’’تانیہ تم آرہی ہو نا میرے گھر؟ سب آرہے ہیں۔ رت جگا کریں گے، بہت مزا آئے گا۔‘‘ حنا نے تانیہ سے پوچھا۔
تانیہ نے سوچا اور پھر وہی جواب دیا جو ہمیشہ دیتی تھی۔’’نہیں حنا! مجھے رات میں رکنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔‘‘
’’یہ کیا طریقہ ہے تانیہ؟ میری سالگرہ کا فنکشن ہے اور تم نہیں آؤگی؟ ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ میں ناراض ہوجاؤں گی۔‘‘
’’ارے ارے حنا! تمہیں پتا تو ہے میرے بابا نہیں مانیں گے، میں آجاؤں گی مگر رات نہیں ٹھیروں گی۔‘‘
’’تانیہ مت آؤ، وہ بھی کیا ضرورت ہے۔‘‘حنا ناراضی سے بولی۔‘‘
’’ہم 20 سال کی ہیں‘ بچیاں نہیں ہیں جو اپنا اچھا برا نہ سمجھ سکیں‘ ویسے عجیب ہیں تمہارے ابو، ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ خیر تمہاری مرضی۔‘‘ یہ کہتے حنا نے فون پٹخ دیا۔
تانیہ اپنے والدین کی لاڈلی بیٹی تھی۔ چھوٹا سا خاندان تھا۔ اس کے والد رشید صاحب کی کپڑوں کی دکان تھی اور والدہ ثمینہ بیگم پڑھی لکھی مگر گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت بہترین اصولوں پر کی تھی دونوں بچے یونیورسٹی میں تھے صوم وصلوٰۃکے پابند تھے اور والدین کی بات کو اہمیت دیتے تھے‘ مگر تانیہ کی دوستی یونیورسٹی میں آکر کچھ مختلف لڑکیوں سے ہوگئی تھی۔ جن کے لیے مخلوط پارٹیاں کرنا عام بات تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ثمینہ بیگم تانیہ کی طرف سے تھوڑا پریشان رہنے لگی تھیں اور تانیہ کو وقتاً فوقتاً سمجھاتی بھی رہتی تھی۔
’’امی! کیا ہو گیا بھئی آپ لوگ پتا نہیں کس دور میں جی رہے ہیں؟ میری سب سہیلیاں سالگرہ میں جارہی ہیں ایک میں ہی عجوبہ ہوں جو رک نہیں سکتی۔ زمانہ بدل گیا ہے‘ آپ لوگ بھی تھوڑا سا تو بدلیں۔ آپ لوگوں کو مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے کیا؟‘‘ تانیہ نے یونیورسٹی سے واپس آتے ہی شکایتوں کے انبار لگائے۔‘‘
ارے میری گڑیا بھروسے کی کیا بات کی تم نے ظاہر ہے بالکل بھروسہ ہے اپنی بیٹی پر لیکن اس طرح جوان جہان لڑکی کو کیسے کہیں رات بھر کے لیے بھیج دیں؟‘‘
’’عورت کے لیے سب سے محفوظ جگہ اس کی چار دیواری ہے جہاں وہ اپنے محرم رشتوں کے تحفظ کے سائے میں رہے۔‘‘
’’لیکن امی! میری اور بھی سہیلیاں رکیں گی، ان کے والدین تو کچھ نہیں کہتے۔‘‘
امی نے حیران ہو کر کہا ’’تانیہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں، اتنی بحث کیوں؟ اب اس پر کوئی بات نہیں ہوگی‘ آپ رات رک نہیں سکتیں۔ آپ کے بابا نہیں مانیں گے اور میں بھی اس چیز کے خلاف ہوں۔‘‘
تانیہ کا لہجہ یک دم بدل گیا ’’آپ لوگ اپنی سوچ کو بدلیں اب میں بڑی ہو چکی ہوں اور مجھے اپنے حقوق کا اچھی طرح معلوم ہے۔ اجازت تو آپ لوگوں کو دینی ہوگی کیوں کہ میں جاؤں گی ہر حال میں ابھی دو دن ہیں اپنا فیصلہ بدل لیں کیوں کہ اب آپ اور بابا مجھے مجبور نہیں کرسکتے۔ بہتر ہے مجھے آزادی سے زندگی انجوائے کرنے دیں‘ بہت دبا لیا مجھے مگر اب نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تانیہاپنے کمرے میں چلی گئی۔
ثمینہ بیگم یہ سن کر سکتے میں آچکی تھیں‘ ان کی فرماں بردار بیٹی یہ کیا کہہ گئی تھی۔ انہیں اپنی عمر بھر کی محنت رائیگاں ہوتی نظر آرہی تھی‘ وہ یوں اپنی تربیت کو ضائع ہوتے کیسے دیکھ سکتی تھیں۔ ابھی تانیہ کو کچھ بھی سمجھانا فضول تھا ثمینہ بیگم نے کام چھوڑے اور فوراً وضو کرکے اللہ کے آگے گڑگڑا کر تانیہ کی ہدایت کے لیے دعا مانگنے کے لیے بیٹھ گئی۔