شاعر اسلام،عاشق رسول علم و ادب کا روشن ستارہ عبرت صدیقی بریلوی(مرحوم)

475

دنیائے علم و ادب میں بہت ایسے بندگانِ خدا شامل ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی رضاء، اُس کی مہربانیوں، محبتوں، رحمتوں اور نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علم و ادب کو عروج پر پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کائنات کے شفیق، درویش، ہمدرد اور روشنیاں پھیلانے والی شخصیات میں حضرت عبرتؔ صدیقی بریلوی کا نام بھی شامل ہے۔ آپ کو شاعر اسلام، سچے عاشق رسولؐ اور علم و ادب کے روشن ستارے کے اعزازات اور القابات سے نوازا گیا۔
عبرتؔ صدیقی بریلوی کی علم و ادب کے لیے شاندار کارکردگی، اعلیٰ اور معیاری خدمات تاریخ علم و ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ آپ کی اِن خدمات کے اعتراف میں (اکادمی ادبیات) پاکستان نے آپ کے لیے تاحیات وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ آپ نے عملی زندگی کا آغاز شہر بریلوی، یوپی بھارت کے ایک سرکاری اسکول میں بحیثیت مدرس سے کیا۔ آپ کو لوگوں کی خدمت کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ آپ کی مدد سے یہ اسکول تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ آپ نے اسکول کے اساتذہ کی پوری ٹیم کو متحرک کیا اور گھر گھر جا کر والدین کو اُن کے بچوں کو اسکول میں تعلیم کے لیے تیار کیا۔
یوں پورا علاقہ علم کی شمع سے روشن ہوا، اور ایک اُجڑی ہوئی تعلیمی درس گاہ مقبولیت کی بلند سطح پر پہنچ گئی، دور دور سے طلباء و طالبات کا داخلوں کے لیے دبائو بڑھتا گیا۔ درس گاہ میں جگہ کی کمی اور اساتذہ کی قلت کے باعث داخلوں میں مشکلات پیش آئیں تو عملے کی مخالفت ہونے لگی۔ محکمے میں داخلوں کی عدم فراہمی کی شکایات ہوئیں تو ادارے نے آپ کا تبادلہ کردیا۔ اسکول کی پوری ٹیم اور اہل علاقہ نے ہر مرتبہ تبادلے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ آپ فروغ علم کے سفر پر گامزن رہے۔
آپ نے عملی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں کا آغاز بھی کردیا۔ پہلے نثر سے نگارشات کا آغاز کیا۔ مقامی جرائد اور رسائل میں اپنی تحریریں اشاعت کے لیے ارسال کیں تو خوب پذیرائی ملی۔ ہر شمارے میں مضامین کو جگہ ملنے لگی، ہر طرف سے عبرتؔ صدیقی بریلوی کا چرچا ہونے لگا، بیرونی دنیا میں بھی آپ کی تحریروں کو شامل اشاعت کیا جانے لگا۔ آپ نے شعر و شاعری کی سخن میں بھی کمال حاصل کیا۔ وقت کے مشہور اساتذہ کی صف میں شامل حضرت دِل شاہجہان پوری کی آپ نے شاگردی اختیار کی، جلد ہی ذہین شاگرد نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوالیا۔
استاد محترم نے اس ہوشیار شاگرد کو اپنے دوسرے شاگردوں کا کلام دیکھنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس طرح عبرتؔ صدیقی کا اعتماد بڑھا اور ان کے کلام میں مزید پختگی آئی اور ان کی شہرت میں بھی اضافہ ہوا۔ آپ کا علمی ادبی سرگرمیوں میں نمایاں کردار سب پر عیاں ہونے لگا۔ شاگردوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے پاس اپنا کلام دکھانے کے لیے موجود رہتی۔ جناب عبرتؔ صدیقی بریلوی نے انتھک محنت سے اپنا نام اساتذہ کی صف میں شامل کرالیا۔ لیکن آپ کا عمل اور کردار یہ تھا کہ جب بھی آپ کو مشاعروں میں صدارت کی پیشکش کی جاتی تو وہ شرکا کی فہرست کو ضرور دیکھتے اور ان میں جو بھی سینئر استاد ہوتا تو وہ صدارت کی پیشکش انہیںکو کردیتے تھے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ پڑھتے۔
عبرتؔ صدیقی بریلوی کا اصل نام تبارک علی تھا اور ان کا قلمی نام عبرتؔ تھا۔ کنیت صدیقی جبکہ بریلوی میں رہائش کی وجہ سے بریلوی کہلائے۔ آپ بدایوں کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، دینی تعلیم روایت کے مطابق مقامی گھرپر ہی حاصل کی۔ والد پولیس افسر تھے، لہٰذا انتظامی معاملات کے تحت ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں آپ کا تبادلہ ہوتا رہتا۔ لہٰذا عبرتؔ صدیقی نے بڑے بڑے شہر وں کی اہم درس گاہوں میں اپنی تعلیم کی تکمیل کی۔
آپ 1909ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے، اپنی عملی زندگی کا آغاز بریلی سے کیا۔ آپ نے موج کوثر کے نام سے اپنی شاعری کا مجموعہ شائع کیا۔ آپ سچے عاشق رسول تھے۔ لہٰذا آپ نے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے صنفِ نعت میں خوب خوب جدت پیدا کی اور ’’مہکتا اُجالا‘‘ کے نام سے سیرت طیبہؐ پر کتاب تحریر کی اور آپ نے طلباء کو علم کے فروغ میں دلچسپی لینے کے لیے آٹھویں جماعت کے لیے اردو اور اسلامیات پر خلاصہ تحریر کیا۔یہ آپ کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں، نئی نسل اس سے خوب خوب فائدہ حاصل کرسکے گی۔
جناب عبرتؔ صدیقی بیماری کے باعث 7 ستمبر 1990ء کو اسپتال میں داخل ہوئے لیکن جانبر نہ ہوسکے اور اپنے ہزاروں علمی و ادبی شاگردوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ (آمین)

حصہ