میں نے پالی مرغی اور باجی نے پالی بلی۔ باجی کہتی تھیں کہ میری بلی بہت خوب صورت ہے- سفید، نرم نرم جیسے روئی کا گالا۔ میں کہتا تھا کہ کس کام کی یہ بلی خوب صورت ہے تو کیا ہوا۔ مگر ہے کس کام کی، فائدہ تو کوئی اس کا ہے نہیں، الٹا نقصان ہی پہنچائے گی۔ دودھ کھلا چھوڑ دیجیے تو پی جائے۔ سالن کا ڈھکنا بھول جائیے تو چٹ کر جائے، پڑوس میں چلی جائے تو بس بے چارے کبوتروں کی شامت۔
البتہ ہماری مرغی ہے کام کی۔ کھانے کے لیے انڈے دے گی۔ ان انڈوں پر بٹھا دیجیے تو درجنوں چوں چوں کرتے ہوئے گیندے کے پھول کی طرح چوزے پھدکنے لگیں۔ جب وہ بڑے ہو جائیں تو چاہے ان کا مرغی پلاؤ پکا لیجیے، چاہے یونہی بھون کر کھا لیجیے۔ اور اگر نہ بھی کھائیں تو یہی بہت سی مرغیاں انڈوں سے گھر بھر دیں۔
میں نے ایک دن ان کو حساب لگا کر بتایا کہ ایک مرغی سے آدمی لکھ پتی بن سکتا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ منہ بنا کر کہتیں کہ گندا جانور ہے۔ سارے گھر میں بدتمیزی کرتا پھرتا ہے۔ اور میری بلی اس قدر صاف رہتی ہے کہ اس کی صفائی سے ہم انسانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گھر میں چوہے نہیں آتے پاتے۔
میں نے ابکائی لے کر کہا ”آخ تھو۔ چوہے۔ بڑی صفائی پسند ہے آپ کی بلی۔ چوہے کھاتی ہے نامراد۔“
باجی نے برا مان کر کہا ”خبردار جو میری بلی کو نامراد کہا۔ نامراد ہوگی تمہاری مرغی۔“
اپنی مرغی کے لیے نامراد کا لفظ میں بھی نہ سن سکتا تھا۔ میں نے غصے میں کہا ”آپ کی بلی نامراد اس کے سگے سوتیلے نامراد۔“
باجی نے مٹھیاں بھینچ کر کہا ”ںامراد تیری مرغی، اس کا باپ نامراد۔ اس کی ماں نامراد۔“
میں نے غصے میں کہا ”اللہ کرے مر جائے آپ کی بلی۔“
باجی نے کہا ”مرے تیری مرغی۔ آدھی رات کو اس کا جنازہ نکلے۔“
اور میں نے سچ مچ پورا منہ کھول کر رونا شروع کردیا۔ بھیں۔ بھیں۔ بھیں
امی جان اور ابا جان دونوں تاش کھیل رہے تھے۔ وہ دوڑے پتّے ہاتھ میں لیے ہوئے۔ اور اب تحقیقات شروع کردی کہ کس نے ننھے کو مارا۔
باجی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ اس نے میری بلی کو کہا تھا کہ ”اللہ کرے مرجائے تیری بلی-“
میں روتے ہوئے بولا ”باجی نے کہا کہ تیری مرغی کا جنازہ نکلے۔“
ابا جان نے حیرت سے امی جان کا منہ دیکھتے ہوئے کہا ”یہ کوسنا ان کو کس نے سکھایا؟“
امی جان نے کہا ”محلے کے بچوں سے یہی بے ہودہ باتیں سیکھتے ہیں۔ کل سے ان کا محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلنا بند۔“
اور اسی وقت میری مرغی کی آواز آئی ”کٹ کٹ۔۔۔کٹاک۔۔۔۔کٹاک۔۔۔“
امی جان دوڑیں ”بلی بلی“ کرتی ہوئی۔
اور جب ہم باہر پہنچے تو باجی کی بلی چٹخارے بھر رہی تھی اور میری مرغی جنت سدھار گئی تھی۔ باجی کی دعا قبول ہوگئی مگر خدا کے یہاں دیر ہے، اندھیرا نہیں۔ دیکھتا ہوں باجی کی یہ بلی کب تک زندہ رہتی ہے۔