پاکستان نصف صدی قبل (ستمبر1971)

670

امریکا، روس اور بھارت کے دباؤ میں آکر 5 ستمبر کو صدر جنرل یحییٰ خان نے اُن تمام افراد کو عام معافی دینے کا اعلان کردیا جنہوں نے مشرقی پاکستان میں یکم مارچ سے 5 ستمبر تک کے عرصے میں جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ صدارتی بیان میں کہا گیا تھا کہ توقع ہے کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی ہنگاموں کی گرماگرمی میں جن لوگوں سے جرائم سرزد ہوگئے تھے اور جو خوف کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے یا روپوش ہوگئے تھے، عام معافی کے اِس اعلان کے بعد سامنے آجائیں گے اور اپنی روزمرہ زندگی پہلے کی طرح شروع کردیں گے۔ عام معافی کے صدارتی حکم میں یہ وضاحت بھی کی گئی تھی کہ اِس اعلان کا اطلاق مسلح افواج کے بنگالی جوانوں، افسروں اور ایسٹ پاکستان رائفلز پر بھی ہوگا۔
عام معافی کے اعلان کے تحت تمام زیر حراست شرپسندوں کو رہا کردیا گیا، صرف اُن لوگوں کو رہا نہیں کیا گیا جن پر فردِ جرم عائد کی جاچکی تھی۔ اگرچہ یہ بنیادی طور پر اچھا فیصلہ تھا، مگر اتنی تاخیر سے کیا گیا کہ اس کی افادیت نہ رہی۔ کیونکہ ستمبر تک تمام باغی بھارتی تسلط میں جاچکے تھے، اور ان میں سے اکثر بھارت میں تربیت پاکر مکتی باہنی میں شامل ہوچکے تھے، اور اب ان کے لیے واپسی ممکن نہ تھی۔ اگر یہ فیصلہ اپریل کے آغاز میں ہوتا اور آرمی ایکشن روک دیا جاتا، یا نہ کیا جاتا، بلکہ اکثریتی پارٹی یعنی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کردیا جاتا تو شاید مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔ کیونکہ اُس وقت تک عوامی لیگ کے 90 فیصد رہنما مشرقی پاکستان ہی میں تھے، اور ذاتی تحفظ کی ضمانت پر سامنے آنے اور حکومت سے تعاون کرنے کو تیار تھے، لیکن اب وہ کلکتہ منتقل ہوکر جلاوطن حکومت بنا چکے تھے۔
اسی دوران مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مکتی باہنی کی تربیت اور طریقۂ کار خاصا بہتر ہوگیا تھا۔ ان کی جرأت اور قائدانہ صلاحیتوں میں بھی نمایاں فرق نظر آنے لگا تھا۔ اب وہ فوجی قافلوں اور کمین گاہوں پر حملے کرنے، بحری جہازوں کو ڈبونے اور اہم سیاسی شخصیات کو قتل کرنے لگے۔ ان کارروائیوں میں ڈھاکہ کو خصوصی اہمیت حاصل رہی۔
عام معافی کے اعلان کو باغیوں نے اس لیے بھی اہمیت نہیں دی کہ چھاپہ مار جنگ اور تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے مفرور بنگالیوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے وطن کو آزاد کرا لیں گے۔ مکتی باہنی کے کسی رکن یا مفرور سیاسی رہنما نے عام معافی کے اعلان سے فائدہ نہیں اٹھایا، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ بعض شرپسند وطن واپس آنے والے پناہ گزینوں کے بھیس میں آزادی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں آنے جانے لگے۔ وہ یا تو اسلحہ، بارود، گرنیڈ اور بارودی سرنگیں اپنے ساتھ لاتے تھے، یا اندر داخل ہوکر مقررہ جگہ سے وہ چیزیں حاصل کرلیتے تھے۔
حکومت نے وطن واپس آنے والوں کے لیے سرحدوں کے ساتھ ساتھ استقبالیہ کیمپ قائم کیے جہاں راشن، نقدی اور طبی امداد کا اہتمام تھا۔ مگر ان کیمپوں میں بہت کم لوگ آئے۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا اعتماد بحال نہیں ہوا۔ وہ ہماری ان خبروں کو محض پروپیگنڈہ سمجھتے تھے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں، اور بھارت کے اس پروپیگنڈے کو حقیقت گردانتے تھے کہ واپس جانے سے ان کے مال و جان اور عزت خطرے میں پڑجائے گی۔
بعض بنگالی یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اعلانِ معافی کا اطلاق شیخ مجیب الرحمن پر بھی ہوگا۔ اس امید کو ان افواہوں سے تقویت ملی کہ غیر ملکی طاقتیں شیخ مجیب کی رہائی کے لیے جنرل یحییٰ پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
ستمبر ہی کے مہینے میں ڈاکٹر اے ایم مالک کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا گیا۔ وہ دانتوں کے ڈاکٹر، سیاست دان اور عملی طور پر مزدور رہنما تھے۔ جبکہ جنرل ٹکا خان کو گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر اے ایم مالک گورنر اور جنرل نیازی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔
کرنل صدیق سالک اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جنرل ٹکا خان اپنی اچانک علیحدگی پر خوش نہ تھے، اس کا اظہار اُن کے رویّے سے بار بار ہوتا تھا۔ انہیں یکم ستمبر کی شام آفیسرز میس میں الوداعی پارٹی دی گئی جس میں چھاؤنی کے سینئر افسروں نے شرکت کی۔ ضیافت کے بعد جنرل نیازی نے جنرل ٹکا خان کو خراج تحسین پیش کرنا شروع کیا۔ ٹکا خان گم سم کرسی میں دھنسے سنتے رہے۔ جب وہ جوابی تقریر کرنے کے لیے اٹھے تو فرمایا : مجھے 4 مارچ کو اچانک راولپنڈی میں بلاکر نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کا حکم دیا گیا۔ اب دفعتاً مجھے یہ ذمہ داریاں ڈاکٹر مالک کے حوالے کرنے کو کہا گیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیںآتا کہ ایسا کیوں ہوا ہے! مگر صدر کے فیصلے پر تبصرہ کرنا میرے لیے مناسب نہیں، وہی مکمل صورت حال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو منجدھار میں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ میری خواہش تھی کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر جاؤں، مگر بڑوں کی مرضی۔ بہرحال آپ حوصلہ رکھیں، آپ کے کمانڈر (جنرل نیازی) بڑے تجربہ کار ہیں، وہ آپ کی مناسب رہنمائی فرما ئیں گے، البتہ ایک بات یاد رکھیے کہ حالات پر اپنی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دینا، ورنہ یہاں آپ کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
اگلی صبح انہیں الوداع کہنے کے لیے ہم ائیرپورٹ پہنچے، جہاں صرف سرکاری افسر موجود تھے۔ مجھے ان کی روانگی کا منظر دیکھ کر ان کی آمد کا وقت یاد آگیا، جب وہ 7مارچ کی روپہلی سہ پہر کو ہشاش بشاش، تازہ دم اور پُراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ جہاز سے اترے تھے۔ آج ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
ٹکا خان کی روانگی کے اگلے روز (3ستمبر) سہ پہر کو نئے گورنر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ تقریب میں معززینِ شہر، اعلیٰ سرکاری افسروں اور سفارتی سربراہوں نے شرکت کی۔ تقریب کے دوران میری نگاہ ڈاکٹر اے ایم مالک کے نحیف بدن، ڈھلکے ہوئے چہرے اور دھندلائی ہوئی آنکھوں پر مرکوز رہی، اور میں سوچتا رہا کہ اس مردِ پیر کا حوصلہ کتنا جوان ہے کہ اس نے اپنے ذمے وہ کام لیا ہے جو جنرل ٹکا خان سے نہیں ہوسکا اور انہیں تبدیل کرنا پڑا۔
ڈاکٹر مالک کے گورنر بننے سے ڈھاکہ میں کشیدگی اور تناؤ کی فضا خاصی حد تک کم ہوگئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی غیر کی جگہ گھر کا ایک فرد آگیا ہے۔ اگرچہ بنگالی عوام ڈاکٹر مالک سے ایسی عقیدت نہ رکھتے تھے جو انہیں حسین شہید سہروردی، مولوی فضل الحق یا خواجہ ناظم الدین سے تھی، مگر وہ ٹکا خان سے زیادہ قابلِ قبول تھے۔ انہوں نے اپنی تقرری کے بعد شہر کی سب سے بڑی مسجد بیت المکرم میں نمازِ جمعہ ادا کی جہاں جنرل ٹکا خان نے کبھی قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا۔ غیر بنگالی خاص طور پر بہاری آبادی میں جنرل ٹکا خان کے جانے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ٹکا خان کے جانے سے شرپسند اور تیز ہوجائیں گے اور غیر بنگالی آبادی کی جان، مال اور عزت خطرے میں پڑجائے گی۔ مجھے یاد ہے کہ 4 ستمبر کو ایک بہاری اخبارنویس نے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں مجھے فون کیا تو میںنے اس سے کہا کہ اب تو بنگالی گورنر آگیا ہے، تمہیں سول انتظامیہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ کون سی سول انتظامیہ سالک صاحب! ہمارا گورنر تو مغربی پاکستان چلا گیا ہے‘‘۔
(میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ ص 110)
(حوالہ جات: ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ از کرنل صدیق سالک، ’’البدر‘‘ از سلیم منصور خالد، ’’شکستِ آرزو‘‘ از پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین، ’’خون اور آنسوؤں کا دریا‘‘، ’’بچھڑ گئے‘‘ از کرنل زیڈ آئی فرخ، ’’المیہ مشرقی پاکستان‘‘ از اعجاز ابن اسد، ’’پاکستان ٹوٹنے کی کہانی‘‘ از وسیم گوہر، ’’مشرقی پاکستان کا زوال‘‘ از سعید الدین، ’’پاکستان توڑنے والے‘‘ از افتخار علی شیخ)

حصہ