پولیس کے دو متضاد رویے

184

گزشتہ دنوں گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ وہاں استقبالیہ کمرے میں چار پولیس اہلکار موجود تھے۔ ایک اہلکار کے پاس ایک خاتون رپورٹ درج کرا رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ میرا کام جلد ہو جائے گا، سورس استعمال کی ضرورت نہیں۔ لیکن……
لیکن میں نے بقیہ اہلکاروں سے بات کی کہ رپورٹ درج کرانی ہے تو انہوں نے انتظار کرنے کو کہا کہ ابھی اہلکار فارغ ہوگا تو آپ کی رپورٹ درج کرے گا۔میں بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ اہلکار چند منٹ میں فارغ ہوگیا۔ میں نے کہا کہ سر رپورٹ درج کرانی ہے تو کہنے لگا کہ آپ رش کے ٹائم آئے ہو انتظارکرو۔ میرے اس کمرے میں پہنچنے کے 10منٹ بعد ایک اور شخص رپورٹ درج کرانے آیا تو وہ بھی بیٹھ گیا۔ وہ اہلکار دیگر دفتری کولیگز کے ساتھ فحش گوئی کر رہا تھا۔ تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد اس نے مجھے بلایا۔ میں نے درخواست اسے پیش کی تو اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور میرے بعد آنے کو بلاکر اس کی رپورٹ درج کرنے لگا۔ میں نے تحمل سے بینچ پر انتظار کیا۔
تقریباً پون گھنٹے بعد وہ اہلکار پھرکہنے لگا کہ آپ رش والے ٹائم پر آئے ہوانتظار کرو۔اب میری ’’ہٹ‘‘ چکی تھی۔ میں نے بلند آواز سے کہا کہ بھائی مزید کتنا انتظار کرنا ہوگا پون گھنٹہ ہوچکا ہے، 1گھنٹہ، 2 گھنٹے یا 3 گھنٹے؟۔ وہ اہلکار مجھ سے پوچھنے لگا کہ کتنے بھائی ہو؟ کون سا نمبر ہے، کہاں رہتے ہو۔ پھر اپنے کولیگز سے کہنے لگا کہ اس کی جب رپورٹ درج ہوجائے تو تھانے کی سیر کرائیں گے۔ چند منٹ بعد ایک دوسرا اہلکار اس کی جگہ بیٹھ گیا اور وہ بھی اسی طرح کی سروس دے رہا تھا۔میں نے کمرے سے نکل کر اپنے ایک دوست جن کی تھانے میں بات چیت ہے، فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او سے وہ ابھی بات کرتے ہیں اور کال بیک کرتے ہیں۔ پانچ منٹ بعد انہوں نے ایس ایچ او کا نمبر بھیجا اور کہا کہ ایچ ایچ او کو میرے ریفرینس دے کر بات کرلیں۔ میں نے ایس ایچ او کو فون کیااور کمرے میں گیا، اس اہلکار سے ایس ایچ او کی بات کرائی۔ وہ اہلکار فون سن کر میری رپورٹ فوراً درج کرنے لگا۔ ساتھ ہی مجھے غصہ بھری آنکھیں دکھا کر کہنے لگا کہ آپ کو میں نے کہا نہیں تھا کہ چند منٹ انتظار کریں۔میں نے کوئی جواب دیے بغیر آنکھوں کے اشارے سے ’’کیری اون‘‘ کہا۔ جیسے ہی اس نے رپورٹ درج کرکے پیپر مجھے دیا، میں فوراً نکل گیا کہ کہیں وہ مجھ سے چائے پانی کا تقاضا نہ کر دے۔
آج مجھے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لیے متعلقہ ادارے کی ناظم آباد برانچ جانا تھا۔ میں نے گیارہ بجے کا اپوائنمنٹ گزشتہ دن لے لیا تھا۔ میںگیارہ بج کر پانچ منٹ پر پہنچا۔ کائونٹر پر ٹوکن دکھایا تو انہوں نے مجھے ایک پرچی دے کر برابر والی کھڑکی پر جانے کو کہا۔ وہاں سے اندر ہال کا ٹوکن ملا۔ اندر ہال میں اپنے مطلوبہ کائونٹر پر پہنچا تو وہاں موجود اہلکار نے شناختی کارڈ کی کاپی مانگی۔ میں جلدی میں کاپی رکھنا بھول گیا تھا۔ وہاں سے باہر نکلا تو فوٹو کاپی کی دکان کا اشارہ نظر آیا۔
فوٹو کاپی کرا کر واپس اسی کاؤنٹر پہنچا۔ اس نے کاپی کے ساتھ ایکسپائرڈ لائسنس طلب کیا، میں نے دیا۔ اس نے موبائل نمبر پوچھ کر ایک نیا ٹوکن دیا جو کہ فیس کا تھا۔ رقم دیکھی 2313 روپے تھی۔ میں نے ایک ویب سائٹ پر 1800 کے لگ بھگ فیس دیکھی تھی۔ میں نے پریشان ہوکر وائلیٹ چیک کیا تو شکر 2500 روپے نکل آئے۔ ٹوکن پر نادرا اور دیگر مد ملاکر رقم درج تھی۔ فیس بھری تو اس نے تصویر کھینچوانے کا ٹوکن دیا۔ جلد ہی تصویر والے افسر صاحب نے میرا نام پکارا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا، تصویر کھینچنے کے بعد مجھے اپنے ایل سی ڈی پر تصویر دکھانے لگا کہ صحیح ہے یا دوسری لوں؟ اوکے کے بعد اس نے میڈیکل کا ٹوکن دیا۔
اب اصل ’’مرحلہ‘‘ تھا جس میں فیل کا اندیشہ تھا۔ پچھلے رینول میں مجھے افسر نے آنکھوں کے ٹیسٹ میں فیل کردیا تھا، میں نے ہرا پتا دکھاکر بنوایا تھا۔ میڈیکل کے کمرے میں دو اہلکار تھے۔ ایک افسر مجھے اسٹول پر بٹھا کر آنکھوں کا ٹیسٹ لینے لگا۔اس نے سیکنڈ لاسٹ لائن پر لکھے الفاظ پوچھے تو ڈر لگا کہ اب آخری لائن پر پوچھے گا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ دوسرے اہلکار نے طبیعت کا پوچھا اور ٹوکن دیا۔ اب آخری کاؤنٹر تھا، اہلکار نے ایکسپائرڈ لائسنس لے کر بڑی پرچی دی جسے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ کام ہوگیا‘ میرا لائسنس 10 دن کے اندر ڈاک کے ذریعے گھر پہنچ جائے گا۔
باہرنکلا تو ایک افسر نے محکمہ کی سروس کا پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ میں نے سروس کی تعریف کی تو اس نے کمنٹ بک کی جانب اشارہ کیا کہ اپنے تاثرات تحریر کریں۔ کمنٹ بک پر تاثرات لکھے اور باہر نکلا۔ میں نے موبائل پر ٹائم دیکھا تو حیرت ہوئی کہ لائسنس آفس کے تمام مراحل پچیس منٹ میں طے ہوئے۔
یہ تھے پولیس کے دو رویّے جو ایک دوسرے سے متضاد تھے۔ بدقسمتی سے تھانہ کلچر اب بھی وہی ہے جو ماضی میں تھا۔ شریف آدمی آج بھی تھانہ جانے سے گھبراتا ہے۔ تھانے میں پولیس کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے رپورٹ درج کرانے والا خود مجرم ہو۔ گھنٹوں کی بلا وجہ انتظار کروا کے رپورٹ درج کرتے ہیں کہ جیسے وہ احسان کر رہے ہیں۔ جب کہ رپورٹ درج ہونے میں بہ مشکل5 منٹ لگتے ہیں لیکن پولیس اہلکار عوام سے چائے پانی وصول کرنے کے بعد ہی رپورٹ درج کرتے ہیں۔ ناظم آباد لائسنس آفس میں سندھ پولیس دوسرے روپ میں نظر آئی جس سے خوش گوار حیرت ہوئی۔

حصہ