چشمہ رحمت ۔۔اورینٹل کالج غازی پور

520

جب 656 ہجری میں تاتاریوں کے ہاتھوں دارالسلام بغداد کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور شہر کی گلی کوچوں میں فرزندان اسلام کا خون پانی کی طرح بہا اور سولہ لاکھ کلمہ گو خاک و خون میں لوٹے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عظمت اسلام کا آفتاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مگر’’نشۂ می کو تعلق نہیں پیمانے سے‘‘ عراق کا پیمانہ ٹوٹا عجم کے خم خانے ویران ہوئے‘ خراسان کے مے کدے برباد ہوئے‘ ترکستان کے مے گستار خاک بسر ہوئے‘ لیکن مے اسلام ختم نہ ہوئی اور اس کے متوالے بڑے سخت جان تھے بغداد کی خاک پر اصفہان کے ویرانوں پر‘ نیشاپور کے کھنڈروں پر اور بخارا کی شکستہ آثار پر اسلام کی عظمت کی ایک بلند و بالا عمارت قطب مینار سے بھی اونچی قبۃ الاسلام دلی میں تعمیر ہوئی۔
اگر کھو گیا اک نشیمن توکیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
بغداد‘ نیشاپور‘ خوارزم‘ بخارا‘ سمر قند‘ ہرات‘غزنین و غور کی سلح شور‘ کشور کشا‘ علما‘ صوفیا و شعرا جوق در جوق اسلام کے اس نو تعمیر مامن کی طرف آئے اور جلد ہی دہلی قبۃ الاسلام بن گئی۔ سلطان قطب الدین ایبک سے لے کر سلطان غیاث الدین تغلق کے عہد تک گو مسلمان کشور کشا دہلی کے شمال مشرق جنوب مشرق کی سمتوں میں پیش قدمیاں کرتے رہے اور ان کی ترک تازیوں کی جولاں گاہ بنگالہ بھی تھا اور کامروپ بھی ان کی سپاہیانہ تگ تاز دیو گیری کے آگے دوارسمدر تک پہنچ چکی تھیں مگر تہذیب کے کاروان اور ثقافت کی قافلے ابھی دہلی سے آگے نہ بڑھے تھے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے ہر اوّل دستے دہلی کے حدود سے مشرق اور جنوب کی سمتوں میں سب سے پہلے سلطان محمد بن تغلق کے عہد میں روانہ ہوئے‘ دہلی کے بجائے دولت آباد‘ دیو گیری کو دارلسطنت بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلامی سلطنت کے استحکام کے لیے اسلامی تہذیبی مراکز دہلی سے دور بھی قائم ہونے ضروری تھے‘ سلطان کو اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ لیکن جب سلطان فیروز تغلق کی وفات کے بعد لا مرکزیت کا دور آیا اور براعظیم میں دہلی کے مشرق و جنوب میں خود مختار اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں تو تہذیب اسلامی کے قدم بھی ملک کے اندرونی علاقوں کی طرف آئے۔ دکن‘ گجرات‘ مالوہ‘ جون پور اور بنگالے میں نئی حکومتیں معرض وجود میں آئیں‘ ملک کے اندرونی علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں بسیں اور نئے نئے علمی مراکز قائم ہوئے‘ یوں خاندان تغلق کے زوال اور مرکز دلی کے ضعف سے جہاں یہ نقصان پہنچا کہ عدم استحکام پیدا ہوا وہیں یہ فائدہ بھی ہوا کہ تہذیب اسلامی نے ملک کے طول و عرض میں برگ و بار پایا‘ اس سیاسی ’’انتشار‘‘ کی تکمیل امیر تیمور کے حملۂ دلی سے ہوئی۔
جب دلی میں شور مچا کہ تیمور ہندوستان پر حملے کی نیت سے پیش قدمی کررہا ہے تو دلی میں ایک بھونچال آگیا۔ علما‘ صوفیا‘ امرا سخت مضطرب ہوئے اور 801 ہجری (1398ء) میں تیموری ٹڈی دل کے دلی پہنچنے سے پہلے ہی شہر کے عمائد وعلما یہاں سے اندرون ملک کارواں در کارواں چل پڑے۔ دلی کے ان مہاجروں کا سب سے بڑا ملجا و ماوا مشرق میں قائم ہونے والی شرقی سلطنت تھی‘ جسے سلطان فیروز شاہ تغلق کے وزیر خان جہاں نے 796ہجری میں جون پور میں قائم کیا۔ خانوادہ تغلق کے آخری حکمراں محمود تغلق نے وزیر خان جہاں کو سلطان الشرق خواجہ جہاں کے خطاب سے نواز کر اودھ اور الٰہ آباد کی حکومت عطا کی‘ اس لقب کی مناسبت سے اس نئی سلطنت کا نام ’’سلطنت شرقی‘‘ پڑا اور یہاں کے حکمراں ’’سلطان الشرق‘‘ کہلائے۔
جون پور کی شرقی سلطنت 796ہجری میں قائم ہوئی اور 881ہجری میں بہلول لودھی کے ہاتھوں ختم ہوگی‘ یوں اس کی زندگی صرف پچاسی سال رہی‘ جو کسی خاندان حکومت کی بہت کم عمر ہے‘ مگر اس مختصر مدت سے بھی یہاں کے سلطان جنگ جویانہ خصوصیات میں ممتاز نظر آتے ہیں‘ ان کی حکومت کی سرحدیں پورب میں بنگالہ کی سلطنت سے مغرب میں دلی کی بادشاہت سےاور جنوب میں مالوہ کی سلطنت سے ملتی تھیں اور ان سب کی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں‘ گو سیاسی محاذ پر وہ چومکھی جنگ لڑتے رہے اور دورِ عروج میں ان کی حکومت کی حدیں شمالی بہار‘ اودھ اور گڑہ (الٰہ آباد) کے صوبوں سے گزرتی ہوئی دلی کے قرب و جوار تک پھیلی ہوئی تھیں مگر جو علاقے مستقل طور سے ان کے زیر نگیں رہے اور اودھ اور الٰہ آباد کے صوبے تھے اور انہیں شرقی سلاطین کے نسبت سے ’’پورب‘‘ کہا جانے لگا‘ شرقی سلطان کا دورِ حکومت شاندار عمارتوں ہی کے لیے مشہور نہیں ہے بلکہ علم و حکمت کے فروغ اور اہل علم کی سرپرستی کے لیے بھی اسے دوسری حکومتوں پر برتری حاصل ہے‘ علم و حکمت کے فروغ کے لیے مشرقی سلاطین نے جو کام کیا وہ ان سے پہلے کسی خانوادے نے برعظیم پاک و ہند کے کسی حصے میں انجام نہ دیا تھا‘ شرقی حکمرانوں نے اودھ اور الٰہ آباد کے صوبوں میں (پورب) میں مسلمانوں کے اہل علم خاندانوں کو شہروں کے بجائے دیہات میں آباد کیا‘ ان کے گزارے کے لیے زرعی اراضی بطور مدد معاش دی تاکہ فکرِ معاش سے مطمئن ہو کر علم حکمت کے فروغ و اشاعت میں مصروف رہیں اس طرح سارے پورب میں علما و شرفا کے قصبات کے جال بچھ گئے جہاں مسجدیں‘ خانقاہیں‘ مہمان خانے اور مدارس تعمیر کیے گئے اور ان کی اولاد تحصیل علم اور فروغ دانش میں مصروف ہو گئی‘ حسان الہند علامہ میر غلام علی آزاد بلگرامی متوفی 1200ہجری پورب کے انہیں قصبات کے متعلق اپنی مشہور کتاب ’’مآثرالکرام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’پورب کی سرزمین زمانہ قدیم سے علوم و علما کا معدن ہے۔ اگرچہ ہندوستان کے تمام صوبوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہاں علما بہ کثرت موجود ہیں‘ لیکن صوبہ اوندھ اور الٰہ آباد کو اس بارے میں جو خصوص ہے وہ کسی اور صوبے کو نہیں کیوں کہ سارے اودھ اور اکثر صوبہ الٰہ آباد میں پانچ پانچ کوس یا زیادہ سے زیادہ دس‘ دس کوس کے فاصلے پر شرفا و نجبا کی بستیاں ہیں جنہیں سلاطین و حکام کی جانب سے سرکاری وظائف اور زرعی اراضی مدد معاش کے طور پر عطا کی گئی ہیں‘ ان لوگوں نے ان بستیوں میں مسجدیں‘ مدرسے اور خانقاہیں تعمیر کی ہیں اور ہر مقام پر مدرسوں نے طلبائے علم پر علم کے دروازے کھول دیے ہیں‘ یہ طلبہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتے ہیں اور جہاں مناسب سمجھتے ہیں علم حاصل کرتے ہیں۔ ہر بستی کے صاحبان استطاعت ان طلبہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کی خدمت کو اپنے لیے بڑی سعادت کی بات خیال کرتے ہیں‘ انہیں وجوہ کی بنا پر صاحب قرآن ثانی حضرت شاہ جہاں فرمایا کرتے تھے کہ ’’پورب ہماری سلطنت کا شیرازہ ہے۔‘‘
غرض شرقی سلاطین کے عہد میں پورب علم و فن کا گہوارہ تھا اور اس میں بھی جون پور اور غازی پور کے اضلاع کو خصوصیت حاصل تھی‘ ان دونوں ضلعوں کے قصبات و دیہات ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور شرفاء کی آبادیوں کا گہوارہ تھے‘ شرقی سلاطین کی بساط سیاست درہم برہم ہونے کے بعد یہ علاقے لودھیوں کے تصرف میں آئے‘ اس عہد میںیہ ضلعے دو صوبوں کی حیثیت سے رہے اور ان کی علمی مرِکزیت بدستور جاتی رہی‘ چنانچہ برعظیم پاک و ہند کے عظیم مسلمان حکمراں شیر شاہ سوری نے جون پور کی درس گاہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ عہد مغلیہ میں یہ اضلاع سرکاری یعنی کمشنری رہے اور صوبہ الٰہ آباد کے ماتحت تھے‘ غازی پور کی سرکار میں شہر کے لحاظ سے ظہور آباد‘ تاج پور‘ محمد پور‘ یوسف پور‘ سید پور‘ زمانیہ‘ شادی آباد‘ سکندر پور‘ بحری آباد‘ سادات اور بھتری وغیرہ ممتاز تھے‘ ان میں مدارس‘ مساجد و خانقاہیں تھیں اور جگہ جگہ درس و تدریس کی گرمیٔ بازار تھی۔
پورب کے یہ علمی خانوادے اس وقت معاشی ابتلا کا شکار ہوئے جب سعادت خاں برہان الملک نے محمد شاہ کے عہد میں اودھ کی صوبہ داری پائی اور اس کے بعد اس کے بھانجے اور داماد ابوالمنصور صفدر جنگ نے اودھ پورکے ساتھ الٰہ آباد کے صوبے پربھی تصرف پایا‘ ان حکمرانوں نے علما کی معافیاں ضبط کرلیں اور انہیں معاشی بدحالی میں مبتلا کر دیا‘ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ لوگ جو اب تک قلم کے دھنی تھے‘ انہوں نے روزی کمانے کے لیے قلم چھوڑ کر تلوار سنبھال لی اور سپہ گری کا پیشہ اختیار کیا‘ علم کی کساد بازاری ہوگئی مگر فی الجملہ بساط علم جو صدیوں سے بچھی ہوئی تھیں وہ یکسر الٹ نہ گئیں اور علم کا چرچا رہا‘ علامہ آزاد بلگرامی تحریر فرماتے ہیں:
’’1130 ہجری تک پورب کی سرسبز و شاداب زمین میں علم و علما کے کاروبار کی گرم بازاری رہی‘ جب برہان الملک سعادت خان نیشا پوری محمد شاہ بادشاہ دہلی کے آغاز سال میں صوبہ اودھ کا حاکم ہوا اور صوبہ الٰہ آباد کے اکثر سیر حاصل اضلاع مثلاً جون پور‘ غازی پور‘ بنارس‘ کترہ‘ مانک پور اور کوڑہ جہاں آباد وغیرہ اس کی حکومت میں شامل کر دیے گئے تو اس نے قدیم و جدید خاندانوں کی جاگیریں اور ان کے وظائف یک قلم ضبط کر لیے‘ شرفا و نجبا اس سے سخت پریشان ہوئے اور معاشی بدحالی سے مجبور ہو کر ان لوگوں سے تحصیل علم سے بازار اکر سپاہ گری کا پیشہ اختیار کر لیا اور تدریس و تحصیل و علم کا رواج پہلے کی طرح نہ رہا‘ وہ تمام مدارس جو زمانہ قدیم سے علم و فضل کے معدن تھے‘ یکسر برباد ہوگئے‘ بیشتر ارباب کمال کی محفلیں اجڑ گئیں۔ انااللہ وانا الیہ راجعون۔
برہان الملک کی موت کے بعد اس کا بھانجا ابوالمنصور صفدر جنگ اودھ کا حاکم ہوا‘ اس کے عہد میں بھی وظائف اور جاگیریں بدستور ضبط رہیں‘ محمد شاہ کی آخری زمانے میں 1159ہجری میں صفدر جنگ کو الٰہ آباد کی صوبہ داری بھی تفویض کردی گئی‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس صوبے کے وظائف جو اب تک جاری تھے اور ضبطی کی آفت سے محفوظ تھے‘ ضبط ہو گئے‘ جب احمد شاہ کے عہد میں صفدر جنگ وزیر سلطنت دلی ہوا تو اس نے اودھ الٰہ آباد پر اپنا نائب مقرر کیا جس نے اربابِ وظائف پر اور بھی سختی کی‘ تادمِ تحریر کتاب یہ دیار حوادثِ زمانہ سے پامال ہیں‘ شاید اللہ اس کے بعدکوئی بہتر صورت نکالے‘ ان تمام خرابیوں کے باوجود علم خصوصاً معقولات کا جتنا رواج پورب میں ہے‘ ہندوستان بھر میں کہیں اور نہیں ہے اب بھی بڑے بڑے علما موجود ہیں اور کمال کے انتہائی مراتب پر فائز ہیں۔
نوابان اودھ کے مظالم کے باوجود پورب کی یہ بستیاں علم و فضل کا مرکز رہیں۔ اس کے بعد انگریزوں کا عمل دخل ہوا‘ صفدر جنگ کا جانشین اس کا بیٹا شجاع الدولہ ہوا‘ اس کے زمانے میں 1177ہجری بمطابق 1746ء میں بکسرکی جنگ ہوئی جس کے ساتھ ہی انگریزوں کے اثرات پورب میں بڑھنے لگے‘ آصف الدولہ کے زمانے میں سلطنت اودھ کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے باج گزار کی ہوگئی اور 1189ہجری بمطابق 1775ء میں اضلاع جون پور‘ بنارس و غازی پور کے نہایت زرخیز و سیر حاصل تھے‘ سرکاری کمپنی بہادر کو آصف الدولہ نے برضا و رغبت دے دیے‘ اس کے بعد سے یورپ کے اضلاع انگریزوں کی عمل داری میں آگئے۔
انگریزوں نے انتظامی مصالح کے پیش نظر سرکار جون پور و غازی پور کی حدود کو کم کرکے ایک نئے ضلع کا اضافہ کیا یہ اعظم گڑھ کا ضلع تھا‘ جو جون پور و غازی پور کے پرگتہ جات کو ان سے الگ کرکے بنایا گیا تھا‘ بعدازاں غازی پور کی جنوب مغربی تحصیل زمانیہ سے مہائچ کو علیحدہ کرکے بنارس کے ضلع میں شامل کر دیا گیا‘ غازی پور کی مزید قطع و برید کی گئی اور اس کے دو مشرقی تحصیلوں بلیا اور رسڑا کو ملا کر ایک نیا سرحدی ضلع قائم کر دیا گیا‘ ان تمام قطع و برید کے بعد غازی پور کا ضلع ایک تہائی سے زیادہ نہ رہ گیا اور اس کی سرحدیں مغرب میں بنارس‘ مشرق میں بلیا‘ شمال میں جونپور و اعظم گڑھ اور جنوب میں بہار کے ضلع شاہ آباد تک سمٹ کر رہ گئیں۔
بہر کیف ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں غازی پور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا‘ اور تیل کی تجارت جو کمپنی کے لیے سب سے زیادہ منفعت بخش تھی یہ ضلع اس کا مرکز قرار پایا‘ دریائے گنگا کے شمالی کنارے پر واقع ہونے کے سبب سے غازی پور آبی شاہ راہ کی زد پر تھا اور بٹگالے تک کشتی سے سامانِ تجارت آتاجاتا تھا‘ تیل کے ساتھ ساتھ کمپنی نے مشرقی اضلاع میں پوست کی کاسٹ کو فروغ دیا اور افیون نکالنے کے کاروبار کو وسعت دی‘ اس کا بھی مرکز یہی شہر تھا‘ الغرض تجارتی نقطہ نگاہ سے یہ ضلع کمپنی کے لیے بڑا اہم تھا اور کمپنی نے اسے اسی حیثیت سے ترقی دی‘ لیکن اہل علم کے خاندان علمی بزم سجاتے رہے اور اس لحاظ سے بھی غازی پور کی اہمیت باقی رہی۔ چنانچہ مشہور متشرق اور ماہر اردو قواعد ڈاکٹر جان گل کرائسٹ نے اپنی قواعد اردوکی تکمیل یہیں بیٹھ کر کی اور دیگر مآخذ کے علاوہ یہاں کے کتب خانوں اور علما سے بھی اس نے استفادہ کیا۔
مجاہد کبیر حضرت سید احمد شہید اور مولانا محمد اسماعیل شہید کی تحریک جہاد میں بھی یہاں کے عوام و خواص نے حصہ لیا‘ جب سید صاحب 1237ہجری (مطابق 1821ء) میں سفرِ حج کے سلسلے میں یہاں گزرے تو زمانیہ‘ غازی پور اور یوسف پور کے عمائد علما نے ان کا پرجوش استقبال کیا‘ رستم علی خان رئیس زمانیہ‘ شیخ فرزند علی رئیس غازی پور‘ شاہ منصور عالم رئیس شہر اور منسی غلام ضامن و قاضی محمد حسن نے مجاہدین کی ہر ممکن خدمت کی‘ اسی زمانے میں مولانا شاہ محدم فصیح صاحب متوفی1285ہجری (مطابق 1869ء) نے جو مشہور عالم اور بزرگ شاہ محمد افضل سید پوری کے پڑ پوتے تھے سید صاحب سے بیعت کی‘ حج سے واپسی پر مجاہدین نے غازی پور میں چھ دن تک قیام کیا‘ جب مجاہدین کے قافلے روانہ ہوئے تو رئیس غازی پور شیخ فرزند علی کے صاحب زادے شیخ امجد علی بھی ان کے ساتھ سرحد گئے اور وہیں شہید ہوئے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد قرب و جوار کے قصبات سے شرفا و علما کے متعدد خاندان اجڑ کر شہر میں آبسے‘ انہیں میں استاد الاساتذہ حافظ عبداللہ اور مولانا سید احمد حسین کے گھرانے بھی تھے‘ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ علمی مجلسیں دوبارہ برپا ہوئیں‘ خوش قسمتی سے اس زمانے میں سرسید احمد خان صدر اعلیٰ ہو کر غازی پور آئے‘ انہوں نے یہاں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور بائبل کے ترجمے کا آغاز کیا‘ انہوںنے نواح غازی پور اعظم گڑھ کے مشہور عالم مولانا عنایت رسول چریاکوٹی متوفی 1320ھ سے بطور خاص مدد لی۔
1864ء میں سرسید نے یہاںایک انگریزی اسکول قائم کیا‘ جس کا افتتاح مولانا شاہ محمد فصیح صاحب کے مقدس ہاتھوں سے کرایا‘ سرسید کا مقصد اس اسکول سے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی اشاعت اور علوم جدیدہ سے ان کی آگاہی تھا‘ غازی پور کے ہر مکتب فکر کے لوگوں نے ان سے تعاون کیا‘ سرسید کے تبادلے کے بعد اس اسکول کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا‘ ؟آزادی براعظیم تک یہ اسکول ’’وکٹوریہ گورنمنٹ ہائی اسکول‘‘ کے نام سے موجود تھا‘ یہ اسکول ’’مدرسۃ العلوم علی گڑھ‘‘ کا پیش رو تھا اور اگر سرسید کا غازی پور سے تبادلہ نہ ہوتا تو خیال تھا کہ مسلمانوں کی عظیم درس گاہ یہیں قائم ہوتی اور علی گڑھ کے بجائے غازی پور کو یہ شرف حاصل ہوتا۔

حصہ