علامہ اقبال
نگاہ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
…٭…
اکبر الہ آبادی
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں
یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا
خدا کی یاد میں محویتِ دل بادشاہی ہے
مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا
…٭…
شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردشِ ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا
…٭…
آفاق اختر
سید علی گیلانیؒ
عبادت کس کو کہتے ہیں
یہ انساں بھول جاتا ہے
یہ دنیا بھول جاتی ہے
یہ حج،روزہ،نماز اور
خرچ اہلِ ثروت کا
سبھی کچھ تو عبادت ہے
مگر ہے تیاری یہ
بڑی سی اک عبادت کی
عمر بھر کی ریاضت کی
شہادت کی
ہاں ایسی ہی عبادت کو
جب دنیا بھول جاتی ہے
تو کچھ بندے خدا کے پھر
عبادت زندہ کرتے ہیں
زمانے میں گواہی بن کے
اپنی جان دے کر
یہ بتاتے ہیں
خدا بس ایک ہے
سب سے بڑا ہے
اور سب فرعون جھوٹے ہیں
وہ “لا”میں زندگی کو ڈھونڈ لاتے ہیں
بتاتے ہیں
عبادت اس کو کہتے ہیں
ریاضت ایسی ہوتی ہے
یہی بندے
کبھی سید علی بن کر
کبھی مرسی ، قطب بن کر
زندۂ جاوید ہوتے ہیں
خدا کی ان پہ رحمت ہو
خدا کی ان پہ رحمت ہو
…٭…
ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر
ابھی منزل نہیں آئی، ابھی یہ جنگ جاری ہے
وہ دنیابھی ہماری تھی، یہ دنیا بھی ہماری ہے!
شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخر
عزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!
الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرت
عدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے!
زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا!
سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے!
…٭…
ناصر کاظمی
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں
ان اجالوں کی دھن میں پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں
رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
فیض احمد فیض
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُ دھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
…٭…
منتخب اشعار
باقی رہا نہ فرق زمین آسمان میں
اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم
وزیر علی صبا لکھنؤی
…٭…
وصالِ یار کی خواہش میں اکثر
چراغِ شام سے پہلے جلا ہوں
عالم تاب تشنہ
…٭…
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
فردوس گیاوی
…٭…
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
…٭…
اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے
…٭…
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
…٭…
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
…٭…
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…
ابھی منزل نہیں آئ،ابھی یہ جنگ جاری ہےوہ دنیابھی ہماری تھی،یہ دنیا بھی ہماری ہے !شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخرعزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرتعدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے !زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا !سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے !*ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر