خواتین کی ذہنی و جسمانی صحت

266

پریکٹس میں مصروف ایک ڈاکٹر کا بڑا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ روزانہ اس کے مشاہدے میں آتا ہے اُسے کہیں سامنے لایا جائے، اُس پر بات کی جائے۔ جن چیزوں کو درست کرنا ہے اُن کی نشان دہی کی جائے۔ وقت کی کمی اور مختلف مصروفیات میں یہ کام باوجود چاہنے کے آسان نہیں، پھر بھی صحت کے حوالے سے کچھ پہلوؤں کا جائزہ شاید ممکن ہوسکے۔
پاکستان میں تعلیم اور صحت وہ دو شعبے ہیں جو قومی بجٹ میں بہت کم حصہ رکھتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی نہ شہروں میں میسر ہے، نہ دیہات میں۔ مناسب اور صحت مند غذا آبادی کی بڑی تعداد کے لیے خواب ہے۔ صفائی ستھرائی کا فقدان ہے۔ کسی بھی آبادی کو صحت مند رکھنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کے عوام کی اکثریت ان سب سے محروم ہے، یا بہت مشکل سے انہیں حاصل کرپاتی ہے۔ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کی زیادہ آبادی گائوٖں، دیہات میں رہتی ہے جہاں صحت کی سہولتیں بہ مشکل میسر ہوپاتی ہیں۔ اسپتال دور دور ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں مریض یا مریضہ کو اسپتال پہنچانا انتہائی مشکل کام ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے یا پہاڑی علاقوں کے دشوار گزار راستوں میں یہ کام بعض اوقات اتنا مشکل ہوجاتا ہے کہ مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے، یا بیماری مزید بگڑ جاتی ہے۔ حکومت کے بجٹ میں صحت کے لیے بہت قلیل رقم ہے جس کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
یوں تو صحت کے مسائل مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہیں، لیکن عورتوں کے معاملے میں یہ زیادہ تکلیف دہ شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ عورتوں کی صحت کا ایک اہم مسئلہ حمل اور بچے کی پیدائش کا مرحلہ ہے۔ شہروں میں پھر بھی سرکاری اور غیر سرکاری، دونوں طرح کے اسپتال موجود ہوتے ہیں، لیکن دور دراز کے علاقوں میں کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں عورتیں اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اس کے ساتھ خون کی کمی اور بلڈ پریشر میں اضافے کی صورت میں مستند معالج پاکستان کے دیہی علاقوں میں نہیں ہوتا۔
سرکاری سطح پر مسائل اور مشکلات اپنی جگہ، خواتین کی صحت کے بڑے مسائل ان کی تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے بھی ہیں، اس کے ساتھ طرزِ زندگی میں تبدیلی اور جدید طرزِ زندگی بھی صحت کی خرابی کی بڑی وجہ ہیں۔
بیماری، صحت اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے بارے میں کسی بھی سطح پر معلومات اور احتیاطی تدابیر بتانے کا انتظام نہیں۔ نہ میڈیا صحت کے بارے میں تفصیلی طور پر بتاتا ہے، نہ ہی خواتین کے رسائل میں جسمانی اور ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی معلومات دی جاتی ہیں۔
صاف پانی، پانی اُبال کر پینا، برتنوں اور گھر کی صفائی کس طرح بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے یہ کہیں پر سکھایا نہیں جاتا۔
کچھ بیماریاں مردوں اور عورتوں میں یکساں ہیں مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، جراثیم سے ہونے والی بیماریاں اور کینسر۔ ایشیا میں عورتوں میں سینے کے کینسر، بچہ دانی اور بیضہ دانی کے کینسر میں بھی افسوس ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ امید کا پہلو یہ ہے کہ یہ سارے کینسر اپنے ابتدائی مرحلے میں قابلِ علاج ہیں، اور بروقت صحیح علاج کے ذریعے مکمل شفا ممکن ہے۔
کسی بھی خاتون ڈاکٹر کے لیے پریشان کن اور تکلیف دہ مرحلہ وہ بھی ہوتا ہے جہاں خواتین طرح طرح کی ذہنی بیماریوں یا ذہنی مسائل کے ساتھ آتی ہیں۔ او پی ڈی میں ایک بڑی تعداد اُن خواتین کی ہوتی ہے جنہیں بیماری کی تعریف پر پورا اترنے والی کوئی حقیقی بیماری نہیں ہوتی لیکن وہ اس ہجوم کا حصہ ہوتی پیں۔
جسم میں درد، نیند نہ آنا، گھبراہٹ، معدہ کی تکلیف، کمزوری، چکر… یہ عمومی شکایتیں بیشتر عورتیں بیان کررہی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے تلخ رویّے کی ایک وجہ کبھی کبھی یہ مستقل مریض خواتین بھی ہوتی ہیں جو روز ایک نئی تکلیف کے ساتھ دوا لینے آجاتی ہیں۔
بیماریوں میں اضافے کی ایک وجہ کھانے پینے کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی ہے۔ باہر کا کھانا بہت عام ہوا، جو مہنگا بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔ اسی طرح دیر تک جاگنا اور دن چڑھے تک سونا بھی عورتوں کا معمول ہوگیا ہے، جو عورتوں کے ہارمون سسٹم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، اور بڑھتے ہوئے مٹاپے اور بے اولادی کی بھی ایک وجہ ہے۔ خودساختہ اسٹریس، تعلقات اور معاملات کی خرابیاں بھی عورتوں کے ذہنی مسائل کا بڑا سبب ہیں۔
سب سے غور طلب اور فکر کرنے کا مقام نوعمر اور ٹین ایج بچیوں کی صحت ہے۔ پرانے وقتوں میں اس عمر کی بچیوں کے بہت سے گھریلو مشغلے ہوتے تھے۔ کڑھائی، بُنائی، کپڑے سینا، کھانے پکانا، گھر صاف ستھرا رکھنا… یہ سب لڑکیوں کے کام تھے جو انہیں مصروف بھی رکھتے تھے اور لڑکیاں خوش بھی رہتی تھیں۔ اِس وقت ٹین ایج بچی خواہ مدرسے میں پڑھ رہی ہو، کالج میں یا گھر پر بیٹھی ہو اُس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں، کوئی مصروفیت نہیں، خوش رہنے کا کوئی پہلو نہیں۔ بچیاں نہ کھانا ڈھنگ سے کھاتی ہیں، نہ گھریلو روزمرہ کا کام کرتی ہیں۔ کمزور اور نڈھال بچیاں جب دوا کے لیے آکر بیٹھتی ہیں تو اکثر صبح کے گیارہ بجے تک بغیر ناشتے کے ہوتی ہیں۔ حیا اور پاک دامنی کے خلاف ماحول، ڈرامے اور شادیاں لڑکیوں کی ذہنی و جسمانی صحت بھی برباد کررہے ہیں۔ ہر لڑکی کو کسی بھی طریقے سے خوب صورت بننا ہے، ہر طرح کی غلط صحیح مصنوعات استعمال کرنی ہیں خواہ وہ کتنی ہی نقصان دہ کیوں نہ ہوں۔
ایک بات جو معاشرے کی اصلاح کا کام کرنے والوں کے لیے غور طلب ہے وہ ذہنی بیماریاں ہیں، جن کی تشخیص اور مستند ذہنی معالج سے علاج بہت ضروری ہے۔ مثلاً ڈپریشن، خودکشی کی خواہش، بہت زیادہ بے چینی، راتوں کو بلاوجہ جاگنا۔
بچیوں کی جسمانی صحت بہتر بنانا بھی ضروری ہے، ان کے لیے پاکیزہ اور صاف ستھرا گھریلو ماحول بھی اہم ہے۔ بروقت فطرت کے تقاضوں کی جائز تسکین اور نارمل زندگی گزارنا عورت کی صحت کے لیے ناگزیر اور بہت سے مسائل کا حل ہوسکتا ہے۔

حصہ