تو اس سے کہنا کہ لکھے
محبتوں کو شمار کرکے
صداقتوں کا وقار لکھ دے
خلوص کی گر زبان ہوتو
تولے کے اس سے ثبات لکھ دے
وفا کے ذرے جو چُن سکے تو
سماعتوں سے ادھار لے کر
وہ اپنے ماضی کا حال لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
سنبھال رکھے جفا کے پتھر
وفا کے شیشوں میں بال لکھ دے
جو کوئی واپس پلٹ سکے تو
حقیقتوں کو سراب لکھ دے
وہ خدمتیں مستعار لے کر
دعاؤں کو بار بار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
وہ گزرے لمحوں کو
خواب لکھ دے، شباب لکھ دے، سراب لکھ دے
مری طرف سے تم اس سے کہنا
محبتوں کا حساب لکھ دے
امید ابھرے تو رُخ بدل لے
وہ ہر حقیقت سے منہ چُرا کر سراب لکھ دے، عذاب لکھ دے
جو زندگی کے تمام لمحے گزر چکے ہیں
اُنھیں بلائے، جو ہو سکے تو حساب لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے