ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی‘ نفسیاتی ’اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔
ہمیں ہر چیز فوری طور پر چاہیے،خواہ وہ توجہ ہو،ضروریات ہویا،کسی پراپرٹی کا قبضہ۔فوری تسکین ہماری ثقافت بنتی جارہی ہے
.عجلت پسندی کا کلچر معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دے رہا ہے
معاشرے میں عدم برداشت اب کلچر بنتا جارہا ہے،عفو و درگرز،تحمل اوربردباری کا مادہ مفقود ہوکر رہ گیاہے۔ہر شخص ماتھے پر بل ڈالے جھنجھلایا اور غصے سے بھرا ہوا ملے گا،آپ کو تیوریاں چڑھی ہوئی ہی ملیں گی۔ گھر ہو یا دفتر پبلک مقامات ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ آپ کو عدم برداشت کے مناظر جابجا نظر آئیں گے۔لہجوں کی کرختگی اور پیشانیوں پر پڑے بل معاشرے میں وبا کی طرح سرایت کرنے جانے والی عدم برداشت کی روش کی غماض ہے،زندگی کے کسی بھی دائرے میں آپ کو فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنی غلطی تسلیم کرنا نظر نہیں آئے،ہر شخص کے نزدیک وہ خود ٹھیک اور سامنے والا قصور وار ہے ،سوری کہہ کر اپنی غلطی تسلیم کرنے کی کوئی روایت ہم نے ڈالی ہے اور نہ ہی ہم اس کا حوصلہ رکھتے ہیں، میری اس بات پر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں،کس میں کتنی عاجزی،انکساری اور برداشت ہے آپ کو منٹوں میں پتا چل جائے گا۔اگر آپ کسی کی تحمل مزاجی،برداشت اور اس کی بردباری چیک کرنا چاہتے ہیں تو ذرا اس کی ذات کے حوالے سے کوئی تنقیدکر کے دیکھ لیجیے،ذات تو دور کی بات آپ صرف ان کی کسی رائے یا خیال سے اپنا اختلاف ان پر عیاں کیجیے پھر ان کی بردباری کا تماشا دیکھیے۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی‘ نفسیاتی ’اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔
زیر نظر مضمون میں ہم نے معاشرے میں فروغ پذیر عدم برداشت کے،ذہنی،دماغی،جسمانی،اعصابی،نفسیاتی،سماجی اوردینی و اخلاقی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے،کیا عجب کہ ہم ان وجوہات کے سد باب کی کوئی سبیل پیدا کرپائیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے اندر ہی برداشت اور بردباری اور تحمل مزاجی پیدا کر سکیں۔عدم برداشت کی وجوہات میں بے صبری یا عجلت پسندی،حساسیت وجذباتیت،مایوسی،اناپرستی،مسلکی مناقشہ آرائی،کم علمی،سیلف امیج اور سیلف اسٹیم کا فقدان،اسلامی تعلیمات سے دوری،موروثیت،موڈ ڈس آرڈر،ڈوپامن، ذہنی سانچہ Mindset ،بدگمانی،اینگزائٹی دس آرڈر،توقعات،عدم کتھارسس، منفی سوچ،کبرِ علم Arrogance of knowledge،زاویہ نگاہAttitude ،سماجی کلچر،نرگسیت یا خود پسندی،غذائیں،معاشی،معاشرتی،نفسیاتی،عائلی ازدواجی مسائل اورغصیلی طبعیت شامل ہیں۔
بے صبری یا عجلت پسندی:
کچھ تو بے صبری اور عجلت پسندی داخلی طورپر انسان کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے اورکچھ خارجی عوامل بے صبری کی عادت کو فروغ دیتے ہیں۔آج کی دنیا تیز رفتاری سے حرکت پذیر ہے ہمیں ہر چیز فوری طور پر چاہیے،خواہ وہ توجہ ہو،ضروریات ہویا،کسی پراپرٹی کا قبضہ۔فوری تسکین ہماری ثقافت بنتی جارہی ہے، ہم ہر کام میں جلدی کرنے کے عادی ہیں۔اس لیے ہماری تمام سرگرمیوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے ، ہم تیزی سے عمارتیں بناتے ہیں ،تیزی سے رشتے جوڑتے ہیں ، تیزی سے کسی کے قریب جاتے ہیں اور اتنی ہی تیزی سے رشتے ختم کردیتے ہیں ، ہمارے پاس فاسٹ فوڈ ہوتا ہے ، اور یقینی طور پر ہماری زندگی کی بہت سی دوسری ضروریات پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پوری ہو رہی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چیزوں کی تیزرفتاری کی وجہ سے لوگوں کی توقعات بدل گئی ہیں۔ اگر کوئی چیز معمول سے ہٹ جائے تو لوگ بے صبر ہو جاتے ہیں۔بےصبری اور عجلت پسندی ذہنی دباؤ اورعدم برداشت کی ایک اہم وجہ بن چکی ،صبر و تحمل کی کمی ہمارے معاشرے میں سرایت کرگئی ہے اس کی بینادی وجہ ہمارے طرزِ زندگی میں تبدیلی ہے۔اس بے صبری کی عادت کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
حساسیت وجذباتیت:
کہتے ہیں کہ احساس و جذبات زندگی کی علامت اور حرارت ہے ،جذبات کے بغیر نہ آرٹ ہے نہ شاعری، مگراب اس کو کیا کیجیے کہ جب یہ اپنی حد سے باہر نکل جائے۔ہر انسان کی زندگی میں عمر کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں اسے جذبات اپیل کرتے ہیں وہ عقل کے بجائے جذبات کے زیر اثر فیصلے کرتا ہے جب کہ بعض افراد فطری طور پر ہی حساس اور جذبات پسند ہوتے ہیں،بعض افراد کے اندر حساسیت اور جذباتیت بچپن کی محرومیوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے،بچپن میں اگر انسان کی بنیادی ضروریات اور نفسیاتی ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو بڑے ہونے پر یہ حساسیت اور جذباتیت کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے اور اگر انسان کی اندر حساسیت اور جذباتیت حد سے بڑھ جائے تو یہ اس کی طبعیت میں عدم برداشت پیدا کرتی ہے۔
مایوسی:
کسی بھی قسم کی خواہش کی عدم تسکین ہمارے اندر مایوسی کی کیفیت کو جنم دیتی ہے ، مایوسی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کا ردعمل ہے، اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر پانچ میں سے چار فرد مایوس دکھے گا۔خاندان سے لے کر معاشرہ معاشرے سے لے کر حکومت کی سطح تک ہر دائرے میں جب انسان مایوسی کا سامنا کرتا ہے تو عدم برداشت کا رجحان فروغ پاتا ہے۔
اناپرستی:
آج کے انسان نے اپنے گرد انا کی اتنی اونچی فصیل کھینچ دی ہے کہ باہر کا ہر منظر اس کی نگاہوں سے اوجھل ہے،اس کی اس جھوٹی انا نے زندگی کا چین اور سکون برباد کردیا ہے، ہم اپنی انا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں،اسی انا نے شیطان کو راندہ درگاہ کیا تھا،اور بد قسمتی سے انسان ابھی تک اپنی انا کےبت کو پوج رہا ہے،یہ انا وہ چیز ہے جو حق کوقبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے،”میں نہ مانوں” اور “ہم چومن دیگرے نیست”اسی انا پرستی کے مظاہر ہیں۔
مسلکی مناقشہ آرائی:
معاشرے میں عدم براشت کے کلچر کو فروغ دینے میں بد قسمتی سے ہمارے بڑے بڑے مسلکی مکتبہ فکر کا بھی ہاتھ ہے جو دوسرے مسلک کے افراد کو کافر اور زندیق قراردینے سے نہیں تھکتے جو اپنے مسلک سے ہٹ کر دوسرے مسلک کے علمائے کی کتابیں تک پڑھنے پر پابندی عاید کرتے ہیں۔
کم علمی:
نیم حکیم خطرہ جان ،نیم ملا خطرہ ایمان کی طرح کم علمی بھی ایک عذاب ہے،ہندی کا محاورہ ہے کہ اَدھ جل گگری چھلکت جائے،علم تھوڑا ہوتو بندے کو بہت تکلیف میں رکھتا ہے،اسی لیے انگریزوں نے بھی Little Knowledge is Dangerousکا محاورہ تخلیق کیا ہے۔آج ہمارےمعاشرے میں پڑھنے پڑھانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے،کچھ افراد کے پاس علم کا ذریعہ سنی سنائی باتیں،یوٹیوب کی ویڈیوز،اخبارات کی جھوٹی ،سچی خبریں،تجزیے،تبصرے اورسوشل میڈیا رہ گیاہے،ایسے میں اگر کوئی علمی بات کی جائے تو سامنے والا مذکورہ ذرائع سے حاصل ہونے والے اپنے مبلغ علم کی روشنی میں کسی کی رائے کو جانچتا ہے اور اس پر وہ رائے فٹ نہ ہوتی ہو تو اسے مسترد کردیتا ہے،آج کل کے بچے اپنے بڑوں کا مذاق اسے لیے اڑاتے ہیں کہ وہ اپنے تھوڑے علم کی روشنی میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔کا ش وہ یہ بات جان سکتے کہ:
؎علم کی ابتدا ہے ہنگامہ….علم کی انتہا ہے خاموشی
سیلف امیج اور سیلف اسٹیم کا فقدان:
کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی جتنی عزت کرتا ہے دوسرے بھی اس کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں،معاشرے میں عدم برداشت کی ایک وجہ فرد کے اندر سیلف امیج (اپنے اندر خود اپنی ذات کی اچھی یا بری تصویر) اور سیلف اسٹیم (توقیرِ ذات)کا فقدان ہے،میں نے کئی ایگزیکٹو سطح کے افراد کو خاکروبوں سے الجھتے ہوئے دیکھا ہے۔
اسلامی تعلیمات سے دوری:
عدم برداشت کی اہم وجہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی تعلیمات سے انحراف اور دوری بھی ہے ،جب “جو مجھ پر زیادتی کرے میں اسے معاف کردوں”اور “جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں”کی واضح تعلیمات کے باوجود “جفا کروگے جفاکریں گے،وفاکروگے وفا کریں گے”اوراینٹ کا جواب پتھر سے دینے والی ذہنیت ہوگی تو عدم برداشت تو لامحالہ بڑھے گی۔ہم اگر صرف یہ بات یاد رکھیں کہ : ’’پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘تو برداشت اور عدم برداشت کے بہت سارے مسائل ازخود حل ہوجائیں۔
مورثیت:
بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ ہر وقت ان کا موڈ آف رہتا ہے،ان کی افتاد طبع ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اکھڑاکھڑے سے رہتے ہیں ان سے بات کریں تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑیں،ایسے افراد میں عدم برداشت کا مادہ موروثی طور پر ہوتا ہے۔
ذہنی سانچہ Mindset:
اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور دوسروں ہی کو موردِ الزام ٹھیرا ہمارا عمومی مزاج بن چکا ہے،آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی ہے کہ ہمارے اس مزاج کی تشکیل ہمارے ہوش سنبھالنے سے قبل ہی ہمارے والدین نے کردی تھی۔ ہم جب ابھی ڈیڑھ دو سال ہی کے ہوتے ہیں اور گھنٹوں کے بل چل کر جب ہم پائوں کے سہارے دو چار قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں جب ہم سامنے کی کسی دیوار یا پلنگ سے ٹکراتے ہیں تواس وقت پلنگ یا دیوار کو یہ کہہ کر دوچار تھپڑ رسید کرتے ہیں کہ “میرے بیٹے کو چوٹ لگائی تم نے”۔والدین کا یہ طرز عمل زندگی بھر کے لیے ذہن میں یہ بات راسخ کردیتی ہے کہ میں تو ٹھیک ہوں سامنے والا غلط ہے۔جب سامنے والا غلط ہوتو کوئی کیوں کر اپنی غلطی تسلیم کرے؟
نرگسیت یا خود پسندی:
خودپسندی یا نرگسیت ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ ماہرین کے مطابق خودپسندی کا شکار انسان اپنی ہی ذات میں مرتکز رہ کر دنیا کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر اس کی شخصیت کی خودغرضی، تکبر اور انتہا کی بڑھی ہوئی لالچی طبیعت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ذہنی عارضہ ہے جس کا علاج تب ہی ممکن ہے جب انسان خود اپنے بارے میں سوچے اور اپنا ذاتی احتساب کرے۔
کبرِ علم Arrogance of knowledge:
یہاں ضمناً اس امر کا بھی اظہار مناسب محسوس ہوتا ہے کہ وہ افراد جوSelf Developmentکے حوالے سے مختلف کورسز کرچکے ہیں،انسانی رویوں اور اس کی تشکیل پر جن کی گہری نگاہ ہوتی ہے , جو مائنڈ سائنسز سے وابستہ ہوتے ہیں،یا جو کسی بھی پیشہ ورانہ شعبےسے وابستہ ہیں،یا جنہوں نے فلسفے کی دوچار کتابیں پڑھی ہوں ان میں بعض افراد کے اندر غیر محسوس طریقے سےایک طرح کا کبرِ علم(Arrogance of Knowledge) جنم لیتا ہے ،ان کے ذہنوں میں غیر محسوس طریقے سے یہ خیال راسخ ہو جاتا کہ کہ ان کی فکر ہی درست ہے باقی سب کج فہمی و کج فکری کا شکار ہیں،ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ انسان کو بطور انسان ٹریٹ کریں،وسعتِ نظری پیدا کریں اور اس امر کو تسلیم کریں کے معاشرہ ازل سے ہی ایسا تھا کہ کچھ کا Intellect لیول ہائی ہوتا ہے ،کچھ درمیانی سطح پر ہوتے ہیں اور کچھ عوامی سطح پر اور ابد تک یہی صورتحال رہے گی.ایسے افراد کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جن ذہنی رویوں اور مثبت اور منفی سوچ کو ہم نہیں بدل سکتے انہی کے ساتھ زندگی گزارنا ذہنی پختگی کی علامت ہے:
Maturity is the ability to live with things we cannot change