آن لائن خریداری،مشتری ہوشیارباش

390

آج سے چالیس پچاس سال قبل سوچا بھی نہ تھا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا اتنی بدل جائے گی کہ:
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کی تصویر بن جائے گی۔ اُس زمانے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ دودھ گتے کے پیکٹ یا شاپر میں خوشی خوشی گھر لے جایا جائے گا اور خواتین کے لباس عجب ست رنگے ہوجائیں گے! اگلا حصہ کچھ… پچھلا کسی اور رنگ اور ڈیزائن کا… بازو ان سے بھی الگ نمونہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ مگر آج ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے اور فیشن کے نام پر بخوشی استعمال کررہے ہیں۔
اسی دور کا ایک اور شاخسانہ ’’آن لائن‘‘ خریداری بھی ہے۔ آج ہر چیز آن لائن دستیاب ہے۔ تعمیرات کے سامان سے لے کر بچوں کے پیمپر تک جو چیز چاہیں گھر بیٹھے منگوا سکتے ہیں۔ مگر ٹھیریے! زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ ہم لوگ مسلمان تو ہیں مگر پیسہ ہمیں اپنے ایمان سے شاید زیادہ عزیز ہے، جبھی تو جہاں موقع ملے دوسرے کو ٹھگنے سے باز نہیں آتے۔ ریڑھی والے پھل فروش سے لے کر سنار یا بڑا سرمایہ دار تک… ہر کوئی دوسرے کو دھوکے، فریب اور ملاوٹ کی مار مارتا ہے۔
آن لائن خریداری میں بھی بہت دھوکے دیے جاتے ہیں۔ چند بڑے اسٹور دیانت داری کو اپنا شعار رکھتے ہوںگے کہ ساکھ پر حرف آنے کا خطرہ ہوتاہے، لیکن چھوٹے اسٹور والوں کو اس کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ آرڈر کردہ چیز کا پیکٹ ٹی سی ایس والے سے مطلوبہ رقم ادا کرکے خوشی خوشی گھر کے اندر لائے، بیگم اور بچے مارے اشتیاق کے اردگرد کھڑے ہیں کہ انہی کے لیے تو آن لائن کپڑے منگوائے تھے۔ مرد تو بس اپنی محدود ضروریات کے ساتھ مسکراتا ہی رہتا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا جو درمیان میں آگیا۔ بتانا یہ تھا کہ ڈبہ یا پیکٹ کھولتے ہوئے اشیاء نکالنے لگے تو وہ ندارد۔ سارا ڈبہ ردی سے بھر ہوا تھا۔ حلال کمانے والا مرد یا عورت ایسے موقع پر سوائے سر پکڑنے کے کیا کرسکتا ہے! شکایت کرو تو وہ مانتے نہیں۔ دو سے چار بار شکایت پیش کریں تو پھر فون بھی نہیں سنا جاتا۔
اگر صحیح آرڈر وصول بھی ہوجائے تو بعض اوقات کیمرے کی آنکھ سے موبائل پر وہ چیز زیادہ خوش نما لگ رہی ہوتی ہے، جب کہ اصلی آنکھ سے دیکھنے پر وہ رنگ دھیمے ہوتے ہیں۔ کڑھائی اس شان کی سوٹ پر نہیں ہوتی جیسی تصویر میں لگ رہی تھی۔
ہم اپنی آپ بیتی آپ کو سناتے ہیں۔ بچوں کے جوتے اِن ڈور (سروس) سے آن لائن آرڈر کیے تو ملا کیا بھلا…؟ پانچ جوڑے جوتے آرڈر کیے، لیکن صرف تین جوڑے ڈبے سے نکلے، ان میں بھی ایک جوڑا سائز سے بڑا بھیجا گیا تھا۔ بہت فون کھڑکائے مگر حاصل کچھ نہ ہوا، بلکہ سائز بھی کہیں دور کے اسٹور سے بدلنے کا کہا گیا۔ مگر وہاں جاکر وہ سائز نہیں ملا۔ یوں پانچ جوڑے جوتوں کی قیمت میں صرف دو جوڑے دستیاب ہوئے۔ یہ ہیں آن لائن کی برکتیں۔ اِن ڈور تو اکثر لوگوں کو اپنی ان حرکتوں سے پریشان کرتا رہتا ہے، بہت سے لوگ اس سے شاکی ہیں۔
آن لائن خریداری کا ایک اور نقصان کریڈٹ کارڈ کا نمبر چرا لینا ہے۔ یوں آپ کی ساری معلومات تو اس کے پاس جاتی ہی جاتی ہیں، الٹا وہ اکائونٹ سے آپ کا پیسہ نکال سکتا ہے یا جی بھر کر اپنی خریداری کرسکتا ہے۔ گویا ’’جھوٹ کی فرماں روائی کے سبب حقیقت ہوگئی زیر و زبر‘‘۔
آن لائن خریداری کا یہ پیش کردہ منظر صرف ہمارے پاکستان کا ہے، ورنہ دوسرے ممالک میں یہ نہایت کامیابی سے ہمکنار ہے۔ ظاہر ہے وہاں کے لوگ امانت، دیانت، صداقت کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں، اور ہم جن کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار دین کا حصہ ہیں، انہیں بھلا کر مال کی ہوس میں اندھا دھند بھاگے چلے جارہے ہیں۔ ورنہ اس سسٹم میں فائدے تو کافی ہیں مثلاً:
٭ وقت کی بچت ہوگئی ہے۔
٭ پیٹرول وغیرہ کم خرچ ہوگا کہ زیادہ لوگ بازاروں کا رخ نہیں کریں گے۔
٭ ہوا اور فضا آلودگی سے پاک رہے گی۔
٭ دکان/اسٹور کی جگ مگ کی ضرورت نہیں رہے گی، سو بجلی کی بھی بچت۔
٭ سیلزمین اور کرائے کی دکانوں کا خرچ نہ ہوگا۔
٭ جب چاہا آن لائن آرڈر کردیا، چھٹی رکاوٹ نہیں بنے گی۔
٭ سڑکوں پر بھیڑبھاڑ کم رہے گی۔
٭ ایک حدیث ِمبارکہ کی رُو سے بازار بدترین جگہ ہے جب کہ مسجد بہترین جگہ ہے۔ یوں بدترین جگہ پر کم سے کم جانا ہوگا۔
٭ بازاروں میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط کم ہوجائے گا۔
یوںآن لائن خریداری کے فوائد بھی ہیں، مگر یہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں جب صداقت اور دیانت کو ہم اپنے کردار و عمل کا لازمی حصہ بنا لیں۔ ورنہ یہ بھی صورت حال پیش آسکتی ہے:
محشر میں جو شیخ آئے تو اعمال ندارد
جس چیز کے تاجر تھے وہ مال ندارد

حصہ