھ میں تبدیلیاں دیکھیں تو پہلے کو مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اس طرح اسلام قبول کرنے کے بعد میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے کٹ جائوں گا۔ لیکن جب مجھے ’’ناقابل اصلاح‘‘ پایا تو والد صاحب کو کلکتے میں خط لکھ دیا کہ فوراً اعظم گڑھ پہنچیں ورنہ لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ والد صاحب خط ملتے ہی پہنچ گئے اور پھر مجھے بتدریج ان حالات سے دوچار ہونا پڑا جن کی توقع تھی اور جن کے لیے میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر پہلے سے تیار کر چکا تھا۔‘‘
’’کیا آپ ان حالات کی تفصیل بتانا پسند کریں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تفصیلات تو میری زیر تصنیف کتاب’’گنگا سے زمزم‘‘ تک میں آرہی ہیں البتہ مختصراً چند باتیں بیان کیے دیتا ہوں۔ والد صاحب کلکتے سے اعظم گڑھ پہنچے تو انہوں نے ابتدا میں براہِ راست مجھے کچھ کہنے کے بجائے میرے حالات کا جائزہ لیا۔ پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ شاہد کسی جن یا بھوت سے متاثر ہو گیا ہوں‘ مختلف پنڈتوں اور پروہتوں سے میرا علاج کرانے لگے لیکن کوئی جن یا بھوت ہوتا تو جھاڑ پھونک سے چلا جاتا۔ یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ چنانچہ جو چیز بھی پنڈتوں اور پروہتوں سے لا کر دیتے‘ میں ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر کھا لیتا۔ بہرحال جب وہاں میرا علاج نہ ہو سکا تو والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کلکتے لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ تحریکِ اسلامی کے افراد سے‘ جو ان کے نزدیک اس ’’بیماری‘‘ کی اصل جڑ تھے‘ رابطہ برقرار نہ رہ سکے‘ لیکن بھلا یہ رابطہ کہیں اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹوٹ سکتا تھا۔ چنانچہ کلکتے پہنچتے ہی وہاں کے تحریکی رفقا سے رابطہ قائم ہو گیا اور میرا سب سے بڑا یعنی نماز پڑھنے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ والد صاحب کو علم ہوا تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے فوراً مجھے الٰہ آباد میں مقیم اپنے ایک عزیز کے ہاں بھیج دیا۔ یہاں اب جھاڑ پھونک کے ساتھ ساتھ مختلف پنڈتوں اور پروہتوں نے مجھے سمجھانا بجھانا بھی شروع کر دیا۔ کہنے لگے ’’ہندو مذہب اسلام کے مقابلے میں زیادہ مکمل مذہب ہے۔‘‘ لیکن جب میں نے ہندو مذہب کے بارے میں سوالات کییژ تو وہ جواب نہ دے سکے‘ زچ ہو کر بولے:
’’اچھا اگر ہندو مذہب چھوڑنا ہی تو پھر مسلمان بننے کے بجائے عیسائی بن جائوں کیوں کہ مسلمانوںکی موجودہ زبوں حالی اور اس کے مقابلے میں عیسائیوں کی فارغ البالی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عیسائیت اسلام کے مقابلے میں کہیں زیادہ مذہب ہے۔‘‘
میں نے جواب میں کہا ’’دراصل میں مسلمانوں سے نہیں بلکہ اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہو رہا ہوں۔‘‘
آخر کچھ عرصے کی جھاڑ پھونک اور بحث مباحثے کے بعد مجھے ’’لا علاج‘‘ قرار دے دیا گیا اور والد صاحب دوبارہ اپنے گھر لے آئے۔ گھر والوں کا پہلے ہی رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔ مجھے مکان کے ایک کمرے میں رکھا گیا اور تحریکی رفقا سے رابطہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی والدہ صاحبہ‘ بہنوں اور دوسری رشتہ دار خواتین نے مجھے اسلام سے باز رکھنے کے لیے اپنے طور پر رونے دھونے اور منت سماجت کا سلسلہ شروع کردیا۔ ادھر جھاڑ پھونک بھی جاری رہی‘ لیکن یہاں ہر چیز بے اثر ثابت ہو رہی تھی۔ تنگ آکر گھر والوں نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھ پر دبائو ڈالنے کے لیے ان سب سے بھوک ہڑتال کر دی۔ میرے لیے یہ بڑا ہی سخت اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ والدین اور بہن بھائی کوئی بھی کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاتا۔ وہ میری نظروں کے سامنے بھوک سے نڈھال پڑے سسکتے رہے لیکلن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت بخشی اور اسلام سے باز رکھنے کا یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا۔ (جاری ہے)
اس کوششِ ناکام کے بعد گھر والوں نے ایک اور حربہ آزمایا۔ ایک مولوی صاحؓ کو لے آئے جنہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اپنے والدین کی زندگی میں ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اسلام قبول کرنے کا اعلان یا کوئی بھی ایسا دوسرا کام کرے جس سے اس کے قبول اسلام کا اظہار ہوتا ہو‘ اس لیے جب تک آپ کے والدین زندہ ہیں‘ آپ اپنے اسلام کو دل میں رکھیں اور نماز اور دوسرے اسلامی احکام پر عمل درآمد سے سختی سے اجتناب کریں۔ مولوی صاحب کی یہ بات مجھے کچھ عجیب سی لگی لیکناس وقت مجھے اس سلسلے میں مزید کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں اس لیے میں نے مولوی صاحب کے اس مشورے کو واقعی اسلام کا ایک حکم سمجھتے ہوئے سرِ تسلیم خم ک ردیا۔ اس پر گھر اور برادری میں خوب خوب خوشیاں منائی گئیں۔ چند دن بعد انکشاف ہوا کہ ان مولوی صاحب کا تعلق ایک ایسے فرقے سے ہے جو خود اپنے آپ کو مسلمانوںکے سواداعظم سے علیحدہ سمجھتا ہے اور یہ کہ ان کے اس فتوے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ پتا چلتے ہی میں نے اپنے معمولات کو دوبارہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کا فیصلہ کر لیا اور باقاعدگی سے پانچوں وقت کی نماز پڑھنے لگا۔ ساتھ ہی ہندو مذہب سے کھلے بندوں اظہارَِ برأت شروع کر دی۔ چند دن بعد میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مقامی ہندوئوںکی ایک گروہ نے مسجد میں گھس کر نمازیوں پر حملہ کر دیا۔ میں نے یہ صورت حال دیکھی تو فیصلہ کر لیا کہ اب قبول اسلام کے باقاعدہ اعلان کا وقت آچکا ہے۔ چنانچہ میں نے مسجد ہی میں سرِ عام اپنے قبولِِ اسلام کا اعلان کر دیا اور واضح کیا کہ اب میرا ہندو مت یا ہندوئوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ ہندوئوں کے لیے ایک کھلا چیلنج تھا اور مجھے ان کی طرف سے اس چیلنج کا جواب دینے کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی۔
گھر پہنچا تو گھر والوں کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان کی وہ خوشیاں جو چند دن پہلے میرے اسلام کو پوشیدہ رکھنے کے فیصلے سے پیدا ہوئی تھیں‘ کافور ہو چکی تھیں اور سب کے چہرے غم سے نڈھال ہو چکے تھے۔ لیکن بحمدللہ ایسی کسی بھی چیز سے میرے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ ادھر والد صاحب نے یہ سمجھ کر کہ اب مجھے اسلام سے باز رکھنا ان کے بس کا روگ نہیں‘ میرا معاملہ ایک ہندو تنظیم کے سپرد کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ تنظیم اپنی انتہا پسندی اور اسلام دشمنی کے لیے بری طرح بدنام ہے۔ اب ابتلا اور مصائب کا ایک نیا اور نہ ختم ہونے والا بہت سخت اور صبر آزما سلسلہ شروع ہو گیا اور اگر اللہ مجھے استقامت نہ دیتا تو شاید میں ان حالات کا مقابلہ نہ کرسکتا۔‘‘
’’ان مصائب کی تفصیل بتانا پسند کریں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجھے ہندوئوں کی جس تنظیم کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہمذہب کے معاملے میں انتہا پسند ہی نہیں تشدد پسند بھی ہے۔ اس تنظیم کے مقاصد میں دوسری باتون کے علاوہ یہ بھی شامل ہے کہ ان مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہر ممکن طریقے سے دوبارہ ہندو بننے پر مجبور کیا جائے جن کے آبا و اجداد ہندو تھے۔ ظاہر ہے جن لوگوں کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہو‘ وہ ایک ہندو نوجوان کے قبولِ اسلام کو کس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے تھے۔ ان کے ہتھے چڑھنے کے بعد کسی شخص کے سامنے صرف دو ہی راستے کھلے رہ جاتے ہیں ارتداد یا موت… تیسرے کسی راستے کا سوال ہی پؒید انہیں ہوتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مجھے بالکل ہی معجزانہ طور پر اس آزمائش سے بچا لیا‘ لیکن جن دوسری آزمائشوں سے گزرنا پڑا وہ بھی کچھ کم صبر آزما نہ تھیں۔‘‘
’’بعض مخلص دوستوں کے پُر زور اصرار پر جو مجھے انتہا پسند تنظیم کے حوالے کر دینے کے منصوبے سے آگاہ تھے‘ مجھے شہر سے باہر واقع ایک دوست کے گھر ایک ایسے کمرے میں پناہ گزین ہونا پڑا جہاں مویشی باندھے جاتے تھے۔ مذکورہ انتہا پسند تنظیم کومیری یوں اچانک گمشدگی کی اطلاع ملی تو اس کے کارکن میری تلاش میں پورے شہر میں پھیل گئے۔ شہر کی کوئی مسجد‘ کسی معروف مسلمان کا مکان‘ کوئی راستہ اور کوئی اڈہ ایسا نہ تھا جہاں پر پہرے نہ بٹھا دیے گئے ہوں۔ مجھے اس ناکہ بندی کی برابر اطلاع ملتی رہی۔ یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ یہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا‘ سحری و افطاری اور نماز کی ادائیگی کا اہتمام بھی اسی مویشی خانے میں ہوتا۔ تقریباً ایک ہفتے اس پناہ گاہ میں اسی حال میں گزرا۔ پھر اس تنظیم کے کارکنوں نے وہاں سے مایوس ہو کر اپنی تلاش کا رخ دوسرے شہروں کی طرف پھیر دیا۔ چنانچہ ایک روز رات کے پچھلے پہر بھیس بدل کر ایک ساتھی کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ایک دوسرے بڑے شہر میں پہنچ گیا۔ وہاں کے تحریکی رفقا کو میرے قبولِ اسلام کے بارے میں پہلے سے پتا تھا۔ دراصل میں انہی کی دعوت پر وہاں گیا تھا۔ مجھے ان لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور میری اپنی خواہش پر ایک دینی درس گاہ میں داخل کروا دیا لیکن ابھی وہاں تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس ہندو تنظیم کے کارکن آورد ہوئے اور وہاں رہنا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ ان رفقا نے بدایوں کے ایک دور افتادہ قصبے خی ایک درس گاہ بھیج دیا۔ اس درس گاہ کا انتخاب اس اعتبار سے مناسب تھا کہ یہ علاقہ اس ہندو تنظیم کی رسائی سے باہر معلوم ہوتا تھا۔ وہاں میں نے دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی سیکھنا شروع کر دی کیوں کہ اس کے بغیر محض ہندی زبان کے بل بوتے پر اردو زھبان میں موجود وسیع اسلامی لٹریچر پر حاوی ہونا ممکن نہ تھا۔ ابھی مدرسے میں بمشکل ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ اس تنظیم کے کارکن میری تلاش میں وہاں بھی پہنچ گئے۔ یہ محض ایک معجزہ تھا کہ ان کے آنے کی اطلاع مجھے پہلے مل گئی تھی اور وہاں سے نکل جانے میں آسانی رہی۔
اب میری منزل جنوبی بھارت کا صوبہ مدراس تھا۔ وہاں کی مشہور دینی درس گاہ ’’دارالاسلام‘‘ کے اربابِ حل و عقد میرے بارے میں پہلے سے جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں تقریباً چھ سال مجھے پوری یکسوئی اور دل جمعی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔
یہاںتقریباً پانچ سال گزارنے کے بعد میں نے کچھ عرصے کے لیے اپنے آبائی قصبے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں میں نے اپنے انہی محسن کے ہاں قیام کیا جنہوں نے مجھے سب سے پہلے سید مودودیؒ کی ایک چھوٹی سی کتاب (دین ِ حق) کے ذریعے اسلام سے روشناس کراسیا تھا۔ لوگوں کو میری آمد کی خبر ہوئی تو وہ جوق در جوق مجھے ملنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں ہندو بھی تھے۔ اس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔ وہ یہ کہ انہوں نے جب دیکھا کہاس قدر مصائب اور شدائد کے باوجود میں نے اسلام پر استقامت دکھائی ہے اور مجھے کوئی لالچ اور خوف راہِ حق سے منحرف نہیں کر سکا تو ان کی نفرت عقیدت میں بدل گئی۔ اسی دوران عیدالفطر آگئی۔ مسلمانوں نے اعلان کر دیا کہ عید کی نماز بھی میں ہی پڑھائوں گا اور خطبہ بھی میں ہی دوں گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ قرب و جوار کے ہزاروں مسلمان بڑے بڑے جلوسوں کی شکل میں عید گاہ میں جمع ہونے لگے بلکہ عید گاہ کے چاروں طرف ہزاروں ہندو بھی میری تقریر سننے کے لیے پہنچ گئے۔ وہ اس بات پر بے حد حیران تھے کہ مسلمانوں نے ایک ایسے شخص کو جو ابھی چند سال پہلے ہندو تھا‘ اپنی مذہبی پیشوائی اور امامت کے منصب پر کس طرح فائز کر لیا۔ وہ اسلام کے اس پہلو اور پھر میری تقریر سے حد درجہ متاثر ہوئے۔‘‘
’’اپنے والدین سے بھی ملے ہوں گے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’جی ہاں اور خدا کا شکر ہے ان کے رویّے میں بھی خاصی تبدیلی آچکی تھی بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں مجھ جیسے حالات سے دوچار ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو بعید نہ تھا کہ معمولی توجہ سے وہ بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اپنے ابتلاو مصائب کی روداد بیان کر چکے تھے تو میں نے پوچھا ’’آپ یہاں سرزمین حجاز تک کیسے پہنچے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں سرزمین حجاز کے ذکر سے چمک اٹھیں جیسے دل میں امڈتی ہوئی ساری عقیدت و محبت ان میں سمٹ آئی ہو۔ ’’دارالاسلام‘‘ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا جو باآسانی مل گیا۔ چار سال کے بعد وہاں سے فارغ التحصیل ہوا تو جامعۃ الملک عبدالعزیز مکہ المکرمہ میں ماجسقر (ایم اے) میں داخلہ لے لیا۔ ماجسقر میں میرا تحقیقی مقالہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث کی نوعیت اور حیثیت سے متعلق تھا اور اس کا عنوان تھا ’’ابوہریرہ فی ضو مرویاتہ فی جمال شظاہد و انفرادہ‘‘ یہ امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پیاس کیا اور رابطۂ عالمِ اسلامی سے منسلک ہو گیا۔ چنانچہ رابطہ میں ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہوں۔ رابطہ میں رہتے ہوئے بھی میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ حال ہی میں جامعہ ازہر قاہرہ سے اعزاز کے ساتھ پی ایچ ڈی کیا ہے۔ پی ایچ ڈی میں میں نے اپنے تھیسز (Thesis) میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے عدالتی پہلو پر تحقیق کی ہے اور اس کا عنوان نے ’’اقضیۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ یہ دونوں تحقیقی مقالے عنقریب کتابی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کیا محسوس کیا؟‘‘ میرا نیا سوال پہلے سوالوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔
’’میں نے محسوس کیا کہ میں بھیانک اندھیروں سے نکل کر روشنی میں اور اتھاہ گہرائیوں سے اٹھ کر بلندیوں میں پہنچ گیا ہوں۔ مجھے اپنے مقصدِ زندگی کا پہلی بار صحیح شعور حاصل ہوا۔ میں نے یہ بات بھی بڑی شدت سے محسوس کی کہ اسلام اور موجودہ مسلمان معاشرے میں بہت بڑا فرق ہے اور غالباً یہی بات غیر مسلموں کے قبولِ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم دعوتِ حق کا دائرہ غیر مسلموں تک وسیع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس فرق کو ختم کرنا ہوگا ورنہ غیر مسلموںخ میں توسیعِ دعوت کا کام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو اسلامی نظامِ حیات کے کس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟‘‘ میں نے اس ضمن میں ایک اور سوال پوچھا۔
’’یوں تو اسلامی نظام حیات کے ہر پہلو کی کیفیت ’’کرسمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست‘‘ کی سی ہے لیکن پھر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اسلام کے رشتۂ اخوت و مواسات نے سب سے زیادہ متاثڑ کیا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی اسلام کے ان تابناک اصولوں کی برکت سے مسلمان معاشرے میں انماالمومنون اخوۃ کا جذبہ جاری و ساری ہے۔ اسی طرح آج بھی مسلمان معاشرے میں معاشرتی مساوات کی جو روح کار فرما ہے اس کی نظیر کسی اور معاشرے میں نہیں ملتی۔
ان اکرمکم عنداﷲ اتقاکم کے جس ارشادِ ربانی نے دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عربی نخوت کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا اور بلال حبشیؓ اور سلمان فارسیؓ کو ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کا ہم پلہ بنا دیا تھا‘ اس کے اثرات اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان معاشرے پر بڑے صاف اور واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب عصرِ حاضر میں تحریک اسلامی کے سب سے بڑے داعی اور مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اس لیے میرا اگلا سوال اسی مناسبت سے تھا۔ میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ تحریکِ اسلامی کے کن پہلوئوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے؟‘‘
’’تحریکِ اسلام میں مجھے سب سے زیادہ تحریک کے داعی سید مودودیؒ کے ذآتی کردار نے متاثر کیا ہے۔ راہِ حق میں عزیمت و استقامت کی جو نظیر سید مودودیؒ نے قائم کی‘ اس کی مثال ماضی قریب میں بمشکل ہی ملے گی۔ محض دعویٰ کرنا اور بہت ہے لیکن پھانسی کی سزا ملنے پر بھی پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دینا اور باطل کے ساتھ سمجھوتے کی پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دینا کوئی معمولی بات نہیں:
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہے زیاد
مولانا محترم نے جو اسلامی لٹریچر تخلیق کیا ہے میرا ایمان ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے مسلمانوں میں الحاد و لادینیت اور دہریت کو کبھی فروغ نہیں مل سکتا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اگر مولانا کا تخلیق کردہ یہ عظیم الشان لٹریچر موجود نہ ہوتا تو اب تک مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اسلام سے بالکل بے گانہ ہو چکا ہوتا۔
تحریک اسلام کی دوسری جس چیز نے مجھے متاثڑ کیا اس کی مثال تنظیمی ہیئت ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جماعت اسلامی کڑے سے کڑے حالات میں بھی اپنی تنظیمی ہیئت کو بطریق احسن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ بات مسلمانوں کی کسی دوسری تنظیم میں نہیں۔
تحریک اسلامی کی تیسری چیز جس نے مجھے متاثر کیا‘ اس کی وسعتِ ظرف ہے۔ یہ تحریکِ اسلامی کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو فقہی مسلکوں کی بنیاد پر آپس میں الجھنے کی بجائے اختلافِ مسلک کے باوجود اقامتِ دین کی جدوجہد میں ایک دوسرے کے دوش بہ دوش چلنا سکھایا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک اسلامی نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے اور آپس میں روداری کے جذبے کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اس جماعت کی صفوں میں ہمیں مختلف فقہی مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے اپنے مسلک پر چلتے ہوئے بھی اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں قدم سے قدم ملائے چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
تحریک اسلامی کی چوتھی چیز جس نے مجھے متاثر کیا ہے‘ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افراد کو تیار کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ اسلام کا صحیح فہم اور شعور رکھتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کے قیام کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھ کر اس کے لیے اپنی ہر متاع نچھاور کر دینے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی آرزو سمجھتے ہیں‘ جنہیں کسی طاقت سے دبا کر اور کسی قیمت سے خرید کر اپنے مؤقف سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ لوگ عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل مخالف تحریکوں کو بھی پوری طرح سمجھتے ہیں اور ان کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتذے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت ان نئے تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں بجا طور پر یہ خدشہ تھا کہ فرقنگی نظامِ تعلیم کی بدولت وہ اپنے دین‘ تہذیب اور جداگانہ تشخص سے بے گانہ ہو کر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آلۂ کار بن جائیں گے۔‘‘
’’جماعت اسلامی کے علاوہ آپ دنیائے اسلام کی اور کون سی اسلامی تحریک سے متاثر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جماعت اسلامی کے بعد مجھے سب سے زیادہ مصر کی اخوان المسلمون نے متاثر کیا ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون میں بظاہر کوئی انتظامی ربط موجود نہیں لیکن مقصد کے لحاظ سے دونوں تنظیموں میں گہرا ارتباط موجود ہے کیوں کہ ان دونوں تحریکوں کا منبع ایک (کتاب و سنت) ہی ہے۔ پھر ان دونوں تحریکوں کی پشت پر سید مودودیؒ اور سید قطبؒ، محمد قطب اور دوسرے مفکرین کا عظیم لٹریچر موجود ہے۔ میرے خیال میں دنیائے اسلام میں احیائے دین کی باقی تحریکیں بھی انہی دونوں تحریکوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دونوں تحریکیں ایک عالمگیر اسلامی تحریک کے قیام کی راہ ہموار کریں گی۔‘‘
’’ملت اسلامیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج کون سا ہے؟‘‘ میں نے ایک اور سوال پوچھا۔
’’موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج‘‘ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ’’وہ مختلف افکار و نظریات اور ازم ہیں جو گزشتہ صدی کے نصفِ آخر اور موجودہ صدی کے نصف اوّل میں خالص مادہ پرستانہ بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا کا ایک بڑا حصہ انہی ملحدانہ افکار و نظریات کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ نظریات نوعِ انسانی کو ذہنی استقرار اور قلبی سکون فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں وار ان کے نتیجے میں انسان کے مسائل اور مصائب میں بھیانک اضافہ ہوا ہے اور اب دنیا ان سے اکتا چکی ہے‘ لیکن اس کے باوجود انہیں ایک خاص مقصد کے تحت ایک منظم طریقے سے عالمِ اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بدقسمتی سے انہیں مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے خود مسلمانوں میں سے ایجنٹ مل گئے ہیں۔‘‘
’’اس چیلنج سے عہدہ براں ہونے کی کوئی صورت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میرے خیال میں اس صورتِ حال سے پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ کا اتارا ہوا دین ہے اور خود ساختہ افکار و نظریات اس کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اربابِ فکر و نظر اس چیلنج سے اسلام کی روشنی میں عہدہ براںہونے کے لیے میدان میں آجائیں اور ان گمراہ کن افکار و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو پیش کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ ملحدانہ افکار و نظریات اسلام کے مقابلے میں ریت کی دیوار کی طرح بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ میں اس سلسلے میں مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور تحریک اسلامی سے وابستہ دوسرے مفکرین کے تخلیق کردہ لٹریچر کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ بلاشبہ یہ لٹریچر اپنے اندر اس چیلنج سے عہدہ براں ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے دانش ور اور اہلِ قلم ان کتابوں میں دیے گئے رہنما خطوط کی روشنی میں مزید لٹریچر تیار کریں تاکہ ہمارے لیے زندگی کے ہر میدان میں اسلام کی روشنی میں مکمل رہنمائی کا سامان موجود رہے۔‘‘
مسلمان دانشوروں اور اہلِ قلم حضرات کی تصانیف کی بات چلی تو میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! کیا آپ خود اپنی تصانیف کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟‘‘
’’اب تک میری چھ تصانیف مکمل ہو چکی ہیں یا زیر تکمیل ہیں۔ پہلی کتاب ’’گنگا سے زمزم تک‘‘ اردو زبان میں ہے۔ اس کتاب میں‘ میں اپنے قبولِ اسلام کے حالات و واقعات اور تاثرات بیان کر رہا ہوں۔ اس میں بیسویں صدی کی احیائے اسلام کی تحریکوں کا ذکر بھی ہوگا اور اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف داخلی و خارجی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا بھی۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اس دورکی ممتاز عالمی اسلامی شخصیتوں کا تذکرہ بھی آئے گا۔
دوسری کتاب ’’قرآن کے سایہ تلے‘‘ ہندی زبان میں ہے اور اس کتاب کو ہندو نوجوانوں میں ان کے مزاج کی مناسبت سے دعوتِ اسلامی کی توسیع کے لیے لکھا ہے۔ یہ کتاب ماہنامہ ’’کانتی‘‘ دہلی میں قسط وار شائع ہو چکی ہے اور اب بہت جلد کتابی صورت میں منصۂ شہود پر آرہی ہے۔
تیسری کتاب ’’ننگی تلواروں کے سائے میں‘‘ اردو زبان میں ہے۔ اس میں قرنِ اوّل سے لے کر موجودہ دور تک کے ان اصحابِ عزیمت کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی زبان و قلم اور جان و مال سے راہِ حق میں جہاد کی تابناک مثالیں قائم کی ہیں۔ اس کتاب سے جہاں راہِ حق میں جہاد کرنے والوں کے لیے نقوشِ راہ واضح ہوتے ہیں وہاں یہ ناقابل انکار حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس کا دامن تاریخ کے ہر دور میں اصحابِ عزیمت و استقامت کی متاع گرانمایہ سے مالا مال رہا ہے۔
چوتھی کتاب ’’الدراستہ فی ادیان الہند‘‘ میں ہندوستان کے چار مذاہب ہندو مت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ چاروں مذاہب بعض اختلافات کے باوجود اپنی موجودہ صورت میں بہت سی باتوں میں مشترک ہیں اور ان کی بنیادیں بعض ایسے دیو مالائی عقائد و تصورات اور بے مقصد مذہبی رسوم پر کھڑی ہیں جنہیں عقلِ سلیم گوارا نہیں کرسکتی۔ یہ کتاب بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ماہانہ مجلہ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے۔
پانچویں کتاب’’ابو ہریرہ فی ضوء مرویاتہ فی شواہدہ و انفرادہ‘‘ ہے۔ یہ دراصل میرا ماجستر (ایم اے) کا مقالہ ہے جو تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دین کی اساس کتاب و سنت پر قائم ہے اور حدیث سے صرفِ نظر کرکے احکامِ قرآنی کی روح تک پہنچنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ناممکن ہے۔ مخالفینِ اسلام نے مسلمانوں کا تعلق ان کے دین سے منقطع کرنے کے لیے دین کی اس دوسری اساس یعنی حدیث کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ہدف بنایا ہے اور بدقسمتی سے انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خود مسلمانوں میں سے بعض آلۂ کار (منکرینِ سنت) مل گئے۔ ان لوگوں کی طرف سے احادیث کی صحت پر مختلف زمانوں میں مختلف پہلوئوں سے جو اعتراضات کیے گئیٔ ہیں‘ ان میں سے ایک بڑا اعتراض ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ غزوہ تبوک کے (9 ہجری) کے موقع پر ایمان لانے والے حضرت ابوہریرہؓ نے صرف تین سال (حضورؐ کی وفات تک) کے عرصے میں ساڑھے پانچ ہزار کے قریب احادیث کس طرح روایت کی ہیں جب کہ وہ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے یمن کے قاضی بھی رہے اور دربار رسالتؐ میں ان کی حاضری کی مدت مشکل سے تین سال بنتی ہے‘ حالانکہ بعض دوسرے صحابہ کرامؓ سے جو دربارِ رسالتؐ میں بیس بیس سال سے بھی زیادہ عرصے تک حاضر رہے‘ بمشکل چند سو احادیث مروی ہیں۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ احادیث کا بیشتر حصہ اپنی روایات کے اعتبار سے ناقابل اعتبار ہے۔ یہ احادیث کی صحت پر بڑا سخت حملہ ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے احادیثِ رسول پر کیے جانے والے ان اعتراضات کا اور محدثینِ کرام کی طرف سے ان کے جوابات کا جائزہ لیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ اپنی روایت کردہ احادیث میں تنہا ہیں یا یہ احادیث دوسرے صحابہؓ سے بھی روایت ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد دیکھا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہؓ کتنی احادیث کے راوی ہیں اور نقدِ حدیث کے مختلف معیاروں پر ان احادیث کی کیا حیثیت ہے؟
میری چھٹی کتاب ’’اقضیۃ الرسول‘‘ ہے۔ یہ دراصل میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو 725 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فیصلے بیان کیے گئے ہیں جوحضور نے اپنی 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی کے دوران سربراہِ مملکت اور قاضی کی حیثیت سے صادر فرمائے اور جو کتاب اللہ کے بعد اسلامی قانون کا سب سے بڑا ماخذ بھی ہیں اور مرجع بھی۔ یہ کتاب بھی جلد شائع ہو جائے گی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اپنی تصانیف کا ذکر کر چکے تو میں نے ان سے پوچھا ’’آپ آئندہ کس موضوع پر لکھ رہے ہیں؟‘‘
’’میں ہندی زبان میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی نظامِ حیات کے مختلف پہلوئوں کو ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں خالص علمی انداز میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہی پہلوئوں سے ہندو منت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت کا تقابلی مطالعہ بھی کروں گا کیوں کہ میرے نزدیک ہندوئوں کی اسلام سے دوری کا دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے اسلام کو خود ان کی زبان میں اور ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے شائع کردہ ہندی لٹریچر کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر چیز بمشکل ہی ملتی ہے۔ مجھے یقین ہے اگر ہندوئوں کے سامنے ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو سامنے رکھتے ہوئے خود ان کی اپنی زبان میں اسلام کو وسیع پیمانے پر پیش کیا جائے تو ہندوئوں میں اسلام کی اشاعت کے خاصے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ اب ہندوئوں کا نوجوان طبقہ ہندو مت کے دیو مالائی عقائد اور رسم و رواج سے سخت غیر مطمئن ہوتا جارہا ہے۔ وہ ذہنی سکون کی تلاش میں ہندو مت کو چھوڑ کر کسی اور طرف جانا چاہتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو خود ان کی زبان میں ان کی ذہنی سطح کے مطابق ان کے سامنے پیش کریں تو شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے۔ یہی اس کتاب کے لکھنے کا بنیادی محرک ہے ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا ایک سبب اور بھی ہے۔ بھارت میں ہندی زبان کے سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیے جانے کے بعد مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ ہندی زبان میں زیادہ سے زیادہ لٹریچر تخلیق کرنے کا اہتمام کریں ورنہ اندیشہ ہے کہ وہاں خود مسلمانوں کی آئندہ نسلیں بھی بتدریج اسلام سے بے گانہ ہوتی چلی جائیںگی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب گزشتہ دنوں دس سال کے بعد پہلی بار ہندوستان گئے تھے۔ ان کے اس سفر کا مقصد اپنے اعزا و اقارب سے ملنا اور ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لینا تھا۔ میں نے اگلا سوال اسی حوالے سے کیا اور ان سے اس دورے کے تاثرات دریافت کیے۔
’’تقریباً دس سال بعد میں دوبارہ ہندوستان گیا تو میں نے ہندوستان کوکئی پہلوئوں سے مختلف پایا۔ سب سے اہم پہلو ہندو مسلم تعلقات کا ہے کیوں کہ ہندوئوں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں اس چیز کو بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ ہندوئوں میں اسلام سے دوری کا بڑا سبب مسلمانوں سے ان کی نفرت اور دوری رہا ہے‘ جس کا باعث کچھ تو ان کا اپنا تعصب تھا اور کسی حد تک خود مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی۔ مسلمانوں سے اپنی شدید نفرت کی وجہ سے وہ اسلام کے زندگی بخش نظام کو قریب سے دیکھ ہی نہیں سکے اور ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ خود مسلمان بھی انہیں پوری طرح متاثر نہ کر سکے۔ وہ نہ تو انہیں اسلام کی دعوت صحیح طور پر پیش کرسکے اور نہ اپنے طرزِ عمل سے اس بات کی شہادت دے سکے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ذلت کی کن پستیوں سے اٹھا کر عظمت کی کن بلندیوں پر فائز کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہندوئوں میں کئی انتہا پسند تنظیمیں مثلاً ہندو مہاسبھا‘ جن سنگھ‘ راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ پیدا ہو گئیں جو اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتی ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں ان تنظیموں نے ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ انہوں نے یہ سب کچھ اعلانیہ کیا۔ کانگریس کی طرح دوستی کے پردے میں نہیں بلکہ اب میں ہندوستان گیا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اب ان میں سے بعض کے رویّے اور طرزِ زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی آچکی ہے۔ خصوصاً جن سنگھ ایسی متعصب اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی انتہا پسند تنظیموں کا روّیہ بہت حد تک بدل چکا ہے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ جب بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے مخالفین کو ظلم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں ٹھونسنا شروع کر دیا تو اکثر ایسا ہوا کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈر اور کارکن اور تحریک اسلامی کے قائدین اور کارکن ایک ہی جیل‘ بلکہ ایک ہی کمرے میں ٹھونس دیے گئے۔ یوں جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈروں کو ایک عرصے تک تحریکِ اسلامی کے قائدین اور کارکنوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی وساطت سے اسلام وک اس کے صحیح رنگ میں سمجھنے کا موقع ملا اسلام کی دعوت ان کے سامنے اصل رنگ میں پیش کی گئی اور ساتھ ہی اپنے طرز عمل سے اس کی شہادت دی گئی تو اس نے اپنا اثر دکھایا۔ نتیجہ یہ کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اب رواداری میں بدل چکی ہے۔ اب ان کا روّیہ معاندانہ کے بجائے خیر خواہانہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو ان جماعتوں کے رویے اور طرز عمل میں آئی ہے۔
اب تو یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض اوقات ان لوگوں کی طرف سے تحریک اسلامی کے رہنمائوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کے مندروں میں آکر ان کے اجتماعات سے خطاب کریں اور ان کے سامنے اسلام کو اس کے اصل رنگ میں پیش کریں۔ چنانچہ انہی دنوں کی بات ہے کہ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد یوسف نے جن سنگھی رہنمائوں کی دعوت پر احمدآباد جا کر ان کے مندر میں درسِ قرآن بھی دیا اور اسلامی نظامِ زندگی کے مختلف پہلوئوں پر خطاب بھی کیا۔ اسی دوران نماز کا وقت آیا تو انہوںنے مندر ہی میں اذاندے کر اپنے احباب اور رفقا کے ساتھ نماز با جماعت ادا کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کے سلسلے میں افہام و تفہیم کی یہ کوششیں جاری رہیں تو ان شاء اللہ یہ لوگ اسلام سے قریب سے قریب تر آتے جائیں گے اور کعبے کو اس صنم سے خانے سے کتنے ہی پاسبان مل جائیں گے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر نے بتایا ’’میرا یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا۔ بھارت میں‘ میں پچیس دن ٹھہرا اور یہ عرصہ شمالی ہندوستان سے جنوبی ہندوستان تک مسلسل سفر میں گزرا۔ جہاں بھی گیا میرا بڑا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ جلسوں طلبہ کے اجتماعات اور مسجدوں میں عامۃ المسلمین سے اکثر خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ہر جگہ مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں سے کس طرح عہدہ براں ہو سکتے ہیں۔
اس دوریکے دوران کئی ہندو نوجوان بھی مجھ سے ملنے آئے۔ وہاس بات سے حد درجہ متاثر تھے کہ ایک ایسا نوجوان جو ابھی چند ہی سال پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا‘ اسلام کی دامانِ عاطفت میں آنے کے بعد کیا سے کیا ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ اسے اسلام کے تصورِ مساوات کے مطابق باقی مسلمانوں کے برابر سمجھا گیا بلکہ اس کی صلاحیتوںکے بنا پر رابطۂ عالمِ اسلامی ایسے اہم عالمی اسلامی ادارے میں ایک اہم منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ ان میں اکثر نوجوان مجھ سے تخلیقے میں ملنے کے خواہش مند تھے لیکن میرا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ میں اپنی مسلسل مصروفیتوں کی بنا پر ان نوجوانوں سے الگ ملاقات کے لیے وقت نہ نکال سکا۔ بہرحال وہ لوگ میری شخصیت میں قبولِ اسلام کے نتیجے میں رونما ہونے والے انقلاب سے حد درجہ متاثر تھے۔ آئندہ کبھی مجھے بھارت کے دورہ پر جانے کا موقع ملا تو اپنا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دوں گا کہ میں ان نوجوانوں سے خصوصی ملاقات کے لیے وقت نکال سکوں۔‘‘
’’کیا آپ اپنے والدین سے بھی ملے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں میں اپنے والدین سے بھی ملا تھا۔ وہ بھی میری شخصیت کے اندر اسلام کی برکت سے پیدا ہونے والی عظیم تبدیلی نیز میرے رابطۂ عالمِ اسلامی میں ایک اہم منصب پر فائز ہو جانے کی وجہ سے بے حد متاثر تھے۔ انہیں مزید متاثر میرے طرزِ عمل نے کیا جو میں نے پانچ چھ سال سے ان کے بارے میں اختیار کر رکھا تھا۔ میں ان کی کفالت کی ساری ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں اور یہ بات ان پر واضح کر دی ہے کہ میرا ان کے ساتھ یہ طرزِ عمل اسلام کے واضح احکامات اور تعلیمات کی بنا پر ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر کسی کے والدین اسلام نہ قبول کریں تو بھی ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ میں نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں لیکن سرِدست ہم اپنے اندر قبول اسلام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ میں نے بھی زیادہ اصرار کرنے کے بجائے یہی مناسب سمجھا کہ ان کے حق میں اللہ سے دعا کرتا رہوں اور اس دن کا انتظار کروں جب اللہ کے فضل سے ان کے دل میں اسلام کے لیے شیفتگی خود بہ خود تڑپ میں تبدیل ہو جائے۔ وہ کسی خارجی دبائو کے بجائے خود اپنے داخلی دبائو سے حلقۂ بگوش اسلام ہو جائیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیںہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات صبح دس بجے ان کی رہائش گاہ پر جو مسجد الحرام سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہے‘ شروع ہوئی تھی اور اب مغرب کی اذان کو صرف آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ اس دوران میں ہماری گفتگو تقریباً تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ صرف ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھنے کے لیے اٹھے۔ دوپہر کے کھانے اور چائے کے دوران بھی گفتگو ہوتی رہی اور اب جب میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری اس گفتگو کو شروع ہوئے سات گھنٹے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دل چسپ باتوں نے وقت کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ میں نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے آخری سوال پوچھا:
’’کیا آپ ملتِ اسلامیہ کے نام کوئی پیغام دیں گے؟‘‘
’’ملتِ اسلامیہ کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ خیرالامت کی حیثیت سے وہ دنیا میں نوعِ انسانی کی قیادت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس کا کام دوسری قوموں کے پیچھے چلنا نہیں‘ ان کی رہنمائی کرنا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ خدا سے پھرے ہوئے انسانوں کو اسلام کے زندگی بخش نظام کی طرف دعوت دے اور انہی تباہی اور بربادی سے ہمکنار ہونے سے بچائے۔ اس نے ایسا نہ کیا تو وہ خود بھی تباہ ہوگی اور باقی نوع انسانی کی تباہی کا وبال بھی اسی کے سر ہوگا۔ اس سلسلے میں تحریک اسلامی کے کارکنوں پر شدید ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کو دین کی دعوت یعنی فریضہ اقامتِ دین سے روشناس اور وابستہ کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں وقف کردیں تاکہ صحیح اسلامی نظام کا قیام عمل میں آسکے اور ملتِ اسلامیہ ایک بار پھر خیر امت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کر نوع انسانی کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ یہ کام بلاشبہ جان و مال کی غیر معمولی قربانیوں کا طلب گار ہے لیکن اگر ہم اسلامی انقلاب برپا کرنے کے سلسلے میں واقعی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو ہمیں جان و مال کی یہ قربانیاں بہرحال دینی پڑیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے کسی ایک خطے میں بھی اسلامی نظامِ حیات کو عملاً قائم کر لیا تو وہ دن دور نہیں جب خدا سے پھری ہوئی وہ قومیں جو آج اپنے خود ساختہ لادینی نظام ہائے زندگی کے ہاتھوں تباہی کے کنارے پر کھڑی ہیں‘ اسلامی نظامِ زندگی کی برکتوں کو دیکھ کر اسلام کے دامنِ عاطفت میں آجائیںگی۔‘‘
انٹرویو مکمل ہو چکا تھا‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا‘ ان سے اجازت لی اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا کہ مغرب کی اذان میں صرف چند منٹ باقی تھے۔ حرم کی طرف چلتے ہوئے میں نے سوچا اسلام نہ صرف یہ کہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے بلکہ یہ ایک زندگی بخش نظام بھی ہے اور اگر اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر قرنِ اوّل میں عرب کے بدوئوں میں ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے انسان پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کے اثر سے آج اس گئے گزرے دور میں بھی ایک ہندو نوجوان حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد ڈاکٹر ضیا الرحمن بن سکتا ہے۔

حصہ