بنا ملت کی پکار اور ملی غیرت کا جنازہ

502

انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے غیرت و حمیت ایک ایسا انسانی جوہر ہے جس سے کسی فرد اور اس کے خاندان کی عزت و آبرو ،جان و مال، تہذیب و ثقافت، دین و ایمان اور اس کی آزادی کی حفاظت و سلامتی مشروط ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو آدمی دشمن کے لیے اک چراگاہ بن جاتا ہے۔ اس غیرت و حمیت کا دار و مدار بے خوف ہوکر نفع و نقصان سے بے نیاز ہو جانا ہے۔ دراصل یہ بات مشاہدے اور تاریخی اعتبار سے بھی تسلیم شدہ ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے ڈٹ جانے والے ہی سرخرو ہوتے ہیں۔ غیرت کا تعلق جس چیز سے زیادہ ہے وہ چادر اور چہار دیواری ہے۔ دوسرے نمبر پر ایمان، اسلام اور ناموس رسالت صلی علیہ وسلم۔ تیسرے نمبر پر ملکی سلامتی ہے۔ میرے مضمون کا عنوان بناتِ ملت کی پکار اور ملی غیرت کا جنازہ ہے۔ لہٰذا میں اس کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے ہی روشنی ڈالوں گا۔ اس قدیم اور جدید دور کی مثالیں ہوں گی اور ملی اعتبار سے امہ کی بے حسی اور غیرت کی بدبودار فضا میں بناتِ ملت کی درد بھری چیخیں جو اب نالہ زخمی بلبل کی صورت اختیار کر چکی ہیں ۔
دورِ جاہلیت میں یوں تو عورت بے وقعت تھی مگر قبائل عرب میں ناجائز اولاد کو معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ بھی غیرت کی علامت تھی۔
اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم کی بعثت کے بعد عورت کو جو مقام حاصل ہوا دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں آج بھی وہ مقام حاصل نہیں۔ حقوق نسواں کے علم برداروں نے عورت کو تو جنس بازار بنا دیا ہے۔ آپؐ کا زمانہ عورت کی عظمت اور تکریم کے عروج کا زمانہ تھا اور آج بھی مسلم سماج اس کا امین ہے ۔
مدینہ کی اک شب جب ایک یہودی نے صحابیہ کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی تو ایک صحابی نے اس یہودی کو قتل کر دیا- جب دربار رسالتؐ میں یہ بات پہنچی تو آپؐ نے اس صحابی پر کوئی حد جاری نہیں کی۔ روم کے بازار میں ائک عیسائ نے مسلمان خاتون کو تھپڑ مارا اور اس بہن نے یہ فریاد کی کہ آج کوئی میرا مسلمان بھائ ہوتا تو تجھے یہ جرات نہ ہوتی۔ خلیفہ ولید کے دربار میں یہ خبر پہنچی تو اس نے روم پر چڑھائی کی اور بدلہ لیا۔ کون نہیں جانتا کہ داہر کے جیل سے بہن کی پکار پر محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوا۔ یہ بات بھی تاریخ کے اوراق کی زینت ہے کہ اسپین پر حملہ وہاں کے لارڈ پادری کے اس خط کے بعد ہوا جب اس نے بادشاہ کے ہاتھوں اپنی بیٹی کی عزت پامال ہو جانے کے بعد بغداد کے خلیفہ کو خط لکھ کر پکارا۔
تاریخ کی اک سیاہ داستان جو آج کے بے حس ملتِ اسلامیہ کے لیے یہ ہے کہ جب ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو خلیفہ کے محل میں بغداد کے وزیروں اورشرفا کی بیٹیوں اور بہنوں کو اکٹھا کیا اور انہیں برہنہ کرکے رقص کرنے کو کہا اور شراب نوشی کرتا رہا- نشے میں دھت جب سو گیا تو کچھ لڑکیاں رقص کرتے کرتے بے ہوش ہوگئیں اور کچھ ناچتی رہیں- جب بیدار ہوا تو رقص کرتی لڑکیوں سے پوچھا میں تو سو گیا تھا اور تلوار پڑی ہوئی تھی تم لوگوں نے مجھے قتل کیوں نہ کر دیا، لڑکیاں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئیں ہلاکو نے سپاہیوں کو بلا کر حکم دیا کہ ان سب کو قتل کردو، ان کی کوکھ سے جو بچہ بھی پیدا ہوگا وہ بزدل اور بے غیرت ہو گا۔ آج پوری دنیا میں مسلمان بے شرم اور بے حس حکمرانوں کی وجہ سے چہار سو بنات ملت بے آبرو ہو رہی ہے اور فریادی ہیں۔
مغلوں کے دربار میں ہندووں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اس لیے بھیجا کہ وہ مراعات اور عہدے حاصل کر سکیں جودھا بائ اکبر کی سب سے چہیتی بیوی تھی یہ کام یہودی اور عیسائی بھی کرتے ہیں- اردن کی ملکہ، انور سادات اور یاسر عرفات کی بیویاں یہودن تھیں مگر مسلمان ان کو اپنی غیرت کے منافی سمجھتے ہیں۔ بیٹی اور بہن تو خاندان کی عزت و آبرو کی شان ہیں۔ کہا گیا ہے کہ عورت اور دولت اسی وقت محفوظ رہ سکتی ہیں جب تک اس کو چھپا کر رکھا جائے ۔
مگر آج کا مسلمان اس جوہر غیرت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کے مملکت خداداد کے اک جرنیل حکمران پرویز مشرف نے امریکی طاغوت کی خوشنودی کے لیے عافیہ صدیقی کو ان کے حوالے کیا جو آج بھی امریکا کی جیل میں مسلمانان پاکستان کی بے غیرتی پر ماتم کناں ہے۔ اب حد تو یہ ہو گئ ہے کہ اعلیٰ سطح کے حکومتی اہلکار اور سیاست دان دولت کی ہوس میں نوکری کی لالچ دے کر بیٹیوں کو بردہ فروشوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں اور یہ کام منظم پیمانے پر مسلم دنیا میں ہو رہا ہے۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جس شام اور عراق سے مجاہدین کے قافلے نکل کر یورپ کو فتح کیا کرتے تھے آج اسی عراق اور شام میں تباہی کے بعد خستہ حال لوٹے پٹے قافلے مہاجرین کی صورت یورپ میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور اخباری رپورٹ کے مطابق وہاں بہنوں اور بیٹیوں کو بیچا جاتا ہے ۔
احساس مرتا ہے تو ضمیر بھی مر جاتا ہے
یہ وہ موت ہے جس کی خبر نہیں ہوتی
بات کو طول دینے کے بجائے بہنوں اور بیٹیوں کی کچھ پکار جو آہ و بقا کی چیخوں میں تبدیل ہو چکی ہیں سنا دوں کہ شاید کوئی قاسم کی یلغار بن کر آجائے یا کوئی جرنیل حجاج بن یوسف کی طرح فوج کشی کر ڈالے۔ کوئی طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر یلغار کرے۔
یہ ملت کے ہر فرد کو پکار رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں مسلمان بہنوں، بیٹیوں ماوں اور سہاگنوں کی آہ و بقا کی وحشت ناک چیخوں کی بات کروں تاریخی حوالوں سے روشنی ڈالوں گا کہ کس طرح عورت کی عزت و آبرو کے لیے بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں ۔
انگلینڈ نے ہلین آف ٹرائے کےلیے اک خوف ناک جنگ لڑی جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ کورو اور پانڈو کی جنگ اس وقت شروع ہوئ جب کورو نے بھرے مجمع میں دروپدی کو ننگا کرنا چاہا اور کروچھتر کی جنگ شروع ہوئ جس میں ہندووں کے بھگوان کرشن نے پانڈو کا ساتھ دیا اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ ہند کی سر زمین پر ہندو کے دل ودماغ کا راسخ عقیدہ رام اور راون کی لڑائی ہے۔ راون نے رام کی بیوی سیتا کو اغوا کیا اور رام نے لنکا پر حملہ کر کے سونے کی لنکا جلا ڈالی ۔
آئیے ذرا ملت کی بیٹیوں کی پکار سنیں۔
میں ملت اسلامیہ کی بیٹی ہوں، میں فاطمہ کی آن ہوں، میں زینب کی چادر ہوں، میں مریم کا تقدس ہوں پھر بھی شرق تا غرب، شمال تا جنوب پامال ہوں، میں اک پکار ہوں، میں اک چیخ ہوں کیا کوئی ہے جو میری آہوں اور سسکیوں کے آنسوؤں میں اپنا جون جگر شامل کر سکے؟ میرے بہتے ہوئے خون کے قلزم میں اپنی بے حسی کی میلی چادر کو صاف کرے؟ میں سربیائ درندوں کے غول میں پھنسی ہوئی بوسینیا کی مسلمان بیٹی ہوں، میں دریائے نیلم میں بہتی ناموس مسلم کا لاشہ ہوں، میں چنار کی بیٹی تمہارے شہ رگ سے بہتے ہوئے لہو کی دھار ہوں، میں قبلہ اول کے صحن میں بے ردا بہن ہوں، میں لبنان کے ملبے میں دبی صیہونی درندگی کی علامت ہوں، میرٹھ سے لے کر گجرات تک برہمن سامراج کے دیوتا پر بلیدان کی گئ تمہاری بہن، بیٹی اور ماں ہوں، میں جامعہ حفصہ کی خاک ہوں جو لادین ہوس پرست اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں کی درندگی کا شکار ہوں اور قیامت کی منتظر ہوں تاکہ تم سب سے اپنے خون ناحق کا بدلہ لے سکوں۔ میں عافیہ ہوں جس کی چیخوں نے بگرام کے در و دیوار کو ہلا دیا مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ میں 1946 اور 47 میں پٹنہ کے اندھے کنویں میں ہندو بلوائیوں سے عزت بچانے کے لیے کود جانے والی تمہاری بیٹی ہوں، لال قلعے کے برجوں سے برہنہ اچھالی جانے والی بہن ہوں، میں مشرقی پنجاب کے سکھ اور ہندووں کے گھروں میں مقید رضیہ ہوں جسے رنجیتا بنا کر رکھا گیا ہے، میں منتظر ہوں کہ میرے مسلمان بھائ مجھے آزاد کرانے آئیں گے اور میں ایمان کے ساتھ مروں گی، لیکن تم تو ان کے گردوارے بنا رہے ہو۔
میں صلاح ایوبی اور محمد بن قاسم کی منتظر تھی مگر اب تمہاری بے حسی کی علامت ہوں۔ میں مسجد صغرا قبلہ اول کے صحن میں پڑی ہوئ بے غیرت مسلمان حکمرانوں کی روندی ہوئ دستار ہوں۔ میں شیشان کی بہن ہوں تمہاری بچی ہوئ غیرت کی محافظ، احمد آباد سے میرٹھ تک سوختہ لاشوں کی چتا ہوں مگر پھر بھی زندہ ہوں کیوں کہ مجھے ماتم کرنا ہے تمہاری بے غیرتی کا، تمہارے ائرکنڈیشن جہاد کا، تمہاری اتحادی مروج سیاسی جمہوری انقلاب کا، تمہاری بزدلی اور ہوس اقتدار کا کیوں کہ تم نے سودا گروں کی طرح ناموسِ مسلم کا سودا کیا ہے۔ اپنی تلواروں میں گھنگرو باندھ لیے ہیں۔ تقریر کی لوریوں، قرارداد کے پوتڑوں اور احتجاج کے جھنجھنوں سے بھیڑیوں کو بھگا کر انقلاب لانا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی دستار کو طاغوت کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ میں زندہ رہوں گی تمہاری غیرت کو للکارنے کے لیے۔ میں نے جینے کا ڈھنگ بدل دیا ہے۔ اب میرے ہاتھوں میں کنگن کی جگہ بارود کے کڑے ہیں۔ گلے میں گولیوں کی مالا ہے۔ پیروں میں پازیب کی جگہ ٹائمر پہن لیا ہے۔ میں زندہ رہوں گی طرابلس کی فاطمہ بن کر، الجزائر کی بو جمیلہ بن کر، فلسطین کی وفا ادریس کی شہادت بن کر کیوں کہ حرمتِ مسلم کو میرا لہو درکار ہے۔ عظمت نسواں پر مر مٹنا میرا فرض ہے۔ میں خولہ بنت ازور کی سنت ادا کروں گی۔ میں لٹنے کے بجائے کٹ مروں گی، کیوں کہ :
بیچ کر تلوار خرید لیے مصلہ تو نے
بیٹیاں لٹتی رہیں تم دعا کرتے رہے
میں امام شامل کی بیٹی ہوں، افغانستان کی صدائے بازگشت ہوں، زرقاوکی بہن ہوں، فلپائن اور ایٹیریا کی نعرہ تکبیر ہوں میں حزب اللہ کا کٹوشہ ہوں، میں دشت لیلیٰ میں رقص بسمل کرتے افغان مجاہدین کی بہن ہوں۔ میں حماس کی ابابیل بمبار ہوں، القاعدہ کا خوف ہوں کشمیر کاشعلہ چنار ہوں۔
مصلحت کوش میری فطرت پاکیزہ نہ تھی
قولِ انشاء کو کبھی حکم الٰہی نہ کہا
گر یہی میری خطا ہے تو خطا کار ہوں میں
میں نے شمشیر فروشوں کو سپاہی نہ کہا
دیکھو میرے بھائ ، باپ! اک بہن اور بیٹی آخری بات کرنے جا رہی ہے جو اُسے نہیں کرنی چاہیے، مگر اس لیے کر رہی ہوں کہ شاید تجھے غیرت آجائے۔ بازار حسن کا مونچھ والا پہلوان بھی اتنی غیرت والا ہوتا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے کوٹھے پر کوئی چڑھ نہیں سکتا مگر تو کیسا غیرت مند ہے کہ ہندو،عیسائ، یہودی جب چاہتے ہیں بے دام تیری سرحدوں کے ساتھ ساتھ تیری عزتوں کا نیلام گھر بنا دیتے ہیں ؟ تو کیسا سیاہ دل ہے کہ ایٹم بم، میزائل رکھنے کے بعد بھی حرکت نہیں کرتا۔ میزائل کا نام غوری رکھتے ہو اور پتھورا کی اولادوں سے امن کی بھیک مانگتے ہو، غزنوی میزائل کے علم برداروں سوم ناتھ کے پجاریوں سے ڈرتے ہو ۔ٹینک کا نام خالد وضرار رکھتے ہو مگر تلواروں میں گھنگھرو باندھ لیتے ہو۔ ہاں یاد آیا تم نے تو راجا رنجیت سنگھ کو ہیرو آف پنجاب کا خطاب دے کر اس کے پوٹریٹ کو لاہور کے شاہی قلعہ میں سجا رکھا ہے جو 40 سال تک سونی پت سے لے کر پشاور تک تمہاری عزتوں کا جمعہ بازار لگاتا رہا۔ جس نے 3 دن تک لاہور فتح کرنے کے بعد شاہی مسجد میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کو تار تار کرتا رہا۔ تم سے کیا امید؟ کیا ہو گیا ہے منبر و محراب کے علم برداروں کو اسلامی انقلاب کا میلہ لگانے والوں کو۔ اب نیلی چھتری والے کا واسطہ دے کر گلی گلی پکاروں گی۔
صدا دے رہی ہے چناروں کی بیٹی
حسیں وادیوں اور کہساروں کی بیٹی
کہاں، کہاں ابن قاسم کہاں ہے
میری آرزو شہادت ہے تاکہ ناموس بچ جائے
چراغ زندگی ہو گی فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گی
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے
اب حشر میں ملوں گی ۔

حصہ