قدرت کا کارخانہ اپنے ہی انداز سے چلتا ہے۔ انسان پر اس کی برداشت کے موافق بوجھ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ تحفہ ہی تو ہے۔ دشوار گزار مراحل سے کندن بنانے کے عمل میں قدرت ہی کارفرما نظر آتی ہے۔ حیا فیصل کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے جنہوں نے مسائل کو نہ صرف مواقع میں تبدیل کیا بلکہ اسے سودمند بھی بنایا۔
حیا فیصل کا تعلق کراچی کے متوسط خاندان سے ہے۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے پک اینڈ ڈراپ سروس سے منسلک رہی ہیں۔ شوہر کے اچانک غائب ہوجانے اور بے وفائی کے بعد انہوں نے بچوں کی پرورش کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ ذاتی زندگی کے اتار چڑھائو کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’’ازدواجی زندگی کے کئی برس عام زندگی کے برعکس نہ تھے۔ وقت پَر لگا کر اُڑ رہا تھا کہ اچانک حالات اُس وقت تبدیل ہوئے جب شوہر بے روزگار ہوئے، اور روزگار کی تلاش میں یکایک لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ میرے لیے بھی غیر متوقع اور اچانک تھا۔ مگر شوہر کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی کہ اچھے دن لوٹیں گے۔ اس امید کے ساتھ میں نے انہیں دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔
اپنے پیاروں کو الوداع کہنا ہمیشہ ہی اداس کرتا ہے، لیکن یہ دوری اگر زندگی بھر کی جدائی کا پیش خیمہ ہو تو زیادہ تکلیف دہ امر بن جاتی ہے۔
لاہور پہنچ کر وہ کئی ماہ لاتعلق رہے، پھر ایک روز ان کی دوسری شادی کی روح فرسا خبر ملی۔ وہ لمحہ میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ پھر انہوں نے پلٹ کر نہ کوئی رابطہ رکھا، نہ تعلق۔‘‘
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد انہوں نے پھر کہنا شروع کیا ’’بلاشبہ وہ مشکل ترین لمحات تھے۔ چار بچوں کی بھاری ذمہ داری کاندھوں پر آپڑی تھی۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جب انسان ہمت و ارادہ باندھ لے تو رستے بھی سُجھائی دیتے ہیں۔ حیا فیصل کی شادی چونکہ کم عمری میں ہی کردی گئی تھی، خانہ داری میں کبھی تعلیم یا ہنر سیکھنے کی طرف دھیان نہ گیا، نہ ضرورت پڑی۔ گیا وقت کوئی واپس نہیں لاسکتا، اس سوچ کے تحت انہوں نے خود کو مضبوط کیا اور ہمت نہ ہاری۔ بچوں کی کفالت کے لیے جو بن پایا، کرتی رہیں۔ مختلف کام کرنے کی کوشش کی مگر آمدنی ناکافی تھی۔ بچے بھی متاثر ہونے لگے تھے، جو کہ کسی صورت قابلِ قبول بات نہ تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ جب خدا مشکل میں ڈالتا ہے تو مددگار بھی ملا دیتا ہے۔ اس کی عملی تصویر حیا فیصل کی زندگی میں بھی نظر آئی، جب اُن کے کٹھن حالات کو دیکھتے ہوئے عزیز و اقارب آگے بڑھے اور انہیں گاڑی خرید کر دی۔ وہ لمحہ ان کے لیے اندھیرے میں چراغ کی مانند تھا۔ انہوں نے وقت کا ضیاع نہ کیا اور گاڑی کرائے پر دینے کا فیصلہ کیا۔
’’معاشی مشکلات کم ہونے کے باوجود آپ نے خود گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیوں کیا؟‘‘
اس سوال کا کڑوا جواب ان کے تلخ تجربے کی عکاسی کررہا تھا‘ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں تنہا عورت شاید بے بس سمجھی جاتی ہے۔ اس شعبے میں بھی اس کو دھوکے ہی ملتے ہیں۔ جب تک کرائے پر گاڑی رہی منافع کے بجائے نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ مگر سخت حالات انہیں گرانے کے بجائے مزید توانا و مضبوط کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے خودمختار ہونے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی عرصے میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیا۔ پختہ حوصلہ لیے قلیل مدت میں پک اینڈ ڈراپ سروس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ سروس خواتین کے لیے مختص ہے۔ ان کی مستقل مزاجی و بلند ہمتی کی بدولت یہ کام کامیاب ذریعہ آمدن میں بدل چکا ہے۔
حیا فیصل نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آن لائن جیولری، میک اَپ اور کپڑے فروخت کرنے کا کاروبار بھی چلا رہی ہیں۔
دن بھر کی مصروفیات کے بارے میں کہتی ہیں کہ بچے اور گھر پہلی ترجیح ہیں۔ کورونا کی وبا سے قبل بچوں کو اسکول چھوڑ کر کام کے لیے نکل جاتی، بچوں کے ساتھ ہی واپسی ہوتی۔ اسکولوں کی بندش کے باعث گھر والوں کی جانب سے خاصا تعاون ملا۔ یہ بتاتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تھکن کے آثار کہیں موجود نہ تھے۔ معاشرے کے لیے بظاہر کمزور و بے سہارا عورت بزنس وومن کا روپ لیے اس شعر کی عکاسی کر رہی تھی:
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے