مثبت رویے اور خوش اخلاقی دوسروں کے دلوں میں آپ کی محبت پیدا کرسکتے ہیں

774

ماجد: سیرت تم پندرہ سولہ دن سے اپنی امی کی طرف بھی نہیں گئیں جانا چاہو تو…
سیرت: نہیں! مناسب نہیں لگ رہا ہے ابو (سسر) کی طبیعت اتنی خراب ہے سب گھر والے پریشان ہیں کوئی بات نہیں میں امی سے تو فون پر بات کر لیتی ہوں۔
سیرت: جمعہ کوسعداللہ کی فلائیٹ ہے پورے ایک سال کے بعد آرہے ہیں دونوں میاں بیوی… اس کو رونا کی وجہ سے… اب بھی اسپیشل فلائیٹ چلی ہے… ورنہ تو نہ جانے کب آتے؟
سیرت: نہیں امی… بھائی اور بھابھی سے ملنے آگئی ہوں زیادہ دیر نہیں بیٹھو گی…
امی: اچھی بات ہے بیٹا وہ آپ کا خاندان ہے آپ ان کا حصہ ہو… ان کے دکھ سکھ آپ کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
سعداللہ (بھائی) امی صحیح کہہ رہی ہیں یہی وقت ہوتا ہے جب انسان کی ’’پہچان‘‘ ہو تی ہے وہ آپ کا گھر ہے اور وہاں کے مکین آپ کے اپنے ہیں۔
سیرت اپنے سسر کی بیماری اور پھر اِن کے انتقال کی وجہ سے اپنے گھر والوں (سسرال) کی دلجوعی اور خدمت میں لگی رہی آج ھائی سعداللہ کو آئے ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا کل اُن کی واپسی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ بھائی بھابھی سے ملنے جائے؟ گرچہ سسر کے انتقال کو بھی چودہ پندرہ دن ہو گئے تھے اور اب آنے جانے والوں (تعزیت کرنے والوں) کا سلسلہ بھی رک گیا تھا۔
ماجد (امی کے سامنے) سیرت تم کل اپنے بھائی سے ملنے جائو میں تمہیں چھوڑ آئوں گا۔
ساس: (بیٹے کی بات سن کر) ہاں سیرت بیٹے تم چلی جانا۔
سیرت: جی امی (اس طرح وہ پورے ایک مہینے کے بعد بھائی بھابھی کو خدا حافظ کرنے کے لیے گئی۔ سیرت کے اس مثبت طریقہ کار سے نہ صرف ماجد بلکہ امی بھی خوش ہوئیں۔ ان کے دلوں میں سیرت کی قدر بڑھ گئی۔
…٭…
ریحانہ: میمونہ تھوڑا آرام بھی کر لیا کرو۔
اسکول سے آکر گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہو پھر ٹیوشن کے لیے بچے آجاتے ہیں تھوڑا وقت اپنے آپ کو بھی دیا کرو تھک جائو گی۔
میمونہ (مسکرا کر) آپ بھی تو صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں پھر ماشاء اللہ اس طرح بچے ہمارے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ہم اچھا کھا پی رہے ہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا رہے۔ لگژری لائف نہیں گزار رہے، لیکن بہت سے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اور آپ جو میرا اتنا خیال رکھ رہے ہیں آپ کے یہ دو جملے میرے لیے تقویت آمیز ہیں ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حوصلہ بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں ان کا مثبت رویہ ایک دوسرے کے لیے تقویت آمیز ہو سکتا ہے ایک دوسرے کی تکلیف اور پریشانی کم کر سکتے ہیں۔
…٭…
ساس: شہلا بیٹے کچن میں کیا کر رہی ہو۔
شہلا: امی برتن پڑے تھے میں نے کہا کہ دھو لوں۔
ساس: بیٹا آپ کے آپریشن کو ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے۔ رہنے دو بیٹا۔ہم لوگ دھو لیں گے۔ اس طرح بازو پر زور پڑے گا تو ٹانگوں میں تکلیف ہو گی۔ کچھ دن آرام کر لو پھر گھر کے کام بھی ہوتے رہیں گے۔
شہلا کی ساس کا یہ مثبت رویہ تھا جس کی وجہ سے نہ صرف گھر میں سکون و امن رہتا بلکہ سب ایک دوسرے کا دکھ سکھ میں ساتھ بھی دیتے اس مثبت رویے کی وجہ سے سب ایک دوسرے کو اپنا ہمدردی اور ساتھی سمجھتے۔
…٭…
جی ہاں عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے مثبت رویے سامنے والے کے دل میں آپ کے لیے جگہ بناتے ہیں مشکلیں اور تکلیفیں بھی آسان لگنے لگتی ہیں خصوصاً اگر سامنے والا تکلیف و پریشانی میں ہو تو آپ کا یہ مثبت رویہ اس کو حوصلہ دیتا ہے ایک چھت تلے رہنے والے چاہے ساس بہو ہو یا نند بھاوج، یا دیورانی جیٹھانی ہو ان رویوں کے بدولت دوریاں ختم ہوتی ہیں قربت بڑھتی ہے آپ کے دو محبت بھرے بول سامنے والے کے لیے ’’مرہم‘‘ ثابت ہوتے ہیں کینہ و کدورتیں ختم ہوتی ہیںمستحکم رشتے استوار ہوتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو میری بات سے اختلاف بھی ہو کبھی کبھی ایسا ممکن ہے کہ سامنے والے پر آپ کی محبتیں درگزر، و مثبت رویہ بھی کار گر ثابت نہیں ہوتا لیکن ایسے سخت دل لوگوں کی تعداد 20فیصد بھی نہیں ہے مجھ سے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑنے کا ذکر میرے چند احباب نے کیا کہ ہمارے کسی بھی رویے اور طریقہ کار کا اثر سامنے والے کے دل کو موم نہ کر سکا۔
میری ایک دوست جس کا تعلق ایک پڑھے لکھے و خوشحال گھرانے سے تھا شادی کے بعد اس نے ہر طریقے سے سسرال والوں کے دل میں گھر کرنے کی (جگہ بنانے کے لیے ) انتھک کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی بلکہ سامنے والوں کی طرف سے سرد رویہ و نفرت ہی ملی۔ اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ میرے شوہر کا رویہ شروع سے ہی نا مناسب تھا جبکہ وہ ڈاکٹر ہیں اور بہت معزز فیملی سے اس کا تعلق ہے۔ ہمیشہ اس کے شوہر نے اسے نظر انداز کیا اسی طرح ساس بھی اس کے خلاف ہر وقت ایک ’’محاذ‘‘ پر کھڑا رکھتی۔ ملازمت چھوڑ کر اس نے پوری توجہ گھر اور شوہر کی طرف دی تاکہ ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا سکے لیکن اس کوشش میں وہ ناکام رہیں۔ اس نے ایک دن بڑے افسوس سے اس بات کا اظہار کیا کہ زندگی کے خوبصورت دن اپنوں کے سرد رویوں کی نذر ہو گئے۔ جس کا مجھے ہمیشہ دکھ رہے گا۔
…٭…
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں میرا پیارا دین ضابطۂ حیات ہے جو حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے زور دیتا ہے تمام رشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ دوستوں کے ساتھ بلکہ غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور مثبت رویوں کی تاکید و تعلیم فرماتا ہے سبحان اللہ ہمارے سامنے ہمارے نبیؐ اور صحابہ کرام کی مثالیں موجود ہیں دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نہ صرف حقوق اللہ کے لیے پیش پیش رہتے ہیں حقوق العباد کی کوتاہی سے پرہیز کرتے یہاں تک کہ سامنے چاہے اپنا ہو یا غیر اسے اپنے مثبت رویے اور طریقہ کار سے دوست بنالیتے۔میں اکثر گھرانوں میں ایک چھت تلے رہنے والوں کے درمیان دوریاں دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں کورے ہیں نمازیں پرھتے ہیں لیکن اللہ کے بندوں کا دل دکھاتے ہیں جبکہ ہماری معمولی توجہ ہمارا مثبت رویہ سامنے والے کے لیے ’’مرہم کے پھائوں‘‘ کی طرح ٹھنڈک بخشتے ہیں ہمیں تو اپنے ملازمین کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ بے شک کچھ بلکہ بہت کم لوگ سامنے والے کے حسن سلوک سے متاثر نہیں ہو سکتے لیکن اکثر ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے ارد گرد ایسے ہی لوگوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور ان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ویسے بھی دین اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ چاہے سامنے والا متاثر نہ بھی ہو آپ اپنے حسن سلوک اور مثبت رویے کو ختم نہیں کریں گے۔ خصوصاً میں یہاں خواتین سے ضرور کہوں گی کہ وہ جلدی ہار جاتی ہیں ایک خاتون کو کہتے سنا (بیٹی سے)بس بہت ہو گیا اب تمہیں ساس کچھ کہے تو تم بھی دو سنا دینا دیکھو کیسے چپ ہو جاتی ہے دوبارہ اس نے بولنے کی ہمت نہیں ہو گی اسی طرح ایک خاتون کو یہ کہتے سنا کہ میرا شوہر دو سناتا ہے تو میں چار سناتی ہوں خود ہی چپ ہو جاتا ہے یہ منفی رویے رشتوں میں دراڑیں اور تلخی پیدا کرتے ہیں لہٰذا گھروں میں خوبصورتی اور محبت کے رشتے استوار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مثبت اور افہام تفہیم سے برتائو کرنا لازمی امر ہے۔
صرف گھروں میں ہی نہیں بلکہ آس پاس دفتروں، محلوں میں بھی ہم اس بات کا خیال رکھیں ہمارے پڑوس میں کسی گھر میں شادی تھی لاہور سے مہمان اپنی گاڑی میں آئے ہوئے تھے لیکن محلے میں گاڑی پارک کرنے کے لیے کوئی راضی نہیں ہو رہا تھا میرے بڑے بیٹے کی گاڑی مکینک کے پاس تھی لہٰذا میرے شوہر اور بیٹے نے اس شادی والے گھر کے سر براہ سے کہا کہ آپ ہماری گاڑی کی جگہ پر اپنی گاڑی کھڑی کر سکتے ہیں ہمارے اس اخلاق کی وجہ سے وہ گھرانہ بہت خوش ہوا اور ان کے دل میں ہماری قدرکا اضافہ ہوا جس کا انہوں نے ذکر بھی کیا (حالانکہ محلے میں کتنے گھر ایسے تھے جن کے سامنے اس گاڑی کے لیے گنجائش موجود تھی) غرض کہ اس قسم کے مثبت رویے اور خوش اخلاقی سے ہم غیروں کو بھی اپنا بنا سکتے ہیں۔

حصہ