مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟
برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ایسا ہی سمجھتے ہوں گے کہ مسلمان کا درجہ کافر سے اونچا ہے۔ مسلمان کو خدا پسند کرتا ہے اور کو ناپسند کرتا ہے۔ مسلمان خدا کے ہاں بخشا جائے گا اور کافر کی بخشش نہ ہوگی۔ مسلمان جنت میںجائے گا اور کافر دوزخ میں جائے گا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ مسلمان اور کافر میں اتنا بڑا فرق آخر کیوں ہوتا ہے؟ کافر بھی آدم کی اولاد ہے اور تم بھی۔ کافر بھی ایسا ہی انسان ہے جیسے تم ہو۔ وہ بھی تمہارے ہی جیسے ہاتھ‘ پائوں‘ آنکھ‘ کان رکھتا ہے۔ وہ بھی اسی ہوا مین سانس لیتا ہے۔ یہی پانی پیتا ہے۔ اسی زمین پر بستا ہے۔ یہی پیداوار کھاتا ہے۔ اسی طرح پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح مرتا ہے۔ اسی خدا نے اس کو بھی پیدا کیا ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ پھر آخر کیوں اس کا درجہ نیچا ہے اور تمہارا اونچا؟ تمہیں کیوں جنت ملے گی اور وہ کیوں دوزخ میں ڈالا جائے گا؟
کیا صرف نام کا فرق ہے؟
یہ بات ذرا سوچنے کی ہے۔ آدمی اور آدمی میں اتنا بڑا فرق صرف اتنی سی بات سے تو نہیں ہو سکتا کہ تم عبداللہ اور عبدالرحمن اور ایسے ہی دوسرے ناموں سے پکارے جاتے ہو اور وہ دین دیال اور کرتار سنگھ اور رابرٹسن جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے‘ یا تم ختنہ کراتے ہو اور وہ نہیں کرتا‘ یا تم گوشت کھاتے ہو اور وہ نہیں کھاتا۔ اللہ تعالیٰ جس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جو سب کا پروردگار ہے ایسا ظلم تو کبھی نہیں کرسکتا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی مخلوقات میں فرق کرے اور ایک بندے کو جنت میں بھیجے اور دوسرے کو دوزخ پہنچا دے۔
اصلی فرق… اسلام اور کفر:
جب یہ بات نہیں ہے تو پھر غور کرو کہ دونوں میں اصلی فرق کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں میں اصلی فرق اسلام اور کفر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسلام کے معنی خدا کی فرماں برداری کے ہیں اور کفر کے معنی خدا کی نافرمانی کے۔ مسلمان اور کافر دونوں انسان ہیں‘ دونوں خدا کے بندے ہیں‘ مگر ایک انسان اس لیے افضل ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے مالک کو پہچانا ہے‘ اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کے انجام سے ڈرتا ہے اور دوسرا انسان اس لیے اونچے درجے سے گر جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کو نہیں پہچانتا اور اس کی فرماں برداری نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے مسلمان سے خدا خوش ہوتا ہے اور کافر سے ناراض۔ مسلمان کو جنت دینے کا وعدہ کرتا ہے اور کافر کو کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالوں گا۔
فرق کی وجہ… علم اور عمل:
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کافر سے جدا کرنے والی صرف دو چیزیں ہیں ایک علم اور دوسری عمل۔ یعنی پہلے تو اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ اس کی مرضی پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ کن کاموں سےوہ خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے؟ پھر جب یہ باتیں معلوم ہو جائیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مالک کا غلام بنا دے۔ جو مالک کی مرضی ہو اس پر چلے اور جو اپنی مرضی ہو اس کو چھوڑ دے۔ اگر اس کا دل ایک کام کو چاہے اور مالک کا حکم اس کے خلاف ہو تو اپنے دل کی بات نہ مانے اور مالک کی بات مان لے۔ اگر ایک کام اس کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور مالک کہے کہ وہ برا ہے تو اسے برا ہی سمجھے اور اگر دوسرا کام اسے برا معلوم ہوتا ہے مگر مالک کہے کہ وہ اچھا ہے تو اسے اچھا ہی سمجھے‘ اگرایک کام میں سے نقصان نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے کیا جائے تو چاہے اس میں جان اور مال کا کتنا ہی نقصان ہو‘ وہ اس کو ضرور کرکے ہی چھوڑے۔ اگر دوسرے کام میں اس کو فائدہ نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے نہ کیا جائے تو خواہ دنیا بھر کی دولت ہی اس کام میں کیوں نہ ملتی ہو‘ وہ اس کام کو ہرگز نہ کرے۔
یہ علم اور یہ عمل ہے جس کی وجہ سے مسلمان خدا کا پیارا بندہ ہوتا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور خدا اس کو عزت عطا کرتاہے۔ کافر یہ علم نہیں رکھتا اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا عمل بھی یہ نہیں ہوتا‘ اس لیے وہ خدا کا جاہل اور نافرمان بندہ ہوتا ہے اور خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
اب خود ہی انصاف سے کام لے کر سوچو کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو‘ مگر ویسا ہی جاہل ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے اور ویسا ہی نافرمان ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے تو محض نام اور لباس اور کھانے پینے کے فرق کی وجہ سے وہ کافر کے مقابلے میں کس طرح افضل ہو سکتا ہے اور کس بنا پر دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اسلام کسی نسل یا خاندان یا برادری کا نام نہیں ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو آپ ہی آپ مل جائے۔ یہاں یہ بات نہیں ہے کہ برہمن کا لڑکا چاہے کیسا ہی جاہل ہو اور کیسے ہی برے کام کرے مگر وہ اونچا ہی ہوگا کیوں کہ برہمن کے گھر پیدا ہوا ہے اور اونچی ذات کا ہے اور چمار کا لڑکا چاہے علم اور عمل کے لحاظ سے ہر طرح اس سے بڑھ کر ہو‘ مگر وہ نیچا ہی رہے گا کیوں کہ چمار کے گھر پیدا ہوا ہے اور کمین ہے۔ یہ تو خدانے اپنی کتاب میں صاف فرما دیا ہے کہ: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاﷲِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات 13:49)
یعنی جو خدا کو زیادہ پہچانتا ہے اور اس کی زیادہ فرماں برداری کرتا ہے‘ وہی خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بت پرست کے گھر پیدا ہوئے‘ مگر انہوں نے خدا کو پہچانا اور اس کی فرماں برداری کی‘ اس لیے خدا نے ان کو ساری دنیا کا امام بنا دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا لڑکا ایک پیغمبر کے گھر پیدا ہوا مگر اس نے خداکو نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی‘ اس لیے خدا نے اس کے خاندان کی کچھ پروا نہ کی اور اسے ایسا عذاب دیا جس پر دنیا عبرت کرتی ہے۔ پس خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا کے نزدیک ا نسان اور انسان میں جو کچھ بھی فرق ہے وہ علم اور عمل کے لحاظ سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی رحمت صرف انہی کے لیے ہے جو اس کو پہچانتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو جانتے ہیں اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ جن لوگوں میںیہ صفت نہیں ہے ان کے نام خواہ عبداللہ اور عبدالرحمن ہوں یا دین دیال اور کرتار سنگھ‘ خدا کے نزدیک ان کے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور ان کو اس کی رحمت سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔
آج مسلمان ذلیل کیوں ہے؟
بھائیو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اور تمہارا ایمان ہے کہ مسلمان پر خدا کی رحمت ہوتی ہے‘ مگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو‘ کیا خدا کی رحمت پر تم پر نازل ہو رہی ہے؟ آخرت میں جو کچھ ہوگا وہ تو تم بعد میں دیکھو گے‘ مگر اس دنیا میں تمہارا جو حال ہے اس پر نظر ڈالو۔ اس ہندوستان (خیال رہے کہ یہ خطبات ہندوستان کی تقسیم سے پہلے 1938ء کے ہیں۔) میں تم 9 کروڑ ہو‘ تمہاری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر ایک ایک شخص ایک ایک کنکری پھینکے تو پہاڑ بن جائے۔ لیکن جہاں اتنے مسلمان موجود ہیں وہاں کفار حکومت کر رہے ہیں۔ تمہاری گردنیں ان کی مٹھی میں ہیں کہ جدھر چاہیں تمہیں موڑ دیں۔ تمہارا سر‘ جو خداکے سوا کسی کے آگے نہ جھکتا تھا‘ اب انسانوں کے آگے جھک رہا ہے۔ تمہاری عزت جس پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی ہمت نہ کرسکتا تھا‘ آج وہ خاک میں مل رہی ہے۔ تمہارا ہاتھ جو ہمیشہ اونچا ہی رہتا تھا‘ اب وہ نیچا ہوتا ہے اور کافر کے آگے پھیلتا ہے۔ جہالت اور افلاس اور قرض داری نے ہر جگہ تم کو ذلیل و خوار کر رکھا ہے۔ کیا یہ خدا کی رحمت ہے؟ اگر یہ رحمت نہیںہے‘ بلکہ کھلا ہوا غضب ہے تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا غضب نازل ہو۔ مسلمان اور ذلیل ہو۔ مسلمان اور غلام ہو۔ یہ تو ایسی ناممکن بات ہے جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی۔ جب مسلمان خدا کا محبوب ہوتا ہے تو خدا کا محبوب دنیا میں ذلیل و خوار کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا نعوذباللہ تمہارا خدا ظالم ہے کہ تم تو اس کا حق پہچانو اور اس کی فرماں برداری کرو اور وہ نافرمانوں کو تم پر حاکم بنا دے اور تم کو فرماں برداری کے معاوضے میں سزا دے؟ اگر تمہارا ایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلت سے نہیں مل سکتا تو پھر تمہیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو اسی میں کوئی غلطی ہے۔ تمہارا نام سرکاری کاغذات میں تو ضرور مسلمان لکھا جاتا ہے مگر خدا کے ہاں انگریزی سرکار کے دفتر کی سند پر فیصلہ نہیں ہوتا۔ خدا اپنا دفتر الگ رکھتا ہے‘ وہاں تلاش کرو کہ تمہارا نام فرماں برداروں میں لکھا ہوا ہے یا نافرمانوں میں؟
خدا نے تمہارے پاس کتاب بھیجی‘ تاکہ تم اس کتاب کو پڑھ کر اپنے مالک کو پہچانو اور اس کی فرماں برداری کا طریقہ معلوم کرو۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ خدا نے اپنے نبیؐ کو تمہارے پاس بھیجا تاکہ وہ تمہیں مسلمان بننے کا طریقہ سکھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سکھایا ہے؟ خدا نے تم کو دنیا اور آخرت میں عزت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا‘ کیا تم اس طریقے پر چلتے ہو؟ خدا نے کھول کھول کر بتایاکہ کون سے کام ہیں جن سے انسان دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے‘ کیا تم ایسے کاموں سے بچتے ہو؟ بتائو تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر تم مانتے ہو کہ نہ تو تم نے خدا کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی زندگی سے علم حاصل کیا اور نہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کی‘ تو تم مسلمان ہوئے کب کہ تمہیں اس کاا جر ملے؟جیسے تم مسلمان ہو ویسا ہی اجر تمہیں مل رہا ہے اور ویسا ہی اجر آخرت میں بھی دیکھو لو گے۔
میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر‘ قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے؟ کافر نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپؐ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے۔ اگر مسلمان بھی اسی کی طرح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا؟ کافر خدا کی مرضی پر چلنی کے بجائے اپنی مرضی پر چلتا ہے۔ مسلمان بھی اگر اُسی کی طرح خودسر اور آزاد ہو‘ اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو‘ اسی کی طرح خدا سے بے پروا اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ (خدا کا فرماں بردار) کہنے کا کیا حقہے؟ کافر حلال اور حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ یا لذت دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے‘ چاہے خدا کے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام۔ یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا؟ غرض یہ ہے کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کورا ہو جتنا کافر ہوتا ہے اور جب مسلمان بھی وہ سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلے میں کیوں فضیلت حاصل ہو اور اس کا حشر بھی کافرجیسا کیوں نہ ہو؟ یہ ایسی بات ہے جس پر ہم سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
غور کا مقام:
میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں۔ نہیں‘ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ میں خود بھی سوچتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ سوچے کہ ہم آخر خدا کی رحمت سے کیوں محروم ہو گئے ہیں؟ ہم پر ہر طرف سے کیوں مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں؟ جن کو ہم کافر‘ یعنی خدا کے نافرمان بندے کہتے ہیں وہ ہم پر ہر جگہ غالب کیوں ہیں اور ہم جو فرماں بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ہر جگہ مغلوب کیوں ہو رہے ہیں؟
اس کی وجہ پر میں نے جتنا زیادہ غور کیا‘ اتنی ہی مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ ہم میں اور کفار میں بس نام کا فرق رہ گیا ہے‘ ورنہ ہم بھی خدا سے غفلت اور اس سے بے خوفی اور اس کی نافرمانی میں کچھ ان سے کم نہیں ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہم میں اور ان میں ضرورت ہے‘ مگر اس کی وجہ سے ہم کسی اجر کے مستحق نہیںہیں‘ بلکہ سزا کے مستحق ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور پھر اس کے ساتھ وہ برتائو کرتے ہیں جو کافر کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں اور پھر ان کی پیروی سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کافر بھاگتا ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ جھوٹے پر خدا نے لعنت کی ہے‘ رشوت کھانے اور کھلانے والے کو جہنم کایقین دلایا ہے‘ سود کھانے اور کھلانے والے کو بدترین مجرم قرار دیا ہے‘ غیبت کو اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر بتایاہے‘ فحش اور بے حیائی اور بدکاری پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے مگر یہ جاننے کے بعد بھی ہم کفار کی طرح یہ سب کام آزادی کے ساتھ کرتے ہیں‘ گویا ہمیں خدا کا کوئی خوف ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو کفار کے مقابلے میںتھوڑے بہت مسلمان بنے ہوئے نظر آتے ہیں اس پر ہمیں انعام نہیں ملتا بلکہ سزا دی جاتی۔ کفار کا ہک پر حکمران ہونا‘ ہر جگہ ہمارا زِک اٹھانا اسی جرم کی سزا ہے کہ ہمیں اسلام کی نعمت دی گئی تھی اور پھر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔
عزیزو! آج کے خطبے میں جو کچھ میں نے کہا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم کو ملامت کروں۔ میں ملامت کرنے نہیں اٹھا ہوں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کھویا گیا ہے اس کو پھر سے حاصل کرنے کی کچھ فکر کی جائے۔ کھوئے ہوئے کو پانے کی فکر اسی وقت ہوتی ہے جب انسان کو معلوم ہو کہ اس کے پاس کیا چیز کھوئی گئی ہے اور وہ کیسی قیمتی چیز ہے۔ اسی لیے میں تم کو چونکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر تم کو ہوش آجائے اور تم سمجھ لو کہ حقیقت میں بہت قیتی چیز تمہارے پاس تھی‘ تو تم پھر سے اس کے حاصل کرنے کی فکر کرو گے۔
حصولِ علم کی فکر:
میں نے پچھلے خطبے میں تم سے کہاتھا کہ مسلمان کو مسلمان ہونے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلام کا علم ہے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کی تعلیم کیا ہے‘ رسول پاکؐ کا طریقہ کیا ہے‘ اسلام کس کو کہتے ہیں اور کفر و اسلام میں اصلی فرق کن باتوں کی وجہ سے ہے۔ اس علم کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا‘ مگر افسوس ہے کہ تم اسی علم کو حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک تم کو احساس نہیں ہوا کہ تم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو۔
میرے بھائیو! ماں اپنے بچے کو دودھ بھی اس وقت تک نہیں دیتی جب تک کہ وہ رو کر مانگتانہیں۔ پیاسے کو جب پیاس لگتی ہے تو وہ خود پانی ڈھونڈتا ہے اور خدا اس کے لیے پانی پیدا بھی کردیتا ہے۔ جب تم کو خود ہی پیاس نہ ہو تو پانی سے بھرا ہوا کنواں بھی تمہارے پاس آجائے تو بے کار ہے۔ پہلے تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ دین سے ناواقف رہنے میں تمہارا کتنا بڑا نقصان ہے۔ خدا کی کتاب تمہارے پاس موجود ہے‘ مگر تم نہیں جانتے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس سے زیادہ نقصان کی بت اور کیا ہو سکتی ہے؟ نماز تم پڑھتے ہو‘ مگر تمہیں نہیں معلوم کہ اس نمازمیں تم اپنے خدا کے سامنے کیا عرض کرتے ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ کلمہ جس کے ذریعے سے تم اسلام میں داخل ہوتے ہو‘ اس کے معنی تک تم کو معلوم نہیں اور تم نہیں جانتے کہ اس کلمے کو پڑھنے کے ساتھ ہی تم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ایک اس سے بھی بڑھ کر کوئی نقصان ہو سکتا ہے؟ کھیتی کے جل جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے‘ روزگار نہ ملنے کا نقصان تم کو معلوم ہے‘ اپنے مال کے ضائع ہو جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے‘ مگر اسلام سے ناواقف ہونے کا نقصان تمہیں معلوم نہیں۔ جب تم کو اس نقصان کا احساس ہوگا تو تم خود آکر کہو گے کہ ہمیں اس نقصان سے بچائو اور جب تم خود کہو گے کہ تو ان شاء اللہ تمہیں اس نقصان سے بچانے کا بھی انتظام ہو جائے گا۔
(جاری ہے)