قرآن و حدیث اور تاریخی کتب میں آدم علیہ السلام کی پیدائش اور شیطان (ابلیس) کی دشمنی کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جب آدم کے خاکی پتلے میں جان نہیں ڈالی گئی تھی اُس وقت بھی شیطان جو ابھی جنت مکانی تھا، آدم علیہ السلام کے پتلے کے پاس سے گزرتا تو پتلے کو ٹھوکریں مارتا تھا ۔آدم علیہ السلام کے پتلے میں جان ڈالنے، فرشتوں کے سجدہ کرنے اور شیطان کے انکار کے تمام مرحلے طے ہوگئے-ا ماں حوا بھی پیدا کردی گئیں اور دونوں کو جنت کی بہاروں سے مستفید ہونے مگر شجر ممنوع کو کھانے سے منع کردیا گیا تو شیطان جس نے آدم اور آدم کی اولاد کو بہکانے کی اجازت اللہ سے لے لی تھی، اُس نے آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو شجر ممنوع کھانے کے لیے ورغلانا شروع کر دیا۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ آدم علیہ السلام اور اماں حوا نے جیسے ہی شجر ممنوع کو کھایا ان کے جسموں سے جنت کا لباسِ فاخرہ اتر گیا اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے بے لباس ہو گئے- آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد انسانوں کے خلاف دشمنی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے اور نتیجہ برہنگی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان تم کو بھوک اور موت سے ڈراتا ہے اور تم کو فحاشی اور عریانی کی طرف بلاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کےلیے ایک مکمل ضابطہ حیات اور تعلیماتِ انبیاء سے نوازا ہے اور آپؐ کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور تکمیل ہدایت قرآن و سنت کے ذریعے کردی جو عین قانونِ فطرت کے مطابق ہے۔ ہر انسان کو صرف تین بیماریاں ہی لگ سکتی ہیں: جسمانی، ذہنی اور روحانی۔ جب کوئی آدمی روزمرہ کی زندگی صحت کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر گزارتا ہے تو وہ لازمی طور پر بیمار پڑ جاتا ہے۔ ہمارا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے: جسم اور روح۔ ہم سب کو دو چیزوں کی بھوک لگتی ہے: ایک روٹی اور دوسری جنسی خواہش کی۔ یہ دونوں بھوک زمین پر انسانوں کی بقا کی ضامن ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بھوک کی سیرابی کے لیے حدود و قیود مقرر فرما دی ہیں۔ جسمانی صحت کے لیے حرام و حلال اشیاء کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کردیا۔ ”مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور ہموار کیا اور اس پر اچھی اور بری چیزیں واضح کر دیں، بھلائی اس کو نصیب ہو گی جس نے پاکیزگی اختیار کی، اور وہ نامراد ہو گیا جس نے اس نیکی کو دبا دیا۔“(القرآن سورہ الشمس )
جنسی بھوک کا بھی دائرئہ کار متعین کردیا گیا ہے۔ ”اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو، اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم ان کے ساتھ عدل نہیں کر سکو گے تو پھر ایک بیوی کرو، یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین ثواب ہے۔“ (سورہ النساء )
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگو! تم دو چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں“۔ صحابہ نے پوچھا ”وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ”ایک وہ جو جبڑے کے درمیان یعنی تمہاری زبان ہے اور دوسری تمہاری ٹانگوں کے درمیان تمہاری شرم گاہ ہے۔“
سورہ المومنون میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”مومن اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہوں کہ ان کو محفوظ رکھنے میں قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں“- ہم اگر تمام مذاہب کا جائزہ لیں تو سب سے گھناؤنا جرم زنا ہے اور مذہب نے اس جرم کی سخت سزائیں مقرر کی ہیں- اسلامی شریعت میں جن جرائم کی سزائیں مقرر ہیں ان میں زنا ہی ایک ایسا جرم ہے جس کی عبرت ناک سزا مقرر ہے- شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے سنگسار کرنا اور غیر شادی شدہ کو 100 کوڑے مارنے کا حکم ہے۔ جب تک عیسائیت میں کلیسا کو بالا دستی حاصل تھی چرچ ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دیتا تھا- ویلنٹائن نامی شخص کو اسی جرم کی سزا ہوئی، مگر مغرب کے مادرپدر آزاد معاشرے نے اس کو محبت کا دیوتا بنا دیا اور اب پوری دنیا میں اس کی موت کے دن کو محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے-
یہ بھی تاریخ میں درج ہے کہ نائلہ نامی عورت نے جب ایک مرد کے ساتھ صحنِ کعبہ میں زنا کیا تو اللہ نے ان دونوں کو پتھر بنا دیا- اہلِ عرب ان دونوں کے بت کو پہاڑ پر رکھ کر لعنت کیا کرتے تھے۔ مگر زمانہ گزر نے کے ساتھ گمراہی آئی تو ان دونوں کے بت کو خانہ کعبہ میں رکھ کر پوجا شروع کر دی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی بیٹیوں کا نام نائلہ نہ رکھا کرو۔ زنا کے پھیلتے ہوئے برائی اور اس سے جڑے جرائم اور لاعلاج بیماریوں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آئے گی کہ خاندانی نظام کی تباہی اور رشتوں کی بربادی دراصل قانونِ فطرت سے انحراف کا ہی نتیجہ ہے۔
ہندو مذہب چوں کہ اپنی بنیادی تعلیمات سے منحرف ہوچکا ہے جو ویدوں میں موجود ہیں،اور اب یہ دیوی دیوتائوں کے فرضی قصے کہانیوں پر مشتمل ہے اور دیو مالائی تہذیب بن گیا ہے، مگر ویدوں میں زانی اور زانیہ کو آگ میں جلانے کی سزا دی جاتی تھی۔ آج بھی برہمن اور راجپوت اس طرح کے جرائم کی مرتکب اپنی بیٹیوں کو غیرت کے نام پر ہلاک کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بالخصوص قبائلی علاقوں میں یہ ماورائے قانون قتل کی وارداتیں عام ہیں۔
اسلام نے ہر سزا کے لیے عدالتی نظام کو قائم کیا ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف چار عینی گواہیوں کو لازمی قرار دیا ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ شریعت نے معاشرے کو حدود کا پابند بنانے کے لیے واعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ خوف پیدا کرنے اور جنت و جہنم کے عقیدے کو راسخ کرنے کا فریضہ ریاست اور علماپر عائد کیا ہے۔
مرد و عورت دونوں کو غضِ بصر یعنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فطری جبلت ہے کہ مخالف جنس کی ہر چیز ایک دوسرے کے لیے باعث ِکشش اور فتنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے گھر کوئی اجنبی آئے اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو تو تم اس کو کرخت آواز میں جواب دو تاکہ اسے تمہارے حوالے سے کوئی غلط تصور پیدا نہ ہو۔ آپؐ نے فر مایا کہ ”اگر ماں جوان ہے تو وہ جوان بیٹے کے سامنے بے تکلف نہ بیٹھے-“
عورتوں کو غیر محرم کے سامنے بے پردہ جانے سے منع کر دیا گیا ہے- شیطان کا مقصد اوّل روز سے ہی انسان کو برہنہ کرنا اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا کرنا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جب صلیبی جنگوں میں مصروف تھے تو ان کے جاسوسوں نے اطلاع دی کہ بہت سے نوجوان جہاد میں شامل ہونا نہیں چاہتے۔ تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ عیسائیوں کے مداری اور کرتب دکھانے والے، علاقوں میں مجمع لگاتے ہیں اور ان کو عورتوں کی نیم عریاں تصاویر دکھا کر اپنی جانب مائل کرتے ہیں- جب کوئی نوجوان راغب ہوتا ہے تو اس کو تنہائی میں بلا کر عیسائی لڑکیوں کے حوالے کرتے ہیں اور انہیں برائیوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے سزائیں دیں اور علاقہ بدر کیا۔ مسلمانوں کی سلطنتوں کا زوال بھی اسی عیش و عشرت اور ترکِ جہاد سے ہوا۔ شیطان پہلے وسوسے ڈالتا ہے پھر خواہش، پھر عملِ بد۔ سورۃ الناس میں یہی تو دعا مانگتے ہیں ”اے اللہ ہم کو وسوسے کے شر سے اپنی پناہ میں لے، جو انسانوں اور جنوں کے ذریعے پیدا کیا جاتا ہے۔“
آج کے دور کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ اس کو NET کیوں کہتے ہیں؟ دراصل یہ ابلاغی جال ہے جو انسانوں کے دل و دماغ کو مسخر کر دیتا ہے۔ مصر کے ایک عالمِ دین نے کہا: لوگو! تم یہ تمام app جو تم مفت میں لوڈ کرتے ہو یہ تمہارے ذہن و دل کو غلام بنا کر تمہیں جانوروں سے بدتر کر دیتی ہیں۔ آج کا انسان میڈیا کا دیوانہ ہے- Tik Tok کو ہی دیکھ لیں اس نے کیسی قیامت برپا کر دی ہے۔ ہر طرح کے جرائم اس میڈیا نے پیدا کیے۔ انسان کو مکمل برہنہ کرکے حیوان سے بھی بدتر درجے کی مخلوق بنادیا ہے۔ حیا کے تمام پردے چاک کر دیے گئے ہیں۔ ریاست کی سرپرستی اور انسانی حقوق کے نام پر انسانیت کی تذلیل عالمی سطح پر سیلابی صورت اختیار کرچکی ہے۔
دجال کے خروج سے پہلے اس کے کارندوں نے دنیا کے تمام وسائل اور حکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور مزاحمت کرنے والے اللہ کے بندوں پر ظلم و سفاکی کے تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں۔
آج جس تہذیب کو مغرب نے پروان چڑھایا وہی مغرب اپنے خاندانی نظام اور نسلوں کی تباہی کا رونا رو رہا ہے -اقبال نے درست فرمایا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
یہی وجہ ہے کہ اسلام تیزی سے وہاں پھیل رہا ہے۔ اگر بیماری دوا کے نسخے پڑھنے سے دور نہیں ہوتی تو صرف نیکی کے ذکر سے نیکی کیسے قائم ہوگی! کسی بھی برائی، ظلم اور ناانصافی کو مخالفت، مذمت، مدافعت اور مزاحمت سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہی مقصدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذمہ داریِ امت ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”تم کو بہترین امت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے، تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سےروکو-“
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ”وہ شخص جلد بوڑھا ہو جاتا ہے جو عورتوں کے درمیان رہتا ہے۔“
انسان اگر اپنے جسم کی بناوٹ پر غور کرے تو اس کے پیچیدہ نظام بناوٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ اعضائے جسمانی (Organs of the body )جس میں ظاہری اعضا شامل ہیں ۔
2۔جسم کے پوشیدہ اعضا( System of the body)
3-نظام ِاعصاب یعنی حسیاتِ نفس، جو تین ہیں: نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ۔
اللہ تعالیٰ نے صرف اعضائے جسمانی کو ہمارے قابو میں دیا ہے جس کے بغیر انسان زندہ رہ سکتاہے۔ جب کہ کوئی انسان دل، گردہ، دماغ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جو اللہ کے تکوینی احکامات کے پابند ہیں۔ ہمارا نفس خیر و شر سے معمور ہے، نفسِ امارہ شیطانی وسوسے کا مرکز ہے، جبکہ نفسِ لوامہ خیر کی آماج گاہ ہے۔ بقول شاعر :
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا
قرآن میں جن سرکش قوموں کو اللہ نے نشانِ عبرت بنایا ہے اور جن کی آبادیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں انہوں نے قانونِ فطرت سے انحراف کیا، انبیا اور رسولوں کی دعوت کا تمسخر اڑایا۔ شرک، ظلم اور اخلاقیات کا جنازہ نکالا، احکاماتِ خداوندی سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ عذاب اور قیامت کی تمنا کی۔ قومِ لوط جنسی بے راہ روی کی حیوانی علامت۔ قوم عاد و ثمود تمام تر طاقت و ثروت کی بے مثال حیثیت کے باوجود ظلم اور شرک کی پہچان بنیں اور پہاڑوں میں ہی خاک ہوگئیں۔ باغ ارم والوں کی خوش حالی کم تولنے کی سزاوار ٹھیری، اصحابِ سبت والے جو اللہ کو دھوکہ دے رہے تھے سور اور بندر بنا دیے گئے۔ دنیا کے ہر خطے میں یہ نشانِ عبرت بستیاں موجود ہیں۔ اٹلی کے پومپائی اور فلی پینو تواٹنا کے آتش فشاں میں جلے نہیں بلکہ پتھر بنا دیے گئے۔
اٹنا سے ابلتے ہوئے لاوے کا خروش
پومپائی کے جھولے ہو گئے معدوم
جس کے سرکاری عمال تک بردہ فروشی کا کاروبار کرتے تھے۔ ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا موئن جوداڑو اور ہڑپہ۔ ہندوستان میں اجنتا الورا کے غار والے لوگوں کے سنگی جسمانی اختلاط کے پتلے… یہ سب قہرِ خداوندی کی نشانیاں ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ”جب زمین گناہوں سے بھر جاتی ہے تو اللہ لاعلاج بیماریوں کی وبا، آسمانی اور زمینی آفات، غیر متوقع اموات اور اجتماعی ہلاکتوں کا عذاب نازل کرتا ہے۔“
آج پوری دنیا جس کورونا کے وبائی مرض میں مبتلا ہے وہ قانونِ فطرت سے انحراف ہی کا نتیجہ ہے۔ آج کے مادر پدر آزاد معاشرے میں ہر برائی کو قانونی اجازت ہے اور ریاست اس کی محافظ بن چکی ہے، اللہ اور رسولؐ سے اعلانِ جنگ کر چکی ہے۔ اس کا نتیجہ انسان خود بھگت رہا ہے- جنگ و جدل کی تباہی، لاعلاج امراض، بے سکون اور برباد خاندانی نظام، ظلم و استحصال اور ناانصافی کی صورتیں نظر آرہی ہیں۔
جاپان تمام تر آسائشاتِ زندگی کے باوجود سب سے زیادہ خودکشی کرنے والا ملک ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”انسان کو تھڑدلا پیدا کیا ہے، یہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے، جب مصیبت آتی ہے تو بلبلانے لگتا ہے جب ٹل جاتی ہے تو اکڑتا ہے۔“
اللہ تعالی نے فرمایا ”خشکی اور تری میں جو فساد برپا ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے-“
آج سے چند سال پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، مگر اب اسمارٹ اور آئی فون کی ایجاد کے بعد دنیا پام ولیج بن چکی ہے- آدمی کی ہتھیلی میں دنیا سمٹ کر آگئی ہے۔ تیز ترین انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کی وجہ سے سیکنڈوں میں آڈیو وڈیو کا ابلاغ ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے فتنے میں گرفتار انسان اس کے سیلاب میں بہتا چلا جا رہا ہے۔ ابلاغی سیلاب، عسکری جارحیت، معاشی استحصال اور ظالمانہ نظامِ کفر جو انسانیت کی تذلیل کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ اس نسلِ نو کو بچانے کے لیے دن رات ایک کردیں ۔
انسانیت کے قاتل انسانی حقوق کا نعرہ لگا کر فریب دیتے ہیں۔ انسانیت کے دشمنوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے ۔
”ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اہلِ وعیال کو جہنم کی اُس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہوں گے۔“ ( التحریم )
اے اہلِ وطن سوچو تو ذرا
یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی
یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بر بادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی، یہ پھولوں کا بیوپاری ہے