دادی جان جونہی عشاء کی نماز سے فارغ ہوئیں تینوں پوتے مغیث، منیر اور مبین ان کے پاس آئے اور کہا کہ دادی جان کوئی کہانی سنائیں مگر وہ دیو، جنوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں یہ تو آپ نے بہت سنالیں آج آپ بالکل نئی کہانی، مزیدار کہانی سنائیں…
دادی جان بولیں اچھا تو آج بالکل نئی اور معلوماتی کہانی سناتی ہوں بچوں اللہ پاک نے ہمیں لاکھوں نعمتوں سے نوازا ہے جن کی طرف ہم توجہ اور غور و فکر نہیں کرتے مثلاً سمندر، پہاڑ، ہوا، پانی وغیرہ وغیرہ… مبین بولا کہ یہ وغیرہ وغیرہ کیا ہوتا ہے دادی جان نے کہا اس کا مطلب ہے کہ ان نعمتوں کے علاوہ بہت ساری نعمتیں ہیں جن کے نام ہم نہیں لے سکتے کیونکہ وہ بہت زیادہ ہیں… ہاں تو بچو! قرآن بھی ہیں غور و فکر اور تدبیر کی دعوت دیتا ہے تو آج میں تمہیں ’’ہوا‘‘ کی کہانی سناتی ہوں۔
اللہ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک نعمت ہوا ہے انسانی زندگی کا انحصار اسی ہوا پر ہے۔ یہ ہوا نہ ہوتی تو ہم سب کیسے سانس لیتے اس ہوا کی خصوصیت سرد، گرم اور معتدل ہونے پر ہے۔ مبین کیونکہ6 سال کا تھا تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ معتدل کا مطلب کیا ہے فوراً دادی جان سے پوچھا یہ معتدل کیا ہے؟
دادی جان نے کہا معتدل کا مطلب نہ سرد نہ گرم۔ بہت اچھی ہوا ہےاور اسی ہوا کے ذریعے اللہ نے سارے موسم بنا دیے۔ سردی آگئی راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہو گئے تو بھئی ابھی دادی آگے سنا نہ پائیں کہ منیر بولا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ دادی نے کہا اس میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ میرا بندہ رات دیر تک آرام کرے اور لحاف، کمبل کا مزہ لے۔ اور دن کی محنت میں کم وقت رکھ دیا۔ اور پھر سویٹر کوٹ پہنے لگے لوگ…
یہ ہوا ہمارے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ موسموں کے لحاظ سے کام کے اوقات مقرر ہوتے ہیں۔ لباس تبدیل ہو جاتے ہیں کھانے بھی مختلف قسم کے بنتے ہیں یہ سب اللہ کی رحمت ہے۔ گرم ہوا انسان کو لگ جاتی ہے جسے ’’لو‘‘ لگنا کہتے ہیں وہ بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی ’’حبس‘‘ ہو جاتا ہے۔ یہ حبس کیا ہوتا ہے مغیث نے پوچھا۔ دادی جان نے کہا بس تم ہی رہ گئے تھے سوال کرنے سے… بھئی حبس میں ہوا تو چل رہی ہوتی ہے مگر گرمی کی شدت زیادہ ہوجاتی ہے۔ مغیث بولا تو لو اور حبس میں ہوا نہیں چلتی کیا؟ ارے بھئی تمہیں ابھی تو بتایا کہ ہوا رک ہی نہیں سکتی مگر گرمی کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ یوں لگتا ہے ہوا بند ہو گئی۔ سوچو ذرا اگر ہوا بند ہو جائے تو ہم لوگ سانس کیسے لیں گے۔ اور بچوں تمہیں بتائوں جب ہوا کا طوفان آتا ہے تو آندھی سے ماحول اندھیرا سا ہو جاتا ہے درخت اکھڑ جاتے ہیں کوڑا اڑ رہا ہوتا ہے۔ فضا میں جراثیم ہو جاتے ہیں پھر اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہوا کے اس طوفان کو روک دے… کیونکہ غریبوں کی جھونپڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں…
بچو! اب میں تمہیں قرآن کی ایک مثال سناتی ہوں۔ سورہ بقرہ میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تم بوڑھے ہو اور تیز ہوا تمہارے کھیتوں اور فصلوں کوتباہ کر دے اور تمہارے بچے بھی چھوٹے ہوں تو تم کیا کر لو گے۔
تینوں بچوں کی نظریں دادی جان پر تھیں کہ یہ مثال کیا ہے تو دادی نے کہا کو جو ان لوگ تو دوبارہ محنت کر کے اپنا کھیت دوبارہ بنا لیں گے نا… مگر بوڑھا انسان یہ نہیں کر سکتا تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا… اسی لیے اس نعمت کا اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ شکر ہے تو نے ہمیں بڑی نعمت سے نواز دیا…
بچے بڑے غور سے کہانی سنتے رہے اور سوچتے رہے کہ اللہ نے ہمیں اتنی بڑی نعمت دی ہے اور ہم نے کبھی اس کے بارے میں سوچا نہیں۔ منیر بولا ہم نے کبھی اس کا شکر ادا نہیں کیا اللہ میاں ہم سے ناراض تو نہیں ہوں گےکہ ہم فائدہ تو اٹھاتے رہے اس سے مگر شکر تو ادا ہی نہیں کیا کبھی۔
دادی جان نے کہا پیارے بچو!’’قرآن میں سورہ رحمٰن‘‘ میں فرماتا ہے کہ ’’تم میری کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ تو ہمیشہ ہمیں یہ دعا کرنا چاہیے کہ ’’اے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں ہر چھوٹی بڑی نعمت کا… ظاہر باطن نعمتیں جو ہیں ان کا بھی شکر کرتا ہوں اور تم کو ہرگز یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اللہ تم لوگوں سے ناراض ہو گا بھئی میں نے ہی تمہیں کبھی ایسی کہانی نہیں سنائی تھی چلو شاباش اب تینوں جائوں بستروں پر اور ہوا پر غور کرنا میرے بھی سونے کا ٹائم ہو رہا ہے۔ جب تم غور کرکے خود اس کا شکر ادا کرو گے تو ان شاء اللہ اللہ تم سے خوش ہو گا راضی ہو جائے گا۔