مظفر علی سید کا انٹریو

653

مظفر علی سید جو ادبی حلقے میں ’’سید صاحب‘‘ کہلاتے تھے‘ بیک وقت شاعر‘ نقاد‘ مترجم‘ محقق اور بے حد نفیس و عمدہ انسان تھے جن کی زندگی کی سب سے بڑی سرگرمی اور دل چسپی علم و ادب سے وابستگی تھی‘ جملہ مراسم و تعلقات کا دائرہ بھی علم و ادب سے باہر نہ تھا اور کچھ تھا بھی تو برائے نام۔ اوائل عمر سے مطالعے کی عادت بلکہ چاٹ پر گئی تھی جو آخری سانس تک چھوٹی نہیں۔ مطالعے میں موضوعات کا دائرہ بھی بہت وسیع اور متنوع تھا۔ علم اور ادب کی کون سی شاخ تھی جس میں اپنے مطالعے کی وجہ سے انہیں ادرک حاصل نہ تھا۔ ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ جتنا مطالعہ‘ جتنی معلومات اور علم اور ان کی وجہ سے جو ’’نظر‘‘ تھی ان کے پاس‘ اس لحاظ سے ان کی تصانیف کی تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں لکھنے سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا۔ لکھا انہوں نے بہت اور بہت خوب لکھا لیکن کتاب کے معاملے میں ان کا جو معیار تھا وہ کچھ ایسا اور اتنا بلند تھا کہ اپنی مرتبہ کوئی کتاب خود ان کی اپنی نظروں میں نہ جچتی تھی۔ بہ قول انتظار حسین وہ اپنی تحریروں کو دشمن کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ کتاب لکھ لیتے یا مضامین کی کتاب مرتب کر لیتے تو پھر نظر ثانی کو بھی ضروری سمجھتے۔ یہ ’’نظر ثانی‘‘ کیا ہوتی‘ اتنی کمی اور اتنا ادھورا پن پاتے اپنے ہی تصنیفی کام میں‘ اتنی میخ نکالتے کہ کتاب کو دن کی روشنی دیکھنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ہر علم پر اور ادب کی ہر صنف پر ان کا مطالعہ اتنا گہرا اور وسیع تھا کہ غالباً وہ یہ سوچتے تھے کہ جب تک ان کی تحریر یا تصنیف موجود علمی سرمائے میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہ کرے‘ اس کی اشاعت سے حاصل ہی کیا۔ مثلاً اپنے پرانے شائع شدہ مضامین کو مرتب کر لیتے لیکن ’’نظر ثانی‘‘ کے وقت چوں کہ مطالعہ ان کا آگے بڑھ چکا ہوتا تھا اور خیالات میں بھی جزوی یا کلی تبدیلی آچکی ہوتی تھی تو پھر یہ فکر کہ مضمون کو اس طرح نہ چھپنا چاہیے‘ اسے اور بہتر مزید اضافے و ترمیم کے ساتھ کتاب میں شامل ہونا چاہیے۔ یہی تکمیلیت پسندی تھی کہ جب انتظار حسین ان کے مضامین مرتب کرنے نکلے تو معلوم ہوا کہ مضامین جو رسائل میں چھپ چکے تھے‘ سید صاحب تو اپنی زندگی ہی میں ان کی جمع و ترتیب کا کام کر چکے تھے‘ لیکن انہیں چھپوانے اور کتاب لانے میں ان کی دل چسپی بعد میں ختم ہوگئی اور مسودہ جوں کا توں پڑا رہ گیا۔ تو ہمارے سید صاحب کا ’’آئیڈیل ازم‘‘کتاب سازی کے معاملے میں علم و ادب کو نقصان پہنچا گیا۔ انتظار حسین نے ان کے مطبوعہ مضامین کا جو مجموعہ بہ عنوان ’’سخن اور سخن ور‘‘ شائع کرایا‘ اسے پڑھ کر حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کہ کاش یہ مضامین اب سے پہلے کتابی صورت میں سامنے آجاتے جب ملک میں ایک ادبی ماحول زندہ و سرگرم تھا‘ بڑی یا قابل ذکر ادبی شخصیتیں موجود تھیں تو ان مضامین میں ظاہر کیے گئے خیالات اور اٹھائے گئے سوالات پر کچھ بحث و مباحثہ ہوتا‘ گفتگو ہوتی‘ اختلافی یا تائیدی مضامین لکھے جاتے۔ مگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا تو اس لیے کہ سید صاحب کی نظر اور فکر جو علمی و ادبی معاملات پر صائب تھی‘ خود اپنے معاملے میں اپنی تحریروں کی بابت انہیں مغالطہ ہوا اور انہوں نے خواہ مخواہ کھرے کو کھوٹا سمجھ لیا۔ تو ادیب یا نقاد کو اپنی ذات سے توقعات بھی بلند نہ رکھنی چاہیے۔ ادب اور علم کو اس کے ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اہمیت دینا چاہیے اور اپنے علمی و ادبی مقام کامعاملہ وقت ہی کے حوالے کر دینا چاہیے۔
مظفر علی سید کیا شبہ ہے کہ ادب کے نہایت سچے اور سنجیدہ عاشق تھے۔ دبستان عسکری کے خوشہ چیں‘ ادبی دنیا میں ان کے مقام کا قیاس اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیم احمد‘ انتظار حسین اور مشفق خواجہ جیسی شخصیات ان کی قدر داں تھیں اور یہ صورت حال زمانۂ طالب علمی سے رہی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں جب زیر تعلیم تھے تو کالج کے ذہین طلبہ جنہیں فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف سے دل چسپی تھی‘ سید صاحب کو اپنا گرو اور مرشد مانتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے دوہے‘ گیت اور بھجن بھی لکھے‘ بہت اچھے اور عمدہ دوہے لیکن یہ دوہے بھی ’’موجِ دریا‘‘ کے قلمی نام سے پنجاب یونیورسٹی کے رسالہ’’راوی‘‘ اور ’’خیال‘‘ میں چھپے۔ چنانچہ بہ حیثیت دوہا نگار انہیں کوئی پہچان ہی نہ ملی۔ ایک ناول ’’فالتو آدمی‘‘ بھی لکھا جس کا اشتہار ایک ادبی رسالے میںچھپتا رہا۔ وہ نال بھی منظر عام پر نہ آسکا۔ انہوں نے ایسے بہت سے علمی و ادبی کام کیے جن کی اشاعت کی طرف خود توجہ نہ دی تو یوں کہیے کہ سید صاحب میں جتنے امکانات پوشیدہ تھے‘ وہ پوری طرح ظاہر نہ ہوسکے۔
مظفر علی سید 1929ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1956ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ سند یافتہ ہو کر لاہور‘ گوجرانوالہ اور کراچی کے کالجوں میں انگریزی کے استاد رہے۔ 1958ء تک درس و تدریس سے وابستہ رہ کر پاک فضائیہ کے شعبۂ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1991ء میں سال کے لیے پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک اردو اور انگریزی اخبارات میں کالم نویسی بھی کی۔ آخر عمر میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر 29 مئی 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔
تصانیف:
تنقید:
-1 تنقید کی آزادی۔
-2 سخن اور سخن (مرتبہ انتظار حسین 2016ء)
ترجمہ:
-1 فنکشن‘ فن اور فلسفہ از ڈی ایچ لارنس۔
-2 معاشرہ شناسی از ایلیکس انگلو (1996ء)
…٭…
طاہر مسعود: آپ سلیم احمد مرحوم کی طرح ’’دبستان حسن عسکری‘‘ سے وابستہ رہے اور اس کے پرجوش شارح ہیں۔ سلیم احمد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حسن عسکری مرحوم کے فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے قلمی جہاد کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد اب یہ ذمہ داری آپ پہ آ پڑی ہے کہ عسکری مرحوم کے دینی اور ادبی تصورات کی تشریح کریں اور ان پر ہونے والی نکتہ چینی کا مدلل جواب دیں۔ کیا اس ضمن میں آپ کچھ کہنا پسند کریں گے؟
مظفر علی سید:
آسماں بار امانت نتو انند کشید
قرعۂ فال بنا من دیوانہ زوند
یہ بار امانت تو بہت بڑا ہے اور بہ قول شخصے مجھے خدا جانے او ر کیا کیا کرنا ہے اور پھر میری حد تک یہ سوانحی تفصیل ہے‘ شاید برمحل ہو کہ میرا قریبی تعلق عسکری صاحب سے لاہور میں رہا۔ جہاں وہ 1948ء سے 1950ء تک مقیم تھے۔ اس کے بعد کبھی کبھار ملنا ہوتا تھا۔ ہاں 1975ء میں میرے سعودی عرب جانے سے پہلے مجھے تین مہینے کراچی میںرہنے کا موقع ملا تو ان سے قربت کی سعادت پھر نصیب ہوئی۔ 25 برس تک ہمارا تعلق برائے نام رہا اور میں باہر سے واپس آیا تو وہ وفات پا چکے تھے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ میں نے نقد ادب اور مطالعہ ادب کے فن میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی اور انہوں نے بھی سکھانے میں دریغ نہیں کیا۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد وہ وفات سے بہت پہلے ادب کا سارا کاروبار ہی ترک کرچکے تھے اور زندگی کے آخری برس میں لگتا ہے کہ حکمت و عرفان کے سرچشموں سے جو استفادہ انہوں نے کیا تھا وہ اس کا اطلاق ادب پر بھی کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کی چند ایک آخری تحریروں سے اور چند ایک خطوط سے معلوم ہوتا ہے‘ مگر افسوس کہ وہ یہ کام بہت کم انجام دے سے۔ اس خاکسار کی رائے میں عسکری کے نیاز مندوںکا یہ فرض نہیں کہ وہ عسکری کا دفاع کریں۔ یہ فرض نہیں کہ وہ عسکری کے نقش قدم پر چل کر ادب کی دنیا سے غائب ہو جائیں بلکہ یہ فرض ہے کہ جس کام کو انہوں نے جہاں چھوڑا تھا وہاں سے آگے لے کر چلیں۔ گویا عسکری سے آزاد بھی وہی ہو سکتا ہے جو کبھی عسکری کاگرفتار رہ چکا ہو۔
طاہر مسعود: ادبی و علمی حلقوں میں ہمیں عسکری کی کتاب ’’جدیت یا مغربی گم راہیوں کا خاکہ‘‘ متنازع حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ایک حلقے کی رائے میں اس کتاب کو شائع نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس سے عسکری صاحب کی شخصیت کو نقصان پہنچا ہے۔ فیض صاحب نے اس کتاب کو رد کر دیا ہے‘ جب کہ اسی مکتب فکر کے ایک نقاد محمد علی صدیقی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں حسن عسکری کے تصور روایت کو اقبال کے فلسفہ اجتہاد کا ردعمل قرار دیا ہے۔ آپ اس علمی تنازع کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
مظفر علی سید: میرے خیال میں ’’جدیدت‘‘ اگر ایک خراب کتاب بھی ہے تب بھی اس لحاظ سے اس کا چھپنا ضروری تھا کہ اس کے لکھنے کے زمانے میں عسکری جس دور سے گزر رہی تھے اس کاجاننا نہ جاننے سے بہتر ہے۔ آپ نے فیض صاحب کا نام لیا تو یاد آیا کہ انہوں نے اپنے خط میں اس کتاب کے بارے میں ایسی بات کہی ہے جو ’’جدیدیت‘‘ کو ناپسند کرنے والوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ یہ ہے کہ عسکری صاحب نے مغرب کے مختلف مکاتب فکر کی بہت اچھی تلخیص کی ہے‘ میرے خیال میں ایک اسی وجہ سے اس کتاب کو ضرور چھپنا چاہیے تھا۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے‘ وہ تو زیادہ واشگاف الفاظ میں عسکری اپنی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ میں دو‘ تین مضامین کے ذریعے واضح کر چکے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر روایت کی بنیاد اس کے بنیادی افکار یعنی مابعد الطبیعات پر استوار ہوتی ہے‘ وہاں مختلف علوم و فنون میں جو دوسری روایت کے دائرے ہیں وہ اس کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو اقبال کے متناقض قرار دیا جائے‘ البتہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اقبال اجتہاد کے حق میں اور عسکری تقلید کے حق میں ہیں‘ یہ دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ایک حصہ دور غلامی میںتقلید کی اہمیت پر لکھا ہے۔ لوگ ’’خطبات‘‘ کو دیکھتے ہیں تو اس حصہ کو کیوں نہیں دیکھتے۔ دوسری طرف عسکری صاحب نے تقلید کے حق میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہے کہ تقلید کے بغیر تو ہم لقمہ بھی نہیں توڑ سکتے۔ یہ بالکل درست بات ہے مگر عسکری صاحب نے کبھی یہ پیغام نہیں دیا کہ کسی شخص کو چاہیے وہ علم و نظر کے کسی بھی درجے پر فائز ہو‘ اجتہاد کا کوئی حق حاصل نہیں۔ بس اتنا ہے کہ وہ اجتہاد کو سستا کردینا نہیں چاہتے تھے اور اسے ہونا بھی نہیں چاہیے۔ دینی اور فقہی مسائل میں تخلیقی اور فنی مسائل کی طرح اجتہاد کا اہل بھی وہی ہے جو روایت کی روح کو اپنے اندر جذب کر چکا ہو اور یہ بات دین تو دین‘ ادب کے بارے میں بھی تسلیم کرنا پڑے گی۔
طاہر مسعود: دبستان عسکری کے مخالف ناقدین معترض ہیں کہ عسکری صاحب کے مداح ان کی شخصیت کو غیر معمولی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور انہیں اس طرح فرشتہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جیسے ان سے کوئی غلطی سرزد ہی نہ ہوئی ہو۔ کیا یہ اعتراض بجا ہے؟
مظفر علی سید: عسکری صاحب نے منٹو کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کا پیغام تھا ’‘مجھ سے بھی آزاد ہو۔‘‘ میرے نزدیک ہمارے جن ادیبوںکا عسکری صاحب سے گہرا اور طویل ربط رہا ہے ان میں کوئی بھی عسکری کی کاربن کاپی نہیں ہے اور بعض بنیادی مسائل میں عسکری صاحب سے فیض یاب ہونے کے باوجود ان سے اختلاف کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ سلیم احمدکو آپ نے دیکھا ہوگا۔ انتظار حسین کو آپ جانتے ہیں اور بھی لوگ ہیں۔ فی الحقیقت عسکری نے اپنا کوئی جداگانہ مکتب خیال بنانے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی‘ بلکہ وہ اس کے لیے کسی تنظیم کے سرے سے قائل ہی نہیں تھے۔ ہاں یہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑے لکھنے والی کی موت کے بعد فوری ردعمل جو ہے وہ آخری ردعمل تو نہیں ہوتا۔ اب جب کہ ان کا کارِ حیات ختم ہو چکا ہے‘ ہمارا پہلا فرض تو یہ ہے کہ اس کارِحیات کو اپنے سامنے رکھیں اور اس کے بارے میں اپنا رویہ واضح اور واشگاف الفاظ میں تعصب کے بغیر‘ مرعوبیت کے بغیر‘ بے انصافی کے بغیر واضح کریں۔ اگر ہم یہ کام نہیں کر رہے تو اس میں عسکری کا کیا قصور؟ پھر یہاں تک شخصیت کا تعلق ہے‘ عسکری صاحب بھلے اولیا اللہ نہ ہوں مگر یہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک نہایت بے غرض اور خاموش کام کرنے والے آدمی تھے۔ انہوں نے کبھی کوئی رسالہ نہیں نکالا۔ (سید صاحب کو غالباً یاد نہ رہا ہوگا کہ لاہور میں اپنے قیام کے زمانے میں عسکری صاحب نے منٹو کے ساتھ مل کر ایک رسالہ ’’اردو ادب‘‘ نکالا تھا جسے ڈاکٹر انور سدید نے اپنی محققانہ کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ میں انفرادیت کے لحاظ سے ’’چیزے دیگر‘‘ بتلایا ہے۔) انہوں نے کوئی مزارعین نہیں پالے جو اٹھتے بیٹھتے ان کی مدح سرائی کرتے رہیں۔ انہوں نے کوئی گرگے پیدا نہیں کیے جو ہر اس شخص کو جو ان کی شان میں گستاخی کرے‘ ٹانگ لیں اور یہ سب درست ہے تو عسکری صاحب کو ان کے خلوص کردار کی داد نہ دینا بہت بڑی بے داد ہے۔ (جاری ہے)
طاہر مسعود: آپ افسانے کے نقاد بھی ہیں لہٰذا میں چند سوال اس حوالے سے کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ عام طور پر ہمارے ہاں افسانے پر معیاری تنقید کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ شاعری پر تنقید ی سرمایہ تو مل جاتا ہے‘ لیکن نقادوں نے افسانے جیسی اہم صنف کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟
مظفر علی سید: افسانے پر تنقید لکھی گئی ہے لیکن زندہ تنقید نہیں۔ زندہ تنقید کی اصطلاح سے میری مراد ہے جو آپ کو چونکائے‘ بحث کرنے پر مجبور کرے‘ جو موضوع زیر بحث ہے اس کے بارے میں بصیرت کے دروازے کھولے۔ کم سے کم ہمیں یہ بتا سکے کہ اردو افسانے کا جو کلاسیکی دور ہم دیکھ آئے ہیں یعنی منٹو اور بیدی دور‘ ان لوگوں کا کمال کیا ہے؟ مدرسانہ تنقید اوّل تو ان مصنفین سے سروکار نہیں رکھتی کہ یہ داخل نصاب ہی نہیں ہیں۔ منٹو کو تو آپ جانتے ہیں کہ اہل مدرسہ کے نزدیک شجر ممنوعہ ہے اور بیدی ٹھہرے غیر پاکستانی۔
طاہر مسعود: معاف کیجیے‘آپ مدرسانہ تنقید کی اصطلاح کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟
مظفر علی سید: وہ جو ہمیں صرف امتحانوں کے سوالوں کے جواب دینا سکھائے۔ ظاہر ہے یہ مقصد بہت محدود ہے اور اس وقت تو اور محدود ہو جاتا ہے جب سوال پوچھنے و الے بھی وہی ہوں اور جواب جانچنے والے بھی وہی ہوں جن کی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔
طاہر مسعود: کیا آپ ان مدرسے کے نقادوں کے نام لینا چاہیں گے؟
مظفر علی سید: نام نہ لیں‘ آپ کے ذہن میں نام آگئے ہوں گے۔
طاہر مسعود: افسانے کے نقادوں میں ایک نام وقار عظیم صاحب کا بھی ہے۔ آپ انہیں مدرسانہ تنقید کا نمونہ تصور کرتے ہیں؟
مظفر علی سید: وہ مدرسانہ تنقید کا ذرا بہتر نمونہ تھے اور شاید جب انہوں نے ابتداکی تھی تو اتنے مدرسانہ بھی نہیں تھے مگر بیچ میں انہوں نے جو رویے اختیار کیے ان کا آپ اس سے اندازہ کیجیے کہ منٹو‘ بیدی اور غلام عباس ان کی کتابوں سے بہ طور اہم ادیبوں کے برآمد نہیں ہوتے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ذمہ دار لوگ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں اور کسی ایسے تخلیقی فن کار کے حق میں خطرہ مول لینے پر تیار نہیں ہوتے جس کے بغیر کوئی تحریر معنویت اختیار نہیں کرسکتی۔
طاہر مسعود: ممکن ہے ان ادیبوں کے بارے میں ان کی دیانت دارانہ رائے وہی ہو جس کا اظہار انہوں نے اپنے مضامین میں کیا ہے؟
مظفر علی سید: مجھے وقار عظیم صاحب کا نیاز حاصل رہا ہے۔ وہ شریف اور شائستہ آدمی تھے۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے۔ اردو ادب میں ان کی کچھ خدمات بھی ہیں جن سے مجھے انکار نہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ معاصر ادب پر فیشن کا شکار ہو جانا بھی اتنا ہی خراب ہے جتنا کہ بلا لحاظ امتیاز سب کو درج گزٹ کرنا۔ اس کے مقابلے میں مثلاً عسکری کو دیکھیے کہ منٹو کے سلسلے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ پر لکھتے ہوئے اور ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ پر لکھتے ہوئے اور ’’کھول دو‘‘ کے سلسلے میں عسکری نے کتنے بڑے خطرے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ آپ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ادب میں مردانگی کا یہی مفہوم ہے اوراب پیچھے مڑ کر دیکھیے تو منٹو کی یہ پشت پناہی جو عسکری نے انجام دی وہ کتنا بڑا تنقیدی کمال معلوم ہوتا ہے۔ ذرا وقار صاحب کی کتاب کا منٹو والا باب اٹھا کر دیکھ لیجیے فوراً فرق محسوس ہو جائے گا۔
طاہر مسعود: آپ ممتاز شیریں کا بہ طور افسانے کی تنقید کے کن الفاظ میں ذکر کریں گے؟
مظفر علی سید: ان کا ذکر یقینا کرنا چاہیے۔ میں نے منٹو کے بارے میں ان کی تنقید پر ایک مطالعہ بھی لکھ رکھاہے مگرجیسا کہ میں نے لکھا ہے‘ ان کے ہاں علم زدگی بہت زیادہ ہے اور کچھ اشرافیت ان کے آڑے آجاتی ہے۔
طاہر مسعود: آپ انہیں بھی مدرسانہ لکھنے والوں کی صف میں کھڑا کریں گے؟
مظفر علی سید: جی نہیں‘ وہ یقینا ان سے بہتر ہیں‘ البتہ ان کے مقابلے میں عصمت چغتائی کا ایک مضمون جو ’’ہیروئن‘‘ کے نام سے ایک ’’ایک بات‘‘میں شامل ہے‘ اس کا انگریزی ترجمہ پطرس بخاری نے کیا‘ وہ مضمون ممتاز شیریں کی ساری کتاب پر بھاری ہے۔
طاہر مسعود: عصمت چغتائی کے مضمون میں وہ کون سا عنصر ہے جس کی بنا پر آپ اسے ایک کتاب پر بھاری قرار دے رہے ہیں؟
مظفر علی سید: نقاد کے ذریعے ہمیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ فکشن بہ طور ادب اور فکشن بہ طور صنعت میں کیا فرق ہے؟ اور جو لوگ فکشن کے ذریعے کمال ادب تک پہنچتے ہیں‘ انہوں نے یہ درجہ کیسے حاصل کیا؟ پھر اس سے بھی زیادہ فکشن کے ذریعے کیسے کیسے حالات تہذیبی اقدار‘ انسانی صورت حال کا المیہ اور زندگی کے ساتھ جہاد‘ یہ کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ آپ نے غالب کا وہ فقرہ سنا ہوگا کہ ’’داستان سرائی منجملہ فنون سخن ہے‘‘ بات بہت ہمت افزا ہے‘ آج کے فکشن لکھنے والوں کے لیے‘ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے دور میں فکشن کی غالب مقدار صنعتی اورتجارتی پیداوار سے زیادہ ہے اور فنِ سخن بہت کم‘بس اسی امتیاز کا نام فکشن کی تنقید ہے۔
طاہر مسعود: حسن عسکری کے بعد آپ افسانے کے کن نقادوں کو لائق توجہ سمجھتے ہیں؟
مظفر علی سید: اپنے ہاں مملکت خدادادِ پاکستان میں دو قسم کے لوگ فکشن کی تنقید کے نام پر کچھ لکھتے رہے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر برائے نام‘ مگر ہندوستان کے اردو ناقدین نے کچھ بہتر کوششیں ضرور کی ہیں۔ مثلاً عصری آگہی‘‘ کا بیدی نمبر آیا ہے۔ ’’اردو افسانہ روایت اور مسائل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں کئی تحریریں ہیں جو فکشن کی اچھی تنقید کا نمونہ کہی جاسکتی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے صرف وہ لوگ شامل ہیں جو پریم چند سیمینار میں وہاں گئے تھے اور ان میں سے بھی ایک فکشن لکھنے والے انتظار حسین صاحب قدرے بہتر ہیں۔ میں خود فکشن نہیں لکھتا‘ ہاں فکشن کا ترجمہ کیا ہے۔ کچھ اور کروںگا۔ میں اس کے لیے قطعی ضروری نہیں سمجھتا کہ آدمی خود فکشن لکھتا ہو مگر غالب کے معیار کے اعتبار سے سخن کا معیار ہونا چاہیے اور اسے یورپ کے بڑے بڑے فکشن کے نقادوں سے واقفیت ہو یا نہ ہو‘ کم سے کم یہی معلوم ہو کہ مولانا رومؒ اپنی کہانیوں کی تعبیر و تشریح کس انداز سے کیا کرتے تھے اور ہماری تہذیب میں فلسفیوں تک نے فکشن لکھا ہے جیسے ابن طفیل‘ ابن سینا اور بہت سے دوسرے۔ تو قصہ دراصل دو لفظوں میں خلاصہ ہو سکتا ہے کہ حکمت اور حکایت کا آپس میں جو ربط ہے اس کی نشاندہی اور تعبیر اور اس کی قدر و قیمت کا تعین۔ اس کے بغیر فکشن کی تنقید کچھ اور ہو سکتی ہے فکشن کی تنقید نہیں ہو سکتی۔
طاہر مسعود: ہندوستان میں افسانے پر ڈاکٹر نارنگ‘ محمود ہاشمی‘ وارث علوی اور دیگر لوگ تنقید لکھ رہے ہیں۔ ان میں سے کن نقادوں کی تحریروں میں آپ کو زندہ تنقید کے نمونے نظر آرہے ہیں؟
مظفر علی سید: فکشن پر زندہ تنقید لکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ غالباً ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی تھی اس لیے کہتا ہوںکہ ادھر بہت دنوں سے ان کی کوئی ایسی تحریر دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ اگرچہ کتاب انہوں نے بہت اچھی مرتب کی ہے۔ نئے لکھنے والوں میں چند ایک آدمیوں میں خاصا جوہر ہے‘ مثلاً ابوالکلام قاسمی‘ ان سے سینئر لکھنے والے علی گڑھ کے استاد مقبول حسن خان جنہوں نے قرۃ العین حیدر پر لکھا ہے اور ایک رسالہ اسلوب احمد انصاری کی ادارت میں علی گڑھ سے نکلتا ہے ’’نقد و نظر‘‘ اس میں نہ صرف فکشن کی تنقیدیں بلکہ دوسری اصناف ادب پر بھی اس کے مختلف شماروں میں ایسی عمدہ تحریریں دیکھنے میں آئی ہیں کہ شاید کسی دوسرے رسالے میں ’’نگار‘‘ سمیت اتنے تسلسل اور تواتر کے ساتھ کسی نے اتنی اچھی چیزیں کم ہی پیش کی ہیں۔ یہاں تک کہ فرانسیسی فکشن کے جو لوگ امام ہوئے ہیں ان پر بھی اردو زبان میں نہایت عمدہ معیار کی تحریریں اسی رسالے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔ البتہ اس کی صراحت کر دوں کہ نئے افسانے کے خلاف اور اس کے دفاع میں جو کچھ ہندوستان میں لکھا گیا ہے‘ اس کا معیار ایسا بلند نہیں۔ یہاں بھی شہزاد منظر اور مرزا عابد بیگ نے جدید اردو افسانے پر دو کتابیں لکھی ہیںجن میں کہیں کہیں کوئی ٹکڑا اچھا بھی آجاتا ہے مگر مجموعی طور پر شاید یہ کہنا نامناسب نہ ہوکہ فکشن کی تنقید کا کوئی اچھا نمونہ ان کے سامنے نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے جب کہ عسکری تک جنہیں اردو میں فکشن کا بہترین نقاد کہتا ہوں‘ ان کی یہ حیثیت اب تک لوگوں کی نظروں سے اوجھِل ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنی گفتگو میں خود بھی اس جانب اشارہ کیا ہے اور یہ بات میں نے کئی افسانہ نگاروں کی زبانی سنی ہے کہ وہ کسی غیر افسانہ نگار کو افسانے پر تنقید کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیراکی کے اصول بتانے کا حق صرف ایک اچھے پیراک کو ہے۔
مظفر علی سید: آپ ایسا کوئی اصول نہیں بنا سکتے اس لیے کہ پھر ارسطو کو بھی بوطیقا لکھنے کا کوئی حق نہیں تھا اور ہماری تہذیب میں آپ دیکھیں کہ بہت سی ایسی شخصیتیں گزری ہیں جو شعر نہیں کہتی تھیں مگر شعر فہم تھیں اور شاعری پر ان کی کتابیں موجود ہیں۔ ہنری جیمس‘ ڈی ایچ لارنس خود ناول نگار تھے اور انہوں نے فکشن کی تنقید بھی لکھی ہے۔ فکشن کے نقادوں میں ایف آر لیوس صاحب ہیں اور ہنگری کے بوکانچ‘ انہوں نے کب اورکون سا فکشن لکھا۔ اور دوسری طرف یہ دیکھیے ہر فکشن لکھنے والا تو فکشن کا نقاد نہیں ہو سکتا جس طرح شعر لکھنے والا شاعری کا نقاد نہیں ہوسکتا۔ جب تنقید ایک علم ہے اور ایک ڈسپلن ہے توجو لوگ اس کی تربیت حاصل کریں گے چاہے وہ خود تخلیقی فن کار ہوں یا نہ ہوں‘ یہ کام انہیںہی زیب دے گا۔
طاہر مسعود: افسانے کی موجودہ دگرگوں صورت حال میں افسانے کے نقادوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
مظفر علی سید: فکشن کی تنقید لکھنے والوں کے سامنے یہ حقیقت ہونی چاہیے کہ ہماری زبان میں فکشن دور ابتلا ہے گزر رہا ہے کہ انہیں اس کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے اور تجزیے کا سارا الزام باد صید کے سر نہیں لگانا چاہیے۔ کچھ تو اس صورت حال کے پیدا کرنے میں خود فکشن لکھنے والوں کا قصور بھی ہوگا۔ اس کی نشاندہی بھی ضروری ہے اور نئے افسانے کے نام سے جو کچھ بھی ہمارے سامنے آتا ہے‘ اگر ہم اس میں کوئی امتیاز نہیں کرتے اور چار سطری اور چھ سطری فہرست ناموں کی بنا کر ہم ہر ایک کو خوش کر دیتے ہیں یا کم سے کم اس کی کوشش کرتے ہیں‘ یہ جو کچھ بھی ہو اس سے تنقید کا فریضہ تو ادا نہیں ہوتا۔ یعنی یوں کہیے کہ مجھے نئے افسانے میں مثال کے طور پر دو‘ تین افسانہ نگار اہم معلوم ہوتے ہیں اور جب میں نیا افسانہ کہتا ہوں تو میری مراد ہوتی ہے وہ افسانہ نگار جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد لکھنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ اس دوران میں اردو افسانے کے 36 برس بیت چکے ہیں‘یعنی ساڑھے تین دہائیاں۔ تو کم سے کم چار مختلف Age Groupes کے لوگ میدانِ عمل میں اترے ہیں‘ مجھے ان میں سے اپنی پسند کے دو‘ تین‘ چار افسانہ نگار منتخب کرنے کا تنقیدی حق ہونا چاہیے اور ان پر اپنی توجہ مرکوز کرکے مجھے یہ حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اب اگر کوئی مجھ سے تقاضا کرے کہ باقی پانچ چھ سو افسانہ نگاروںکا میں ذکر کیوں نہیں کرتا تو میری گزارش ہوگی کہ تنقید اور ڈائریکٹری میں کوئی فرق تو ہونا چاہیے اور افسوس کہ یہ فرق ہمارے غزل گو حضرات کی طرح ہمارے نئے افسانہ نگاروں کو بھی معلوم نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا ناقد اپنی پسند کے (اور پسند سے میری مراد ہے آزاد اور بلالحاظ گروہ بندی اور بلا لحاظ تعلقات) چند ایک دوسرے افسانہ نگاروں پر توجہ مرکوز کرے اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کرکے ان کا کمالِ سخن واضح کرے تو میں اختلاف کے باوجود ایسے ناقد کی تحریر پڑھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس طرح ممکن ہے باہمی اختلافِ نظر اور بحث و مباحثے کے ذریعے ہم کسی اتفاق نظر تک بھی پہنچ سکیں۔ مگر یہ کام ہمارے ہاں ہو نہیں رہا۔

حصہ