اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے عدم برداشت کی وجوہات میں شامل بے صبری یا عجلت پسندی،حساسیت وجذباتیت،مایوسی،اناپرستی،مسلکی مناقشہ آرائی،کم علمی،سیلف امیج و سیلف اسٹیم کا فقدان،اسلامی تعلیمات سے دوری،موروثیت، ذہنی سانچہMindset ،اور کبرِعلم Arrogance of knowledge کا ذکر کیا تھا ،اس حصے میں ہم عدم برداشت کی مزید وجوہات اور برداشت پیدا کرنے والے عوامل پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے ۔
بے مقصدیت:
انسان کے زندگی گزارنے کی مختلف سطحیں ہیں ،کوئی لذت کی سطح یعنی مزے کی خاطر زندگی گزارتاہے،کوئی جذبات اور احساسات کی سطح پراورکوئی خواہشات کی سطح پر,آپ کو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو زندگی کسی مقصد،عقل و شعور اور فہم و فراست کی سطح پرگزاررہے ہوں اور یہی بے مقصدیت اینگزائٹی (ذہنی دباؤ) اور ڈپریشن (بلاوجہ افسردگی)پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کی قوت برداشت ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی رہتی ہے۔
جلد بازی:
جلد بازی ہماراقومی مزاج بنتا جارہا ہے،ہمیں کھاناکھانا ہو،کہیں جانا ہو، بل جمع کرانا ہو،یا ہمیں ڈرائیونگ کرنی ہو ہر معاملے میں ہم جلد بازی کا شکار ہیں،جلدی کس بات کی ہے ؟اس کا ہمیں ادراک نہیں، گویا ایک بھیڑ چال ہے جس کا ہم سب شکار ہیں،زندگی کے بہت سے معاملات کی خرابی کی تہہ میں جلد بازی کا عنصر کارفرما ہوتا ہے،جلد بازی سےنہ صرف ہمارے اعصابی نظام میں خرابیاں در آتی ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں عدم برداشت بھی فروغ پاتی ہے۔
دماغی،جسمانی،اعصابی،نفسیاتی اور روحانی امراض:
فرد کے اندر غصہ،جھنجھلاہٹ اور عدم برداشت کی ایک اہم وجہ دماغی،جسمانی ،اعصابی،نفسیاتی اور روحانی امراض بھی ہیں،جدید میڈیکل سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دماغ میں موجود اعصابی خلیے سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادے بناتے ہیں جن کی متوازن مقدار انسان میں اطمینان، خوشی، تحریک اور جوش جیسے جذبات کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف عوامل کے باعث اگر ان مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو انسان بے چینی، اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور انہی کیفیات کو طبی زبان میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کہا جاتا ہے،اس کیفیت میں انسان کے اندر برداشت کی سطح انتہائی کم ہو جاتی ہے۔یہ تو عدم برداشت کی طبی توجیح ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام تر سائنسی علوم ،ریسرچ اور ڈائیگناسٹک ٹولز اور علاج کے باوجودانسان ان امراض میں مبتلا ہے۔دماغ سے نکلنے والے کیمیکلز کے نتائج اپنی جگہ بجا، مگر حقیقت یہ ہے کہ دین سے دوری اور روحانیت سے انحراف انسانوں کی اس بے یقینی کی ایک بہت بڑ ی وجہ ہے۔بعد از موت زندگی کی حقیقت کو جاننا اور سرخم تسلیم کرنا دراصل انسان کی جسمانی،ذہنی اورنفسیاتی صحت کا ضامن ہے۔
بے جاتوقعات:
کہا جاتا ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے،مل جل کر رہنا اس کی سرشت میں شامل ہے ،انسان آپس میں ملتے جلتے اورتعلقات استوار کرتے ہیں جس سے انسانی تمدن کی بنیاد پڑتی ہے،مل جل کر رہنے والوں کے درمیان ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کرنا ایک فطری امر ہے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانی تعلقات کے بگاڑ میں ستر ،اسی فیصد حصہ انسانوں سے بے توقعات وابستہ کرنا اور پھر ان توقعات کاٹوٹنا ہے،بسا اوقات ان توقعات کے ٹوٹنے سے توقعات وابستہ کرنے والا خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ Broken Expectation عدم برداشت کو جنم دیتی ہے۔انسان اپنے ہی جیسے انسانوں سے بے جا توقعات وابستہ کرتا اور ان توقعات کے ٹوٹنے پر دل شکستہ ہوجاتا ہے،کسی سے توقعات وابستہ کرنا برف کا مجسمہ تراشنے کے مترادف ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پھر بھی برف کے مجسمے تراشتے اور انہیں پگھلتا دیکھ کر واویلا مچاتے ہیں۔
غذائیں:
انگریزی کا مقولہ ہے کہ :we are what we eat،غذا کے انسانی مزاج پرپڑنے والے اثرات پر بہت کچھ لکھاگیا،جس میں اس امر کا انکشاف کیا گیا کہ ہم جو کچھ کھاتے پیتے ہیں اس کا براہ راست اثر ہمارے مزاج اور رویے پر پڑتا ہے۔کھانے کا متوازن ہونا کسی بھی غذامیں غذائیت کی ضامن ہے،آج کل بے دریغ چینی کا استعمال جو ہمارے جسم میں فاسٹ فوڈ کی شکل میں منتقل ہو رہا ہے در اصل وہ دیمک کی طرح ہمارے نظامِ انہضام کو چاٹ رہا ہے،کھانے میں نیچرل سے دوری اور مصنوعی جی ایم او فوڈ دراصل مختلف جسمانی،ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی جڑ ہے اس کا ادراک اور اس سے نجات ناگزیر ہے۔انسانی ذہنی اور جسمانی صحت کا تعلق در اصل انسان کے جسم میں پیداہونے والی تیزابیت سے ہے گویا انسان کا نارمل ہونا اس کے جسم سے خارج ہونے والی وہ تیزابی رطوبت ہے جس کی زیادتی مختلف ذہنی بیماریوں کو پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ نظامِ ہضم کو نہ صرف Intactرکھتی ہے بلکہ اس خوراک سے جو غذائیت ملتی ہے وہ ہماری ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی ایسی غذا جو ہمارے جسم کی تیزابی رطوبت کو بڑھائے،وہ مضر صحت ہوتی ہے ، یہ اضافی تیزاب ہمارے جسم کے ہر خلیے کو جھلسا دیتا ہے جس کے نتیجے میں عدم برداشت ،خوف، اور مایوسی وجود میں آتی ہے۔
عدم کتھارسس:
ماہرین کے مطابق کتھارسس ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، تطہیر اور تجدید حاصل کرتا ہے۔ ہر انسان اپنے ہی انداز میں کتھارسس کرتا ہے۔ کوئی شعر کہہ کر تو کوئی نثر لکھ کر، کوئی تصویر بنا کر تو کوئی مجسمہ تراش کر، کوئی غصہ میں چیختا چلاتا ہے تو کوئی آنکھوں سے نمکین پانی بہاتا ہے تو کوئی خود کلامی کرتا ہے۔ یہ انسان کے مزاج میں کتھارسس کا انداز ہوتا ہے یہ انسان پر ہے کہ وہ تلاش کرے کہ وہ کونسا کام یا طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ کتھارسس کر کے سکون حاصل کر سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں کتھارسس نہ ہو تو اس کو کائنات کی تمام رعنائیاں بھی بے رنگ لگنے لگیں۔ خوشیوں میں چھپے رنگوں میں مایوسی نظر آنے لگتی ہے۔ ایسے میں اگر انسان اپنے اندر پنپتے جذبات و احساسات کا اظہار کسی بھی صورت میں کر کے ذہن کو پر سکون کر لیتا ہے تو اس کو کائنات کی ہر شے میں خوشیوں کے رنگ دکھنے لگتے ہیں۔آپ شاہراہِ زندگی پر جتنا چاہیں تیزی سے سفر کرلیں،کامیابی کی منزلیں طے کرتے رہیں ،ہر میدان میں مردِ میدان قرار پائیں یا آپ کی زندگی طمانیت کی ٹھنڈ ی چھاؤں کے سائے میں گزر رہی ہو آپ کو ہمیشہ ایک انسان کی ضرورت رہے گی جس سے آپ بات کر نا چاہیں،اپنے دل کی سنانا چاہیں ،کچھ اپنی کہہ سکیں اور کچھ اس کی سن سکیں اور اگر آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو اور سننے والا کوئی نہ ہو تو عدم کتھارسس کی یہ صورتحال آپ کے اندر عدم برداشت اور مایوسی پیدا کرسکتی ہے۔لندن میں ایک پارک ہے جس کا نام ہائیڈ پارک ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں ایک جگہ مخصوص ہے جہاں کھڑے ہو کر آپ کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی یہاں تک کہ برطانوی پرائم منسٹر کو بھی برا بھلا کہہ سکتے ہیں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور نہ ہی روکے گا،ہائیڈ پارک فریقین کیلئے یکساں فائدہ مند ثابت ہوتاہے۔
زاویہ نگاہ Attitude :
عدم برداشت میں ایک اہم فیکٹر(Attitude)یعنی زاویہ نگاہ کاہے، Attitude دراصل کسی شے یا معاملے کو دیکھنے ،سوچنے یا محسوس کرنے کے مخصوص زاویے کا نام ہے،گویا یہ نگاہ کا ایک ایسا زاویہ ہے کہ معاملات کو آپ جس نگاہ سے دیکھنے ہیں وہ اصل حقیقت کے برعکس اسی طور نظر آتے ہیں، زاویہ نگاہ کی تبدیلی یعنی paradigm shiftسےرویےبدل جاتےہیں،اسی لیے کہتے ہیں کہ Attitude is every thing۔اشتعال دلانے والے بہت سے رویوں کے خلاف، رد عمل سے قبل اگر ہم اپنا زاویہ نگاہ درست کرلیں توہم مشتعل ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
عادت،معاشرتی روایت یا کلچر:
عادت،معاشرتی روایات یا کلچر ایک ایسے رویے کا نام ہے ،جس میں انسانی عقل و فہم کو کوئی علاقہ نہیں،یہ رویہ انسان کو آٹو موڈ پر رکھتا ہے،زندگی کے اچھے برے ان گنت ایسے معاملات ہیں جن پر ہم سب بلا سوچے سمجھے عمل کرتے ہیں،کچھ بری عادتیں ہیں جن کے ہم اسیر ہیں اور کچھ معاشرتی روایت اور سماجی کلچر ہے،جھوٹ بولنا،گالی دینا کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے،ٹریفک سنگل کی خلاف ورزی اور شادی کے کھانوں پر ٹوٹ پڑنا ہمارا کلچرہے ۔کہتے ہیں انسان اپنے ماحول کی پیدا وار ہوتا ہے ،ہم وہی سیکھتے ہیں جو دیکھتے ہیں اور بالآخرہم ویسے ہی بن جاتے ہیں۔
برداشت کیسے پیدا کریں:
ایک دوسرے کو برداشت کرنا،میانہ روی ،معاف کردینا ،عفو و درگرز،تحمل اوربردباری وہ بنیادی اینٹیں ہیں جن پر مہذب معاشرہ استوار ہوتا ہے،یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے گھروں اور معاشرے میں چین و سکون کا دور دورہ اور باہمی رواداری کو فروغ ملتا ہے،جن معاشروں میں ان خوبیوں کا فقدان ہوتا ہے وہاں مشتعل مزاجی،بات بات پر بگڑنا، جارحیت ،شدت پسندی،غصہ ،لاقانونیت،بے چینی،سراسیمگی اور نفرت و تشدد کی فضا ہموار ہوتی ہے جوفرد اور معاشرے کا امن و سکون تباہ وبرباد کردیتی ہے، معاشرے میں فروغ پذیر عدم برداشت کی جن بنیادی وجوہات کا ذکراوپر کیا گیا ہے بلاشبہ اس سے انکار نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدم برداشت کی داخلی وخارجی اسباب کے ساتھ ساتھ سب سے اہم وجہ تربیت کا فقدان اور قرآن وسنت کی تعلیمات بالخصوص اسوہ حسنہ ﷺ سے روگردانی ہے۔
آئیے دیکھیں کہ قرآن و سنت نے فرد اور معاشرے میں برداشت کو فروغ دینے کے لیے کیا احکامات دیئے ہیں،یہ وہ ہدایات ہیں جن پر ہم عمل پیرا ہو کر نہ صرف معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں بلکہ خود بھی اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں جو عدم برداشت کی وجہ سےلوہے کی بھٹی بنی ہوئی ہے اور ہم سب جس کی وجہ سے عدم برداشت کی آگ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ :
انہیں چاہیے کہ معاف کردیا کریں،انہیں چاہیے کہ درگزر کردیا کریں،کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کردے؟۔(القرآن)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :راست روی،خوش خلقی اور میانہ رویہ نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔(ابوداؤد)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اچھی خصلت،غور و خوص کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصو ںمیں سے ایک ہے۔(ترمذی)۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں دس سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اف تک نہیں کی اور نہ کبھی فرمایا کہ تونے ایسا کیوں کیا تونے ایسا کیوں نہیں کیا۔
برداشت سیکھنے کا آغاز کیجیے:
کوئی کتاب ،فلسفہ یا تعویذ برداشت نہیں پیدا کرسکتی، علم صرف سیکھنے سے آتا ہے اور برداشت بھی اپنانے سے آتی ہے۔اگر آپ زندگی میں جھوٹی جھوٹی باتوں پر اپنا موڈ خراب کر لیتے ہیں ،آپ کو بہت جلدی غصہ آجاتا ہے تو آج ہی سے چھوٹی جھوٹی باتوں کونظر انداز کرنا شروع کردیں ،برداشت کی عادت ڈالیں،جس قدر آپ کی برداشت بڑھتی جائے گی آپ کی زندگی میں سکون بڑھتا جائے گااور آپ خود کو ریلیکس محسوس کریں گے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: علم سیکھنے سے ہے اور حلم (بردباری) کوشش کرنے سے ہے، اور جو شخص خیر کی کوشش کرتا ہے اسے خیر دے دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے شر سے بچالیا جاتا ہے ۔(السلسلۃ الصحیحہ)
حلم اپنائیے:
حلم کی صفت ہی دراصل عفوودرگزر،تحمل،بردباری اور برداشت کی صفت پیدا کرتی ہے اور حلم نام ہے جلد بازی کوچھوڑنے،امور کی انجام دہی میں ٹھیراؤ،غور وفکرسےقدم اٹھانے،تدبرکرنے،ری ایکشن سے باز رہنے،شدید غصے،جوش،اشتعال اور بے جا جذبات میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنے،طاقت کے باوجود انتقام نہ لینے اورکسی کی غلطی پر صرفِ نظر کرتے ہوئے معاف کرنے کا۔امام ابن قیم کا قول ہے کہ :علم،حلم ،عفو اور قدرت ،جس میں یہ چار چیزیں جمع ہو جائیں تو کائنات میں اس سے خوبصورت کوئی چیز کوئی انسان نہیں دیکھے گا۔عبدالقیس قبیلہ کے لوگ نبی کریم ﷺ کی زیارت و ملاقات کے لئے مدینہ طیبہ آئے اور مسجد نبوی کے سامنے پہنچے ،تو نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر فرط شوق سے اپنے اونٹوں سے کود پڑے،اور دوڑتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے ،نبی کریم ﷺ نے ان کو اس بیقرار اور مضطرب حالت میں دیکھا تو سکوت فرمایا، ان سے کچھ نہیں کہا ۔لیکن یہ لوگ عظیم المرتبت شخصیت اور اپنے سردار یعنی (اشج) کی زیر قیادت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تھے،جن کا اصل نام (منذر )تھا ،ان کی کیفیت بالکل دوسری تھی، وہ پہلے اپنی قیام گاہ پر اترے وہاں انہوں نے اپنے تمام رفقاء کا سامان جمع کیا ،اور ساری چیزوں کو باندھ کر اطمینان کے ساتھ نہائے دھوئے، نہایت نفیس کپڑے زیب تن کئے، اور پھر انتہائی وقار و تمکنت کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد نبوی میں آئے، اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی دعا مانگی ،اور اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی خدمت حاضری دی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ وضع اور روش بہت پسند آئی اور ان سے فرمایا: تمہارے اندر جو دو خوبیاں ہیں ان کو اللہ بہت پسند کرتا ہے۔حلم و بردباری(الحلم) ،اور دوسرے توقف و آہستگی(الاناۃ) یعنی سوچ سمجھ کر کام کرنا ، جلد بازی نہ کرنا۔ (مسلم)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:تاخیر اور آہستگی ہر چیز میں(بہتر) ہے،سوائے آخرت کے عمل میں۔(ابوداؤد)۔
صبر کرناس
میانہ روی و اعتدال:
ہماری موجودہ طرز معاشرت نے زندگی کو مشین بنا کر رکھ دیا ہے، میانہ روی اور اعتدال کی وہ روش جس سے زندگی میں حسن پیدا ہوتا ہے مفقود ہوتی جارہی ہے، کوائلٹی آف لائف کی بجائے ہم نے اسٹینڈرڈ آف لائف کو اپنی زندگی کا مطمح نظر بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی مصروفیات کی بوجھ تلے دب گئی ہے ،اس مصروفیت نے طبعیت میں انقباض اور مزاج میں وحشت بھردی ہے،اسی کی وجہ سے چڑچڑا پن اور عدم برداشت کی کیفیت زور پکڑتی ہے۔اسلام نے تو عبادت تک جیسے معاملے میں اعتدال کا حکم دیا ہے:فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ تم وہی اعمال اپنےاوپر لازم کرو،جن کی تم میں طاقت ہو۔(بخاری)ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ :”صرف معیشتِ زندگی کےلیےجدوجہدکرنادنیانہیں ہے”۔
معذرت اور شکریے کی عادت:
اپنی غلطی پر Sorryکہہ کر معذرت کا اظہار کرنا اور کسی کے اچھے رویے پر اس کا شکریہ ادا کرنے سے نہ صرف معاشرہ خوشگوار ہوتا ہے بلکہ خود فرد بھی اپنے اندر فرحت و انسباط کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی(باتوں اور کاموں سے)بچوں جن سے بعد میں معذرت کرنی پڑے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔(ابو داؤد)
حسن ِ ظن:
اپنے بھائی سے متعلق بدگمان ہو کر ہم اپنا جتنا خون جلاتے ہیں اس کے برعکس اگر ہم حسنِ ظن کا رویہ اختیار کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہو کہ اس کی کتنی افادیت ہے،قرآن بدگمانی سے منع کرتا ہے اور بعض گمان کو گناہ قرار دیتا ہے۔خود اللہ رب العزت اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ :میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔(مسلم)۔امام ابن سیرین وار امام ابو جعفر رحھما اللہ سے منقول ہے ،فرماتے ہیں “جب تمہیں اپنے بھائی کی طرف سے ایسی بات پہنچے جو تمہیں اچھی نہ لگے تو اپنی طرف سے کوشش کرو ایک کم ستر69عذر تلاش کرو، ہو سکتا ہے یہ مجبوری آگئی ہو یا کوئی تو وجہ ہوگئی ہوگی جس کی وجہ سے معاملہ اچھے طریقہ سے طے نہیں پایا جا سکا اس کے بعد بھی اگر تمہیں کوئی عذر نہ ملے پھر بھی سوچو شاید اس کے پاس کوئی عذر ہو جس کو میں پہچان نہیں سکا(شعب الایمان للبیہقی)۔سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض صحابہ نے مجھے باقاعدہ لکھ کر نصیحت کی تھی کہ کسی بھی مسلمان بھائی سے کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو جب تک اس سے اچھا مطلب مراد لیا جا سکتا ہے بدگمان نہ ہونا ۔
غصےپر قابو پائیے:
کہتے ہیں غصہ حماقت سے شروع ہو کر ندامت پر ختم ہوتا ہے،اگر کوئی غصہ کرے اور اسے کہا جائے کہ آپ اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں تو اس کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے:”ہم غصہ تھوڑا ہی کرتے ہیں وہ تو ہمیں غصہ دلایا جاتا ہے” گویا ان کی ذات کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہے،اگر آپ غصے میں ہیں،آپے سے باہر ہورہے ہیں،برداشت سے باہر ہورہے ہیں،آپ کھڑے ہوئے ہیں تو فوراًبیٹھ جائیں،بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں،خاموش ہوجائیں،غصہ پھر بھی نہیں جارہا ،برداشت نہیں ہورہا تووضو کر لیں۔
اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں:
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ انسان ہونے کے ناطے غلطی آپ سے بھی ہو سکتی ہے،کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں بلکہ انسان تو ہے ہی خطاکا پتلا، ہمیں یہ الہامی ہدایت یاد رکھنی چاہیے کہ :”ہر انسان گناہ گار ہے لیکن ان میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کرلے”آپس کے معاملات میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا بڑے عزم و حوصلے کی بات ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضُع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اُس پر بلندی چاہتا ہے، اللہ پاک اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔
معاف کرناسیکھے:
معاف کرنےسےانسان اندرسے خود کو strengthen محسوس کرتاہے۔خوش رہنےکےاصولوں اہم اصول دوسروں کو معاف کرنابھی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر کرے اسے زیادہ ثواب ہوتا ہے اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر نہ کرے۔ (سنن ابن ماجہ(۔ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،عرض کرنے لگا میں اپنے غلام کو کتنی مرتبہ معاف کروں؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے،دوبارہ سوال کیا گیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے،تیسری بار استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:ایک دن میں ستر مرتبہ معاف کیا کرو۔(ابو داؤد ،جامع ترمذی)۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی۔ وہ ان کو گرم پانی سے وضوکرارہی تھی اچانک ایسا ہوا کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت حسن کے سر پر گر پڑا جس کی وجہ سے ان کا سر زخمی ہوگیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خشمگیں نگاہوں سے باندی کی طرف دیکھا تواس نے موقع محل کی نزاکت سمجھتے ہوئے آیت کریمہ کاایک ٹکڑا تلاوت کیا۔ والکاظمین الغیظ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اپناغصہ پی لیا، اس نے آگے کا ٹکڑا تلاوت کیا۔ والعافین عن الناس حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تجھ کو معاف بھی کردیا۔ اس نے آیت کریمہ کا آخری ٹکڑا تلاوت کیا کہ واللہ یحب المحسنین اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا جاؤ میں نے تم کوخدا کیلئے آزاد کردیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جس چیز میں نرمی آجائے وہ مزین اور خوبصورت بن جاتی ہے اور جس چیز سے نرمی ختم کردی جائے وہ معیوب اور بری بن جاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہوجائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے۔
ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کے لیے خود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ قدرت نے انسانی سوچ میں تنوع رکھا ہے یہاں مختلف الخیال و مزاج لوگ ہیں،ذہنی ہم آہنگی کسی طور ممکن نہیں یہ خواہش رکھنا کہ مخاطب آپ کاہم خیال بن جائے، آپ کی کسی بات سے اختلاف نہ کرے اور نہ ہی سامنے والا کوئی ایسا طرز عمل اختیار کرے جو آپ کی افتاد طبع کے خلاف ہو تو ایسا ممکن نہیں اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو انسان ہونے کے ناطے اس کی نفسیات کو سمجھا جائے اسے مارجن دیا جائے ،پرفیکشن تلاش نہ کیا جائے یاد رکھیے پرفیکشن تلاش کرنے والا تنہا رہ جاتا ہے جب کہ وہ خود بھی پر فیکٹ نہیں ہوتا کئی حوالے سے اس میں بھی خامیاں ہوتی ہیں۔ کسی کا قول ہے کہ:Always remember that life is 10% what happens to you and 90% how you react to it. ہم کسی بھی ردعمل یا معاملات میں بے سوچے سمجھے فوری رد عمل کے عادی ہیں ، ہمارا عمل عقل و شعور اور دینی واخلاقی فہم کے بجائے جذبات و احساسات اور نفس کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے ،عدم برداشت اور غصے کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی رد عمل کا آغاز یاہمارے رویے کی ابتدا ایموشن سے ہوتی ہے،ہمارے ایموشن ہمارے موڈ طے کرتے ہیں اور یہ موڈ ہماری پرشخصیت بناتے ہیں،ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہےمثلاً غصہ بھی ایک جذبہ ہے، یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا،یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا،ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی، ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور ان الہامی ہدایات کو اپنے ذہنوں میں راسخ رکھیںتو برداشت اور عدم برداشت سے جڑے بہت سے مسائل سے نجات پا سکتے ہیں۔
٭’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘(الحجرات)
٭’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے‘‘۔(مسلم)
٭’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘۔(مسلم)
٭’’اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لیے کرو‘‘۔(بخاری)
٭’’مخلوق خدا کا کنبہ ہے‘‘۔( شعب الایمان)
٭’’انسانوں سے محبت آدھی عقل ہے‘‘۔(شعب الایمان)
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا