تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
اقبا ل ؒ کے ان اشعار کے حرف بہ حرف امین ’’ہم پاکستان ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘کا نعرہ لگانے والے سید علی گیلانی آزادی کا خواب لے کروفات سے تھوڑی دیر قبل درود شریف پڑھتے ،کلمہ طیبہ کا ورد کرتےاور پاک سرزمین،پاک سرزمین کہتے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سید علی گیلانی کشمیر کے واحد لیڈر تھے جو تقسیم ِ ہند سے قبل پیدا ہوئے۔ آپ کے اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے۔ آپ شمالی کشمیر کے قصبے سوپور میں ڈورو گائوں کے ایک آسودہ گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاںانہی دنوں میں وہ اقبال کی شاعری اور مولانا مودودی سے متاثر ہوئے۔ سید علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔
ہمیشہ کہتے تھے کہ آزادی ٔ کشمیرکی کو ششیں میرے خون میں رچی بسی ہیں، دنیا میں کوئی طاقت مجھے آزادی کے ہزاروں شہیدوں کے مقصد کی حفاظت سے نہیں روک سکتی۔ وہ اکثر قرآنی آیت کا حوالہ دے کرفرماتے تھے’’کہہ دیجیے اے محمدؐ! بے شک میری نماز، قربانی، جینا اور مرنا صرف اللہ کے لیے ہے۔‘‘
سید علی گیلانی کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ آپ کو اپنے اصولی مؤقف سے دست بردار کرانے کے لیے بھارت نے ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے آزما لیے، اپنوں نے دلائل کے ڈھیر لگا دیے، لیکن آپ کو کوئی ہلا نہیں سکا۔ سید علی گیلانی نے وقت کے ظالم اور جابر ہندوستان کے خلاف اپنے حق کے لیے بڑی لڑائی ہمت، جرأت ، بلند حوصلہ اور مضبوط ایمان کے ساتھ لڑی‘ جس کی مثال آج کی دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔
آپ کی یکسوئی، غیر متزلزل مؤقف، اصول اور یقینِ کامل کو صرف اس ایک واقعہ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ 2005 میں نئی دلی میں پاکستانی سفارت خانے میں پرویز مشرف سے ہونے والی ملاقات میں انھوں نے کہا کہ ’’اُنھیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں۔‘‘ بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ گیلانی کی رخصت کے بعد مشرف نے ٹھیٹ پنجابی میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’باباجی نو گل سمجھ نی آندی، انھاں نوں کی پتا ٹیکٹیکل ریٹریٹ کی ہوندا ہے۔ (باباجی کو بات سمجھ نہیں آتی، انھیں کیا پتا ٹیکٹیکل ریٹریٹ کسے کہتے ہیں۔)
اسی ملاقات اور مشرف کے تبصرے کے پس منظر میں حامد میر نے تبصرہ کرتے ہوے ٹوئیٹ کیا ہے کہ اس بہادر شخص نے ہمیشہ یہ نعرہ لگایا ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے اس عظیم انسان کو پاکستان کے ایک سابق حکمران نے ’’پاگل بڈھا‘‘ قرار دیا بعد کے حکمران بھی گیلانی صاحب سے اکثر ناراض رہتے تھے لیکن پاکستانی عوام کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‘‘
راقم حروف نے بھی سید علی گیلانی سے ایک انٹرویو میں اس ملاقات کا احوال پوچھا تھا تو آپ نے بتایا تھا کہ ’’جنرل پرویز مشرف نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’بھارت بڑا ملک ہے، ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے، جوہری طاقت کا مالک ہے اور مغربی ممالک بھی اس کی حمایت اور پشت پر ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، ہم نے بھی تین جنگیں لڑی ہیں، مگر ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب ہمیں مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کرنا ہے۔‘‘
پرویز مشرف کی ان باتوں پر سید علی گیلانی نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارا مؤقف اور Stand مبنی بر صداقت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھروسا اور اعتماد کر کے اپنی جدوجہد کو جاری وساری رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ضرور مدد کرے گا۔ ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اور کہا تھا کہ:
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
سید علی گیلانی کہتے تھے کہ ’’کشمیری قوم کی کمزوریاں اپنی جگہ، لیکن مجموعی طور پر کسی بھی حال میں یہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ کیوں کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ رہ کر ہم اپنی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک سے تاریک تر بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم بہ حیثیت مسلمان‘ بھارت کے کسی گوشے میں تو دور، خود اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ تحریک محض تحریکِ آزادی ہی نہیں بلکہ ہماری بقا اور وجود کی تحریک ہے۔ ایک باشعور انسان‘ خاص کر مسلمان‘ اغیار کے ہاتھوں اپنے ملّی تشخص کو پامال ہوتا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ظلم، ہر ستم، ہر شہادت اور ہر زندان ہمارے عزائم اور حوصلوں کو اور زیادہ مضبوط کرکے ہمیں جدوجہد جاری رکھنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔‘‘
یہ ہیں سید علی گیلانی‘ جو اب نہیں رہے‘ لیکن انہوں نے صاف بتادیا تھا کہ منزل صرف جدوجہد کرنے والوں کو ہی ملتی ہے۔
وہ کہتے تھے کہ ہماری تحریک جہاں آج کھڑی ہے ظاہری طور تو کوئی صورت ایسی نظر نہیں آرہی ہے کہ دور دور تک منزل کا کوئی دھندلا سا نشان بھی نظر آرہا ہو۔ جہاں آٹھ لاکھ مسلح فوج ہو، پولیس اور نیم فوجی دستے سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ سروں پر بھی سوار ہوں، قابض طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے نجی معاملات میں بھی مداخلت کرتی ہوں، دہلی کے آقائوں کے مقامی غلام جب اقتدار اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنی غیرت، عزت، انا اور خودی سب کچھ بیچ کھا چکے ہوں اور ان قاتلوں کے آگے اپنی قوم کی جواں سال نسل کو کٹنے کے لیے پیش کررہے ہوں تو گوشت پوست کا ایک عام اور نہتا انسان کب تک مایوسی اور بزدلی کے اثرات سے خود کو بچا سکتا ہے؟ لیکن اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی ہم نے یقینِ محکم کی شمع روشن رکھی ہے۔ جس طرح مجھے کل کے سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے بالکل اسی طرح مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ خون حق وصداقت کے لیے بہا ہے، یہ عصمت‘ اللہ کی زمین کو غیر اللہ کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے تار تار ہوئی ہے، یہ قیدوبند کی صعوبتیں اقامتِ دین کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے برداشت کی جارہی ہیں۔ ہم کمزور ہی سہی، کم عمل ہی سہی، لغزشوں سے پُر ہی سہی، لیکن ہمارا رب تو فیاض ہے۔ اس کو ہماری ناتوانی کا علم ہے، وہ ضرور ہمیں کامیاب کرکے ظالموں کے پنجے سے آزاد کرنے میں، مدد فرمائے گا۔ ان شاء اللہ۔‘‘
سید علی شاہ گیلانی کی رحلت پر کشمیریوں کی طرح پوری پاکستان قوم بھی سوگوار ہے۔ سید علی گیلانی کی وصیت اور خواہش تھی کہ انہیں انتقال کے بعد سری نگر کے شہدا کشمیر کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ لیکن قابض بھارتی فوج نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ سید علی گیلانی کے انتقال پر آزاد کشمیر حکومت نے ایک روز کی چھٹی اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کی اپیل پر پورے ملک میں سید علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ سراج الحق نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی کے انتقال سے کشمیریوں، پاکستانیوں اور عالمِ اسلام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی کو پاکستان سے عشق تھا، ان کا آخری لمحے تک ایک ہی نعرہ تھا ’’ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے لیے زیادہ تر زندگی جیل میں گزاری، سید علی گیلانی کے انتقال سے تحریک آزادی مزید تیز ہوگی۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیر ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا ہے، وہ ایک باہمت، نڈر اور مخلص رہنما تھے جنہوں نے اپنی تمام عمر بھارتی سامراج کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ ’’میں حریت رہنما سید علی گیلانی کی رحلت کی اطلاع پر بے حد رنجیدہ ہوں جو عمر بھر اپنے لوگوں اور ان کے حقِ خود ارادیت کے لیے محوِ جدوجہد رہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ قابض بھارتی ریاست کے ہاتھوں اسیری و اذیت کا نشانہ تو بنے مگر پوری طرح ثابت قدم رہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہم ان کی باہمت و بے باک جدوجہد کو سلام پیش کرتے اور ان کے الفاظ کو اپنے دل و دماغ میں تازہ کیے ہوئے ہیں کہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔‘‘
سید علی گیلانی کشمیر کو پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی زندگی میں یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ ان کا یہ نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ تحریکِ آزادی کے متوالوں کے دلوں میں موجود ہے اور آزادیٔ تحریک جاری ہے اور جاری رہے گی‘ یہی سید صاحب کی بھی خواہش تھی۔ اُن کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کہ مطابق سید علی گیلانی اور کئی بزرگ کشمیری اپنی اولادوں کو وصیت کرتے ہیں کہ ’’جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے تو ہماری قبروں پر آ کر بتانا۔‘‘
میں نے ان سے انٹرویو میں جب پوچھا کہ ’’آپ سے ہم پاکستان میں کب ملیںگے؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’میں40 سال سے بھارت سے باہر نہیں جاسکا ہوں، ذہن کے دریچوں سے، تخیل کی نگاہوں سے اور ہوائوں کی سراسیمگی سے میں ہر وقت آپ لوگوں کے درمیان ہی ہوتا ہوں۔ چوں کہ جسمانی ملاپ پر ظالموں کی قدغنیں ہیں اس لیے ہم اُن کی اس ’’کرم فرمائی‘‘ کے باوجود اپنے خوابوں کی سرزمین میں گھومتے پھرتے ہیں۔ دُعا کریں روحانی ملاپ کے ساتھ ساتھ جسمانی ملن کی بھی کوئی راہ نکل آئے۔ اللہ رب العالمین کی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں۔‘‘
شایداللہ کو یہ منظور نہیں تھا‘ اس کی حکمتوں کو کوئی نہیں جان سکتا کیوں کہ وہی سب جاننے والا ہے۔ سید علی گیلانی آزادی کا خواب بسائے چلے گئے‘ ایک دن اُن کا یہ خواب ضرور سچ ہوگا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا سید علی گیلانی اور شہدا اس خبر کو سن کر جنت میں یقینا مسرت کا اظہار کریں گے۔