شہزاد احمد کا انٹریو

832

جہاں لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں وہاں ادب کا کردار زیادہ موثر ہوتا ہے۔
جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
ایسے خوب صورت شعر کے خالق شہزاد احمد تیس برس قبل کراچی آئے تھے۔
مغربی علوم اور ان علوم کے شناوروں کی کتابوں کے رسیاء نئے خیالات، نئے تصورات کی جستجو اور شعر و ادب کی ذہنی اور تخلیقی دنیا میں اپنے شب و روز گزارتے ہوئے، دیکھنے میں جاپانی یا شاید برمی سے، عینک کے عقب سے جھانکتی ذہین نیلی نیلی سی آنکھیں، گورا چٹا رنگ جس میں سرخی کی ہلکی سی آمیزش، طبیعت میں سنجیدگی اور ظرافت کا امتزاج، کالج کے زمانے میں شاید کثرت مطالعے سے نگاہوں کو عینک کی ضرورت پیش آگئی۔ پہلے دن عینک پہن کر کالج پہنچے تو استاد صوفی غلام مصطفی تبسم نے غور سے دیکھ کر فرمایا: ’’شہزاد! تم عینک میں بالکل بچو دکھائی دیتے ہو‘‘۔
ادب سے مگر برجستہ کہا: ’’سر! عینک اتار دوں تو آپ بھی مجھے کچھ ایسے ہی لگیں گے‘‘۔
یہ واقعہ بعد میں لطیفے کے طور پر مشہور ہوا۔ اب یاد نہیں شاید ڈاکٹر سید عبداللہ یا ان ہی جیسی کسی بردبار شخصیت نے سنا تو سنجیدگی سے کہا: ’’اساتذہ سے ایسی حاضر جوابی نازیبا سی بات ہے‘‘۔
یہ تبصرہ بتا کر شہزاد صاحب نے زور کا قہقہہ لگایا۔
جب بھی شہزاد صاحب سے ملا، دل کی کلی مرجھائی بھی ہوتی تھی تو کھل اُٹھتی تھی۔ کیا حکومت اور شائستگی، کیسا علم اور کیا خوب نظر تھی۔
جون 1983ء کی وہ دوپہر جب رفیق بزرگ سجاد میر صاحب کے ہاسٹل نما کمرے واقع طارق روڈ پر ان سے گفتگو ہوئی تھی، وہ بستر پر نیم دراز، تکیے پر کہنی اور ہتھیلی پر سر رکھے نہایت سہولت سے گہری علمی باتیں میرے سوالوں کے جواب میں کیے جاتے تھے۔ باتیں چوں کہ ذرا نئی تھیں، تب اوسپنسکی جیسے مفکروں کے نام اور خیالات ہماری علمی دنیا میں عام نہ ہوئے تھے، شاید کوئی کتاب ترجمہ بھی نہ ہوئی تھی تو خوب مزے کی لگی ان کی گفتگو۔ پھر جب بھی وہ آتے، ملاقات لازمی تھی۔ ایک عرصہ ایسا بھی گزرا کہ یہیں اسی شہر میں ان کا قیام رہا۔ ان دنوں کی یادیں ان پر اپنے شخصی خاکے میں رقم کرچکا ہوں (مشمولہ ’’کوئے دلبراں‘‘) ان کا مذکورہ انٹرویو کتاب میں شامل ہوا۔ دوسری ملاقات بہ سلسلہ انٹرویو نومبر 1998ء میں ہوئی۔ وہ ملائیشیا اور سنگارپور کا دورہ کرکے وہاں کانفرنس میں شرکت کے بعد لوٹے تھے، کچھ ہی عرصہ پہلے عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر موت کی دہلیز سے واپسی ہوئی تھی… عارضہ قلب نے قلب ماہیت ایسی کی کہ شعر و ادب سے زیادہ سائنس و ٹیکنالوجی اور وہ علوم جنہوں نے مغرب کو فرش سے عرش کی سیر کرائی، ایسے قائل و گھائل تھے کہ گفتگو ان ہی موضوعات و مسائل کے گرد گھومتی رہی۔
1982ء میں ان کی پہلی علمی کتاب جو میری نظر سے گزری ’’مذہب تہذیب موت‘‘۔ یہ فرائیڈ کے نظریہ جبلت کے مطالعے پر مبنی کتاب تھی۔ پھر شہزاد صاحب علمی موضوعات پر ایسے رواں ہوئے کہ انہوں نے ترجمے کے ذریعے اردو زبان کو نفسیات، طبیعات، بشریات اور جانے کیسے کیسے جدید علوم کی کتابوں سے مالا مال کیا۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍیہی نہیں جن مفکروں اور فلسفیوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا، ان کے افکار و نظریات کا نچوڑ بھی ان کے تعارف کے ساتھ پے در پے اپنی کتابوں میں پیش کیا۔ فرائیڈ کے علاوہ ژونگ، الفریڈاڈلر، اوسپنکی، مارٹن گارڈن، آئزک ایسی موف، اسٹیفن ہاکنگ … ان پر ترجمے اور طبع زاد کتابوں کے ڈھیر لگادیے۔ یہی نہیں اپنے ہم وطن دانشوروں اور سائنس دانوں کی کتابوں کے ترجمے کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی۔ چناں چہ علامہ اقبال کے لیکچرز جس کا ترجمہ نذیر نیازی بہت پہلے کرچکے تھے اس کا سلیس ترجمہ بھی ’’اسلامی فکر کی نئی تشکیل‘‘ کے عنوان سے کیا۔ سلاست کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نذیر نیازی کے خطباتِ اقبال کے عنوان کا ترجمہ تھا: ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘۔ ڈاکٹر اجمل کی کتاب کا ترجمہ ’’نفسی طریقِ علاج میں مسلمانوں کا حصہ‘‘ ایم ایم شریف کی انگریزی کتاب کا ترجمہ ’’مسلم فلسفہ کی تاریخ‘‘ کی پہلی جلد کا کیا۔ ڈاکٹر افضل اقبال کی کتاب کا ترجمہ ’’اسلامی ثقافت‘‘ اور تو اور وہ مسلمان یا غیر مسلم مصنفین جن کا تعلق اپنے وطن سے نہ تھا، جیسے حسین نصران کی معرکہ آرا تصنیف ’’اسلامک سائنس‘‘ کا ترجمہ دو جلدوں میں ’’اسلامی سائنس‘‘ کے عنوان سے کیا۔ سیرت پر این میری شیمل کی کتاب ’’محمد الرسولﷺ‘‘ شواں کی کتاب Understanding Islam کا بہ عنوان ’’اسلام کی پہچان‘‘ ترجمہ کیا۔ ان کی تصانیف و تراجم کی تفصیل اور کیا بیان کروں۔ چوں کہ حملہ قلب اور پھر عمل جراحی سے دوران خون کو متبادل راستے کی فراہمی (By Pass) کے جاں گسل تجربے سے گزر چکے تھے تو اس کا تذکرہ کرکے فرمانے لگے:
’’مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ خدا نے مجھے دوسری زندگی اسی مقصد سے دی ہے کہ اپنی قوم کو سائنسی علوم کی کتابوں کے ترجمے سے اس کی علمی ضرورت کو پورا کردوں‘‘۔
تب وہ اسٹیفن ہاکنگ کی شہرئہ آفاق کتاب ’’وقت کی رفتار‘‘ آئزک ایسی موف کے مستقبلیات کے بابت مضامین کو ’’آج اور کل سائنس کے آئینے میں‘‘ اردو کا جامہ پہنا چکے تھے۔ انہوں نے نوبل انعام یافتہ سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام کے مقالات کا ترجمہ ان کی اجازت اور نظرثانی سے ’’ارمان اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے کیا، اس کا مقدمہ ڈاکٹر صاحب نے خود تحریر کیا۔ پھر شہزاد صاحب کچھ عرصہ بعد مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بنادیے گئے۔ اس حیثیت میں بھی انہوں نے مجلس کی علمی رفتار کو تیز کیا۔ اور اس منصب پہ رہتے ہوئے اپنی قوم کی علمی بے ذوقی کو علم کے ذوق و شوق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ یقینا انہیں یہ روحانی اطمینان موت کے بعد بھی رہا ہوگا کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام کردیا تھا۔
شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے نفیسات (1952ء) اور فلسفے (1955ء) میں ایم اے کیا۔ کالج کے مشہور رسالہ ’’راوی‘‘ (1953-54ء) کے مدیر بھی رہے۔ ان کی وفات یکم اگست 2012ء کو ہوئی۔
طاہر مسعود: شہزاد صاحب! گفتگو کا آغاز ایک نازک سے سوال سے ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری کل وقتی کام ہے۔ شاعری اور دنیاوی معاملات کامیابی اور حسن و خوبی سے یکساں طور پر نہیں چل سکتے۔ آپ شاعر بھی ہیں اور افسر بھی۔ یہ فرمائیے کہ آپ نے ان دونوں میں توازن کیسے قائم رکھا ہے؟
شہزاد احمد: میں نے دونوں میں کوئی توازن قائم نہیں رکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں ایک تو تخلیقی شخصیت دوسری مشینی شخصیت۔ بعض عادات جو آپ سیکھتے ہیں ابتدائی مرحلے میں وہ ایک تخلیقی کام ہوتا ہے۔ جب آپ سائیکل چلانا سیکھ لیتے ہیں تو آپ کے لیے یہ تخلیقی یا تربیتی کام نہیں رہتا۔ پھر آپ اسے اپنے روبوٹ کے حوالے کردیتے ہیں۔ آدمی بہ یک وقت تخلیقی اور روبوٹ کی سطح پر زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے بہت سے کام ہم نہیں کرتے، ہمارا روبوٹ کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی چیز کون سی ہے؟ اگر تمام فیصلے روبوٹ کرتا ہے تو آپ تخلیقی آدمی نہیں ہیں لیکن اگر آپ روزمرہ کی چیزوں سے ہٹ کر بھی فیصلے کرتے ہیں تو آپ یقینا تخلیقی آدمی ہیں۔ یہ تضاد ہے، لیکن اس تضاد سے کوئی بھی مبرا نہیں۔
طاہر مسعود: لیکن ہمارے ہاں جن اچھے اور بڑے شعراء کی مثالیں ملتی ہیں وہ سب کے سب کل وقتی شاعر تھے اور بالفاظ دیگر عمل کے میدان میں کم زور یا پیچھے تھے۔ بڑے شعراء میں ایک مثال تو علامہ اقبال کی ہے، جن کے بارے میں جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ وہ چار پائی پر بیٹھے کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور والدہ اس پر ناراض ہوتی تھیں کہ دفتر کیوں نہیں جاتے۔ نچلی سطح پر یا حال کی دنیا میں واپس آجائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے شعرا جنہوں نے سمجھوتے کیے وہ شاعری سے گئے اور روبوٹ بن گئے۔
شہزاد احمد: ژنگ کا خیال ہے کہ تخلیق انسان سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اگر وہ قوت ہی کمزور ہے تو پھر سمجھوتے تو ہوں گے۔ کیوں کہ تخلیقی قوت آدمی کو آگے بڑھاتی ہے۔ بہت سے کام جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ ہم اسے کررہے ہیں، لیکن ایس ہمارے اندر کوئی اور قوت کررہی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ میکانیکی زندگی میں مست رہتے ہیں اوسپنسکی نے اسے نیند کی کیفیت کہا تھا اور لکھا تھا کہ بعض لوگ ساری زندگی اسی کیفیت میں گزار دیتے ہیں۔ اس نے اس میں سے آرٹ اور شاعری کو خارج نہیں کیا تھا۔ خود شاعری اور آرٹ بھی میکانیکی ہوسکتی ہے۔
طاہر مسعود: براہ کرم شاعری اور آرٹ کے میکانیکی ہونے کے بارے میں وضاحت فرمائیں؟
شہزاد احمد: اگر آپ شاعری کی سطح پر آئیں تو ہمیں بہت سے شعرا کے کلام میں کلیشے (ہم روبوٹ کی جگہ کلیشے استعمال کریں گے) نظر آتا ہے۔ بہت سی غزلیں کلاسیکی رنگ میں پہلے سے لکھی جاچکی ہیں، نئے شعرا انہیں سامنے رکھ کر نئی غزلیں لکھ لیتے ہیں۔ یہ ایک میکانیکی عمل سے کلیشے ہر شاعری کے لیے ضروری ہوتا ہے کیوں کہ قاری سے کوئی نہ کوئی نکتہ اتصال ہونا چاہیے۔ شاعری میں ہم جانی بوجھی چیز سے حرارت لے کر انجانی چیزوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: آئیے ہم دوبارہ آپ کی شاعری اور دفتری زندگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی دفتری زندگی نے آپ کی شاعری کو منفی طور پر کس حد تک متاثر کیا؟
شہزاد احمد: متاثر تو یقینا کیا ہوگا۔ آپ پر کوئی تخلیقی کیفیت طاری ہوئی اور آپ نے اسے ضائع جانے دیا تو منفی اثرات مرتب ہوئے۔
طاہر مسعود: ایسے موقعے پر ایک شاعر کا انتخاب کیا ہونا چاہیے؟
شہزاد احمد: انتخاب تو تخلیق ہی ہونا چاہیے جن شعرا کی مثالیں آپ کے ذہن میں ہیں وہ دنیا کے دوسرے کاموں میں اُلجھ جاتے ہیں۔ سارے تخلیقی لمحات کو آپ استعمال نہیں کرسکتے، کچھ نہ کچھ تو ضائع ہوجاتے ہوں گے۔
طاہر مسعود: کہتے ہیں ادب کا ہماری اجتماعی زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے اور اب معاشرے میں ادب کا ماضی جیسا کردار نہیں رہا، ادب غیر موثر ہوگیا ہے، اس کے بہت سے اسباب بھی گنوائے جاتے ہیں۔ مثلاً عہد کی تبدیلی، تاہم آپ کی نگاہ میں سب سے اہم سبب کیا ہے؟
شہزاد احمد: میں آپ کا سوال نہیں سمجھا؟
طاہر مسعود: ہم فکشن کی مثال میں تو 36ء میں لوگ ادب پڑھتے تھے۔ ادیب کا لوگوں سے رشتہ قائم تھا اور ادب ایک اجتماعی سرگرمی کا نام تھا۔ جب کہ آج ادیب چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹ گئے ہیں۔ عام لوگوں کی دلچسپیاں ادب سے تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ ادیبوں نے زندہ مسائل پر لکھنا اور بولنا چھوڑ رکھا ہے، ان کا معاشرے میں کوئی موثر کردار نہیں رہا۔ میں آپ سے ان کے اسباب جاننا چاہ رہا تھا۔
شہزاد احمد: مطالعہ ادب کے لیے قوت متخیلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں ادب پڑھا ہی نہیں جاسکتا۔ پہلے جب دنیا اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی، زندگی گزارنے کی سہولتیں بھی اتنی زیادہ نہیں تھیں۔ زندگی کو غیر محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اب ہم رزق کے سلسلے میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ سہولتیں بھی خاصی میسر آگئی ہیں۔ قوت متخیلہ کے استعمال کی ضرورت کم سے کم تر ہوگئی ہے۔ اب ٹی وی آگیا ہے جس کے ذریعے ہر چیز سامنے آگئی ہے۔ قاری اب قوت متخیلہ استعمال نہیں کرتا۔ جہاں گیپ آتا ہے وہاں قاری تخیل کے عناصر کو استعمال کرنے پر تیار نہیں ہے اور ساری بات یہ ہے کہ جہاں لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں وہاں ادب کا کردار زیادہ موثر ہوتا ہے۔ آج افریقا اور ایسے ممالک کی شاعری ہمارے سامنے آرہی ہے جہاں زندگی نسبتاً غیر محفوظ ہے۔ (جاری ہے)
طاہر مسعود: سائنسی ترقیوں اور ایجادات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو بھی مزید تحفظات ملنے باقی ہیں۔ ایسی صورت حال میں زندگی کسی ایسے مرحلے میں بھی تو داخل ہوسکتی ہے جہاں ادب کا جواز بالکل ختم ہو کر رہ جائے‘‘۔
شہزاد احمد: کچھ لوگ ہمیشہ ایسے رہتے ہیں جو ان تحفظات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں، مثلاً میرے گھر میں ٹی وی ہے، لیکن میں ٹی وی نہیں دیکھتا، کتاب پڑھتا ہوں۔ زندگی میں ایک سطح ایسی ضرور آتی ہے جب لوگ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے ضرور رہیں گے جو زندگی کو قوت متخیلہ اور احساس کی سطح پر رکھ کر دیکھیں گے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ادب یکساں طور پر سب انسانوں کے لیے قابل قبول ہے؟ ادب ان لوگوں کے لیے جنہیں زیادہ سہولتیں میسر ہوں میکنیکل ہوجاتا ہے۔ اس میں دو ہی صورتیں رہتی ہیں۔ آپ ایسی سچوئیشن میں ہوں کہ قوت متخیلہ استعمال کرتے ہوں یا آپ کے اندر ایسا خلفشار ہو جو آپ کو مجبور کرے کہ چیزوں کو بالکل الگ طریقوں سے دیکھیں۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ڈائجسٹ کیوں پڑھتے ہیں؟ دیکھیے ڈائجسٹ کتنا ہی سطحی ادب ہو لیکن وہ لوگوں کی قوت متخیلہ کو بیدار کرتا ہے۔ جنوں اور بھتوں کی کہانیاں یا پیرا سائیکلوجی غرض کہ وہ علوم جنہیں سائنس نے مسترد کیا تھا اور لگتا تھا کہ اب ان کا احیا دوبارہ نہیں ہوسکے گا، ان کا احیا بہت بری طرح سے ہوا ہے اور کتنا زیادہ ہوا کہ سب سے زیادہ کتابیں جو مجھے دکھائی دی ہیں وہ میجک، علم الاسرار اور پیرا سائیکلوجی کی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن کی بہت سے فیکلینز دوبارہ دریافت ہوئی ہیں۔
طاہر مسعود: ادب نہ پڑھے جانے کی ایک وجہ یہ تو نہیں کہ خراب ادب لکھا جارہا ہے اور ایسی چیزوں کو ادب کا درجہ دے دیا گیا جو ادب نہیں ہیں؟
شہزاد احمد: یہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیوں کہ خراب ادب تو ہر جگہ لکھا گیا ہے۔ یہ تاثر بھی ٹھیک نہیں ہے کہ لوگ ادب نہیں پڑھتے، جو ادب پڑھتے ہیں وہ پڑھتے ہیں۔
طاہر مسعود: میری مراد یہ تھی کہ جس طرح لوگوں نے منٹو، عصمت یا کرشن کو پڑھا ہے، قرۃ العین، انتظار حسین کو نہیں پڑھا بلکہ بہت سے لوگ تو موخرالذکر سے واقف بھی نہ ہوں گے۔
شہزاد احمد: جس طرح ٹینی سن کو وکٹورین عہد میں آتش دان کے سامنے بیٹھ کر پڑھا گیا، اس طرح ٹی ایس ایلیٹ کو نہیں پڑھا گیا۔ بعض اوقات بعض چیزیں بہت مقبول ہوجاتی ہیں۔ ٹینی سن بھی بہت مقبول تھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایلیٹ سے بڑا شاعر تھا۔ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ چھوٹے ادب کو بڑے ادب جتنی مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔
طاہر مسعود: کیا اچھی شاعری کے لیے مقبول ہونے کی شرط ضروری ہے؟
شہزاد احمد: بالکل نہیں۔
طاہر مسعود: لیکن وہ مقبول بھی ہوتی ہے؟
شہزاد احمد: اگر مقبول ہوتی ہے تو لوگ اس کی کوئی جہت ڈھونڈ نکالتے ہوں گے۔ تخلیق کا عمل مقبولیت کے خلاف ہے۔
طاہر مسعود: کیا مقبولیت کوئی بری چیز ہے؟
شہزاد احمد: بری چیز کا سوال نہیں ہے جو مروج ہے یا فرمائشی چیز ہے، اگر آپ کو وہی کرنا ہے تو یہ کوئی تخلیقی عمل نہیں ہے۔ تخلیقی عمل تو یہ ہے کہ آپ چیزوں کو جس طرح محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار اس طرح کریں۔ اگر آپ کا اظہار ویسا ہی ہے جیسا عام لوگ کرتے ہیں تو یہ ادب نہیں ہے۔ ادب کی جو اعلیٰ سطح ہے اس میں مقبولیت کی گنجائش بہت کم ہے۔ جو شاعری عام طور پر مقبول ہوتی ہے اس میں کلیشے کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: میر، غالب یا اقبال کی شاعری کے بعض حصے جو اعلیٰ ترین شاعری بھی ہیں اور عام لوگوں میں مقبول بھی، اسے آپ کیا کہیں گے؟
شہزاد احمد: جہاں اقبال شاعری کے بلند ترین مقام پر ہے، مثلاً اس کی بہترین نظمیں ’’مسجد قرطبہ‘‘ یا ’’ذوق و شوق‘‘ ہیں جو عوام میں کم مقبول ہیں۔
طاہر مسعود: اگر آپ کی شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کی شاعری کے جوہر میں وہ کون سا عنصر ملتا ہے جس نے اسے مقبول ہونے سے روکے رکھا؟
شہزاد احمد: مقبولیت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ لکھنے والے کا مسئلہ ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر وہ کچھ محسوس کررہا ہے کہ اسے کچھ لکھنا ہے تو اسے لکھ دے۔ مقبولیت لکھنے والے کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے روبوٹ کا مسئلہ ہے کہ آپ مقبول ہوتے ہیں یا نہیں۔
طاہر مسعود: مجموعی شعری صورت حال پر آپ کا عمومی تاثر کیا ہے؟ شعرا جس قسم کی شاعری کررہے ہیں اس سے آپ مطمئن ہیں؟
شہزاد احمد: بعض جھلکیاں اچھی لگتی ہیں۔ عام طور پر تخلیقی اپج کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے جس دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ اردو نظموں کے عروج کا دور تھا، بالخصوص لاہور میں تو نظموں کا طوطی بول رہا تھا اور بے چاری غزل کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ آپ نے یکایک غزلیں لکھنی شروع کیں۔ کیا یہ آپ کی اندرونی خواہش کا نتیجہ تھا یا کسی ردعمل کا اظہار؟
شہزاد احمد: مجھے غزل کی فارم اچھی لگتی ہے۔ جب میں نے غزل لکھنی شروع کیں تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میں نے اردو شاعری میں جو کچھ پڑھا ہوا تھا وہ بھی غزل ہی تھی اور اس کے لیے یہ فارم مجھے پسند تھی۔ جب ہم نے ادب پڑھنا شروع کیا تو نظمیں مروّج تھیں، غزل کا ایک خاص انداز بن گیا تھا، اس کے مضامین بھی خاص طرح کے تھے۔ نظم نے یہ کیا کہ ایک نیا طرزِ احساس بنانے کی کوشش کی، اور جب یہ طرز احساس بن گیا تو غزل نظم سے متاثر ہوگئی اور وہ ان معنوں میں کہ پہلے ایک شعر ایک موڈ میں اور دوسرا دوسرے موڈ میں لکھا جاتا تھا لیکن نظم سے متاثر ہونے کے بعد غزل میں غزل مسلسل کا رواج ہوا۔ یہ جدید غزل کی پہچان تھی کہ جس طرز احساس سے آپ نے غزل کو شروع کیا ہے اسی طرز احساس پر اسے ختم کریں۔ غزل کے اندر ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے غزل زندہ ہے۔ غزل کے اندر ردعمل پیدا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ اسی دور میں غزل کی پورے کلاسیکی روایت کو رد کرنے اور کسی مابعدالطبیعاتی نظام کو نہ ماننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس کی بھی غزل نے نمائندگی کی۔ جدید غزل کسی متعین نظام مابعد الطبیعات کے ماتحت نہیں ہے جس طرح ہماری پرانی غزل ہے بلکہ جدید غزل کسی نظام مابعد الطبیعات کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ یہاں معاملہ سائیکی کا ہوگیا ہے اور وہ اس لیے کہ جب آپ کسی متعین معاشرے سے نکلتے ہیں اور آپ کی اقدار ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں تو ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ آپ اپنی سائیکی کے ذریعے اپنے آپ کو دریافت کریں۔ یہ غزل میں بھی ہوا ہے اور نظم میں بھی۔ جدید غزل کو موجودہ ہیئت دینے میں قیام پاکستان کا بہت عمل دخل ہے جس میں آپ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ آگئے ہیں، پرانی اقدار ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور آپ نئی اقدار تخلیق کررہے ہیں اور اگر نہیں کررہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ آئوٹ سائڈر ہوگئے ہیں اور آپ نے سارتر کی طرح Nausia لکھ دیا ہے۔ شاعر موجودہ صورت حال کو اپنے لیے اجنبی سمجھتا ہے اور خود کو آئوٹ سائیڈر۔ جدید غزل یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: بہ حیثیت شاعر آپ کا نام ایک زمانے میں شکیب جلالی اور ظفر اقبال کے ساتھ لیا جاتا تھا، آپ ان شعرا کے درمیان اپنی کیا Placement کرتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ شعری سطح پر آپ خود کو کس کے نزدیک محسوس کرتے ہیں؟
شہزاد احمد: آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب دینے کا میں حق دار نہیں ہوں۔ باقی یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ ہمارے مسائل مشترک ہیں۔
طاہر مسعود: جنہیں آپ کا ہم سفر کہا جاسکتا ہے۔
شہزاد احمد: پتا نہیں ہمسفر ہیں یا نہیں۔ البتہ بعض بنیادی سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات دینے کی انہوں نے بھی کوشش کی ہے اور ہم نے بھی۔ ان لوگوں میں ظاہر ہے ظفر اقبال ہیں، شکیب ہیں اور جدید نسل کے دوسرے شعرا ہیں۔
طاہر مسعود: ادھر دس بارہ برسوں میں شاعری میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک نئی کھیپ آئی ہے، جس میں نثری نظم کی صنف بہت مقبول ہے۔ بہت سے شعرا نثری نظام کا شاعری کی صنف ہی تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کا کیا رویہ ہے؟
شہزاد احمد: ہمیں نثری نظم کے سلسلے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بعض شعرا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نثری نظم کے ذریعے اپنا اظہار کرسکتے ہیں تو انہیں کرنے دیں، اس میں حرج ہی کیا ہے؟
طاہر مسعود: کیا آپ ایسے لوگوں کو بھی جو میٹر سے ناواقف ہوں میٹر کو توڑنے کی آزادی دینے کے قائل ہیں؟
شہزاد احمد: اصل میں میٹر شاعروں کی ضرورت ہے شاعری کی ضرورت نہیں ہے۔ میٹر شاعری کی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ آپ لاطینی زبان کی شاعری کا اردو میں یا انگریزی میں ترجمہ کریں گے تو اس کا حسن کم ہوجائے گا، کیوں کہ وہ نظم اپنے اصل میٹر کے ساتھ ترجمہ نہیں ہوسکے گی۔ اصل میں یہ کام لکھنے والے کے رویے کا ہے۔ اسے کیا چیز اچھی لگتی ہے اور کیا اچھی نہیں لگتی۔ میں نے نثری نظمیں پڑھی ہیں، بعض نظمیں مجھے ٹھیک ٹھاک لگیں میں نے خود دو تین نثری نظمیں لکھی ہیں جنہیں میں نے چھپوایا نہیں ہے، شاید میرے دل میں کوئی خوف ہو۔ میرے پاس جو تجربہ تھا اس کا نثری نظم کے سوا کوئی اور ذڑیعہ اظہار نہ تھا۔
طاہر مسعود: کیا آپ چند اچھے نثری نظم نگاروں کے نام لینا پسند کریں گے؟
شہزاد احمد: میں نام لینا نہیں چاہتا کیوں کہ شاید میں دو ایک نام بھول جائوں گا۔
طاہر مسعود: آپ نثری نظم لکھنے والوں کو Stablish کرنا نہیں چاہتے؟
شہزاد احمد: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر Stablished ہیں۔ میں کون ہوں Stablish کرنے والا۔
طاہر مسعود: آپ کا چوں کہ نفسیات سے گہرا تعلق ہے، لہٰذا اس حوالے سے ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں بعض نظم لکھنے والے مبہم اور بڑی حد تک بے معنی نظمیں لکھتے ہیں اور جب اس پر اعتراض کیا جاتا ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ شاعری کا تعلق لاشعور سے ہوتا ہے اور اس کی مثال خواب سے دی جاسکتی ہے کہ جس طرح خواب میں دکھائی دینے والے مناظر اور واقعات میں تسلسل مفقود اور غیر منطقی اور بے ربط ہوتے ہیں۔ یہی حال کچھ شاعری کا بھی ہے۔ آپ کے خیال میں نفسیات اور ادب کی روشنی میں یہ جواز کس حد تک معقول ہے؟
شہزاد احمد: دو الگ چیزیں ہیں ایک تو یہ کہ آپ سحر میں آکر شاعری کریں۔ دوسرے یہ کہ آپ آزاد تلازمہ خیال کے زیر اثر شاعری کریں۔ سحر کی مثال کولرج کی ’’قبلا خان‘‘ ہے۔ وہ ایک سحر میں گرفتار ہوا اور اس نے ساری کیفیت نظم میں بیان کردی۔ جب کہ آزاد تلازمہ خیال میں آپ ایک لائن لکھ دیں پھر یہ لائن آپ کو جہاں لے جاتی ہے وہاں چلے جائیں۔ اس سے نظم کبھی کبھی بن سکتی ہے، ہیشہ نہیں بن سکتی۔
طاہر مسعود: یعنی ایسا محض اتفاق سے ہوسکتا ہے؟
شہزاد احمد: اس میں لاشعور کو اپیروچ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کا آزاد تلازمہ خیال کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کریں لیکن لاشعور ہمیشہ تخلیقی نہیں ہوتا۔ لاشعور لمحوں میں تخلیقی ہوتا ہے اور اس کے تخلیقی ہونے میں شعور کا بھی کردار ہوتا ہے۔ اگر آپ کو چند جھلکیاں ملی ہیں اور دونوں چیزیں ہیں تو انہیں آپ کو لفظوں کے ذریعے ترتیب میں لانا پڑے گا۔ انہیں بغیر شکل دیے آپ سامنے نہیں لاسکتے۔ اگر لاشعور کو اس طرح پیش کیا جاسکتا تو شاعری کی کیا ضرورت تھی، پاگل ہی کافی تھے۔ یہ شعور اور لاشعور کا ایک رشتہ ہے۔
طاہر مسعود: نظم لکھنے کے بعد جو ایڈیٹنگ کا عمل ہوتا ہے اسے تو آپ شعوری عمل قرار دیں گے؟
شہزاد احمد: جی نہیں وہ بھی نظم لکھنے ہی کا عمل ہے۔ نظم لکھنے کے بعد تو آپ قاری ہوتے ہیں۔
طاہر مسعود: ایک ہی نظم لکھنے کے دوران وقفہ تو آسکتا ہے اور آتا ہے؟
شہزاد احمد: ٹھیک ہے آسکتا ہے، تخلیقی عمل رُک کر دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔
طاہر مسعود: اس کی کیا وجہ ہے کہ بعض شاعروں کے اندر کا نقاد کمزور ہوتا ہے اور بعض کا نہیں ہوتا؟
شہزاد احمد: کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہے جس نے کوئی بری چیز نہ لکھی ہو۔ ہم جب کسی شاعر سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی بہترین شاعری پر فیصلہ دیتے ہیں۔ سارے شاعروں کی کمزور شاعری یکساں ہے۔ خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا شاعر۔
طاہر مسعود: کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سارے شاعروں میں تنقیدی شعور یکساں ہوتا ہے؟
شہزاد احمد: بات یہ ہے کہ نقاد کی کوئی اور شخصیت نہیں ہوتی جو باہر سے آتی ہو۔ یہ جو Creative Impulse ہوتی ہے نا یہ اپنی Critic خود ہوتی ہے۔ کوئی نقاد نظم کو تخلیق نہیں کرسکتا نہ اسے بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ تخلیقی انسان ہے جو اسے تخلیق بھی کرسکتا ہے اور بہتر بھی بناسکتا ہے۔ نقاد تو مورّک ہوتا ہے کہ جو واقعات ہوچکے ہیں ان کی وجوہات تلاش کرے۔
طاہر مسعود: غالباً ایذرا پائونڈ نے لکھا ہے کہ کسی بھی نقاد کو اس وقت تک تنقید کا حق نہیں دیا جاسکتا جب تک اس نے کوئی اچھا شعر نہ کہا ہو۔
شہزاد احمد: ٹی ایس ایلیٹ نے بھی لکھا ہے کہ شاعری ہی نقاد ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جب تک نقاد تخلیقی عمل کو خود محسوس نہ کرے وہ اس کے متعلق کسی قسم کی بات کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔
طاہر مسعود: اس گفتگو کی روشنی میں ہمارے ان نقادوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جنہوں نے شعر نہیں کہے یا جو تخلیقی عمل کے تجربے سے نہ گزرے ہوں اور نہ ہی اسے محسوس کیا ہو؟
شہزاد احمد: اس لیے ہماری بیش تر تنقید کلاس روم کی تنقید ہے۔
طاہر مسعود: اردو کے ایک نقاد کے بارے میں تو یہ تک مشہور ہے کہ وہ شعر وزن میں نہیں پڑھ سکتے لیکن شاعری پر تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔
شہزاد احمد: ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ چراغ حسن حسرت نے ایک بہت بڑے استاد کو جو کراچی میں ہیں، کہا تھا کہ جناب آپ ایک مصرع وزن میں پڑھ دیں میں آپ کو شاعر مان لوں گا اور انہوں نے پورے دبستان کی شاعری پر تھیس لکھا۔
طاہر مسعود: آج کل شاعری میں منیر نیازی اور مجید امجد کے نام بہت زیادہ لیے جاتے ہیں۔ آپ کا ان کی شاعری کے متعلق کیا خیال ہے؟
شہزاد احمد: منیر نیازی بنیادی طور پر تخلیقی شاعر ہے۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کا کینوس بڑا نہیں ہے۔ بہرحال ایک چھوٹے کینوس میں بھی تخلیقی شاعری ہوسکتی ہے۔ آدمی لاشعور کے ساتھ رشتہ بنا کر چند چیزیں دریافت کرلیتا ہے اور اسی دریافت کو بار بار دہراتا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اتنا بھی بہت کم لوگ کرپاتے ہیں۔ اس کے برعکس جید امجد بڑا سیریس موضوع ہے۔ مجید امجد کو ہم اردو کے چند اہم شاعروں میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس کا سفر بہت پیچیدہ سفر ہے۔ اس نے بار بار اپنے آپ کو جانچا ہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جب کوئی چیز بنالینا ہے تو پھر کوئی نئی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کینوس کافی بڑا ہے۔
(۲)
طاہر مسعود: آپ ملائیشیا، سنگاپور اور دوسرے کئی ملکوں کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ کیا آپ ان دوروں کے بارے میں اپنے مجموعی تاثرات بیان کرنا پسند فرمائیں گے؟
شہزاد احمد: بات یہ ہے کہ ملائیشیا میں ادیبوں کی کانفرنس تھی۔ وہاں کامن ویلتھ (دولت مشترکہ) گیمز ہورہی تھیں۔ انہوں نے سوچا اس موقع پر ادیبوں کی ایک کنونشن بھی کرلی جائے۔ وہاں جا کر مجھے دلچسپ مشاہدات ہوئے، مثلاً وہاں کی زبان ملادی ہے۔ اب انہوں نے اس کا اسکرپٹ رومن کرلیا ہے لیکن ابھی بھی ان کی زبان پر عربی اور فارسی رسم الخط کے اثرات مل جاتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی پرانی کتابوں میں وہاں کسی زمانے میں اردو بہت مقبول تھی لیکن اب یہ مقبولیت برائے نام رہ گئی ہے۔ سنگارپور میں بھی یہی صورت حال ہے۔ جو لوگ اردو کو دنیا کی فاتح زبان سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ حالاں کہ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی یہاں بستی ہے سبھی کلام پاک پڑھتے ہیں۔ ادیبوں کے نام بھی بڑی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب کا نام عبداللہ حسین تھا۔ یہ صاحب نقاد بھی تھے۔ ان سے مل کر مجھے اپنے ’’اداس نسلیں‘‘ والے عبداللہ حسین بہت یاد آئے۔ رومن رسم الخط کا فرق یہ پڑا ہے کہ وہاں کے بہت سے ادیب جو ملادی زبان میں شعر کہتے تھے، اب وہ انگریزی میں کہنے لگے ہیں۔ فارسی اور اردو کا اثر روز بہ روز کم ہورہا ہے اور مزید کم ہوتا چلا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ جس زبان میں علم بڑھ رہا ہو وہاں زبان ترقی کرتی ہے۔ اب ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی کا کام ہم اردو زبان کے ذریعے نہیں کریں گے یہ زبان ترقی نہیں کرسکے گی۔
طاہر مسعود: پاکستان میں دفتری زبان انگریزی ہے اور بہت سے ادارے اردو میں علمی منصوبے پر کام کررہے ہیں یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے۔ کیا آپ ان اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں؟
شہزاد احمد: دیکھیے اسکرپٹ کی وجہ سے انگریزی اور ملادی زبان کا جو فرق تھا وہ کم ہورہا ہے جب آپ ملادی زبان سیکھتے ہیں تو انگریزی بھی سیکھ لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ہم فارسی سیکھتے ہیں تو اردو بھی سیکھ جاتے ہیں۔ اسکرپٹ بہت اہم ہے۔ وہ زبانیں جو ترقی کرتی ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائنس اور کمپیوٹر کو اہمیت دیں۔ اگر وہ انہیں اہمیت نہیں دیں گی تو ان کا لٹریچر ترقی نہیں کرسکے گا۔ آج سائنسی کانفرنس دنیا کے کسی خطے میں بھی ہو خواہ برلن ہو یا پیرس میں، اس کانفرنس کی زبان انگریزی ہی ہوگی۔ کیوں کہ سائنس کی زبان انگریزی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ اپنی زبان میں سائنسی اصطلاحات نئی تو نہیں بنائیں گے کیوں کہ جو بنیادی اصطلاحات ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ان کا ترجمہ کرنا شروع کردیں تو مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ جب میں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی کتاب کا ترجمہ کیا تو وہ چاہتے تھے کہ میں اصطلاحات کو انگریزی ہی میں رکھوں۔ چناں چہ جب میری کتاب میں انہوں نے اضافیت کا لفظ دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ یہ Reletivity کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے ’’ریلیتی ویتی‘‘ کیوں نہیں لکھتے۔ عربی اور فارسی والے جب ’’ریلیتی ویتی‘‘ لکھتے ہیں تو تم کیوں نہیں لکھ سکتے۔ اب دیکھیے کہ اردو والا پہلے اضافیت سیکھے گا پھر Reletivity سیکھے گا۔ گویا اس پر دہرا بوجھ ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ یہ فرمائیے کہ کیا زبان کا تہذیب سے بھی کوئی تعلق ہوتا ہے یا نہیں؟
شہزاد احمد: آپ ساری تہذیب کو ماضی میں سمجھتے ہیں، حالاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس دور میں ہم زندہ ہیں اس میں ہماری تہذیب مستقبل میں زندہ ہے ماضی میں نہیں۔
طاہر مسعود: ازارہ کرام اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیے۔
شہزاد احمد: ماضی میں کچھ چیزیں ملتی ہیں جن کو لے کر ہم آگے چلتے ہیں۔ ابھی تک چوں کہ ہماری تہذیب میں بنیادی معیاری تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی، اس لیے ہم موجودہ روایت کو استعمال کرنے پر اکتفا کرتے رہے ہیں لیکن اب کمپیوٹر آگیا ہے۔ جینیات کا مسئلہ آگیا ہے۔ اب آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم مستقبل میں کیسے زندہ رہیں گے۔ کمپیوٹر کی آمد کے بعد وہ کلچر نہیں رہ سکتا جو پہلے سے موجود تھا۔
طاہر مسعود: ہاں مگر تہذیبی ورثہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیا تہذیب اپنے ماضی سے نہیں بنتی؟ رہا مسئلہ کمپیوٹر کا تو آپ کمپیوٹر کو اپنالیجیے۔ آخر اب کمپیوٹر اردو میں بھی تو استعمال ہو ہی رہا ہے۔ اس نہج پر اپنی زبان کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔
شہزاد احمد: یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے شلوار قمیص کے ساتھ ٹائی لگانی شروع کردی تھی۔ ان بزرگوں کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہمارے کلچر میں بس یہی ہوسکتا ہے۔ کمپیوٹر کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ اس کے مضمرات بہت زیادہ ہیں۔ اب آپ خط نہیں لکھتے ای میل کرتے ہیں۔ بچے پہاڑے یاد نہیں کرتے، حساب کے لیے کیلکولیٹر استعمال کرتے ہیں اور ہماری تہذیب میں کوئی ایسی چیز اس قابل نہیں ہے کہ اسے باقی رکھا جائے۔ اب صرف وحدانیت کا تصور ہے جسے ہمیں اپنے خمیر میں قائم رکھنا ہے۔ پھر اخلاقیات کا خاص تصور ہے، باقی جتنی چیزیں ہیں ان سب کے بارے میں ہمیں سوچنا ہوگا۔ حساب کتاب لگانا آسان نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ہم مشرقی اقوام محکوم ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی دونوں حوالوں سے، اس محکومی کو دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ مغرب سے آنے والی ہر چیز، ہر نظریے اور تصور کو ہم بغیر سوچے سمجھے اپنالیں۔ کیا اس طرح ہم تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں طے کرلیں گے؟
شہزاد احمد: میں نے اپنی کتاب ’’تیسری دنیا کے مسائل اور سائنسی انقلاب‘‘ میں کچھ معروضات پیش کی تھیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہم نے ہر لمحہ ضائع کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے یہ سوال اس وقت کیا گیا تھا جب وہ ترکی گئے تھے۔ انہوں نے کہا ’’دیکھو کچھ انڈسٹریز ایسی ہیں کہ ان کو شروع کرلو تو تم جلدی ترقی کرلو گے‘‘۔ انہوں نے Chips کا حوالہ دیا تھا۔ جب ہماری تہذیب نے ایسے ماہرین فن پیدا کیے جو چاول کے ایک دانے پر پورا کلمہ لکھ سکتے تھے تو پھر یہ قوم بھی بہت سے کام کرسکتی ہے۔
طاہر مسعود: اچھا اب آئیے کچھ ادب کے حوالے سے گفتگو ہوجائے۔ ہمارے ہاں ادیبوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ چڑیوں، پرندوں اور پھولوں کے بارے میں نظمیں لکھیں گے لین زندگی کے سنجیدہ مسائل پر گفتگو نہیں کریں گے، آخر ایسا کیوں ہے؟
شہزاد احمد: میں اپنی بات کرسکتا ہوں۔ میرے لیے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ابوظہبی کے مشاعرے میں علی سردار جعفری نے تقریر کی کہ سرحدیں نہیں ہونی چاہئیں۔ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ میں برصغیر کے لوگوں کو ایک کردوں۔ ان میں محبت اور بھائی چارگی پیدا کردوں۔ میری جب صدارتی تقریر کی باری آئی تو میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔ آپ نے ہمیں چلنا سکھایا ہے، آپ محبت کرنا چاہتے ہیں، بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ خواہش کی بنیاد پر نہ ہو، عدل کی بنیاد پر ہو۔ مجھے سردار جعفری صاحب کی بات سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں تحریک چلی ہوئی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بہرحال ایک شناخت ہے۔ ملائیشیا میں مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے بہت سی چیزیں پاکستان سے سیکھی ہیں۔ سنگارپور میں ایک ایئرپورٹ ہے اور ان کی ایئرلائن نمبر ون ایئر لائن ہے۔ یہ ایئرپورٹ انہوں نے پاکستان کے تعاون سے بنایا۔ ہم سے سیکھنے والوں میں کوریا بھی شامل ہے۔
طاہر مسعود: ہم جس تہذیبی انتشار سے گزر رہے ہیں، کیا اس کی نمائندگی ادب میں ہورہی ہے یا نہیں؟
شہزاد احمد: آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے شعرا ہائیکو لکھ رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی جاپانی نے کوئی غزل کہی ہو۔ کیا ہماری غزل کی روایت ہائیکو کی روایت سے کوئی چھوٹی روایت ہے؟
طاہر مسعود: شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستان میں جاپانی سفارت خانہ اپنی ادبی روایت کو یہاں رواج دینے میں زیادہ متحرک ہو اور ہمارا پاکستانی سفارت خانہ وہ کام جاپان میں نہ کررہا ہو؟
شہزاد احمد: یہ کوئی بات نہیں ہے۔ جب سفارت خانے نہیں ہوتے تھے تب بھی یہ ہوتا تھا۔ جاپانی سفارت خانے نے مشاعرے کرانے کے علاوہ اور کیا کیا ہے۔ ان کے پاس تو جاپان کے ادب کے بارے میں کوئی اچھی کتاب بھی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جو قوم ترقی یافتہ ہوگی۔ اس کی تقلید کی جائے گی اور ترقی وہ قوم ہوتی ہے جو سائنس اور ٹیکناوجی میں ترقی یافتہ ہوتی ہے اور صرف پیسے کا ہونا کوئی بات نہیں۔ پیسہ تو کویت کے پاس بھی بہت تھا۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ سائنسی ترقی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ ہمارا مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ہم سیاسی طور پر بھی غیر مستحکم ہیں۔
شہزاد احمد: ہم سیاسی طور پر غیر مستحکم کیوں ہیں؟ آپ کو سیاسی استحکام جو تھوڑا بہت ملا ہے۔ وہ ایٹمی دھماکے سے ملا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ نے ایک دفعہ فخر سے گردن اٹھائی ہے اور وہ اس وقت جب آپ نے ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ آپ نے کبھی ٹیکنالوجی بنئی ہے نہ انڈسٹری بنائی ہے تو بیرون ممالک کے لوگ اردو لٹریچر کیوں پڑھیں گے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں اردو زبان پر ایک صفحہ نہیں ہے۔ میرا اور غالب کا تذکرہ بھی غائب ہے۔ جو قوم ترقی کرے گی اس کا لٹریچر پڑھا جائے گا۔ امریکا ایک بڑا ملک کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے نقطہ نظر میں وزن ہے لیکن ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ سارا نقطہ نظر مادی ہے، دنیا دارانہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف ان ہی چیزوں اور حقائق کی اہمیت ہے جن کا حواس خمسہ سے ادراک کیا جاسکتا ہے اور ماورائے حواس حقائق اور اس سے جنم لینے والے نظام ہائے حیات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
شہزاد احمد: سائنس میں کوانٹم فزکس نے ارسطو کی منطق کو ختم کردیا ہے۔ چیزوں کے درمیان سبب اور نتیجے (Causual Relation) کا تعلق اب باقی نہیں رہا۔ اصول لامتعین ہیں۔ اس کے تحت اب یہ طے پایا ہے کہ اگر واقعات ایک طرح وقوع پذیر ہوئے ہین تو ضروری نہیں کہ آئندہ بھی وہ اسی طرح وقوع پذیر ہوں گے۔ یعنی سورج اگر مشرق سے نکلتا ہے تو ضروری نہیں کہ اگلی صبح بھی مشرق ہی سے نکلے گا۔ جب سائنس نے یہ بنیاد فراہم کردی ہے تو پھر آپ اسے مادہ پرستانہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جب سائنس یہ کہے کہ یہ ممکن نہی ہے کہ ذرّے کے اندر ایک پروٹون ہے، ایک الیکٹران ہے۔ آپ صرف ان کی رفتار اور وقت معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یہ معلوم کرلیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے تو آپ یہ نہیں جان سکتے کہ اس کی رفتار کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو پوری طرح جانا نہیں جاسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: پوری مغربی تہذیب اسی سائنس پر کھڑی ہے۔ اس لحاظ سے ان کے ہاں مادی تہذیب چھائی ہوئی ہے تو پھر لوگ روحانیت کے متلاشی کیوں ہیں؟
شہزاد احمد: اسلامی کلچر میں بھی بعض اقدار ہیں۔ سائنس کا ایک تصوراتی پہلا ہے جس کو ہم نظری سائنس کہتے ہیں۔ دوسری چیز وہ Effect ہے جو Material Level پر ہوتا ہے جیسے نیوٹن کی سائنس میں مادی سطح پر زندہ رہنے میں یہی کمرشل چیزیں چلتی ہیں۔ کمپیوٹر کے اندر بھی ایسے اصول استعمال ہوتے ہیں جو Principal of Uncertainity کہلاتے ہیں۔ آئن اسٹائن کی سائنس کے لیے بس اتنی ریاضی جاننا کافی ہے جتنی میٹرک میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ سمجھ میں اسی لیے نہیں آتی کیوں کہ وہ کائنات کو جس طرح Define کرتا ہے وہ ہمارے تجربے میں نہیں آتی ہے، مثلاً اس نے بہت سی چیزوں کی رفتار کے ساتھ واضح کیا ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 80 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ یہ ہمارے تجربے میں نہیں آتی ہے۔ یہ تو اسی وقت آئے گی جب فرض کریں ہم مریخ سے رابطہ کریں۔ جب رابطہ کریں گے تو ’’ہیلو‘‘ کی یہ آواز پندرہ منٹ میں وہاں پہنچے گی اور جب وہاں سے ’’ہیلو‘‘ کا جواب دیا جائے گا تو آدھے گھنٹے میں وہاں سے جواب یہاں موصول ہوگا۔ اسی وقت معلوم ہوگا کہ روشنی کی رفتار کیا ہے؟
طاہر مسعود: مغرب میں جو سائنس آئی تو اس کی کلیسا سے لڑائی ہوئی جس کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔ آپ کے خیال میں مستقبل میں کوئی تہذیب اس طرح بڑھتی نظر آرہی ہے۔ کہ جو مذہب اور سائنس میں تصادم پیدا کیے بغیر دونوں میں اس طرح ہم آہنگی پیدا کرے کہ آسمان اور زمین کے رشتے باہم استوار ہوجائیں؟
شہزاد احمد: میرے خیال میں مذہب اور سائنس میں کوئی ایسا تصادم نہیں ہے۔ میں اتنا عالم فاضل تو نہیں ہوں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا تھا، ’’سائنس نے کوئی ایسا اصول اب تک دریافت نہیں کیا ہے جو قرآن حکیم کے مخالف ہو‘‘۔ بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ مذہب اور سائنس کس طرح ہم آہنگ ہوں گے لیکن بہت بلند سطح پر سائنس، فلسفہ اور مذہب ایک ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے ایٹم کے اندر پانچ قوتیں دریافت کی گئی تھیں۔ مقناطیس، برقیات، اسٹرونگ، نیوکلیئر فورس اور گریویٹی… اس صدی کے شروع میں ثابت ہوگیا ہے کہ مقناطیس اور برقیات وغیرہ سب ایک ہی چیزیں ہیں۔ آئن اسٹائن نے کہا کہ جتنی بھی Manifastations ہیں، یہ سب اصل میں ایک ہی چیز کی Manifastations ہیں۔ یہ پانچ چیزیں نہیں ہیں۔ یہ ہمیں دھوکا ہورہا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام کو جس چیز پر نوبل انعام ملا اس نے کہا کہ Electo Manganatic جو ہے یہ نیوکلیئر فورس بھی اس کی Manifastations ہے۔ چناں چہ اس کا نام Electro Well رکھا گیا۔ بہت سی تھیوریز ایسی بنی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ جو اسٹرانگ نیوکلیئر فورس جو ہے وہ بھی گریویٹی (Gravity) ہے مگر ابھی یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ لیکن اُمید ہے کہ جلد ہی یہ ثابت ہوجائے گا کہ اصل وقت ایک ہی ہے اور اس کی Manifastations پر جھگڑا ہورہا ہے۔ گویا یہ بات ہے کہ کثرت اور اس کی وحدت کی ۔ جس طرح مذہب میں یہ معاملہ ہے اسی طرح سائنس میں ہے۔ یہ سوال آئن اسٹائن نے اٹھایا تھا۔ وحدانیت کا تصور جو ہے وہ سائنس اور مذہب کا ایک ہی ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے سائنس کے حوالے سے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ کام کسی خاص منصوبے کے ساتھ شروع کیا کہ اردو پڑھنے والوں میں سائنسی شعور پیدا کیا جائے یا خود بہ خود ذہن ان موضوعات کی طرف منتقل ہوگیا؟
شہزاد احمد: 1984ء میں جب میں کراچی میں تھا تو مجھ پر دل کا دورہ پڑا، اس کے بعد مجھ میں یہ تبدیلی آئی اور میں ان موضوعات کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری زندگی اسی لیے دی ہے کہ تا کہ میں اس کام کو مکمل کروں۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمائیے کہ اردو میں سائنسی موضوعات پر لکھتے ہوئے آپ کو اصطلاحات کے ترجمے میں دشواری تو نہیں ہوئی۔ کیا آپ اپنے تجربے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اردو سائنس کے مضامین کو بھی باآسانی ادا کرسکتی ہے؟
شہزاد احمد: اردو کے پیچھے عربی اور فارسی کی ایک طویل روایت ہے اور عربی اور فارسی والوں نے سائنس پر کام کیا ہوا ہے۔ مسلمانوں نے قرون وسطیٰ میں سائنس پر خاصا کام کیا تھا۔ آج سائنس پر مغرب کی اجارہ داری ہے لیکن یہ دور بھی ختم ہوجائے گا۔ علم کسی کی میراث نہیں ہے۔ یہ ساری انسانیت کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے لکھا تھا کہ ایک نوبل انعام یافتہ سائنس داں ان کے پاس آیا اور اس نے کہا، ’’عبدالسلام! تم تیسری دنیا والوں کی بہت باتیں کرتے ہو، لیکن جب لوگوں نے سائنس کی ترقی میں ایک تنکے کا اضافہ نہیں کیا ہے، ان لوگوں کی مدد کرنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ لیکن یہ غلط بات ہے۔ کلچر ایک منتقل ہونے والی حقیقت ہے جیسا کہ اشپنگلر اور ٹوائن بی نے لکھا ہے کہ ہر تہذیب کا ایک بچپن، ایک جوانی اور اس کا بڑھاپا ہوتا ہے پھر وہ تہذیب مرجاتی ہے اور اس کی جگہ نئی تہذیب لے لیتی ہے۔ ایک عہد مغرب والوں نے گزار لیا ہے اب اس نئے عہد میں ہمیں چاہیے کہ جدوجہد کریں۔
طاہر مسعود: ڈاکٹر عبدالسلام کو آپ نے کیسا پایا؟
شہزاد احمد: میں نے انہیں اپنے ایک خط میں واضح طور پر لکھ دیا تھا کہ میرا آپ کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے خط کی کاپی انہوں نے جمیل الدین عالی کو دے دی تھی لیکن سچ پوچھیے تو میں نے اتنا دردمند پاکستانی نہیں دیکھا۔ اب آپ اسے جو بھی کہیں لیکن ایوب خان سے لے کر بے نظیر بھٹو ہر ایک سے اس نے مل کر یہی کہا کہ سائنس کے میدان میں آگے بڑھو، ترقی کرو بلکہ اس نے فیض صاحب کے جلسے میں تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر آپ لوگ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے تو مجھے غسل خانے میں اینٹ ہی لگانے دو۔
طاہر مسعود: اب آپ کی شاعری کے حوالے سے ایک سوال! آپ جب اپنی شاعری کے طویل سفر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
شہزاد احمد: مجھے احساس زیادہ تو نہیں ہوتا، لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ مجھے بہتر کام کرنا چاہیے تھا۔ ان دنوں اپنی شاعری میں جتنا انحراف میں نے کیا ہے بقول احمد جاوید صاحب کے اتنا انحراف کسی اور شاعر نے نہیں کیا۔ ایک خاص قسم کی رومانی فضا سے فلسفیانہ اور نفسیاتی اور پھر سائنس کے موضوعات میں نے اپنی شاعری میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً میری نثری نظمیں انسانی نفسیات کے اس حصے کے بارے میں ہیں جن کے بارے میں جاننے کی آدمی کوشش ہی نہیں کرتا۔

حصہ