”سندھ میں لوکل گورنمنٹ اداروں کی میعاد 30 اگست 2020ء کو ختم ہوگئی تھی، لیکن سندھ حکومت مختلف حیلے بہانے بناکر انتخابات کروانے سے بھاگ رہی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کررکھی ہیں، جن میں حلقہ بندی افسران اور حلقہ بندی اتھارٹیز کا نوٹیفکیشن بھی یکم جون2021ء کو کردیا گیا تھا جس میں سندھ حکومت سے کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کو لوکل کونسلوں کی تعداد، نقشہ جات و دیگر ضروری ڈیٹا مہیا کرے تاکہ الیکشن کمیشن صوبے میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر حلقہ بندی کا آغاز کرے۔ لیکن اس سب کے باوجود سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ حکومتِ سندھ کے رویّے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر منتخب افراد کو ایڈمنسٹریٹر لگاکر کام چلانے کی راہ پر گامزن ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔“
”فرقان میاں! یہی جمہوریت ہے، میرا مطلب ہے جمہوریت میں یہی کچھ ہوتا ہے، یعنی جس کے پاس اختیارات ہوتے ہیں وہی ناخدا بن جاتا ہے۔ یہ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔“
”اس میں نظام کی خرابی کہاں ہے! یہ تو فردِ واحد یا کسی ایک جماعت کی سوچ کا مسئلہ ہے۔ دنیا بھر کے متعدد ممالک نے اسی جمہوری نظام کے تحت ترقی کی ہے، خرابی صرف ہمارے ملک میں ہے۔“
”نہیں فرقان ایسی بات نہیں، جن ممالک کی جانب تم اشارہ کررہے ہو، وہاں بھی مسائل ہیں۔ اچھا اگر تمہاری بات مان بھی لی جائے اور تمہاری خواہش کے مطابق بلدیاتی انتخابات کروا لیے جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا! انتخابات کے نتیجے میں پھر یہی لوگ مسندِ اقتدار پر براجمان ہوجائیں گے۔ ظاہر ہے جنہوں نے پہلے کچھ نہ کیا وہ اب کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے! اس نظام کے تحت ہونے والے ہر انتخابات کے نتائج ماضی میں ہونے والے انتخابات سے مختلف نہیں ہوسکتے۔“
”آپ کی باتوں سے تو مایوسی ظاہر ہورہی ہے اختر صاحب۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کا مطالعہ وسیع ہے، اور میں یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کی نظر سیاسی منظرنامے پر بھی خوب ہے، لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ آئین کے مطابق وقت پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ہی اچھی اور دیانت دار قیادت ابھر کر سامنے آتی ہے، یعنی انتخابی عمل روکنے سے تبدیلی ناممکن ہے۔“
”فرقان تمہاری سوچ اچھی ہے، لیکن تم جس تبدیلی اور دیانت دار قیادت کی بات کررہے ہو وہ ہمارے ملک میں رائج نظامِ انتخابات کے تحت آنا ممکن نہیں۔ دیکھو اس نظام کے تحت اگر تبدیلی آسکتی تو آچکی ہوتی۔ کون نہیں جانتا کہ برسراقتدار جماعت نے تبدیلی کے نعرے لگا کر ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اقتدار ملنے کے بعد کیا ہوا؟ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہی پرانے لوگ، وہی مخصوص گھرانے، وہی چودھری اور وڈیرے… یعنی وہی پرانے چہرے نئے کپڑے بدل کر ایک مرتبہ پھر ہم پر مسلط ہوچکے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں، اس نظام کے تحت ایک ہزار مرتبہ بھی انتخابات کروا لیے جائیں عوام کا کچھ بھلا نہیں ہوگا۔“
”تو کیا پھر یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ آپ کی باتوں نے تو ناامید کردیا ہے۔“
”یہ میری باتیں نہیں، اصل حقائق ہیں۔ انتخابی نظام کی تبدیلی ہی ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہے۔“
”جمہوریت میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے، یعنی انتخابات ہوتے ہیں۔ آپ کس نظام کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں؟“
”دیکھو، تم بار بار جس جمہوریت کا ذکر کررہے ہو، یہ کیا ہے پہلے اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تم نے میری بات دھیان سے سن لی تو یقیناً اس ناکام نظام اور اس کے تحت ہونے والے انتخابات سے جڑے تمام اصل حقائق تمہارے سامنے عیاں ہوجائیں گے۔ جمہوریت صدارتی اور پارلیمانی نظام کے گرد گھومتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام قائم ہے جس میں تمام اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں اس نظام کے تحت ہر سیاسی جماعت ملک کے تقریباً تمام حلقوں میں درجنوں بلکہ سیکڑوں امیدوار کھڑے کرتی ہے، اس نظام کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نسل در نسل سے کامیاب ہورہے ہیں۔ یہ لوگ نہ اتنے ذہین ہوتے ہیں اور نہ ہی اس منصب کے اہل جس پر وہ براجمان ہوجاتے ہیں، بلکہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذاتی تعلقات اور مراسم اُن اربابِ اختیار سے ہوتے ہیں جن کی طاقت اور حیثیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ ہار جیت کے اس کھیل میں ہمیشہ ان خاندانوں کی ہی جیت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ہر سیاسی جماعت نہ چاہتے ہوئے بھی اُن خاندانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی دوڑ میں شامل رہتی ہے جو کسی اکھاڑے میں جیتنے والے پہلوان کی طرح غریب ہاریوں اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں سے ووٹ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس نظامِ انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ چناؤ سے زیادہ دو طاقتوں کے درمیان اپنی اپنی طاقت دکھانے کا وہ کھیل ہے جس میں ایک کے مقابلے میں دوسرا طاقتور اور ظالم ہی منتخب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں 74 سال سے کبھی جمہوری تو کبھی مارشل لا حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں، لیکن کسی حکومت نے بھی ملک میں رائج اِس نظامِ انتخاب کی تبدیلی پر کوئی کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں اہل اور صاف ستھرے لوگوں کو ایوان میں جانے کا راستہ ملتا۔ اور تو اور اس طریقہ انتخاب سے ایوان میں پہنچنے والے چاہے جتنے بھی کرپٹ ہوں، اُن کو کسی مؤثر طریقے سے ہٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ بڑھتی ہوئی کرپشن، چہروں کی تبدیلی، خاندانی سیاست کے سوا اس نظامِ انتخاب سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کروڑوں روپے لگاتے ہیں، یعنی سیکڑوں گاڑیاں، پیٹرول اور کھانے پینے پر آنے والے اخراجات فی سبیل اللہ نہیں ہوتے، یہ طریقہِ انتخاب لگائی گئی رقم کو دگنا کرنے کا وہ اکاؤنٹ ہے جس سے ڈبل واپسی ہوا کرتی ہے۔ حلقے کے لیے ملنے والے ترقیاتی فنڈز جیب میں، جبکہ منصوبے کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اتنی خطیر رقم لگائے گا وہ سود سمیت واپس بھی لے گا۔ پیسے کے بَل پر ہائی جیک ہونے والے اس نظام نے قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ نہ صرف ملکی ترقی میں کمی آئی بلکہ بے روزگاری، انتہا پسندی اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس گھسے پٹے انتخابی نظام سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے، تاکہ ووٹ کا تقدس بحال ہوسکے۔ ایسا نظام رائج کروانے کی کوشش کی جائے جس میں اثر رسوخ کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر حکمرانوں کا چناؤ ہوسکے۔ وہ نظام، جس میں ایک عام شہری آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے حقِ رائے دہی استعمال کرسکے، جو برادریوں کے چنگل سے آزاد ہو، جس میں طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں کمزور پر ظلم نہ کرسکے۔ میرے نزدیک یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اہلیت کی بنیاد پر پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔“
”آپ نے نظام کے خلاف تو خاصی لمبی بات کی لیکن کوئی تجویز نہیں دی۔ بات میں وزن تو تب ہو جب حل بتایا جائے۔“
”ہاں ہاں یہ بھی بتاتا ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں رائج نظامِ انتخاب کی جگہ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کروائے جائیں۔ دنیا بھر میں اس نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی سامنے ہے۔ آسٹریلیا، ہنگری، شمالی کوریا، جرمنی، فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز یہی طریقہ انتخاب ہے، اور پھر برادر ملک ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی ترقی کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمرانوں کی زبانیں خشک ہوتی ہیں، وہاں پر بھی متناسب نمائندگی کے تحت ہی انتخابات ہوتے ہیں۔ اس طریقہ انتخاب کی اہم بات یہ ہے کہ عوام شخصیت کو نہیں بلکہ جماعت یا اس کے منشور کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس نظام میں کسی شخص کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی کوئی ذاتی حیثیت نہ ہو تو وہ کس طرح کسی بھی دوسرے شخص پر اپنی مرضی مسلط کرسکتا ہے؟ اس نظام میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن کو انتخابات سے قبل ہی بھجوا دی جاتی ہے۔ اگر ہم موجودہ حکمرانوں کو ملنے والے مینڈیٹ کی بات کریں تو 2018ء کے انتخابات کے نتائج کچھ یوں تھے کہ پی ٹی آئی کو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملے، جبکہ نون لیگ نے بھی ایک کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ پیپلز پارٹی ستّر سے پچھتر لاکھ ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ یوں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد حزب اختلاف کو ملنے والے ووٹوں سے کم رہی۔ چونکہ موجودہ نظام میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد دیکھی جاتی ہے، اس لیے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لینے والی جماعت بھی 22 کروڑ لوگوں پر مسلط ہوجاتی ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ نشست کا فیصلہ ہار جیت پر ہوتا ہے، یعنی اگر کسی شخص نے ایک لاکھ ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نے 99999 ووٹ لیے ہوں، تو ایک ووٹ کے فرق سے جیت پہلے شخص کی ہوگی۔ ایک ووٹ زیادہ لینے والے کے مینڈیٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جبکہ اس کے برعکس متناسب نمائندگی کے تحت ہونے والے انتخابات میں جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی جماعت نے تیس فیصد ووٹ حاصل کیے تو اسے تیس نشستیں دے دی جاتی ہیں۔ اس نظام میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہر ووٹ اپنی ایک طاقت رکھتا ہے۔ اس نظام میں ووٹ ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ شمار کیے جانے والے ووٹوں کے تحفظ کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اس نظام کے تحت اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریقہ انتخاب کو رائج کرنے کے سلسلے میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک سوچنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حالات کو دیکھتے ہوئے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اسی نظامِ انتخاب کے تحت سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مجھے امید ہے میری جانب سے کی جانے والی باتیں تمہارے نظریات کو تبدیل کرنے میں خاصی مددگار ثابت ہوں گی۔“