سید علی گیلانی کشمیر ہے اور کشمیر سید علی گیلانی ہے

366

13جولائی 1931ء کو جب سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں غاصب ڈوگرہ مہاراجا سے بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار نوجوان عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر ڈوگرہ سامراج کی پولیس کی فائرنگ سے 22 فرزندانِ اسلام نے جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے تحریکِ آزادیِ کشمیر کا افتتاح کیا تھا، سید علی گیلانی اُس وقت دو سال کے تھے۔ گیلانی اور تحریک آزادی دونوں ساتھ ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ سید کو تحریکِ آزادی سے عمر میں دو سال بڑے ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ گزشتہ صدی کے نصف اوّل کی بات ہے۔ 29 ستمبر 1929ء کو زوری منس تحصیل بانڈی پورہ، نہر زینہ گیر کی کھدائی کرنے والے ایک مزدور سید پیر شاہ گیلانی کے گھاس پھوس کے جھونپڑے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام سید علی گیلانی رکھا گیا۔ خدا جانے یہ محض اتفاق تھا یا پیر شاہ گیلانی کی بصیرت مستقبل کے پردوں میں جھانک رہی تھی کہ اس بچے کا نام کشمیر میں اوّلین تحریکِ اسلامی کے داعی و قائد سید علی ہمدانی ؒکے نام پر رکھا گیا۔ اس بچے نے بڑے ہوکر سید علی ہمدانی ؒکے نام کی لاج رکھی اور ان کا حقیقی جانشین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر اپنی درماندہ و تباہ حال قوم کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کی منزل کی جانب رواں دواں کردے۔
سید علی گیلانی ابھی دو ہی برس کے تھے کہ 1931ء میں سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں 22 فرزندانِ توحید نے اپنے خون سے تحریکِ آزادیِ کشمیر کے پہلے باب کی رسم افتتاح ادا کی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دور و نزدیک تک پھیل گئی۔ سید علی گیلانی نے شعور کی آنکھ کھولی تو آزادی کی تحریک جوبن پر تھی۔ ڈوگرہ استعمار کے خلاف بغاوت کے الاؤ ہر سو دہک رہے تھے۔ تکبیر کے نعرے تھے اور آزادی کے ترانے تھے۔ علی گیلانی بھی اپنا ننھا ہاتھ بلند کرکے توتلی زبان میں نعرئہ تکبیر بلند کرتا تھا۔ آزادی ان کو گھٹی میں پلائی گئی۔ بچپن اور لڑکپن کا دور انہوں نے اس تحریک میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک ہو کر گزارا۔ سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول بوٹنگو، سوپور سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول سوپور سے کیا۔ اس کے بعد آپ نے حصولِ تعلیم کے لیے لاہور کا سفر اختیار کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے ادیب عالم کا امتحان پاس کیا۔ ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے حاصل کیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ ریاست کے محکمہ تعلیم سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔
1947ء کا سال جہاں برصغیر پاک و ہند کے باشندوں کے لیے آزادی کا پیغام لایا اور ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو بڑی طاقتیں آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھریں، وہاں یہ سال بدقسمت ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک نئی، تازہ دم اور سفاک تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ آزادی کی منزل، جس کے لیے ایک عرصے سے اسلامیانِ وطن قربانیاں دیتے آئے تھے، اندھیروں میں گم ہوگئی تو نوعمر سید علی گیلانی پر اس سانحے کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ ہرچند شیخ عبداللہ اور اس کے قوم پرست مصاحبین قرآن اٹھاکر لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ ان کی گردن میں جو پھندا ڈالا گیا ہے وہ غلامی کا طوق نہیں بلکہ آزادی کا تمغا ہے، لیکن سید علی گیلانی، شیخ عبداللہ کی اس منطق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوسکے۔ وہ سوچتے رہے کہ کیا 1931ء کے شہیدوں نے قربانی اس لیے دی تھی کہ ڈوگرہ استعمار کی جگہ برہمنی سامراج کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لے؟ کیا یہ ساری قربانیاں بھارتی فوجوں کی سنگینوں کے سائے میں شیخ عبداللہ کو کشمیر کا حکمران بنانے کے لیے دی گئی تھیں؟ وہ سوچتے رہے اور کڑھتے رہے۔ بھولی بھالی قوم کے ساتھ شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں کا یہ دوسرا دھوکا تھا۔ پہلا دھوکا 1938ء میں مسلم کانفرنس کا نیشنل کانفرنس میں انضمام تھا، جس کے نتیجے میں آزادیِ کشمیر کی تحریک/ منزل کھو کر بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ گئی۔ شیخ عبداللہ اور ہری سنگھ کی ملی بھگت سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق دوسرا عظیم فراڈ تھا، کھلی غداری تھی۔ کیا کشمیر اب دوسرا اندلس بنے گا؟ کیا اب یہاں اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ کیا بخارا اور سمرقند کی طرح یہاں سے بھی اسلامی تہذیب کو دیس نکالا دیا جائے گا؟ مستقبل کے پردوں میں چھپے ہوئے ان مہیب خطرات کی آہٹیں سید علی گیلانی کے اندر کی دنیا کو زیرو زبر کیے ہوئے تھیں۔ ان خطرات کا مقابلہ کون کرے گا؟ لڑکپن اور جوانی کے سنگم پر کھڑے سید علی گیلانی کے لیے یہ اضطراب انگیز سوال چیلنج بن گیا۔ وطن کے جن اصحابِ اخلاص پر نگاہ رکتی تھی اور اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی امید کی جا سکتی تھی، وہ ریاست سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے تھے۔ ان میں چودھری غلام عباس اور میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ جیسی قدآور سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ مایوس کن حالات میں سید علی گیلانی کی رسائی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے لٹریچر تک ہوئی تو انہیں اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آگئی۔ انہیں اپنے ہر سوال کا جواب مل گیا۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور نظامِ اسلامی کے احیاء کے لیے سید مودودیؒ نے اپنے افکار و کردار سے جہدِ مسلسل کا جو راستہ اختیار کیا تھا، جناب سید علی گیلانی نے اسی راستے کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی دوران تحریکِ اسلامی جموں و کشمیر کے درویش صفت امیر جناب مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی، تو وہ سید مودودیؒ کے لٹریچر کے بعد مولانا سعدالدین کے فیضانِ نظر کے قائل ہوگئے۔ یوں جناب سید علی گیلانی اس قافلہ عشاق میں شامل ہوگئے، جسے جماعت اسلامی کہا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے ساتھ ہی سید علی گیلانی کو اپنے تمام سوالوں کا جواب مل گیا۔ وہ جماعت اسلامی کی انقلابی دعوت اور اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے دیوانہ وار سرگرمِ عمل ہوگئے۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے ریاست پر بھارتی تسلط کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے قائدین ہمیشہ اپنی گرمیِ گفتار سے ریاست پر بھارتی قبضے کو توڑتے رہے۔ حق گوئی و بے باکی کے جرم میں جماعت اسلامی کے قائدین اور کارکنوں کو بارہا جیلوں میں دھکیلا جاتا رہا، لیکن جماعت اسلامی آزمائش کی ہر بھٹی سے کندن بن کر نکلتی رہی۔
ابتلا کی بھٹی سلگائی گئی تو سید علی گیلانی سب سے بڑھ کر تعزیر و تعذیب کے مستحق ٹھیرے کہ انہوں نے بھارتی استعمار کو زیادہ جرات اور زیادہ بلند آواز سے للکارا تھا۔ انہوں نے ہر بار یہ بات دوٹوک انداز میں کہی:
”میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا۔ میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا“۔
جناب سید علی گیلانی کی یہ جرات اور بے باکی بھارتی حکمرانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی چلی گئی۔ 28 اگست 1962ء کو پہلی بار انہیں گرفتار کرکے پسِ دیوارِ زنداں پہنچا دیا گیا، جہاں وہ ایک سال ایک ماہ تک مقید رہے۔ یہ دارو گیر کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد تو جیل سید علی گیلانی کا مسکن، ہتھکڑی زیور اور زنجیر کی کھنکھناہٹ آزادی کا ترانہ بن گئی، اور ان کی سیاسی زندگی کا ہر تیسرا دن جیل میں گزرنے لگا۔ جیل میں ایک اور مردِ درویش جناب حکیم مولانا غلام نبی بھی موجود تھے جو بعد میں امیر جماعت اسلامی (مقبوضہ) جموں و کشمیر بھی رہے۔ ان کی قربت نے سید علی گیلانی کی علم کی پیاس بجھائی اور انہیں عمل کے اسلحے سے لیس کیا۔ یہ عرصہ گیلانی صاحب کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ مولانا حکیم غلام نبی کے علم و تقویٰ نے آپ کی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ اسی اسیری کے عرصے میں آپ کے والدِ گرامی کی وفات ہوئی، لیکن آپ کو والدِ ماجد کا آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ وہ اپنے محبوب باپ کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے۔ جیل کی سختیوں اور قید و بند کی صعوبتوں نے آپ میں بھارتی تسلط کے خلاف بغاوت کے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا تھا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ بلند آہنگ میں آزادی کی صدا بلند کرنے لگے۔ وہ پوری یکسوئی سے ہندوستانی استعمار سے رائے شماری کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ عوام کو انہوں نے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے تیار، بیدار اور ہوشیار کرنا شروع کیا۔
1965ء میں پاکستان کے مشہورِ زمانہ ”آپریشن جبرالٹر“ سے کچھ ہی عرصہ پہلے7مئی 1965ء کو سید علی گیلانی کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے اس آپریشن کی بھنک پڑچکی تھی۔ ان کے خیال میں پاکستانی حملے کی صورت میں سید علی گیلانی ہی پاکستانی کمانڈوز کو اندرونِ کشمیر ہر ممکن مدد فراہم کرسکتے تھے،لہٰذا ”آپریشن جبرالٹر“کو ناکام بنانے کے لیے جناب گیلانی کی گرفتاری ضروری تھی۔ ”آپریشن جبرالٹر“ کی ناکامی کی وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرکے مجاہدین کی پشت پر لاکر کھڑا کرنے والی قیادت میسر نہ تھی۔ سید علی گیلانی میدان میں موجود ہوتے تو اس کمی کو احسن انداز سے پورا کرسکتے تھے۔ لیکن آپریشن جبرالٹر کے ”شاہ دماغ“ منصوبہ سازوں کو شاید صورت حال کے اس پہلو کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔
سید علی گیلانی کی رہائی 1967ء میں اُس وقت عمل میں آئی جب آپریشن جبرالٹر کا طوفان تھم کر حالات بظاہر پُرسکون ہوگئے تھے۔ رہائی کے فوراً بعد سری نگر میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں سید علی گیلانی نے ایک بار پھر اپنے عزمِ آزادی کا ببانگِ دہل اظہار کرکے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔ پریس کانفرنس میں آپ نے فرمایا:
”بھارت نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے اور ہماری بھی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی انداز میں ہی حل کیا جائے۔ خود بھارت کا مفاد بھی اسی میں ہے، لیکن اگر بھارتی حکمرانوں نے مزید ٹال مٹول سے کام لیا تو کشمیری کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔“
شیخ عبداللہ اور اس کے حواری بتدریج رائے شماری کے مطالبے سے پسپائی اختیار کرنے لگے۔ شیخ نے 1973ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے بھارتی قبضے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یوں وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کے عوض کشمیریوں کے حقِ آزادی کا ایک بار پھر سودا کرکے ”شیرِ کشمیر“ غدار چہرے کے ساتھ سامنے آگیا۔ اب شیخ عبداللہ اور اس کے مصاحبین کے تیور ہی بدل گئے تھے۔ جو کل تک رائے شماری کے لیے لڑنے مرنے کی قسمیں کھاتے تھے، اب کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو ”اٹل حقیقت“ اور کشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ثابت کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اس موقع پر بھی سید علی گیلانی نے ہی قوم کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔
گیلانی صاحب طویل عرصہ جموں و کشمیر اسمبلی کے ممبر، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور مقبوضہ ریاستی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی رہے۔ 1987ء میں آپ ہی کی قیادت میں مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے بھارت کے خلاف اور آزادی کے لیے انتخابی معرکہ لڑا گیا جس میں بھارتی فوج اور انتظامیہ نے شدید دھاندلی کے ذریعے محاذ کی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔ گیلانی صاحب سمیت صرف چار ارکان کامیاب ہوسکے۔ اس الیکشن میں موجودہ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین بھی سری نگر سے مقبول ترین امیدوار تھے۔ یاسین ملک، جاوید میر اور دیگر نوجوان، جن کے ذریعے آئی ایس آئی نے بعد میں لبریشن فرنٹ قائم کروائی، سید صلاح الدین صاحب کے پولنگ ایجنٹ تھے۔
مسلح تحریک نے زور پکڑا تو سید علی گیلانی سمیت مسلم متحدہ محاذ کے ارکانِ اسمبلی نے انتخابی سیاست سے دست بردار ہوکر تحریک آزادی کو نئی جہت دی۔ گیلانی صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزرا۔ اِس وقت بھی بانوے سال کی عمر میں گھر پر نظربند تھے اور باہر فوج کا پہراتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ باقی ساری حریت قیادت تحریک کی پراڈکٹ ہے جسے حالات یا مہربان طاقتوں نے تخلیق کیا ہے، جبکہ یہ تحریک خود سید علی گیلانی کی پراڈکٹ ہے۔ گیلانی صاحب نے اسے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔ آج وہ عظیم قائد 92 سال کی عمر میں اپنی مظلوم قوم کو داغِ مفارقت دے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

حصہ