وہ دانت پیس کر غرائی ’’اماں جی! اس کھانے میں زہر نہیں ہے۔ کھانا ہے تو کھا لو۔‘‘ وہ انتہائی شدید غصے میں تھی۔ اس کے ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے۔ اس نے اماں جی کے آگے کھانا پٹخ دیا اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کھانا کھانے میں مشغول ہوگئی۔
اماں جی کے بیٹے کے چہرے پر بھی بے زاری کے تاثرات گہرے تھے۔ وہ گاہے بگاہے ماں پر شعلہ بار نظر ڈالنا بھول نہیں رہا تھا۔ اماں جی نے سہم کر کھانا کھانا شروع کردیا تھا۔ میں ان کی بالکل برابر والی میز پر اکیلی بیٹھی تھی۔ میری آنکھیں رو رو کر بری طرح سوج چکی تھیں۔ میں اڑتالیس گھنٹے کا سفر کر کے پچھلی رات ہی پاکستان پہنچی تھی۔ میرے والدین شدید علیل تھے۔ میں اباجی کی بیماری کے باعث اسپتال میں ان کے ساتھ مقیم تھی، مجھے اباجی کے چہرے پر کھنڈی موت کی زردی نے دہلا دیا تھا۔ مجھے عزرائیل کی گہری چاپ سنائی دے رہی تھی۔ میرے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ میرا جسم دکھ رہا تھا اور میری روح کو رلاتی پھر رہی تھی۔
اباجی کے اصرار پر میں اسپتال میں واقع کنٹین میں کھانا کھانے آئی تھی۔ میرے سامنے نعمت موجود تھی مگر بھوک ندارد تھی۔ میں زبردستی خود کو سمجھا بجھا کر کھانا کھلا رہی تھی۔۔ میری توجہ غیر ارادی طور پر ہی اس خاندان کی طرف مبذول ہوگئی۔ میں نے اماں جی کی جانب غور سے دیکھا مجھے ان کے کھانے کے طریقے سے ایک غیر معمولی سا احساس ہوا۔ غیر ارادی طور پر میری توجہ اس خاندان کے بات چیت پر مبذول ہوگئی۔
بہو بہت ہی تلخ لہجے میں کہہ رہی تھی ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کیا دھرا تمھاری بہن کا ہے۔ وہی تمھاری ماں کو سکھاتی پڑھاتی رہتی ہے۔ ارے بھلا کیسے کوئی باتھ روم جانا بھول سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو سنبھالوں یا تمھاری ماں کے گند۔ سونے پر سہاگہ اماں جی ہر وقت مجھ پر شک کرتی رہتی ہیں کہ میں انہیں زہر دے رہی ہوں۔ ارے بھلا ان کے پاس کون سا خزانہ ہے جو میں نے انھیں مار کر لوٹ لینا ہے۔‘‘
بیٹا بے زاری سے بولا ’’بس کر، نہ میرا دماغ کھا۔ آگے ہی اسپتال کے بل نے میری مت مار رکھی ہے۔ بس اب نہیں دوبارہ اتنے مہنگے اسپتال میں آنا۔ کوئی علاج نہیں ان ڈاکٹروں کے پاس۔‘‘
مجھے فوری طور پر اندازہ ہوگیا کہ اماں جی بھولنے کی بیماری ’’الزائمز‘‘ کی مریضہ ہیں۔ ابھی میں اسی سوچ میں گم تھی کہ اماں جی کو ٹھسکہ لگ گیا۔ کھانستے کھانستے ان کی حالت بری ہوگئی۔ ان کا بیٹا اور بہو بادل ناخواستہ اٹھے اور اماں جی کی خبرگیری کرنے لگے۔ مجھے اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان میں ذہنی بیماریوں کو کسی طور پر بیماری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایک ڈھونگ، تماشا، چال بازی، جادو ٹونا اور نظرِ بد جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کے لیے ماہر نفسیات ابھی تک ’’پاگلوں کا ڈاکٹر‘‘ ہی ہے۔
ذہنی و دماغی بیماریاں بڑھاپے کے وہ عفریت ہیں جو خوب صورت اور رنگ برنگے لوگوں کو بے رنگ بنا دیتے ہیں۔ جب آپ کے والدین بھولنے لگیں، چھوٹی چھوٹی باتیں بار بار تفصیل سے دہرانے لگیں، مزاج میں ترشی اور تلخی آنے لگے، اکثر اوقات کھانا کھانا، باتھ روم جانا بھولنے لگیں تو انھیں الزام مت دیجیے۔ وہ آپ کو تنگ نہیں کر رہے وہ جان بوجھ کر کچھ نہیں کر رہے، وہ بے بس ہیں کیوں کہ شہزادے یا شہزادی کے دماغ میں وقت کی سوئیاں ثبت ہوچکی ہیں، اب وہ وقت کی حدود سے نکل چکے ہیں۔ اب ماضی اور حال کی حدبندی ختم ہوچکی ہے۔اب ہر جانب ایک لامتناہی خلا ہے۔ رنگ کب کے اُڑ چکے ہیں۔ ہر طرف اب صرف سیاہ اور سفید رنگ کی حکمرانی ہے۔
آپ نے اکثر بوڑھوں کو شک کرتے ہوئے دیکھا ہوگا کہ ان کے بچے انھیں مارنا چاہتے ہیں۔ کچھ بزرگ نام بار بار بھول جاتے ہیں۔ کچھ بزرگ اپنی مال متاع کو ہر وقت سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ کچھ چلنے میں دشورای محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کچھ حال کو بھول کر ماضی میں جینے لگتے ہیں۔ یہ سب نشانیاں الزائمز کی ہیں۔
الزائمر درحقیقت ڈیمنشیا کی ایک قسم ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر الزائمر کے نام پر ’’الزائمر‘‘ رکھا گیا جس نے 1906 میں اس بیماری کو پکڑا۔ انسانی دماغ میں ایک سو بلین خلیے ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ ایک فیکٹری کی طرح ہوتا ہے جس میں خلیوں میں توڑ پھوڑ، مرمت، توانائی کی پیداوار، معلومات کی اسٹوریج، برقی رابطے سب کچھ چل رہے ہوتے ہیں۔ جب انسانی دماغ میں plaque جمع ہونے لگتی ہے اور خلیے ایک دوسرے سے الجھنے لگتے ہیں تو سمجھیں شارٹ بریک کی سی کیفیت برپا ہونے لگتی ہے۔ ہمارا دماغ جسم کی ریاست کا بادشاہ ہے۔ الزائمر بادشاہ کو بے دست و پا کر دیتا ہے۔ اس بیماری کا آغاز بھولنے سے ہوتا ہے۔ پھر رویے میں تبدیلی، مزاج اور موڈ کا بدلنا، شک، ماضی اور حال کے امتیاز کا ختم ہوجانا، باتھ روم جانے کی حاجت کے احساس کا خاتمہ جس کے نتیجے میں حادثات، چلنا، بھول جانا، جسم کا توازن ختم ہوجانا، کھانا کھانا بھول جانا جیسی علامات سے ہوتا ہے۔ عام طور پر آٹھ سے دس سال میں اس کا مریض دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس مرض کا آغاز عام طور پر ساٹھ سال کی عمر کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ مگر حال ہی میں چند کیسز جوان لوگوں کے بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک ایسا مرض پے جو انسان سے اس کی رعنائی، شادابی سب کچھ چھین لیتا ہے۔
میں نے اپنی نانی اور دادی دونوں کو آخری عمر میں اس کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ وہ خواتین جن کے وقار کی مثالیں لوگ دیتے تھے‘ آخری عمر میں اس مرض سے ہار گئی تھیں۔ میری دادی جب مجھ سے پوچھتی تھیں ’’تم کون ہو؟‘‘
تو میرا دل خون کے آنسو رو پڑتا تھا۔ ان کا میت ان کا زندگی کا ساتھی اس دور میں ان کے لیے زندہ ہو گیا تھا جس کو وہ چوبیس سال کی عمر میں بیوہ ہوکر کھو بیٹھی تھیں۔ میری نانی ایک پُرجلال اور دبنگ خاتون تھیں۔ جن کے آگے ہم سب سرِ تسلیم خم کیے رکھتے تھے مگر میرے باہر ملک جانے کے بعد انھیں بھی الزائمر ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی وہ فون پر مجھے پہچان لیتی تھیں ورنہ زیادہ اوقات یہی پوچھتی رہتیں کہ ’’کس کی بیٹی ہو تم؟‘‘
یہ ایک سوال نہیں ایک صدا ہوتی ہے جو دل کو چیر جاتی ہے۔ جن لوگوں کا عروج آپ نے دیکھا ہوتا ہے انھیں یوں بے چین اور لاپتا دیکھنا آسان کام نہیں ہے۔ الزائمر ایک ایسا ڈاکو ہے جو ایک شخص سے اس کی پہچان، محبتیں، رفاقتیں، ناراضیاں، دکھ، پریشانیاں سب کچھ چھین لیتا ہے اور اس کے بعد صرف ایک سادہ سلیٹ باقی رہ جاتی ہے جس پر کوئی رنگ،کوئی ہندسہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
میرے اباجی کو بھی بیماری کے آخری دنوں میں الزائمر ہوگیا تھا۔ کینسر ان کے دماغ میں اس بری طرح سرایت کر چکا تھا کہ پندرہ دنوں کے اندر اندر وہ حال کو خیرباد کہہ گئے تھے۔ جب وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے تھے ’’اے بیٹی! تمھارا نام مجھے یاد نہیں آتا۔‘‘ تو میرے دل پر وار ہوتا تھا۔ وہ مجھے میری خالاوں کے نام سے پکارتے جو ان کی ماموں زاد بہنیں بھی تھیں۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ پندرہ دن پہلے مجھے میرے نام سے پکارنے والے اباجی اب کہیں مدہم ہوتے جارہے تھے۔ جس ہاتھ کو میں نے پکڑ کر چلنا سیکھا تھا اب وہ بے بس ہوچکا تھا۔ میرے ابا اب میرے ابا نہیں رہے تھے۔ وہ ایک خالی سلیٹ بنتے جا رہے تھے۔ میرے ذہین فطین ، شاعر ، کیمسٹ ابا کہیں گم ہوگئے تھے۔ میں شدت سے اس سلیٹ کو رنگوں اور عبارتوں سے سجانا چاہتی تھی مگر تقدیر میری ہر کوشش کو مٹا رہی تھی۔ یہاں تک کہ میری واپسی کا دن آپہنچا۔ میں جب آخری بار اباجی کو ملی تو اس روز انھوں نے نیم غنودگی میں میرا، میرے شوہر اور بچوں کے نام لیے اور دعائیں بھی دیں۔ اس کے بعد مجھے کبھی ان سے ملنا نصیب نہیں ہوا۔
ہم پردیسی زرتار خوابوں کے سوداگر اس بیوپار کی بہت بڑی قیمت چکاتے ہیں۔ ہمارے پیروں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔ ہم خانہ بدوش دور دیسوں کے ہی ہو جاتے ہیں اور انھی دیسوں میں ہم خاک میں مل جاتے ہیں۔ ہمیں نہارتی آنکھیںمٹی میں مل جاتی ہیں۔ ہم سر جھکائے پھر کوہِ ندا کی پکار پر دوڑے واپس چلے آتے ہیں۔ یہ کہانی میرے قریبی رشتوں کی ہے جنھیں میں نے مدہم ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اگر آپ کے قریبی عزیز سے کوئی الزائمر کا شکار ہے تو صبر و برداشت کے ساتھ اس کے ساتھ معاملہ فرمائیں۔ اس بیماری کو ’’ڈھونگ‘‘ یا ’’آسیب‘‘ نہ سمجھیں۔ بلکہ اس بات کو سمجھیں کہ الزائمر کے باوجود بے رنگ ہونے کے باوجود وہ آپ کا اپنا پیارا ہی ہے۔ ان کی اجنبیت کو اپنی انا کا روگ مت بنائیں۔ بس نرمی سے ہاتھ تھامے راہ گزر پر چلتے جائیں۔ مدہم ہوتے ہوئے لوگوں کے دکھ کو محسوس کیجیے۔ ایک خود مختار شخص سے ایک لاپتا شخص بننے تک کا سفر بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔