”تیز بارش نے شہر کا نظام درہم برہم کرڈالا… ہر طرف پانی ہی پانی تھا… گلیاں، محلے اور سڑکیں سنسان تھیں۔ خوف کا عالم تھا۔ بجلی گئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ برساتی فضاؤں میں کوئی اپنے گھر سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھا۔ اسیب زدہ ماحول کے پیچھے اگر کچھ تھا، تو سڑک پر گرے بجلی کے وہ تار تھے جن میں دوڑتے کرنٹ نے لوگوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے رکھ دیا تھا۔ ایسے میں ”بچاؤ بچاؤ“ کی آوازوں نے اہلِ محلہ کی تو جیسے سانسیں ہی روک دی ہوں… یہ آوازیں سن کر کچھ لوگ ہمت کرکے گھروں سے باہر نکلے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سڑک پر لوگوں کا جم غفیر لگ گیا جہاں چند نوجوان اپنی جان پر کھیل کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مدد کو پکارتی بچی کو ہائی ٹینشن لائن سے اگلتے شعلوں سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کررہے تھے۔ آخرکار ان نوجوانوں کی کوششیں رنگ لاتی ہیں اور وہ اس بچی کو لے کر ہسپتال کی جانب دوڑنے لگتے ہیں۔ زخمی بچی کو ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں پہلے ہی اہلِ محلہ کی خاصی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے کی جانے والی کوششیں اور اہلِ محلہ کی دعائیں بھی اس معصوم کو نہ بچا سکیں… یوں وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ ننھی بچی کی لاش دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یہ کمسن جس کی عمر ابھی کھیلنے کودنے کی تھی، جو پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے سپنے دیکھنے کے قابل بھی نہ تھی اگلے جہان چلی گئی۔ ماں باپ کے بُنے سارے خوابوں کو سڑک پر گری گیارہ ہزار وولٹ کی ہائی ٹینشن لائن سے نکلتی چنگاریوں نے جلا کر راکھ کر ڈالا، اس کے بعد….“
”ٹھیریے ٹھیر یے!“
شاکر بھائی کی جانب سے سنائی جانے والی کہانی پر مزمل آگ بگولہ ہوگیا۔
”انکل! یہ کوئی کہانی وہانی نہیں ہے جسے آپ رات کے اندھیرے اور ہوتی بارش کا عنوان دے کر کہانی بتا رہے ہیں، یہ تو حقیقی واقعہ ہے۔ اپ کیا سمجھتے ہیں، کیا ہم بچے ہیں؟ انکل آج کا بچہ معاشرے میں ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے، اسے اپنے اطراف کی خوب خبر ہوتی ہے، اور ویسے بھی ہم اب اتنے بڑے ہوچکے ہیں کہ اچھے برے میں تمیز کرسکیں۔ یہ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے، اور سب سے بڑھ کر ہر دوسرے بچے کے پاس موبائل فون بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا سرگرم ہے، ایسی صورتِ حال میں بھلا کس طرح ایسی گھڑی گئی کہانیوں کو سننا جا سکتا ہے! سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسے آپ کہانی کہہ کر سنا رہے ہیں وہ کراچی الیکٹرک کی نااہلی اور ناقصں کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور جس بچی کا آپ ذکر کررہے ہیں اُس کا نام تانیہ ہے۔ یہ واقعہ رسول بخش کالونی کا ہے۔ میں نہ صرف اس خبر سے واقف ہوں بلکہ مجھے یہ بھی علم ہے کہ کراچی میں اسی قسم کے حادثات کے باعث آدھے درجن سے زائد افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس حادثے اور ماضی میں ہونے والے ایسے ہی حادثات کے فوری بعد مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین وقتی طور پر اپنی سیاست چمکانے نکل آتے ہیں اور کچھ عرصے بعد سب بھول جایا کرتے ہیں۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی نے ہمیشہ کے الیکٹرک کے خلاف حقیقی جدوجہد کی ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس ہاتھی سے لڑنا کسی ایک جماعت کا کام نہیں، اسے زیر کرنے کے لیے تمام جماعتوں کو یک زبان ہوکر میدانِ عمل میں اترنا ہوگا۔ میں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ ماضی میں کے الیکٹرک کی غفلت کے باعث ایک بچہ اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہوگیا تھا، اُس وقت بھی صرف جماعت اسلامی کراچی نے ہی آواز اٹھائی تھی، اس کے رہنما حافظ نعیم الرحمٰن ہی سول ہسپتال کراچی کے برنس وارڈ گئے تھے جہاں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ کے الیکٹرک ملک کے مستقبل کے معماروں کی جان کی دشمن بن گئی ہے، کے الیکٹرک کے مالکان اور چیئرمین کی مجرمانہ غفلت کے باعث لوگ جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں اور ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے، حکومت کے الیکٹرک کو فوری طور پر قومی تحویل میں لے، اور کے الیکٹرک سے ان لوگوں خصوصاً بچوں کا مکمل علاج و معالجہ کروائے اور ان کو فی کس 5 ، 5 کروڑ دلوائے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے کہا تھا کہ جو لوگ کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت کے باعث جسمانی طور پر معذور ہوئے ہیں جماعت اسلامی ان کی ہر ممکن معاونت کرے گی، جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے خلاف اپنی تحریک مطالبات پورے ہونے تک جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت سے بازو گنوانے والے بچوں کو کے الیکٹرک مصنوعی اعضا لگوائے۔ انہوں نے بچوں کے والدین کو یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں انصاف کی فراہمی تک ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کے الیکٹرک کے ظلم گنواتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دو مہینے کا بل وقت پر ادا نہ کرنے پر کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں جبکہ وہ خود کئی اداروں کی اربوں روپے کی نادہندہ ہے، کے الیکٹرک کا سسٹم فلاپ ہوچکا ہے۔ کے الیکٹرک سالانہ 35 سے 40 ارب کماتی ہے اور ادارے کی ترقی کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتی۔ اس کی نااہلی کے باعث معصوم بچوں پر 11 ہزار وولٹ کے تار گرے اور وہ جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف کے الیکٹرک بلکہ صوبائی و وفاقی حکومتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دبئی میں بیٹھے ابراج گروپ سے بھتہ لے رہی ہیں، کے الیکٹرک سے بھتہ لینے والی سیاسی جماعتیں بتائیں اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے، صرف کے الیکٹرک یا پھر ان کی مجرمانہ خاموشی؟ انہوں نے حکومتی نمائندوں کو دوٹوک الفاظ میں مشورہ دیا تھا کہ صرف دورے کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، اس سلسلے میں حکومت کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگر اُس وقت جماعت اسلامی کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو آج تانیہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اس قاتل محکمے کو فوری طور پر اپنی تحویل میں لے کر لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔“