آئے دن میڈیا پر لرزہ خیز خبریں سنائی دیتی ہیں جو دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ پھر مختلف چینلز ان خبروں کو ’’مرچ مصالحہ‘‘ لگاکر بار بار اس طرح نشر کرتے ہیں کہ شریف النفس آدمی دہل جاتا ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے! خصوصاً گزشتہ ایک دو سال سے خواتین پر تشدد، انہیں ہراساں اور قتل کرنے کی وارداتیں سن کر خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ کبھی زینب کا واقعہ، کبھی ماہا کا واقعہ، کبھی نورمقدم، تو کبھی عائشہ کا واقعہ… پھر ان واقعات پر ہفتوں تبصرے اور بیانات، جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ ملک بھی بدنام ہورہا ہے۔ پھر ملک دشمن عناصر ایسے واقعات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی بنا پر بیرونی ممالک میں وطنِ عزیز کی بدنامی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان واقعات کے رونما ہونے میں قصور کس کا ہے؟ میڈیا، والدین، اسلامی تعلیمات سے دوری، ماڈرن سوسائٹی اور صحبت کا اثر، خواتین کی بے جا آزادی یا موبائل کے غلط استعمال کا؟ بعض لوگ صرف ان واقعات میں ملوث مردوں کو موردِ الزام ٹھیراتے ہیں۔ ذرا تحمل اور دیانت داری سے تجزیہ کریں کہ یہ سب آج کل کیوں ’’عام‘‘ ہوگیا؟ ٹھیک ہے کہ میڈیا کی وجہ سے اب یہ خبریں ہمیں سنائی دیتی ہیں جبکہ کچھ دہائیوں پہلے تک اس قسم کے واقعات اس طرح خبروں کی زینت نہیں بنتے تھے حالانکہ پہلے بھی اس نوعیت کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اب ایسے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ آج کا ایک بڑا سوال ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ الگ الگ تجاویز پیش کررہے ہیں اور مختلف چیزوں کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں۔ میں نے اوپر جو وجوہات بیان کی ہیں اکثر لوگ ان سے متفق ہوں گے۔
آج اکثر معاشرتی برائیوں کی سب سے بڑی وجہ ہماری دینِ اسلام سے دوری ہے۔ اسلامی تعلیمات پر ’عمل پیرا والدین‘ کی گود میں چاہے بیٹی پرورش پا رہی ہو یا بیٹا… والدین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ (اولاد) برائیوں کے قریب نہ پھٹکے۔ دینِ اسلام نے جہاں عورت کو ستر پوشی اور حیا کی چادر اوڑھائی ہے، وہیں مرد کو نگاہیں جھکانے کی بھی تلقین و تاکید فرمائی گئی ہے۔ میرے دین نے عورت کو پابندِ سلاسل نہیں کیا، لیکن حدودِ اسلامی کے دائرے میں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے اور گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ آج لبرل ازم کے حامی ان حدود کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ عورت پر غلطی سے مرد کی اگر ایک نظر پڑ جائے تو دانستہ دوبارہ اس غلطی سے پرہیز کا حکم ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شہد کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو مکھیاں تو اس پر بھنبھنائیں گی اور چیونٹیاں بھی چمٹ جائیں گی۔
بے شک اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے جرائم پر سرعام سزائیں دینا لازمی ہے تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ آج سے پینتیس چالیس سال پہلے جب میرے محترم والد صاحب سعودی عرب میں بیٹے کے پاس مقیم تھے، بتاتے تھے کہ ایک قاتل کو بعد نمازِ جمعہ بیچ چوراہے پر پھانسی پر چڑھایا گیا۔ اور اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ اُس زمانے میں سعودی عرب میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔
اگر آج ہمارے ملک میں ایسے ’’وحشیوں‘‘ کو سرِعام سزائیں دی جائیں تو دوسرے عبرت پکڑیں گے کہ ان ’’گناہوں‘‘ پر دنیا میں بھی پکڑ ہے۔ شریعتِ اسلامی کے مطابق جرائم پر مجرموں کو سزائیں انصاف کے مطابق دی جاتی ہیں، کوئی اس قانون سے بالاتر نہیں۔ میرے نبیؐ کے سامنے جب ایک خاتون چور کو لایا گیا تو آپ نے اسلامی شریعت کے مطابق سزا کا حکم فرمایا اور کہا کہ اگر فاطمہؓ سے بھی یہ جرم سرزد ہوتا تو یہی سزا دی جاتی… آج اسی شرعی قانون کا نافذ ہونا اسلامی معاشرے کی بقا کے لیے ضروری امر ہے…
ہمارے معاشرے کی ہر برائی سرے سے ختم ہوسکتی ہے جب ہم اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات و احکامات کے سانچے میں مکمل طور پر ڈھال لیں۔ معاشرے میں سرایت کرتے مذکورہ بالا جرائم کی روک تھام کے لیے عورت اور مرد دونوں کا احتیاط برتنا لازمی امر ہے۔ ایسے واقعات میں ہم صرف مردوں کو موردِ الزام ٹھیرائیں اور خواتین کو بری الذمہ قرار دیں تو یہ ناانصافی ہوگی۔ میرے دین اسلام نے پاکیزہ معاشرے کی تعمیر و ترویج کے لیے قرآن پاک میں جگہ جگہ خوبصورت احکامات جاری کیے ہیں، جن پر عمل کرنا آج ایک طبقے پر گراں گزر رہا ہے، جبکہ یہی سنہری احکامات ہماری دنیا و آخرت کو سنوارنے کا موجب ہیں۔ صرف اِس دنیا کے عیش کے دلدادہ ان احکامات کو فراموش کرکے اپنے نفس کے غلام ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دوسروں کے لیے بھی باعثِ اذیت ہیں۔
آج مخلوط پارٹیاں عام ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کی آپس میں دوستی کو خوبصورت رشتے سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سرِعام لڑکی اور لڑکا نہ صرف پیار بھرے ڈائیلاگ بول رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو پرپوز بھی کررہے ہیں۔ پھر ایسے واقعات کی تشہیر اس طرح کی جارہی ہے جیسے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جارہا ہو۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نبیؐ سے معتبر دنیا کی کوئی ہستی نہیں، لیکن آپؐ سے بیعت کے لیے کوئی خاتون تشریف لاتی تو زبانی بیعت لیتے۔ کبھی کسی عورت کو نہیں چھوا…دین اسلام نے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی حیا کی تلقین فرمائی ہے۔ سورۃ النور میں میرا رب فرماتا ہے کہ ’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالیں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوند کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے خسر کے، یا اپنے لڑکوں کے، یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے۔“ (سورۃ النور آیت نمبر 30 اور 31 کا کچھ حصہ) اللہ نے واضح طور پر عورتوں اور مردوں کو بے حیائی سے بچنے کے لیے احکامات اور ہدایات فرمائی ہیں… اسی طرح سورۃ النور میں میرے اللہ نے ان بے حیائی کے کاموں کو شیطان کی پیروی کرنا کہا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ”ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا، اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے کردیتا ہے، اور اللہ سب سننے والا اور سب جاننے والا ہے۔‘‘
میرے رب العالمین نے قرآن پاک میں ایک ایک بات کو کھول کر بیان فرمایا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و اسوئہ حسنہ سے پاکیزگی کی مکمل تعلیم ملتی ہے۔ ایسی تعلیم سے ہر ایک کو فیض حاصل کرنا چاہیے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو حیا و پاکیزگی سے روشناس کروائیں، اس کی اہمیت کو واضح کریں۔ میڈیا بھی ایک اسلامی ریاست کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی نشریات میں بے حیائی کی تشہیر سے پرہیز کرے۔ ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ حضرت عمرؓ کے دور کی مثل مشہور ہے کہ بھیڑ اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے، ہر طرف امن و امان تھا، کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ عورت کو تکریم و تقدس حاصل تھا۔ اس کی وجہ اسلام اور اسلامی احکامات کی پیروی کرنا تھا۔ ہر ایک اسلام کی حدود میں قدم اٹھاتا تھا۔ اسلامی معاشرے میں ہی ہم سب کی بقا پوشیدہ ہے۔ اسلامی معاشرہ ہی مرد و عورت کو تکریم، عزت، احترام، تحفظ اور امن دے سکتا ہے۔ آنے والا وقت دجالی فتنوں سے پُر ہوگا، ان دجالی فتنوں کا توڑ ’’اسلام‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم نے، ہماری حکومت نے اسلامی تعلیمات کو اپنا نصب العین بنایا تو اِن شاء اللہ اس قسم کے واقعات میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ یہ ختم ہوجائیں گے۔