وہ چار نوجوان دوست تقریباً تین گھنٹے سے بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے۔ گفتگو کسی اہم موضوع پر نہیں تھی بلکہ فضول قسم کی گپیں ہانک رہے تھے۔ کبھی ایک دوسرے سے مذاق کرتے، اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر اونچی آواز میں ہنستے۔ کبھی اردگرد کے لوگوں کے بارے میں، اور کبھی فلموں، ڈراموں اور اداکاروں کے بارے میں باتیں کرتے۔ کبھی موبائل پہ آنے والے نئے فیچرز پر گفتگو کرتے، توکبھی سوشل میڈیا ایپس پر۔
وہ اپنا قیمتی وقت ایسی بے تکی گفتگو میں ضائع کررہے تھے جسے کوئی بھی مہذب آدمی صرف پانچ منٹ سننے پر ناگواری سے سر جھٹک کر چلا جائے۔ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی بلکہ ایسے بہت سے لوگ روز گھنٹوں بے مقصد بیٹھتے اور وقت کی قیمتی متاع فضولیات و بے مقصدیت کے دریا میں بہا دیتے ہیں، جس کا نقصان سب سے زیادہ ان کی اپنی ذات کو ہوتا ہے، پھر زندگی میں قدم قدم پر پریشانیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خواہشات سب کے پاس ہوتی ہیں لیکن مقصد کچھ کے پاس ہوتا ہے۔ کسی کا ذہین ہونا اتنی بڑی بات نہیں جتنا بامقصد ہونا۔ بے مقصد ہونا ایسے ہی ہے جیسے کسی شاہراہ پر آپ اندھا دھند دوڑتے جا رہے ہیں لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ آپ کی منزل کیا ہے اور کس شاہراہ پر چلنے سے آپ کو اپنی منزل مل سکتی ہے؟ روزانہ گھنٹوں فضولیات میں وقت ضائع کرنے والے افراد معاشرے میں آوارہ، کام چور اور نکھٹو کے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ اگر یہی لوگ خاص کر نوجوان معاشرے میں کچھ مثبت کرنے کی ٹھان لیں …کیوں کہ ان کا خون جوان اور جوش و ولولہ تازہ ہے، وہ جو بھی کرنا چاہیں اپنی لگن کی بدولت کر سکتے ہیں… تو کامیاب، ذہین، قابل، غیرت مند، ہنرمند جیسے عزت افروز ناموں کے تمغے ملنے کے لیے کون سی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل ہو گی؟
مشہور قول ہے کہ ’’عظیم ذہنوں میں خواب ہوتے ہیں اور پست ذہنوں میں صرف خواہشات۔‘‘ خواب دیکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اکثریت خواب دیکھتی ہے، لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں لگ جاتے ہیں۔ سخت محنت و مشقت سے ان کی آبیاری کرتے ہیں۔ اپنے لیے اصولِ راہ متعین کرنے سے پہلے مثبت و منفی کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن اشرف مخلوق ہونے کے ناتے ان خوابوں کی تعبیر نہ صرف ان کے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی نفع بخش اور عزت افزا ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا یہی المیہ ہے کہ نوجوانوں میں مقصدیت کی بھی کمی ہے۔ وہ بس ایک گمنام راستے پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسا رواں سیلاب ہے جسے بہنا ہی بہنا ہے۔ اس کی سمت جس طرف چاہیں موڑ لیں۔
تحریکِ پاکستان میں نوجوانوں کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے، کیوں کہ اُس وقت ان کی سمت درست جانب تھی۔ بلکہ اس تحریک میں یہ لوگ سب سے آگے تھے جس کی وجہ سے چند برسوں میں شدید ترین مخالفت کے باوجود دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا۔ کیوں کہ ان نوجوانوں کے دلوں میں ایک مقصدیت پیدا کردی گئی تھی۔ آج بھی اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوانوں کے اندر مقصدیت پیدا کی جائے اور ان کے جوان جذبوں سے تعمیراتی کام لیے جائیں۔ اس ضمن میں والدین، اساتذہ اور معاشرہ اپنا اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ اگر ہم نے ان پر توجہ نہ دی، انھیں مثبت کی طرف نہ لے کر آئے تو یہی توانائیاں منفیت کی طرف جانے کا خدشہ ہے۔ کچھ انسانیت کے دشمن ان کے شیطانیت کی راہ پر چلنے کے لیے معاون بن جاتے ہیں۔ جنہیں رب نے تسخیر کائنات کے لیے پیدا کیا ہے وہ پستیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شرپسند عناصر انہیں اپنی طرف اچک لیتے ہیں اور یہ معاشرے میں امن کے پیامبر بننے کے بجائے دہشت گردی کی علامت بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمارا اصل دفاع اور سلامتی انہی پر منحصر ہے۔ اعلیٰ خطوط پر پروان چڑھتی نئی نسل ہی آبیاری اور ملکی دفاع کا موجب بن سکتی ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ معاشرتی و اخلاقی تعلیم و تربیت کو فروغ دیں۔ اپنی اخلاقی و روحانی تربیت کی طرف بھی غور کریں تاکہ پہلے اپنے آپ کو سنواریں پھر پاکستانی معاشرے کی باگ ڈور سنبھالیں۔ تجربہ کار افراد اگر باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کے فروغ میں مددگار ہوں، عزت اور شہرت دیں، جو نوجوان کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کریں تو یقینا ان میں مستقل مزاجی اور کام کرنے کی لگن پیدا ہوگی اور مختلف محاذوں پر ملک و قوم کے محافظ بن سکیں گے۔
ہنرمند افراد کسی بھی ملت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فی زمانہ نوجوانوں کے پاس ہنر سیکھنے کے خاصے مواقع ہیں، ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے چھوٹے سے ہنر کو سودمند کام میں تبدیل کیا۔ ضرورت ہے ایسے ہنر مندوں کو تلاش کرنے اور اُن سے رہنمائی لینے کی۔ سیکھا ہوا ہنر کبھی ضائع نہیں جاتا۔ یہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور فائدہ دیتا ہے۔ ہنرمند نہ تو کسی کا محتاج ہوتا ہے اور نہ کبھی بھوکا مرتا ہے۔ ایک ہنرمند ہزاروں لوگوں میں اپنا ہنر منتقل کرسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ جب آپ اپنے ہنر کو بروئے کار لائیں گے تو کئی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لیے سائبان اور مددگار بن جائیں تبھی بہترین قوم و معاشرہ جنم لے سکے گا۔