’’فری تم نے ٹک ٹاک وڈیو بنائی ہے… میں نے نیٹ پر دیکھی، واہ کتنی زبردست… بہت خوب صورت لگ رہی تھیں تم۔ مجھ سے تو میرے سارے دوست پوچھ رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ فریحہ ہے، وہی فریحہ جو حجاب پہن کر آتی ہے، اس کے اتنے خوب صورت اور سلکی بال ہیں… فہد تو کہنے لگا کہ فریحہ کو بولو ہمارے سامنے بھی ایسے ہی آیا کرے۔‘‘ سمیعہ فریحہ کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہی تھی۔
’’وہ تو میں نے ایسے ہی بنالی تھی شوقیہ… ورنہ میرے ابو اور بھائی کو یہ سب چیزیں پسند نہیں۔‘‘
’’ارے کلاس کے سارے دوست تو تم سے آٹوگراف لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ دیکھنا تم جلد مشہور ہوجائو گی، پھر تمھارے ابو اور بھائی کچھ نہیں کرسکیں گے۔‘‘
’’میرے ابو اور بھائی کو پتا چل گیا تو قیامت آجائے گی۔ پتا نہیں وہ وڈیو کیسے وائرل ہوگئی؟ میں تو پہلے بھی وڈیو بنا کر اپنے پاس رکھ لیتی تھی، لیکن یہ وڈیو غلطی سے نیٹ پر چلی گئی، تب سے اب تک پریشان ہوں کہ ایسا کیا کروں کہ یہ وڈیو ڈیلیٹ ہو جائے… پلیز سمیعہ میری مدد کرو… میں کیا کروں؟‘‘
’’یہ تو تمھیں پہلے سوچنا چاہیے تھا…اپنی حیثیت کے مطابق شوق پالو۔‘‘ سمیعہ کا لہجہ ہی بدل گیا۔
’’سمیعہ تم تو میری دوست ہو، تم نے ہی میری حوصلہ افزائی کی تھی کہ میں ایسی وڈیو بنائوں… پلیز اس وقت تو میرا ساتھ مت چھوڑو۔‘‘
’’ارے مجھ پر کیوں الزام لگا رہی ہو؟ میں نے تھوڑی کہا تھا کہ وائرل کردو۔‘‘
’’غلطی ہو گئی مجھ سے، پلیز مجھے اس مشکل سے نکالو۔‘‘
’’میں کیا کر سکتی ہوں! مجھے اس معاملے میں مت گھسیٹو…‘‘ یہ کہہ کر سمیعہ وہاں سے چلی گئی۔
سمیعہ امیر گھرانے کی بے باک لڑکی تھی اور فریحہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی جو صرف اپنے شوق اور ذہانت کی بنا پر اسکالرشپ پر اتنی مہنگی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ سمیعہ ٹک ٹاک وڈیوز بنانے کی شوقین تھی۔ فریحہ سے دوستی کے بعد اُس نے فریحہ کو اسی راہ پر لگا دیا تھا۔ یہ دونوں وڈیوز بناتیں، لیکن فریحہ اپنے گھر والوں کی عزت کی وجہ سے اپنی وڈیو کو شیئر نہ کرتی، کیوں کہ اس کے ابو اور بھائی کو اس پر بہت مان تھا اور اسی اعتماد کی بنا پر وہ یونیورسٹی تک پہنچی تھی۔ وہ اپنے شوق کو اُن کے لیے رسوائی کا باعث نہیں بنانا چاہتی تھی، اس لیے اُس نے سمیعہ سے سختی سے کہہ دیا تھا کہ میری کوئی وڈیو وائرل نہیں ہوگی، اور سمیعہ نے بھی اس پر اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری مرضی کے بغیر ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن پتا نہیں کیسے فریحہ سے اپنی وڈیو وائرل ہوگئی۔ فریحہ جو کہ یونیورسٹی میں حجاب پہن کر اپنے آپ کو ڈھانپ کر آتی تھی، اس طرح وڈیو وائرل ہونے کے بعد ہر اسٹوڈنٹ اس سے فرینک ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ جبکہ پہلے اس کے حجاب کی وجہ سے سب اس کو عزت دیتے تھے۔ جب سے وڈیو وائرل ہوئی، ہر کوئی فریحہ سے نمبر مانگنے لگا۔ کوئی کہتا کہ فریحہ مجھے بھی وڈیو بھیجو… فریحہ میرے ساتھ لنچ کرلو… اس طرح کے جملوں سے فریحہ تنگ آکر یونیورسٹی چھوڑ کر بیٹھ گئی۔ اس کی دوست سمیعہ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اسے اس بات کا اچھی طرح احساس ہوگیا تھا کہ میرے ماں باپ میرے بھلے کے لیے مجھے حجاب لینے کو کہتے تھے لیکن میں نے اپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنی عزت گنوا دی، اب ہر کوئی مجھے ایک عام ٹک ٹاکر سمجھ کر نمبر مانگ رہا ہے۔ حجاب سے میری کتنی عزت تھی، میں نے اس کو اتار کر اپنے آپ کو بے مول کرلیا۔ اب میں دوبارہ اس راہ پر نہیں چلوں گی۔ اے اللہ! مجھے معاف کردے، تیری بندی بھٹک گئی تھی۔‘‘ فریحہ نے روتے ہوئے ہاتھ اٹھا لیے، اور اپنی نئی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق اپنانے کاعزم کرتے ہوئے پُرسکون ہوگئی۔