’’اوہ… وائو سو پریٹی…‘‘ کمنٹس اتنے زور دار آواز میں کیے گئے تھے کہ وہ بے اختیار دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔
’’اتنی خوب صورت آنکھیں؟‘‘ اب وہ پزل ہوگئی۔ وہ اسی کو کہہ رہا تھا۔ اس نے اپنے گھنگریالے سیاہ بالوں کو بلاوجہ ہی درست کیا۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟ میں ایلس ہوں، تمہارے کالج کا سب سے ہینڈسم اور ذہین لڑکا۔‘‘ اس چھ فٹ کے لڑکے نے ایک ہی سانس میں اپنا سوال اور تعارف پیش کردیا۔
زہرہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا پُراعتماد ہی نہیں بلکہ حد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار بھی ہے۔
’’اوہ! سوری… میرا نام زہرہ ہے، والدین کا تعلق پاکستان سے ہے، اور میں نے اسی سال اس کالج میں داخلہ لیا ہے۔‘‘ اس نے بھی پُراعتماد ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے ایک ہی سانس میں بولنا شروع کردیا۔
’’زہرہ…؟ تھوڑا یونیک نام ہے۔ کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘ ایلس نے سینے پر ہاتھ باندھتے اس سے پوچھا۔
’’زہرہ عربی زبان کا لفظ ہے، مطلب پھول۔‘‘ اس نے اپنے نام کا مطلب بتایا۔
’’زبردست زہرہ، یہ نام بہت سوٹ کرتا ہے، تم بالکل پھول کی طرح ہو اور تمہاری خوب صورت آنکھیں تمہیں سب سے منفرد بناتی ہیں۔ ہمارے کالج میں خوش آمدید۔‘‘
’’ہائے ایلس…‘‘ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، دو یورپی لڑکیاں اور ایک سیاہ فام لڑکا کھڑے تھے۔ ایلس ان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے زہرہ کو بائے بائے کرتا آگے بڑھ گیا۔
زہرہ کے والد عزیز صاحب اپنی نوجوانی میں امریکا میں معاش کی تلاش میں آئے اور پھر روزگار ملنے پر یہیں سیٹ ہوگئے۔ دادی کی کوششوں سے ایک سلجھی ہوئی پاکستانی لڑکی سے اُن کی شادی ہوئی، جس سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی زہرہ تھی۔ بڑا بھائی اب ایک کمپنی میں ملازم، جبکہ چھوٹا ابھی زیر تعلیم تھا۔ بیگم عزیز نے اس ماحول میں بھی اپنے بچوں کی بہترین تربیت پر توجہ دی تھی، مگر وہ ڈرتی تھیں کہ نہ جانے پاکستانی رنگ کب یورپی رنگ میں تبدیل ہوجائے! انہوں نے اپنے بچوں کو قید نہیں کیا تھا تو بہت آزادی بھی نہیں دی تھی۔ زہرہ ہمیشہ مغربی لباس میں ہوتی، مگر لباس کا ساتر ہونا ضروری تھا۔ وہ بے باک معاشرے میں تھی مگر بے باک نہ تھی۔ اس کی دوستی صرف لڑکیوں تک محدود تھی، مگر آج جس طرح ایلس نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا، اس کی تعریف کی، وہ اسے سحر زدہ کر گیا تھا۔
ایلس نے اگر اسے کہا تھا کہ وہ کالج کا سب سے ہینڈسم اور ذہین لڑکا ہے، تو اس کا یہ کہنا بالکل درست تھا۔ لڑکیوں کا ہجوم اس ہینڈسم کا تعاقب کرتا نظر آتا، اور لڑکے اس کی ذہانت سے مرعوب نظر آتے۔ گویا وہ مقناطیس تھا جس کی جانب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کھنچ رہی تھی۔
فیری اس کی بہترین دوست تھی، وہ اور زہرہ ایک ہی بلڈنگ میں رہتے تھے، ایک دوسرے کے گھر بھی آنا جانا تھا اس لیے اس کے والدین فیری پر اعتماد کرتے تھے۔ فیری اس وقت کالج کینٹین سے سینڈوچ لے کر لوٹی تو اس نے ایلس کو زہرہ سے بات کرتے دیکھا۔
’’ہائے ایلس…!‘‘ فیری نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
’’ہائے کیوٹ گرل…!‘‘ ایلس نے اس کی جانب مسکراہٹ اچھا لی۔
’’کیا چل رہا ہے…؟‘‘ فیری نے سینڈ وچ آگے بڑھاتے آنکھیں گھمائیں۔
’’ارے یہ آپ کی مس زہرہ تو ہم سے ڈھنگ سے بات بھی نہیں کرتیں، لگتا ہے میں پسند نہیں ہوں انہیں۔‘‘ ایلس نے منہ بنایا۔
’’ارے نہیں ایلس! تم جانتے تو ہو زہرہ پاکستانی ہے، تھوڑی شرمیلی ہے بس، ورنہ وہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے۔‘‘ فیری نے سینڈوچ ایلس کی جانب بڑھایا۔
’’اوہ سچ…!آپ مجھے پسند کرتی ہیں، پلیز فیری میری ہارٹ بیٹ چیک کرو۔‘‘ اس نے فیری کا ہاتھ اپنے دل پر رکھا۔ زہرہ بھی بے اختیار ہنس پڑی۔
اور پھر یوں چند ہی دنوں میں زہرہ ایلس کے خاصی قریب ہوگئی۔
ایک دن فیری نے زہرہ کو بتایا کہ ویک اینڈ پر ریسٹ ہاؤس میں نیو ائر پارٹی ہے، رات وہیں گزاریں گے، ایلس نے خاص طور پر تمہیں بلایا ہے۔
’’مگر میرے والدین مجھے رات رکنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔‘‘ زہرہ پریشان ہوگئی۔
’’ارے زہرہ یہ امریکا ہے، تمہارے والدین تم پر زبردستی نہیں کرسکتے، تم ایک فون کرکے پولیس کو بلا سکتی ہو، تمھاری زندگی میں اُن کو دخل دینے کی کوئی اجازت نہیں ہے، اور ویسے بھی ہم بس ہلا گلا کریں گے۔‘‘ فیری نے اسے راہ سُجائی۔
’’اوکے، میں امی سے بات کرتی ہوں۔‘‘ زہرہ یہ کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
شام میں زہرہ نے گھر میں پارٹی کے حوالے سے بات کی تو گویا ایک بھونچال آگیا۔ ابو نے اسے سخت ڈانٹا، باتیں سنائیں، اور بڑے بھائی نے تو اس کے گال پر تھپڑ ہی دے مارا۔
اسے سب اپنے دشمن لگ رہے تھے، اس نے پولیس کو فون ملانا چاہا تو بھائی نے فون چھین کر اسے کمرے میں بند کردیا۔ فیری اور ایلس کا فون آیا تو امی نے اس کی طبیعت کی خرابی کا کہہ کر فون بند کردیا، اور شام تک زہرہ کو تیز بخار چڑھ چکا تھا۔ امی اس کے کمرے میں کھانا دینے آئیں تو اس کی طبیعت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ اس کے سر پر پٹیاں رکھتیں، آنسوؤں سے روتیں اور دعائیں پھونکتیں۔ امی کو اس نے کئی بار نیم وا آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اس کے سر میں ہاتھ پھیرتی اسے سمجھا رہی تھیں ’’ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں بلکہ تمہیں غلط سمت جانے سے روک رہے ہیں‘‘۔ اور اس کا اندازہ اسے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوگیا۔
اب اس کی طبیعت ٹھیک تھی، اس نے امی سے اجازت لی اور فیری کے فلیٹ چلی آئی۔ فیری کی امی جاب کرتی تھیں۔ وہ اس وقت گھر پر اکیلی تھی۔ مگر فیری انتہائی خراب حالت میں اس کے سامنے تھی۔ زہرا نے اسے اپنے اوپر گزرنے والے حالات بتائے تو وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ ’’زہرہ میرے پاس کوئی باپ بھائی نہ تھا جو مجھے روک لیتا، کاش کوئی مجھے وہاں جانے سے روک لیتا۔ ایلس شیطان ہے، اس کا مکروہ چہرہ میں نے اُس رات دیکھا جب اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔ زہرہ اس نے جھوٹ کہا تھا کہ کالج کی اور لڑکیاں بھی جا رہی ہیں، شکر کرو تم نہیں گئیں، زہرہ اگر تم اُس دن چلی جاتیں تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتی۔ تم مسلمان ہو، معصوم ہو، تمھارے بھائی ہیں، شکر کرو زہرہ…‘‘ فیری پاگلوں کی طرح اپنے منہ پر مار رہی تھی، اور زہرہ کو بار بار وہ تھپڑ یاد آ رہا تھا جو اس کے بھائی نے اس کے منہ پر مارا تھا۔ مگر ان تھپڑوں کے آگے وہ ایک قیمتی تھپڑ تھا۔