ـ22 اگست کو یوم وفات پر ایک خصوصی تحریر
اردو کے صاحب ِطرز ادیب اور صحافی ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کمزور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔ ابتدا ہمت بندھانے اور حوصلہ بڑھانے کی مولوی انشاء اللہ خان (ایڈیٹر ہفتہ وار وطن لاہور)، مولوی محبوب عالم (ایڈیٹر روزانہ پیسہ اخبار لاہور)، اور مولوی غلام محمد (مالک سہ روزہ وکیل امرتسر) نے کی تھی۔
1909ء میں خواجہ حسن نظامی کے ساتھ خود ماہنامہ ’’نظام المشائخ ‘‘ کی بنیاد ڈال دی۔ نظام المشائخ اللہ کے فضل سے ایسا چلا کہ پہلا پرچہ تو ہم نے اپنے خرچ سے ضرور چھپوایا تھا، پھر اس پر دھیلا خرچ کرنے کی ضرور ت نہیں پڑی۔ نظام المشائخ اکبر اور اقبال کی نظموں اور منشی ذکاء اللہ، مولانا شبلی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ناصر نذیر فراق ، مولانا شاہ سلیمان پھلواروی اور مولوی سید احمد مؤلف فرہنگِ آصفیہ کے مضامین سے آراستہ ہوتا تھا۔ جناب اکبر الہ آبادی نے تو نظام المشائخ کے لیے اتنا لکھا کہ ان کے کلیات میں ایک باب ہے: ’’نظام المشائخ کے لیے‘‘۔
1918ء اور 1919ء میں میری ادارت اور نگرانی میں 9 پرچے نکل رہے تھے۔ بقول سردار دیوان سنگھ مفتون، ایڈیٹر ریاست ’’کوچہ چیلاں کو رسالوں اور اخباروں کا قبرستان بناکر کراچی بھاگا ہوں‘‘۔
نو پرچوں کے علاوہ کتابوں کی اشاعت کا کام بھی کیا۔ مولانا راشد الخیری ’’صبح زندگی‘‘ لکھ کر چپ ہوگئے تھے۔ انہیں جھنجھوڑا اور ’’شامِ زندگی‘‘ اور سات کتابیں لکھوائیں۔ میں خود کچھ بھی نہ لکھتا تو میرے لیے یہی بہت تھا کہ میں نے بے شمار اہلِ قلم کے علاوہ دوایسے شخصوں کو کتابیں تصنیف کرنے پر آمادہ کیا جن کی دھاک بیٹھ گئی۔ ایک خواجہ حسن نظامی، دوسرے مولانا راشد الخیری۔
1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947ئکے اکتوبر میں دلی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔ خان بہادر شیخ حبیب الرحمن صاحب او بی ای، صدر میونسپل کمیٹی دلّی بھی کراچی آگئے تھے۔ انہوں نے مجھے جوان کرنا چاہا اور مجھ سے ماہنامہ ’’فردوس‘‘ جاری کرایا، اور اس پر چھ ہزارروپے کے قریب کھوئے، اور مزید کھونے کو تیار تھے لیکن میری طبیعت بھر گئی اور صرف نو پرچے شائع کرکے اسے بند کیا۔ کراچی میں لکھنے پڑھنے کی پوری فرصت مل گئی۔ کتابیں تصنیف کرنی شروع کیں اور نظام المشائخ کو مضامین کی اشاعت کے بجائے کتابوں کی اشاعت کا ذریعہ بنادیا۔ کتاب ’’میرے زمانے کی دلّی‘‘ بہ اقساط نظام المشائخ میں چھپی۔ ’’حیاتِ سرورِ کائناتؐ‘‘ کے تین حصے نظام المشائخ کے ذریعے مکمل ہوئے۔ البتہ سوانح عمری خواجہ حسن نظامی کو خواجہ حسن ثانی نظامی نے کتابی صورت میں چھاپنے کا اہتمام کیا، اور میں نے بھی کراچی میں اسے بصورت کتاب شائع کردیا۔ ’’مقالات، انشائیے اور شخصیتیں ‘‘ کے نام سے بھی ایک ضخیم کتاب کا ذخیرہ موجو دہے۔ میری کتاب ’’حیات ِاکبر الہ آبادی‘‘ چودھری نذیر احمد صاحب سابق وزیر صنعت کی قائم کردہ بزم اکبر نے شائع کی۔
نظام المشائخ میں کتاب ’’تاثرات‘‘ کا آغاز تھا کہ حکومت ِ پاکستان نے 1959ء یا 1960ء میں تمام اخباروں اور رسالوں سے نئے ڈیکلریشن مانگے۔ نظام المشائخ کا ڈیکلریشن داخل ہوا مگر منظور نہیں ہوا۔ میں نے خواجہ حسن نظامی اور اپنے تعلق کی یادگار اور اپنی صحافتی زندگی کے آغاز کی یادگار کو زندہ رکھنے کی پچاس برس کوشش کی۔ وہ میرے ہاتھوں نہیں مرا، جس کے ہاتھوں مرنا مقدر تھا اس کے ہاتھوں مرا۔ لیکن اس کے مرنے سے کتاب ’’تاثرات‘‘ الحمدللہ نہیں مری۔ حمید نظامی مرحوم نے بڑے چاؤ سے کہا کہ ’’تاثرات‘‘ روزنامہ نوائے وقت چھاپے گا۔ تاثرات نویسی کی رفتار آٹھ گنا بڑھ گئی۔ نظام المشائخ میں جتنے تاثرات ہر مہینے چھپتے اُس سے آٹھ گنے زیادہ نوائے وقت میں چھپنے لگے۔
بائیس برس سے میں نے دو مضمون اپنے واسطے مختص کررکھے ہیں: ایک ’’دلّی‘‘، دوسرا ’’اسلام‘‘۔ میرے تاثرات میں اسلامی رنگ ہوتا ہے۔ کسی تاثر میں ہلکا، کسی تاثر میں گہرا۔ عموماً قرآن مجید کی آیات تاثر کو ابھارتی ہیں، آیات مضمون کو جنم دیتی ہیں۔ آیت پڑھتے پڑھتے ایسا مضمون دماغ میں آجاتا ہے کہ اسے لکھ کر آیت میں شامل کردیتا ہوں۔ مضمون سے آیت کا جاندار مطلب سمجھنا آسان ہوجاتا ہے اور آیت مضمون کو چمکا دیتی ہے۔ کبھی کبھی ویسے بھی مضمون لکھتا ہوں اور اس کی تائید آیت سے کراتا ہوں۔ اسّی فیصد تاثرات اس نوع کے ہیں۔ قرآن مجید پر غور کرنے کی عادت مجھے مولانا ایوب صاحب کی تقریریں سننے سے پڑی ہے۔ ان کی تقریر اتوار کے اتوار تیس بتیس سال سنی ہے۔ سادہ زبان کا لکھنا خواجہ حسن نظامی صاحب کی صحبت میں سیکھا۔ یوں بھی قلعہ معلّٰی سے متصل کوچہ چیلان کا باشندہ ہوں اور قلعہ معلّٰی سے نکلے ہوئے اور اردوئے معلّٰی بولنے والے شاہزادوں کا پڑوسی ہوں۔ میں دینی مضامین سیدھی سادی ہلکی پھلکی عام فہم زبان میں لکھ لیتا ہوں۔
میرا جسم بڑھاپے کی انتہائی منازل سے گزررہا ہے لیکن یہ تاثرات روح کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی اس کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ جتنی دیر جاگتا ہوں لکھتا پڑھتا اوریہی باتیں سوچتارہتا ہوں۔ فالج زدگی ، اپاہج پن اور چوراسی سال کی عمر کی طرف دھیان نہیں جاتا۔اس سے صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ الحمدللہ میرا ذہن تاایں دم توانا ہے۔ فالج سے قلب کسی قدر سست ہوگیا ہے، دماغ سست نہیں ہوا‘‘ ۔ (تاثرات، ص 21تا 27)
ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دلّی میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی کتابیں اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے ، تاہم وہ دلّی سے متعلق تصانیف کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔
ملا واحدی کے بزرگوں نے تو ان کا نام سید محمد ارتضیٰ رکھا تھا مگر خواجہ حسن نظامی نے انہیں ’ملا واحدی‘ کا خطاب دیا، اور اس خطاب کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اصل نام خطاب کے پردے میں پوشیدہ ہو گیا۔ تعلیم دلّی ہی میں پائی۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملاواحدی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے فضائی راستے سے دلّی سے کراچی آئے۔
73 سال تک اردو ادب کی خدمت کرنے کے بعد ملا واحدی دہلوی 22 اگست 1976ء کو 88سال کی عمر میں کراچی میں وفات پاگئے اور پاپوش نگر قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
ان کے مضامین کا مجموعہ ’’تاثرات‘‘ ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی اور معروف شخصیت شہید حکیم محمد سعید نے مرتب کرکے 1970ء میں ہمدرد اکیڈمی کراچی کے تحت شائع کیا تھا۔ اس کے ابتدائیے میں حکیم محمد سعید رقم طراز ہیں کہ ’’حضرتِ ملا وا حدی اُن عظیم انسانوں میں سے ہیں جن کا وجود روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کو جس نے بھی قریب سے دیکھا ہے وہ میرے الفاظ کو مبالغہ نہیں کہے گا۔ عالم، ادیب، صحافی، ناشر اور تاجر بہت ہوئے ہیں اور بہت ہوں گے، لیکن ملا واحدی کی بڑائی اُن کے کردار میں پوشیدہ ہے۔ اُن کے کردار کی بلندی کا سب سے بڑا ثبوت اُن کے قول و عمل کی ہم آہنگی ہے۔ جب کبھی آپ کو انسانیت کی طرف سے مایوسی ہو اور شر وفساد کا غلبہ نظر آئے، آپ واحدی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجائیے، یا کم سے کم اُن کی تحریروں کا مطالعہ کرلیجیے، مجھے یقین ہے کہ آپ کی مایوسی دم توڑ دے گی اور زندگی کا عزم جاگ اٹھے گا۔ واحدی صاحب 67سال سے لکھ رہے ہیں، اس عرصے میں ہزاروں صفحا ت اورسیکڑوں مضمون انہوں نے لکھے، دسیوں رسالے نکالے اور کئی کتابیں لکھیں۔ لیکن شاید نہیں، یقینا ان کے قلم سے کبھی کوئی لفظ کسی کی برائی میں نہیں نکلا۔ یہ آسان بات نہیں ہے، بہت مشکل اور بہت بڑی بات ہے۔ واحدی صاحب کی تحریر میں دین کی حکمت کے موتی بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ لیکن وہ وعظ ونصیحت کا رنگ اختیار نہیں کرتے، دھیمے دھیمے لہجے میں دین کی باتیں قاری کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کی زبان اتنی سادہ، اتنی دلکش اور اتنی فصیح ہوتی ہے کہ قاری بلاتامل ان کے استدلال کو قبول کرتا چلا جاتا ہے۔
واحدی صاحب کی زندگی اور ان کی تحریریں ہمارے لیے قابلِ تقلید ہیں، خصوصاً ہمارے نوجوان ادیبوں کو بات کہنے کا انداز اور لکھنے کا ڈھنگ واحدی صاحب سے سیکھنا چاہیے‘‘۔